میرے گھر میں چوری ہو گئی والدین بڑھے تھے اور چوروں نے اس کمزوری کا فائدہ اٹھا کر بہت کچھ زبردستی چھین لیا۔ والدین پھر بھی یقین رکھتے تھے کہ چور اپنی ضرورت کی چیز لے گئے شاید اُن کو اس کی زیادہ ضرورت تھی۔ میں ایک متوسط طبقے کے گھر سے تھا، اُن اشیاء کی ہمیں بھی بہت ضرورت تھی۔ لیکن بات سر جھکا کر مان لی، لیکن دل کو یقین نہ آیا۔
کچھ دیر بعد سوچنے سمجھنے سے بات واضع ہوئی کے والدین اپنی کمزوری کا ملال بھولنے کے لیے صبر کر بیٹھے۔ اگر میں وہاں ہوتا ۔۔۔ تو، لیکن اللہ کو جو منظور اُسے تقدیر کہتے ہیں۔
ایسی ہی چوری میرے لوگوں کے ساتھ پچھلے ۳۵، ۵۰ سال سے بھٹو اور شریف خاندانوں نے رچا رکھی ہے۔ یہ بھی شاید ہمارے سے پہلے نسلوں کی کمزوری ہی تھی۔ لیکن ہم ان کی نسل اور خاندانوں کی منطق اور اقتدار کو نہیں مانتے۔
اس ہی طرح ۳۰۰ سال پہلے انگریز ہندوستان آیا اور بہت سے فساد ہمارے درمیان چھوڑ گیا۔ چوڑ تو وہ تھا لیکن رسولﷺ کی اُمت سے مقابلے کے لیے زہنی فساد ڈال گیا۔ اصل جنگ تو زہنوں پر اقتدار ہے۔ پھر اُس کے لیے اپنے چیلے جو اُسکا نظام حکومت، تعلیم اور عدالت اب تک چلا رہے ہیں۔
اس بات ہی کے بنیاد پرقادیانی مذہب وجود میں آیا، کیونکہ انگریز نے ہمارے اباء کے ساتھ اصل جنگ زہن کی لڑی ہے۔ آزادی جو اسے کے اپنے ملک میں جولین اسانج کو سچ بولنے پر نہ مل سکی اُس کے چیلے یہاں پرچار کرتے ہیں۔ اُس کی تعلیم یافتہ نسل اب بنیادی قانون تو دورصحیح غلط میں فرق بھی تلاش نہیں کر سکتی ہے۔
کیا انگریزوں کے دل صاف تھے جب وہ ہندوستان میں آئے، کیا چوروں کے دل کی صفائی دیکھی جاتی ہے جب وہ چوری کرتے ہیں۔