پی ٹی سی ایل کا یوفون کی فروخت کا فیصلہ بہترین کیوں؟

BeingPakistani

Minister (2k+ posts)
images

17 ستمبر 2020ء کو ایک خبر نے سب کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور سب اسے سچ بھی سمجھ بیٹھے تھے۔ یہ خبر ٹاپ لائن سیکورٹیز نے اپنے کلائنٹس کو جاری ایک نوٹ میں دی جس میں کہا گیا تھا کہ متعدد مالیاتی اداروں کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشنز کمپنی لمیٹڈ ( پی ٹی سی ایل ) کی جانب سے اس کی ذیلی کمپنی پاکستان ٹیلی کمیونیکیشنز موبائل لمیٹڈ، جسے اس کے صارفین یوفون کے نام سے جانتے ہیں، کے ممکنہ انضمام اور ایکوزیشن کے دوران بطور ایڈوائزر خدمات سرانجام دینے کی درخواست موصول ہوئی ہے۔
اگرچہ اس طرح کی خبریں حیران کن نہیں ہوتیں مگر یہ پھر بھی حیران اور پریشان کر دینے والی ہے، جو کوئی بھی پاکستانی ٹیلی کمیونیکیشن انڈسٹری کو جانتا ہے اسے پتہ ہے کہ دنیا میں ایسا ہوتا ہے لیکن کیا یہ (یوفون کا انضمام) واقعی ہو رہا ہے؟ کیا پی ٹی سی ایل واقعی مشکلات کا شکار یوفون کی فروخت کا فیصلہ کر سکتی ہے؟

اس کا جواب قدرے پیچیدہ ہے، اگرچہ 26 فیصد حصص کی فروخت اور اتتظامی اختیارات کی منتقلی کے ذریعے پی ٹی سی ایل کو جزوی طور پر نجی کمپنی بنا دیا گیا ہے مگر پھر بھی اس کے زیادہ تر مالکانہ حقوق سرکار کے پاس ہی ہیں اور حکومت پاکستان اس کے 62 فیصد حصص کی مالک ہے۔

یوفون کی نجکاری کے حوالے سے جب پرافٹ اردو نے وزارت قانون سے رابطہ کیا تو اس نے فوری طوری پر نشاندہی کی تھی کہ ایسا کوئی بھی اقدام نجکاری کمیشن کے ذریعے ہو گا جس کے لیے کابینہ کی منظوری درکار ہوتی ہے۔

وزارت قانون نے مزید بتایا کہ صرف یوفون کے پی ٹی سی ایل میں انضمام کے لیے اس قسم کی منظوری کی ضرورت نہیں ہو گی مگر اس بات کا امکان کم ہی ہے کیونکہ یوفون پہلے ہی مکمل طور پر پی ٹی سی ایل کی ایک ذیلی کمپنی ہے۔ اگرچہ دونوں کمپنیوں کے انتظامی امور کو یکجا کر کے اخراجات میں کمی لائی جا سکتی ہے مگر یہ کام کسی ایسے اقدام کے لیے جس کے لیے انویسٹمنٹ بینکرز کی ضرورت پڑے گی کرنا بالکل بے کار ہے۔

قانون کے مطابق وزات قانون کا مؤقف بالکل درست ہے مگر سٹریٹیجک حکمت عملی کی بات کریں تو پی ٹی سی ایل میں یوفون کا انضمام ایک بالکل غلط فیصلہ ہو گا۔ بہتر آپشن یوفون کا کسی دوسری کمپنی میں انضمام ہے اور چائنہ موبائل پاکستان، جس کو صارفین زونگ کے نام سے جانتے ہیں، اس چیز کے انتظار میں ہے۔ ( ہم یہ وضاحت بعد میں کریں گے کہ کیوں زونگ ہی یوفون کا منطقی خریدار ہو سکتا ہے)

پرافٹ میں ہم نے خبر دی تھی کہ پی ٹی سی ایل فور جی انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی اور بتایا تھا کہ اصل میں پی ٹی سی ایل انتظامیہ یوفون کو فروخت کرنا چاہتی تھی، ستمبر 2016ء میں اتصلات نے اگرچہ اس چیز کی تردید کر دی تھی۔

مگر ایسا لگتا ہے کہ یوفون کو فروخت کرنے کا ارادہ مکمل طور پر ترک نہیں کیا گیا تھا اور سات سال سے اپنے ریونیو میں اضافہ نہ کر پانے والی کمپنی کے انضمام کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

اس آرٹیکل میں ہم جائزہ لیں گے کہ کم اور چھوٹی نوعیت کے فوائد کے لیے پی ٹی سی ایل میں یوفون کے انضمام کی نسبت یوفون کی کسی دوسری کمپنی کو فروخت کس طرح فائدہ مند اور منافع بخش فیصلہ ہو سکتا ہے؟

پی ٹی سی ایل اور یوفون کی ناکامی کی تاریخ
پی ٹی سی ایل اس حال کو کس طرح پہنچی؟ اس کا ہم پہلے ایک سٹوری میں بیان کر چکے ہیں لہذا یہاں اس چیز کا تذکرہ مختصر ہو گا۔

قیام پاکستان کے بعد پی ٹی سی ایل کا قیام ٹیلی کام سیکٹر میں اجارہ دار کی حیثیت سے عمل میں لایا گیا تھا، کمپنی کی اجارہ داری کو 1947ء سے 1989ء تک کسی نے چیلنج نہیں کیا تھا، ایسا تب تک ہوا جب تک ملک میں موبائل ٹیلی کام کمپنیاں نہیں آ گئیں۔ ان کمپنیوں نے 1990ء کی دہائی کے اواخر اور 2000ء کے شروع میں اہمیت حاصل کرنا شروع کی۔ ملک کی سب سے پہلی نجی ٹیلی کام کمپنی موبی لنک تھی جس نے 1998ء میں کام کا آغاز کیا جبکہ دوسری یوفون تھی جو پی ٹی سی ایل کی ہی ذیلی کمپنی تھی۔

آنے والے سالوں میں مارکیٹ نے مسابقتی دوڑ شروع ہو گئی، ٹیلی نار 2005ء میں، وارد 2006ء میں جبکہ زونگ 2008ء میں میں پاکستانی موبائل ٹیلی کمیونیکیشن انڈسٹری کا حصہ بنیں۔ لیکن اتنی کمپنیوں کے باوجود مارکیٹ میں یوفون کا حصہ کافی سالوں تک نمایاں رہا اور یہ دوسری یا تیسری بڑی کمپنی رہی۔

چیزیں تھری جی اور فورجی کی آمد کے بعد تبدیل ہونا شروع ہوئیں جس کی ملک میں پہلی نیلامی 2014ء میں ہوئی، اس نیلامی میں زونگ وہ واحد کمپنی تھی جس نے فورجی کا لائسنس حاصل کیا۔ اس مقصد کے لیے اس نے 51 کروڑ 70 لاکھ روپے خرچ کیے مگر فور جی لائسنس کے حصول کے بعد اس کے مارکیٹ شئیرز میں تیزی سے اضافہ ہوا جس سے مارکیٹ میں راج کرنے والی ٹیلی نار اور موبی لنک ہل کر رہ گئیں اور 2016ء میں فور جی سپیکٹرم کی دوسری نیلامی میں حصہ لینے پر مجبور ہو گئیں۔ 2017ء میں موبی لنک نے وارد کو خرید لیا اور اسے اپنی پہلے سے موجود پراڈکٹ جاز میں ضم کر دیا۔

2017ء کے اوائل تک یوفون پاکستان میں واحد کمپنی تھی جو فور جی سروسز فراہم نہیں کرتی تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ملک میں کام کرنے والی چار موبائل ٹیلی کام کمپنیوں میں یوفون سب سے چھوٹی ہے۔ جب سے زونگ کا مارکیٹ شئیر بڑھنا شروع ہوا ہے، یوفون کے حالات بالخصوص خراب ہونا شروع ہوئے ہیں۔ 2014ء آخری سال تھا جب یوفون نے منافع کمایا تھا لیکن اس کے بعد سے اب تک یہ خسارے میں ہی جا رہی ہے۔

اگست 2019ء میں بالآخر یوفون نے بھی خاموشی کے ساتھ فورجی سروسز متعارف کرا دیں، حکومت نے اسے وارد کی طرح الگ سے فورجی سپیکٹرم خریدے بغیر یہ سروس فراہم کرنے کی اجازت دے دی۔

لیکن بد قسمتی سے یوفون کے مسائل اس سروس کے اجراء کے باوجود بھی حل نہیں ہوئے، 30 جون 2020ء کو ختم ہونے والے مالی سال میں یوفون کے 1.3 فیصد صارفین اس کا نیٹ ورک چھوڑ گئے جبکہ اس کی آمدن 9 فیصد کمی واقع ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یوفون نے اپنے بہترین منافع بخش صارفین کھو دیے ہیں اور وہ بھی اسی سال جب اس نے فورجی سروسز کا آغاز کیا۔ اس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ صارفین کے نزدیک کمپنی نے فورجی سروسز کا آغاز کرنے میں بہت دیر کر دی۔

آج یوفون پاکستان میں واحد کمپنی ہے جس کے تھری جی صارفین کی تعداد فورجی صارفین سے زیادہ ہے۔ یوفون کے برعکس باقی ٹیلی کام انڈسٹری نے فور جی پر منتقل ہونے میں دیر نہیں لگائی اور زونگ تو اب فائیو جی سروسز کی فراہمی کی تیاریوں میں ہے۔

پاکستان میں آٹھ کروڑ 30 لاکھ موبائل صارفین میں سے پانچ کروڑ چودہ لاکھ (62 فیصد) کے پاس فور جی کنکشن ہے، دو سال پہلے تک فورجی صارفین کی تعداد 25 فیصد تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک بھر میں فورجی سروسز کے انفراسٹرکچر کا ہونا پاکستانی ٹیلی کام انڈسٹری میں مسابقت فضا برقرار رکھنے کیلئے بھی ضروری ہے۔

پی ٹی سی ایل کا بنیادی کاروبار
اگرچہ گزشتہ سالوں میں یوفون کی کارکردگی کافی خراب رہی ہے مگر پی ٹی سی ایل کے پاس دیگر کاروبار بھی ہیں، اس کا بنیادی کاروبار لینڈ لائن کا ہی ہے جسے اس نے کامیابی کے ساتھ اپنے براڈ بینڈ اور کیبل ٹیلی ویژن کے کاروبار کے ساتھ جوڑ رکھا ہے۔اس کے علاوہ پی ٹی سی ایل بیرونی دنیا کے لیے پاکستان کی ٹیلی کمیونیکیشن انڈسٹری کے کیرئیر کی حییثیت رکھتا ہے اور یہ کمپنی کا ایک بین الاقوامی کاروبار ہے۔ گزشتہ چار سالوں میں اس کے موبائل بینکنگ یونٹ نے بھی زبردست ترقی کی ہے ۔

لیکن پی ٹی سی ایل کا سب سے منافع بخش کاروبار ملکی انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز کا کیرئیر ہونا ہے۔ کمپنی ٹیلی کام کے کاروبار سے وابستہ دیگر کمپنیوں کو فائبر کنکٹیویٹی فراہم کرتی ہے۔

ڈینیل رِٹز مارچ 2016ء سے مارچ 2019ء تک پی ٹی سی ایل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) رہے، فروری 2019ء میں ان کا پرافٹ کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا ’پی ٹی سی ایل کیرئیرز کا کیرئیر ہے۔‘

انٹرویو میں ڈینیل رٹز نے کہا تھا کہ موبائل آپریٹرز کے ڈیٹا کاروبار کی گروتھ پی ٹی سی ایل کے لیے ایک نعمت ہے، ان آپریٹرز کو ڈیٹا ٹریفک کے لیے بہت کیپیسٹی کی ضرورت ہوتی ہے، اس ٹریفک کو سنبھالنے کا بہترین ذریعہ فائبر آپٹک ہے اور پی ٹی سی ایل کے پاس ملک کا سب سے بڑا فائبر نیٹ ورک ہے لہٰذا جہاں یہ موبائل آپریٹرز یوفون کے حریف ہیں، وہیں یہ پی ٹی سی ایل کے لیے کمائی کا بڑا ذریعہ بھی ہیں۔

کیا آپ پی ٹی سی ایل کے سابق چیف ایگزیکٹو کی انٹرویو میں مرکزی بات کو سمجھ پائے ہیں؟ کیرئیرز کا کیرئیر ہونا پی ٹی سی ایل کے لیے کمائی کا ایک ذریعہ سہی لیکن کمپنی اپنی ہی ذیلی کمپنی کے حریفوں کو بہترین سہولت فراہم کرکے پیسہ کما رہی ہے۔

یہ کاروبار تیزی سے پی ٹی سی ایل کا بنیادی کاروبار بنتا جا رہا ہے اور اس بات کی صلاحیت بھی رکھتا ہے کہ مستقبل قریب میں کمپنی کے کاروبار کا بڑا حصہ یہی بن جائے۔

بنیادی طور پر پی ٹی سی ایل چھ کاروبار کر رہی ہے۔ پہلا یوفون کی صورت میں موبائل ٹیلی کام و انٹرنیٹ سروس، دوسرا براڈ بینڈ انٹرنیٹ اور کیبل ٹیلی ویژن، تیسرا کیرئیر بزنس، چوتھا لینڈ لائن کا کاروبار، پانچواں موبائل بینکنگ کا کاروبار، چھٹا انٹرنیشنل سروسز۔ کمپنی کے ان چھ کاروباروں میں سے تین کا ریونیو 2017ء سے مسلسل کم ہو رہا ہے۔

کمپنی کے تین منافع بخش کاروباروں میں سے سب سے کم ریونیو براڈ بینڈ اور کیبل ٹیلی ویژن کا کاروبار سے پیدا ہو رہا ہے، 2017ء سے 2020ء تک کے تین سالوں میں اس کاروبار نے 3.7 فیصد سالانہ کے حساب سے ترقی کی جبکہ پی ٹی سی ایل کی موبائل بینکنگ اور کارپوریٹ اینڈ کیرئیر بزنس تیزی سے ترقی کر رہا ہے، اس میں بھی موبائل بینکنگ سالانہ 53.4 اور کارپوریٹ اینڈ کیرئیر بزنس 48.4 فیصد کے تناسب سے ترقی کر رہا ہے۔

اگر ایک بڑا کاروبار نسبتاً چھوٹے کاروبار کی رفتار سے ترقی کرے گا تو وہ پی ٹی سی ایل کے لیے سب سے زیادہ پرکشش کاروبار بن جائے گا۔

30 جون 2020ء کو ختم ہونے والے مالی سال میں پی ٹی سی ایل نے 126 ارب روپے کا ریونیو کمایا، اس میں یوفون کا حصہ 42.3 فیصد ہے جو کہ 2011ء میں 52.9 فیصد تھا، 2017ء میں یہ 50.1 فیصد تھا، یہ ایک زبردست گراوٹ ہے جسے پی ٹی سی ایل نظر انداز نہیں کر سکتی۔



اُدھر کمپنی کی مجموعی آمدن میں کیرئیر بزنس کا حصہ 2017ء میں 5.7 فیصد تھا جو 2020ء میں بڑھ کر 14.3 فیصد ہو چکا ہے اور اس کے مزید بڑھنے کی توقع ہے۔ گزشتہ سال پرافٹ کو انٹرویو میں ڈینیل رٹز پی ٹی سی ایل کے کاروبار کو زبردست توسیع دینے کے طریقوں پر بات کی تھی۔

اس وقت پرافٹ سے گفتگو میں ڈینیل رٹز کا کہنا تھا کہ زونگ کے ساتھ IRU [indefeasible right of use] معاہدہ اپنی نوعیت کا پہلا معاہدہ تھا جس کے بعد ہم نے اسی طرح کے کچھ اور معاہدے بھی کیے، 2018ء میں ٹیلی نار کے ساتھ بھی ایک معاہدہ کیا گیا۔ انہوں نے مزید اسی طرح کے معاہدے کرنے کا بھی عزم ظاہر کیا تھا۔

مختصر یہ کہ پی ٹی سی ایل کے سب سے منافع بخش کاروبار کو یوفون کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے، اس کا حل کیا ہے؟ کیا پی ٹی سی ایل کو یوفون سے جان چھڑانے کے لیے اسے فروخت کر دینا چاہیے؟ کمپنی کے اسٹاکس کا جائزہ لینے والے تجزیہ کاروں کی جانب سے اس سوال کا جواب ’ہاں‘ ہے۔ مگر کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ یوفون کو فروخت کر دینے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ پی ٹی سی ایل کو یوفون کے انفراسٹرکچر سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا جو پی ٹی سی ایل کے فائبر انفراسٹرکچر کے علاوہ ہے۔

یوفون کی فروخت سے کیا حاصل ہو گا؟
سب سے پہلے تو ہم اس چیز کا جائزہ لیتے ہیں کہ یوفون کو فروخت کرنے سے پی ٹی سی ایل کو کیا مالی فائدہ حاصل ہو گا, ماہرین کہتے ہیں کہ یوفون کی فروخت سے کمپنی کے موجودہ شئیر ہولڈرز کو زبردست فائدہ ہو گا، کمپنی کے زیادہ تر حصص حکومت پاکستان کے پاس ہیں۔

ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے ایکویٹی ریسرچ اینالسٹ شنکر تالریجا کے مطاق یوفون کی مالیاتی قدر 76 ارب روپے ہو سکتی ہے جس کا مطلب ہے کہ فی شئیر آمدن 15 روپے تک پہنچ سکتی ہے کیونکہ 24 ستمبر 2020ء کو پاکستان سٹاک ایکسچینج میں ٹریڈنگ کے اختتام پر پی ٹی سی ایل کے حصص کی مالیت 11.72 روپے فی شئیر تھی۔

شنکر تالریجا نے یہ اندازہ کیسے لگایا؟ حال ہی میں موبائل ٹیلی کام سیکٹر میں کمپنیوں کی فروخت ان کی آمدن سے اوسطً 2.77 گنا زیادہ کی انٹرپرائز ویلیو پر دیکھنے میں آئی، انٹرپرائز ویلیو کمپنی کے سٹاک کی قدر اور اس کے قرضوں کے حجم کے برابر ہوتی ہے۔

شنکر تالریجا کا اندازہ ہے کہ یوفون کی فروخت ریونیو کی نسبت ڈھائی گنا کم ہو گی جس کی بناء پر اس کی انٹرپرائز ویلیو 153 ارب روپے بنتی ہے۔ کمپنی کا 2019ء کا ریونیو 61 ارب روپے تھا جبکہ قرضوں کی مد میں 76 ارب روپے نکال کر ایکویٹی ویلیو کی مد میں 76 ارب روپے ہی بچتے ہیں۔

لیکن یوفون کی قیمت فروخت سے آگے بڑھ کر دیکھا جائے تو یوفون کو فروخت کر دینے کے باعث پی ٹی سی ایل سے وہ پیسہ نکلنا بند ہو جائے گا جو یوفون کے نقصانات کی وجہ سے نکلتا رہتا ہے، پی ٹی سی ایل کو یوفون کے امور چلانے کیلئے مسلسل پیسہ ڈال رہی ہے۔

شنکر کی جانب سے 17 ستمبر کو کلائنٹس کو جاری نوٹ میں کہا گیا کہ پی ٹی سی ایل کی جانب سے یوفون کو دیے گئے قرضوں کا حجم ساڑھے سات ارب روپے تک پہنچ گیا تھا۔

لیکن یوفون سے جان چھڑا کر پی ٹی سی ایل ایک بہتر، مضبوط اور مستقبل میں موجودہ حجم سے بڑی کمپنی بن سکتی ہے۔

پی ٹی سی ایل پر کیا اثر پڑے گا؟
سان فرانسسکو میں قائم نیٹ ایکویٹی نیٹ ورکس (NetEquity Networks)، جو دنیا بھر میں سستے انٹرنیٹ کی فراہمی کے لیے کوشاں ایک سٹارٹ اپ ہے، کے سی ای او اسفندیار شاہین کہتے ہیں کہ یوفون کی فروخت اور کیرئیر آف کیرئیر بزنس پر زیادہ توجہ پی ٹی سی ایل کے لیے بہترین حکمت عملی ثابت ہو سکتی ہے۔

اسفندیار شاہین مارکیٹ کی اچھی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں، نیٹ ایکویٹی نیٹ ورکس کے سربراہ کے طورپر کام کرنے سے پہلے وہ دبئی سے تعلق رکھنے والی کمپنی ٹاور شئیر جو موبائل کمیونیکیشن انفراسٹرکچر شئیرنگ کے کاروبار سے وابستہ ہے اور پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک میں کام کرچکی ہے، کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا حصہ رہ چکے ہیں۔

اسفندیار کا ماننا ہے کہ مارکیٹ پی ٹی سی ایل کے اثاثوں کی قدر بہت کم لگا رہی ہے اور ایسا دو وجوہات کی بنا پر ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی سی ایل نے ابھی تک مکمل طور پر انفراسٹرکچر کمپنی بننے پر توجہ نہیں دی اور اگر وہ ایسا کرتی بھی ہے تو یوفون کو اس کی سب سے بڑی کلائنٹ کے طور پر دیکھا جائے گا، یوں مفادات کا ٹکراؤ ہو گا۔

ایک ای میل کے ذریعے اسفندیار شاہین نے بتایا کہ پی ٹی سی کے پاس بہت زبردست انفرا سٹرکچر ہے اور اگر وہ انفراسٹرکچر کمپنی بن کر اپنے ٹاور اور فائبر کے انفراسٹرکچر کو دوسری کمپنیوں کے استعمال کیلئے پیش کرتی ہے تو اس سے ناصرف اس کے کاروبار میں بہت زیادہ اضافہ ہو گا بلکہ یہ دیہی علاقوں تک فائبر آپٹکس بچھانے کے عمل کو بھی تیز کر سکے گی۔

‘میں سمجھتا ہوں کہ یوفون کی فروخت بہت اہم ہے اور ریگولیٹر اس کی اجازت دے دیں گے، جاز، زونگ اور ٹیلی نار کے لیے ایک ایسی کمپنی کے ساتھ انفراسٹرکچر شئیر کرنا آسان ہو گا جو ان کی حریف نہ ہو۔‘


سب سے پہلے ہم اس بات پر غور کرتے ییں کہ پی ٹی سی ایل کے لیے انفراسٹرکچر کمپنی بننا کیوں فائدہ مند ہے۔ اسفند شاہین کہتے ہیں کہ انفراسٹرکچر کمپنی ایک بہتر کاروبار ہے، اس میں کیش فلو کی پیشگوئی کرنا آسان ہوتی ہے اور یہ زیاد بہتر کاروبار کرتی ہیں۔

انفراسٹرکچر کمپنیوں میں کیش فلو کی پیشگوئی کرنا آسان ہونے سے کیا مراد ہے؟ ان کمپنیوں کے ریونیو بڑے کارپوریٹ معاہدوں پر منحصر ہوتے ہیں اور ان کے کلائنٹس (اس کیس میں دوسری موبائل آپریٹر کمپنیاں) جنہوں نے ڈیٹا یا منٹس کے حساب سے نہیں بلکہ کمپنی کی کپیسٹی کی بناء پر ادائیگی کرنا ہوتی ہے، یہ بالکل کرائے کے کاروبار جیسا ہے، بس فرق یہ ہے کہ ایک انفراسٹرکچر کمپنی اپنی صلاحیت میں مارکیٹ اور ڈیمانڈ کے حساب سے اضافہ کرتی چلی جاتی ہے۔

دوسرے الفاظ میں موبائل سروسز بالخصوص موبائل انٹرنیٹ سروسز وہ میدان ہے جس میں انفراسٹرکچر کمپنی کی ترقی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اور اسے کم خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر معاشی سست روی کا دور ہے اور لوگ موبائل سروسز پر زیادہ پیسے نہیں خرچ کرنا چاہ رہے ہوتے تو بھی موبائل کمپنیوں کو انفراسٹرکچر فراہم کرنے والی کمپنی کو ادائیگی کرنا ہی ہو گی، یوں معاشی مندی کے اس دور میں انفراسٹرکچر فراہم کرنے والی کمپنی موبائل آپریٹر کی نسبت معاشی حالات کے اثرات سے قدرے محفوظ رہے گی۔

یوفون کی فروخت کے لیے ڈیل کیسے ہونی چاہیے؟ اگر پی ٹی سی ایل انفراسٹرکچر شیئرنگ کمپنی میں تبدیل ہوتی ہے تو اسے صرف یوفون کا سپیکٹرم اور اس کے صارفین فروخت کرنے چاہیے اور سیلولر ٹاور اپنے پاس رکھنے چاہیں۔ اسفندیار شاہین تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جو بھی کمپنی یوفون کو خریدے اسے اس ٹرانزیکشن کی قیمت میں کمی کے لیے اپنے سیلولر ٹاورز پی ٹی سی ایل کوفروخت کر دینے چاہییں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے ٹاورز/ یوزر سویپ ہونا چاہیے، مثال کے طور پر اگر ٹیلی نار یہ کام کرتی ہے تو پی ٹی سی ایل کے پاس کل 14 ہزار ٹاورز اور 60 ہزار کلومیٹر طویل فائبر آپٹکس کا نیٹ ورک آ جائے گا۔

یہ چیز اسے ایک زبردست انفراسٹرکچر کمپنی بنا دے گی جبکہ ٹیلی نارکو زیادہ صارفین میسر آ جائیں گے۔ یہی معاملہ جاز اور زونگ کے ساتھ بھی ہو گا۔

تو یوفون کا متوقع خریدار کون ہو سکتا ہے؟ معاملے سے آگاہ ہمارے ذرائع کا کہنا ہے کہ نہ تو جاز اور نہ ہی ٹیلی نار کو یوفون کو خریدنے میں کوئی دلچسپی ہے، اگرچہ دونوں کمپنیاں انضمام کے امکانات کا جائزہ ضرور لے سکتی ہیں۔

جاز کا وارد کے ساتھ انضمام کا تجربہ تکلیف دہ رہا ہے، اس لیے اس کی جانب سے یوفون کو خریدنے کا امکان کم ہے۔ دوسری طرف ٹیلی نار پاکستان میں ترقی کے لیے انضمام کی حکمت عملی پر یقین نہیں رکھتی۔ وہ اس سے پہلے وارد کو خریدنے کی کوشش کر کے تجربہ حاصل کر چکی ہے۔

ان دونوں کو نکالنے کے بعد پیچھے صرف زونگ ہی بچتی ہے جو پاکستان میں کاروباری وسعت کیلئے پرعزم بھی ہے اور اس کی بیلس شیٹ یوفون کے ساتھ انضام کے حق میں بھی ہے۔

پی ٹی سی ایل ان ٹاورز اور فائبر نیٹ ورک کو بقیہ تین کمپنیوں کو کرائے پر استعمال کے لیے دے سکتی ہے جنہیں ان سیلولر ٹاورز کی دیکھ بھال کے لیے بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں رہے گی وہ انہیں پی ٹی سی ایل سے کرائے پر لے سکتے ہیں۔

پاکستانی صارفین کیلئے یہ ٹرانزیکشن کیا اہمیت رکھتی ہے؟
اسفندیار شاہیین کہتے ہیں کہ پی ٹی سی ایل کی جانب سے یوفون کی فروخت کا پاکستانی صارفین پر بہت اچھا اثر پڑے گا، ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ایک اور موبائل کمپنی نہیں بلکہ فائبر نیٹ ورک میں اضافہ درکار ہے۔


یوفون کی فروخت کرکے پی ٹی سی ایل اپنے فائبر نیٹ ورک میں اضافہ کرسکتی ہے، اگر پی ٹی سی ایل اپنے انفراسٹرکچر تک کھلی رسائی دے گا اور امید ہے کہ وہ ایسا ہی کرے گا تواس چیز کا ڈیٹا کی قیمت پر بہت اثر پڑے گا ۔

پی ٹی سی ایل انفراسٹرکچر کمپنی کے طور پر کیسے کام کرے گی؟ پی ٹی سی ایل یوفون کا سپیکٹرم اور صارفین فروخت کرے گی لیکن اس کے سیلولر ٹاورز اپنے پاس ہی رکھے گی بلکہ حریف کمپنیوں کے ٹاورز بھی خرید لے گی۔ ایسے میں فائبر نیٹ ورک اور بڑی تعداد میں سیلولر ٹاورز کے پی ٹی سی ایل کے پاس ہونے کی وجہ سے اس کی سیلولر سروسز فراہم کرنے کی لاگت ڈرامائی طور پر کم ہو جائے گی اور اس سطح پر چلی جائے گی جس کا اس کے حریف صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔

ان موبائل کمپنیوں کو اوسط آمدن پر صارفین کی کمی اور ڈیٹا کی ڈیمانڈ میں اضافے کا سامنا رہتا ہے، ایسے میں اگر ان کے اخراجات کا کچھ حصہ پی ٹی سی ایل اُٹھا لے گا تو یہ ان کے لیے بہترین ہو گا۔

اس چیز سے ان کی لاگت اور صارفین کے لیے انڑنیٹ کی قیمت میں کمی کیسے ہوگی ؟ پی ٹی سی ایل کے انفراسٹرکچر کو تینوں کمپنیاں استعمال کریں گی اور پی ٹی سی ایل چاہے تینوں کمپنیوں کو خدمات فراہم کرے یا کسی ایک کو اس کی لاگت اتنی ہی رہے گی۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پی ٹی سی ایل تینوں کمپنیوں کو اپنی خدمات فراہم کرتا ہے تو جو قیمت وہ ہر کمپنی سے لے گا وہ اس کا ایک تہائی ہو گی جو اس نے ایک اکیلی کمپنی سے لینی تھی۔

لاگت میں یہ کمی صارفین کو ضرور منتقل ہونی چاہیے اور اس کی بدولت زیادہ سے زیادہ پاکستانیوں کو انٹرنیٹ اور سیلولر سروسز کی سہولیات مییسر آنی چاہییں۔

فی الوقت پاکستان کی ٹیلی کمیونیکیشن انڈسٹری کے انفراسٹرکچر کا بڑا حصہ غیرملکی کمپنیوں کی ملکیت ہے، زونگ، جاز اور ٹیلی نارسب ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ذیلی کمپنیاں ہیں، اگر پی ٹی سی ایل ان تمام کمپنیوں کا کیرئیر آف کیرئیر بن جاتی ہے تو یہ ایک ایسی چیز ہو گی جسے ملک کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ بھی پسند کرے گی۔ ملکی ٹیلی کام انفراسٹرکچر کا انتظام سرکاری ملکیتی کمپنی کے ہاتھ میں ہونا اس کے لیے ایک پرکشش چیز ہو گی۔

 

Kam

Minister (2k+ posts)
Telecommunication system is becoming a big source of foreign reserves outflows.........Since these companies have huge revenues................

So better to not sell such assets................Ok operational method can be changed to reduce the cost like contract employees, other maintenance expenses etc

But selling is no option..........We need to stop everyway of foreign reserves outflows...........

I can believe a nation of 220 million has exports of 21 billion only. Its a shame............
 

Abdul Baqi

MPA (400+ posts)
Telecommunication system is becoming a big source of foreign reserves outflows.........Since these companies have huge revenues................

So better to not sell such assets................Ok operational method can be changed to reduce the cost like contract employees, other maintenance expenses etc

But selling is no option..........We need to stop everyway of foreign reserves outflows...........

I can believe a nation of 220 million has exports of 21 billion only. Its a shame............
Have to agree 1000% that all these stupid people are asking to sell this that and bla bla. I agree all loss making companies should be sold ASAP but I do not think they should be sold to foreigners or foreign residents. 25 percent minimum share should be held by Pakistani nationals in all companies be it from stock exchange or local banks. Pakistan has given so much to foreign companies in the name of foreign investments now they are bleeding Pakistan dry. All cellular companies are forieign owned and no sane country in the world allows that, west is even banning Chinese companies and preferring their own. Similarly China had kept foreign companies away in telecom. Trump is also serious about made in America and he has forced all foreign car makers to make American car plants and use more American components. If foreign companies will come with 100 dollars they will definitely would like to take more than 100 dollars from Pakistan. I just do not understand how stupid is Pakistani econmic team that they fail to understand this fact