پنجاب میں 596 ملین ٹن کوئلے کی کانوں کوکا رپوریٹ مائننگ زون قرار دے کر اربوں روپے حاصل کرنے کی بجائے مائنز اینڈ مینرل ڈیپارٹمنٹ بار بار حکومت پنجاب پر پریشر ڈال رہا ہے کہ اس کے بغیر ہی 108 مائننگ کی لیز کا ٹھیکہ بحال کرکے دیا جائے جس سے حکومت اربوں روپے کے ریونیو سے محروم ہو جائے گی۔
بعض اہم لوگوں کی سفارش سے حکومت پنجاب پر بار بار پریشر ڈالا جارہا ہے کہ وہ کارپوریٹ مائننگ کی بجائے عام مائننگ کے لائسنس جو جاری ہوئے تھے اس پر لگی پابندی کو ختم کر دے۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے دور میں دو غیر ملکی کمپنیو ں جن میں پہلے آسٹریلیا کی کمپنی ایم ایس سینوڈن نے سالٹ رینج کے علاقے میں تقریبا 596 ملین ٹن کوئلے کے ذخائر کی تصدیق کی تھی، بعد اس اسٹیڈی کو دوبارہ جرمن کمپنی فگرو نے بھی اعلیٰ ترین کوئلے کی تصدیق کی تھی جس پر اس وقت پابندی عائد کر دی گئی تھی
کہ اس علاقے میں نہ کوئی نئی لیز دی جائے گی نہ ہی پرانی لیز تجدید کی جائے گی۔ تفصیلات کے مطابق مائنز اینڈ میننرئل ڈیپارٹمنٹ آئل، گیس، اور نیوکلئیر میٹریل کے علاوہ تمام قسم کے مینرل کو پنجاب مائننگ رولز 2002 کی سیکشن 2 کے تحت مینرل ڈویلپمنٹ ایکٹ 1948 کے قانون کے مطابق مینرل رینٹ ، رائلٹی ، اور فیس وصول کر تا ہے۔ پنجاب کے علاقے سالٹ رینج میں قیام پاکستان سے پہلے سے کوئلے کی کانوں کی لیز دی جا رہی ہے
لیکن سابقہ حکومت پنجاب نے اس کوئلے کو پاور جنریشن بجلی کی پیدوار کیلئے استعمال کرنے کا فیصلہ کر تے ہوئے پہلے ایک آسٹریلین کمپنی کو ٹھیکہ دیا کہ وہ چیک کرکے بتائے کہ اس علاقے میں کوئلے کی کون سی قسم کے ذخائر ہیں اور یہ ذخائر پاور جنریشن کے لئے استعمال ہو سکتے ہیں کہ نہیں، جس پر اس آسٹریلین کمپنی نے اربوں روپے کے ذخائر کی نشاندہی کی جس پر اس پر دوبارہ جرمن کمپنی سے سروے کروایا گیا کہ اس علاقے میں واقعی اچھی قسم کا کوئلہ ہے
جس پر جرمن کمپنی نے بھی اس کی تصدیق کر دی جس پر14 ستمبر 2017 کو سابق حکومت نے اس علاقے میں کانوں کی لیز کرنے اور پرانی کانوں کی لیز کی تجدید پر پابندی عائد کر دی۔ فیصلہ کیا گیا کہ اس علاقے میں ایک پاور جنریشن پلانٹ لگایا جائے جس سے وہی کوئلہ یہاں استعمال کر کے سستی بجلی بنائی جائے لیکن سابق دور حکومت میں کچھ غیر ملکی کمپنیوں نے سرمایہ دار کے ساتھ اس علاقے کے دورے کئے۔ الیکشن کی وجہ سے پراجیکٹ پر کام نہ بڑھ سکا۔
تاہم محکمہ کے ریکارڈ کے مطابق اس علاقے میں 292 جو لیز دی گئی تھیں ان میں سے 254 مائنز کی لیز کوکارپوریٹ لیز طور پر قرار دیا گیا میں 0.35 ڈائیا میٹر کا کوئلہ ان کانوں میں پایا گیا۔ تاہم نئی حکومت آنے کے چند ماہ بعد بعض اہم شخصیات کی طرف سے اس علاقے میں 108 لیز کی تجدید کے لئے محکمہ مائنز اینڈ مینرل پر دباو ڈالا جاتا رہا ہے جس پر فروری کے مہینے میں بعض افسران کو تبدیل کرکے نئے افسران تعینات کروائے گئے۔ اس کے بعد حکومت پنجاب کو لیز کی بحالی کے لئے پابندی ختم کرنے کا کہا گیا
جس پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ محکمہ خزانہ سے مل کر ریسوریس موبائلز یشن کمیٹی میں اس مسئلہ کو لے جایا جائے اور کارپوریٹ لیزنگ کی پالیسی کے ذریعے زیادہ ریونیو لیا جائے۔ تاہم ذرائع کے مطابق اس سیاسی دبائو پر ریسویس موبائلزیشن کمیٹی نے اس مسئلہ پر کوئی کاروائی نہیں کی تاہم محکمہ نے حکومت کو خود ہی کہہ دیا کہ چونکہ یہاں پر کوئی بجلی کا پلانٹ لگانے کے لئے تیار نہیں ہے اسلئے اس کے اسٹیٹس کو دوبارہ بحال کر دیا
جائے جبکہ پھر اپریل میں، مئی میں اب چوتھی مرتبہ پھر پرانی لیز بحالی کا کیس محکمہ نے بجھوا دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ کی ہدایات پر بجھوائی جانے والی رپورٹ میں نہیں بتایا گیا ہے کہ کارپوریٹ لیزنگ پالیسی کا مسودہ تیار ہوا ہے کہ نہیں۔ تاہم ذرائع کے مطابق حکومت پنجاب پر بار بار دباو ڈالا جارہا ہے کہ وہ لیزکی بحالی کر دے۔
Source
بعض اہم لوگوں کی سفارش سے حکومت پنجاب پر بار بار پریشر ڈالا جارہا ہے کہ وہ کارپوریٹ مائننگ کی بجائے عام مائننگ کے لائسنس جو جاری ہوئے تھے اس پر لگی پابندی کو ختم کر دے۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے دور میں دو غیر ملکی کمپنیو ں جن میں پہلے آسٹریلیا کی کمپنی ایم ایس سینوڈن نے سالٹ رینج کے علاقے میں تقریبا 596 ملین ٹن کوئلے کے ذخائر کی تصدیق کی تھی، بعد اس اسٹیڈی کو دوبارہ جرمن کمپنی فگرو نے بھی اعلیٰ ترین کوئلے کی تصدیق کی تھی جس پر اس وقت پابندی عائد کر دی گئی تھی
کہ اس علاقے میں نہ کوئی نئی لیز دی جائے گی نہ ہی پرانی لیز تجدید کی جائے گی۔ تفصیلات کے مطابق مائنز اینڈ میننرئل ڈیپارٹمنٹ آئل، گیس، اور نیوکلئیر میٹریل کے علاوہ تمام قسم کے مینرل کو پنجاب مائننگ رولز 2002 کی سیکشن 2 کے تحت مینرل ڈویلپمنٹ ایکٹ 1948 کے قانون کے مطابق مینرل رینٹ ، رائلٹی ، اور فیس وصول کر تا ہے۔ پنجاب کے علاقے سالٹ رینج میں قیام پاکستان سے پہلے سے کوئلے کی کانوں کی لیز دی جا رہی ہے
لیکن سابقہ حکومت پنجاب نے اس کوئلے کو پاور جنریشن بجلی کی پیدوار کیلئے استعمال کرنے کا فیصلہ کر تے ہوئے پہلے ایک آسٹریلین کمپنی کو ٹھیکہ دیا کہ وہ چیک کرکے بتائے کہ اس علاقے میں کوئلے کی کون سی قسم کے ذخائر ہیں اور یہ ذخائر پاور جنریشن کے لئے استعمال ہو سکتے ہیں کہ نہیں، جس پر اس آسٹریلین کمپنی نے اربوں روپے کے ذخائر کی نشاندہی کی جس پر اس پر دوبارہ جرمن کمپنی سے سروے کروایا گیا کہ اس علاقے میں واقعی اچھی قسم کا کوئلہ ہے
جس پر جرمن کمپنی نے بھی اس کی تصدیق کر دی جس پر14 ستمبر 2017 کو سابق حکومت نے اس علاقے میں کانوں کی لیز کرنے اور پرانی کانوں کی لیز کی تجدید پر پابندی عائد کر دی۔ فیصلہ کیا گیا کہ اس علاقے میں ایک پاور جنریشن پلانٹ لگایا جائے جس سے وہی کوئلہ یہاں استعمال کر کے سستی بجلی بنائی جائے لیکن سابق دور حکومت میں کچھ غیر ملکی کمپنیوں نے سرمایہ دار کے ساتھ اس علاقے کے دورے کئے۔ الیکشن کی وجہ سے پراجیکٹ پر کام نہ بڑھ سکا۔
تاہم محکمہ کے ریکارڈ کے مطابق اس علاقے میں 292 جو لیز دی گئی تھیں ان میں سے 254 مائنز کی لیز کوکارپوریٹ لیز طور پر قرار دیا گیا میں 0.35 ڈائیا میٹر کا کوئلہ ان کانوں میں پایا گیا۔ تاہم نئی حکومت آنے کے چند ماہ بعد بعض اہم شخصیات کی طرف سے اس علاقے میں 108 لیز کی تجدید کے لئے محکمہ مائنز اینڈ مینرل پر دباو ڈالا جاتا رہا ہے جس پر فروری کے مہینے میں بعض افسران کو تبدیل کرکے نئے افسران تعینات کروائے گئے۔ اس کے بعد حکومت پنجاب کو لیز کی بحالی کے لئے پابندی ختم کرنے کا کہا گیا
جس پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ محکمہ خزانہ سے مل کر ریسوریس موبائلز یشن کمیٹی میں اس مسئلہ کو لے جایا جائے اور کارپوریٹ لیزنگ کی پالیسی کے ذریعے زیادہ ریونیو لیا جائے۔ تاہم ذرائع کے مطابق اس سیاسی دبائو پر ریسویس موبائلزیشن کمیٹی نے اس مسئلہ پر کوئی کاروائی نہیں کی تاہم محکمہ نے حکومت کو خود ہی کہہ دیا کہ چونکہ یہاں پر کوئی بجلی کا پلانٹ لگانے کے لئے تیار نہیں ہے اسلئے اس کے اسٹیٹس کو دوبارہ بحال کر دیا
جائے جبکہ پھر اپریل میں، مئی میں اب چوتھی مرتبہ پھر پرانی لیز بحالی کا کیس محکمہ نے بجھوا دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ کی ہدایات پر بجھوائی جانے والی رپورٹ میں نہیں بتایا گیا ہے کہ کارپوریٹ لیزنگ پالیسی کا مسودہ تیار ہوا ہے کہ نہیں۔ تاہم ذرائع کے مطابق حکومت پنجاب پر بار بار دباو ڈالا جارہا ہے کہ وہ لیزکی بحالی کر دے۔
Source