پاکستان کے معروف اینکرز کا المیہ اور عدالتی بحث

Syed Haider Imam

Chief Minister (5k+ posts)

پاکستان کے معروف اینکرز کا المیہ اور عدالتی بحث
zero-tolerance.png

سید حیدر امام - ٹورنٹو - کینیڈا

پاکستانی کے معروف اینکر جب روایتی سیاستدانوں سے سوال کرتے ہیں کے آپکی پارٹی پر کرپشن کے مقدمات چل رہے ہیں تو وہ سیاستدان ایک انگلی کا اشارہ کر کے کہتا ہے کے عمران خان پر بھی ہیلی کاپٹر کا مقدمہ چل رہا ہے . وہ اینکر کبھی بھی یہ نہیں پوچھتا کے ایک انگلی اپ کسی کی طرف اٹھا رہے ہیں تو حضرت ، چار انگلیاں آپکی طرف اشارہ کر رہی ہیں . براہ کرم اپ اپنا جواب دیں . مگر صاحب ، روایتی سیاستدانوں کی ساتھ روایتی اینکروں کی مت نہیں ماری جاتی بلکے انھیں وہ چیلنج اسلئے نہیں کرتے کیونکے اگلے پروگرام میں وہ مرغا انھیں مجسم درکار ہوتا ہے . روایتی سیاستدان کبھی بھی ان الزامات کا جواب نہیں دیتا بلکے سوال کا رخ موڑ کر باجو والی پارٹی کے نمائندے کی طرف موڑ دیتا ہے

نیب کی اہلیت پر ایک بحث پاکستان کے ٹالک شوز میں مستقل چل رہی ہے . پاکستان کے معروف تجزیہ نگار یک زبان ہو کر عرصہ دراز سے وہی رٹا ڈال کر بیٹھے ہیں . نواز شریف کیس میں ایک جج نے نیب کے وکیل سے پوچھا کے لندن میں فلیٹس کی مالیت کیا ہے اور وکیل نے جواب دیا ، حضور گوگل کر لیں .اس بنا پر جج صاحب نواز شریف کے حق میں فیصلہ دے دیتے ہیں اور یہ گفت شنید گاہے بگاہے پاکستانی میڈیا پر متواتر کوٹ ہو رہی ہے

عدلیہ کے نظام پر انڈیا میں چند ایک معروف فلمیں بنی تھیں . جولی ایل ایل بی ان فلموں میں سے ایک ہے

اس فلم میں ایک معروف کاروباری فیملی کا لونڈا ایک کار ایکسیڈنٹ میں شامل ہوتا ہے . وہ کاروباری شخصیت انڈیا کے مشہور وکیل کی خدمات لیتی ہے اور دوسری طرف نووارد وکیل جولی پبلک انٹریسٹ کا کیس اپنے آپکو مشہور کرنے کے لئے لیتا ہے . جولی یعنی ارشد وارثی ایک نوجوان وکیل ہوتا ہے جس نے ڈگری تو حاصل کی ہوتی ہے مگر اسے شیخ رشید( جو خود بھی وکیل ہیں ) کی طرح انگلش لکھنا پڑھنا نہیں اتا . اسکی پبلک انٹریسٹ کی درخواست میں اپیل کو ایپل ، پراسیکیوشن کی جگہ پروسٹتٹیشون لکھا ہوتا ہے . ہر لائن میں پانچ پانچ غلطیاں ہوتی ہیں .جولی ہمت نہیں ہارتا اور کیس میں بہت سے ٹوئسٹ اتے ہیں


ایک منظر میں جج صاحب فرماتے ہیں کے انصاف اندھا ہوتا ہے ، جج نہیں
دوسری طرف مہنگا وکیل ہوتا ہے مگر جج صاحب جولی کو گواہ پیش کرنے کو کہتے ہیں جو بالاخر جولی کو مل جاتا ہے .عدالت میں گواہ پیش کر کے ایک انتہائی نہ تجربہ کار وکیل ایک مشہور اور معروف وکیل کو کیس ہرا دیتا ہے . اس میں جج صاحب فرماتے ہیں کے جج کو شروع سے پتا ہوتا ہے کے کیس کدھر جائے گا مگر ثبوتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے وہ کیس کا فیصلہ نہیں کر پاتے . جج صاحب مہنگے وکیل کی دھونس میں نہیں اتے اور کیس کا فیصلہ اپنے سامنے وکیل مہنگے وکیل کو دیکھ کر نہیں کرتے بلکے انھیں پتا ہوتا ہے کے مجرم نے جرم کیا تھا مگر کوئی ثبوت نہیں تھا جسکی وجہ سے مجرم فائدہ اٹھا رہا تھا لھذا وہ جولی کو گواہ پیش کرنے کا وقت دیتے ہیں

کہنے کو یہ ایک فلم تھی جسکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا مگر فلمساز کا کمال یہی ہوتا ہے وہ معاشرے کی سہی عکاسی کرتا ہے . جج نے وہ فیصلہ مہنگے یا سستے وکیل دیکھ کر نہیں کیا تھا اور نہ اس بات پر کے مہنگا وکیل کیا دلائل دے رہا اور سستا وکیل کیا دلائل دے رہا ہے . جب سستے وکیل نے گواہ کورٹ میں پیش کر دیا تو فیصلہ اس بنیاد پر ہوا

پانامہ کیس میں نیب نے تمام ثبوت سامنے رکھے اور مگر ہمارے مشہور اور معروف تجزیہ نگار مسلسل اس بات کا رٹا لگا رہے ہیں کے جج کے ایک سوال کا جواب نہ دینے پر کیس کا فیصلہ ہوا اور سارا پاکستان اس بات پر متفق نظر اتا ہے . کوئی یہ نہیں کہتا کے نیب کے ادارے نے پہلے تمام ثبوت اکھٹے کئے ، کیس چلایا اور فیصلہ کیا مگر اسلام آباد کورٹ کے جج نے محض ایک سوال کا جواب نہ دینے پر کیس میں ضمانت کا فیصلہ مجرموں کے حق میں کر دیا . یہ معجون میڈیا میں عرصے سے کامیاب طریقے سے بیچی جا رہی ہے

پاکستانی اداروں نے جو شواہد اکھٹے کر کے رپورٹ مرتب کی تھی ، اسکا ان افسانوں میں نشان تک نہیں ملتا . بس ایک سستے اور مہنگے وکیلوں کا رنڈی رونا ہر مہنگا اینکر متواتر ڈھٹائی سے کر رہا ہے. ادارہ اور پروفیشنل سرکاری لوگ جس جانفشانی سے ریکارڈ مرتب کرتے ہیں ،اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا

ایک طرف نواز شریف خاندان کے مہنگے مہنگا وکیل ثبوت نہیں دیتا اور صرف زبانی جمع خرچ کی بنیاد پر کیس کو پاکستانی ججوں کی مدد سے ٣ سال کھنچتا ہے ، دوسری طرف نیب کے سستے وکیل تمام تر ثبوت کی بنیاد پر کروائی کرتے ہیں مگر فیصلہ پھر بھی مجرموں کے حق میں کیا جاتا ہے. پاکستان کے منحوس تجزیہ نگاروں کو حق سچ کی بات کرنا گوارہ نہیں کیونکے اس سے توہین عدالت کا خدشہ ہوتا ہے


نیب کا سستا وکیل جج سے فریاد کرتا رہ جاتا ہے کے حضور ایسے کسیز میں ضمانت کی کوئی نظیر عدلیہ کی تاریخ میں نہیں ملتی مگر میڈیا اس وکیل کی فریاد کا کبھی ذکر تک نہیں کرتا

اک مشہور لطیفہ سب نے سنا ہو گا . ایک مجرم ہتھکڑیوں میں بندھا عدالت سے جیل جا رہا ہوتا ہے . راستے میں ایک وکیل پوچھتا ہے کے مشہور اور معروف وکیل کو کتنے پیسے دئے تھے . مجرم کہتا ہے ١٠ لاکھ فیس دی تھی

وہ کہتا ہے ١٠ ہزار میں تمہیں پھانسی لگوا دیتا ، خواہ مخواہ اس وکیل کو ١٠ لاکھ دئے
باجو سے کسی وکیل کی آواز اتی ہے ، فیر جج کر لینا سی
 
Last edited by a moderator: