پاکستانی کرکٹروں کے دلچسپ اور اہم واقعات

naveed

Chief Minister (5k+ posts)
491210_55177702.jpg


لاہور: (دنیا میگزین) پاکستانی کرکٹروں کے دلچسپ اور اہم واقعات کچھ کم نہیں ہیں۔ بعض اوقات تو ایسے ہیں کہ قہقہہ لگانے کو جی چاہتا ہے۔

بعض اوقات تلخیوں سے بھرپور ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف سنگین الزامات، بے فائیوں اور بدعہدیوں کے طعنے، سازشی کہانیاں، مفادات کی جنگ، یہ سب کچھ ان واقعات کا حصہ ہیں۔

جاوید میاں داد نے کپتانی سے استعفیٰ اس شرط پر دیا کہ ماجد خان کے علاوہ کسی کو بھی کپتان بنا دیں، انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ اور پھر عمران خان کو کپتان بنا دیا گیا۔

شاہد آفریدی نے 1996ء میں سری لنکا کے خلاف پہلے ایک روزہ میچ میں 37 گیندوں پر سنچری بنا کر ریکارڈ قائم کر دیا۔ جس بلے سے شاہد آفریدی نے یہ سینچری کی وہ ان کا اپنا نہیں بلکہ سچن ٹنڈولکر کا تھا جو سچن نے وقار یونس کو دیا تھا کہ اس جیسے دو بلے سیالکوٹ سے لا دیں۔

کچھ ایسے بھی واقعات ہیں جن میں کھلاڑیوں کو تماشائیوں کی طرف سے تضحیک کا نشانہ بنایا گیا اور وہ اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکے۔ بعض کھلاڑیوں کا امپائروں کے ساتھ جھگڑا اور مخالف کھلاڑیوں کیساتھ الجھنا بھی انہی واقعات میں شامل کیے جا سکتے ہیں۔

جوئے کے الزامات اور پھر کھلاڑیوں کا دفاع اور آخر میں عدالتوں کے فیصلے، یہ سب عوام کے لیے دلچسپی کا سامان پیدا کرتے رہے۔

ہم ذیل میں اپنے قارئین کیلئے کچھ ایسے ہی واقعات تحریر کر رہے ہیں جن میں دلچسپی بھی ہے اور تلخی بھی اور کچھ ایسے واقعات جن پر سوائے افسوس کے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

سرفراز نواز بلا لے کر منچلوں پر دوڑ پڑے

1978ء میں بھارتی ٹیم ایک طویل عرصے کے بعد پاکستان کے دورے پر آئی تو پورے ملک کو کرکٹ کا بخار چڑھ گیا۔ قومی ٹیم لاہور ٹیسٹ شروع ہونے سے ایک روز پہلے قذافی سٹیڈیم لاہور میں پریکٹس میں مصروف تھی۔

سرفراز نواز ایک بنیان اور جانگیے میں ملبوس اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔ منچلوں کا ایک ٹولہ ایک بالکونی پر کھڑا سرفراز نواز پر مسلسل آوازے کس رہا تھا۔

سرفراز نواز پہلے تو نظر انداز کرتے رہے لیکن پھر وہ اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکے اور انہوں نے اُن منچلوں کی طرف دیکھ کر کہا ’’کیا تکلیف ہے‘‘۔

اس پر منچلے خاموش ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔ اس پر سرفراز نواز نے قریب پڑا ہوا ایک بلا اٹھایا اور منچلوں کو مارنے ان کے پیچھے بھاگے۔

یہ منچلے فوری طور پر سیڑھیوں سے اتر کر باہر کی طرف بھاگ گئے۔ سٹیڈیم میں موجود تمام لوگ یہ منظر دیکھ کر قہقہے لگاتے رہے۔ سرفراز کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو قہقہوں کا طوفان بھی تھم گیا۔

براہ کرم بٹن بند کریں

1978ء میں کھیلے جانے والے بھارت کے خلاف لاہور ٹیسٹ میں کپتان مشتاق محمد نے عمران خان اور سرفراز نواز کے علاوہ سلیم الطاف کو بھی شامل کر لیا۔

بات یہ تھی کہ وکٹ کے بارے میں یہ پتا چل چکا تھا کہ یہ فاسٹ باؤلرز کی مدد کرے گی کیونکہ اس پر نمی تھی۔ سلیم الطاف کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ آؤٹ سوئنگ بہت اچھی کراتے ہیں۔ غالباً مشتاق نے یہی سوچ کر سلیم الطاف کو ٹیم کا حصہ بنایا۔

خوش قسمتی سے ٹاس بھی مشتاق محمد نے جیت لیا۔ انہوں نے بھارت کو بیٹنگ کی دعوت دی۔ سنیل گواسکر اور چیتن چوہان اننگز کا افتتاح کرنے آئے۔ عمران خان نے باؤلنگ کا آغاز کیا۔ تماشائیوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب مشتاق احمد نے دوسرا اوور سرفراز نواز کی بجائے سلیم الطاف کو دے دیا۔ ان کا یہ فیصلہ درست ثابت ہوا اور سنیل گواسکر سلیم الطاف کی ایک آؤٹ سوئنگ پر ماجد خان کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہو گئے۔

بعد میں وکٹ سلو ہوتی گئی اور بھارتی بلے بازوں کے لئے حالات نسبتاً سازگار ہو گئے۔ عمران، سرفراز، سلیم الطاف اور مدثر نذر باؤلنگ کراتے رہے۔ ایک موقع پر سلیم الطاف رن اپ لے رہے تھے کہ امپائر نے انہیں اپنے پاس بلایا اور آہستگی سے کوئی بات کی۔

اس پر سلیم الطاف کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ انہوں نے بڑی خاموشی سے وہ کام کر دیا جو امپائر نے کہا تھا۔ بعض تماشائیوں کو علم ہو گیا کہ وہ کیا بات تھی لیکن بعض کو کچھ پتا نہ چل سکا۔ اصل میں امپائر نے انہیں کہا تھا کہ اپنی پتلون کے بٹن بند کریں۔ شاید سلیم الطاف بٹن بند کرنا بھول گئے تھے۔

آصف اقبال پر الزامات

1979-80ء میں پاکستان کرکٹ ٹیم چھ ٹیسٹ میچ کھیلنے بھارت گئی۔ یہ جوابی دورہ تھا۔ بھارت کی ٹیم 1978ء میں پاکستان کے خلاف تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز 2-0 سے ہار گئی تھی۔ اس سیریز میں امید یہی تھی کہ پاکستان بھارت کو بھارت میں شکست دے گا لیکن نتائج توقعات کے برعکس نکلے۔

بنگلور ٹیسٹ ڈرا ہو گیا۔ دہلی ٹیسٹ میں سکندر بخت نے تباہ کن باؤلنگ کی اور انہیں ’’مقدر کا سکندر‘‘ کہا گیا۔ اس وقت بھارتی فلم ’’مقدر کا سکندر‘‘ نمائش پذیر تھی اور کامیابیوں کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی تھی۔

دہلی ٹیسٹ کے بعد عمران خان ان فٹ ہو گئے اور ان کی جگہ احتشام الدین کو شامل کر لیا گیا۔ بہرحال پاکستان ممبئی اور مدراس (اب چنائی) میں ہار گیا۔ کپتان آصف اقبال کی اپنی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان تھی۔

ماجد خان اور ظہیر عباس بھی کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکے۔ جب ٹیم وطن واپس آئی تو کھلاڑیوں پر تنقید کے تیر برسائے گئے۔ سرکاری ٹی وی پر کھلاڑیوں کے خوب لتے لیے گئے۔ آصف اقبال کو بھی سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ انہوں نے سنجیدگی سے اس سیریز کو نہیں لیا۔
اسی اثنا میں سرفراز نواز نے آصف اقبال پر یہ سنگین الزام عائد کیا کہ آصف اقبال نے ایک خطیر رقم لے کر یہ سیریز ہاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آصف اقبال کے ماموں بھارتی کرکٹ بورڈ کے رکن ہیں اور یہ سب ماموں بھانجے کی ملی بھگت سے ہوا ہے۔ آصف اقبال نے اس الزام کی سختی سے تردید کی لیکن سرفراز نواز اپنی بات پر قائم رہے۔ آج اس واقعے کو بیتے ہوئے کئی دہائیاں بیت چکی ہیں لیکن سرفراز نے اپنے دعوے کی کبھی تردید نہیں کی۔

آصف اقبال کرکٹ سے ریٹائرڈ ہو کر شارجہ چلے گئے جہاں نے شارجہ ٹورنامنٹ کی بنیاد رکھی۔ یہ پاکستان میں کرکٹ میں پہلا جوئے کا الزام تھا جو لگایا گیا۔

جاوید میاں داد کے خلاف بغاوت

1979-80ء میں جب پاکستانی کرکٹ ٹیم بھارت سے ہار کر واپس آئی تو اس وقت کپتانی کا مسئلہ درپیش تھا۔ آسٹریلیا کی ٹیم چند دنوں بعد آنے والی تھی۔ آصف اقبال کلکتہ ٹیسٹ کے بعد ریٹائرڈ ہو چکے تھے۔ اُس وقت کے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نور خان نے مشتاق محمد کو بلایا اور انہیں کپتانی کی پیش کش کی۔ لیکن مشتاق محمد کپتانی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے نور خان کو تجویز دی کہ جاوید میاںداد کو کپتان بنا دیا جائے۔ ان کی تجویز مان لی گئی اور میاں داد کو کپتان اور مشتاق محمد کو ٹیم منیجر بنا دیا گیا۔

اس فیصلے کو ٹیم کے سینئر کھلاڑیوں نے تسلیم نہیں کیا۔ خاص طور پر ظہیر عباس اور ماجد خان سخت نالاں تھے لیکن اُس وقت وہ خاموش رہے کیونکہ بھارت میں ان کی کارکردگی غیر تسلی بخش رہی تھی۔ انہوں نے وقتی طور پر اس فیصلے کو مان لیا۔ آسٹریلیا کو پاکستان نے 1-0 سے ہرا دیا۔ 1980ء کے آخر میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم پاکستان آئی اور چار ٹیسٹ کھیلے گئے۔

پاکستان یہ سیریز 1-0 سے ہار گیا لیکن مجموعی طور پر پاکستان نے اچھا کھیل پیش کیا۔ خاص طور پر وسیم راجہ نے بہت متاثر کیا۔ 1981ء میں سری لنکا کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی تو جاوید میاںداد کو دوبارہ کپتان بنا دیا گیا۔ سینئر کھلاڑی پھر بغاوت پر اتر آئے۔ ماجد خان نے 9 کھلاڑیوں کو اپنے گھر بلایا اور انہیں صاف صاف بتا دیا کہ وہ میاںداد کی کپتانی میں کھیلنے کو تیار نہیں ہیں۔ باقی کھلاڑیوں نے بھی اُن کے ساتھ اتفاق کیا۔ ان میں محسن خان، عمران خان، سکندر بخت، سرفراز نواز، مدثر نذر، وسیم باری اور وسیم راجہ شامل تھے۔ لیکن بورڈ نے باغیوں کی بجائے جاوید میاں داد کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ سری لنکا کے مقابل نئی ٹیم کھلائی جا سکتی ہے۔

اس پر کئی باغی کھلاڑی دوبارہ کھیلنے کے لئے تیار ہو گئے۔ صرف ماجد خان اور سکندر بخت رہ گئے۔ معاملات زیادہ بگڑے تو جاوید میاں داد نے استعفیٰ دے دیا۔ لیکن یہ استعفیٰ مشروط تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ کسی کو بھی کپتان تسلیم کر سکتے ہیں لیکن ماجد خان کو نہیں۔ اس پر بورڈ نے عمران خان کو کپتان مقرر کر دیا۔

اس طرح اس بغاوت کا خاتمہ ہوا۔ بورڈ کا عمران خان کو کپتان بنانے کا فیصلہ درست ثابت ہوا اور عمران خان کی قیادت میں ٹیم میں نہ صرف نئے کھلاڑی شامل ہوئے بلکہ کئی اہم کامیابیاں بھی سمیٹیں۔

جب کھلاڑیوں نے شائقین اور امپائرز کا مقابلہ کیا

1976-77ء میں پاکستانی ٹیم نے آسٹریلیا کا کامیاب دورہ کیا۔ اس وقت کی آسٹریلوی ٹیم بہت مستحکم تھی۔ اس ٹیم میں گریگ چیپل، ڈینس للی، روڈنی مارش، گلمور اور کوزیر جیسے کھلاڑی شامل تھے۔ پاکستان نے یہ سیریز 1-1سے برابر کر دی۔ اس کے بعد ٹیم ویسٹ انڈیز روانہ ہو گئی۔ وہاں ٹیم نے پانچ ٹیسٹ میچ کھیلے۔

اگرچہ پاکستان یہ سیریز 2-1 سے ہار گیا لیکن پاکستانی ٹیم نے بہترین کھیل پیش کیا۔ اس وقت ویسٹ انڈیز ٹیم کو ہرانا بہت مشکل کام تھا۔ لیکن پاکستانی ٹیم نے وہاں کے حالات، جارح شائقین اور ایمپائرز کا خوب مقابلہ کیا۔

اسی سیریز کے دوران پاکستانی ٹیم کے مایہ ناز بلے بازظہیر عباس اور وسیم باری جھیل میں نہا رہے تھے کہ اچانک ڈوبنے لگے اس وقت ایک لائف گارڈ نے انہیں بچا لیا۔ اگر وہ لائف گارڈ وہاں نہ ہوتا تو شاید یہ دونوں کھلاڑی آج اس دنیا میں نہ ہوتے۔

قاسم عمر نے کیا کہا؟

1983-84ء کے آسٹریلیا کے دورے میں بلے باز قاسم عمر نے الزام عائد کیا کہ پاکستانی ٹیم کے کئی کھلاڑی نشہ آور ادویات کا استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے کپتان پر بھی الزام لگایا۔ اس پر ایک ہلچل مچ گئی۔ بہت بدمزگی پیدا ہوئی۔ لیکن آخر میں کیا ہوا کہ قاسم عمر کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا اور ان کا کرکٹ کیریئر ختم ہو گیا۔ لیکن قاسم عمر اپنی بات پر آج تک قائم ہیں۔ ان سے متعدد بار اس حوالے سے پوچھا گیا لیکن انہوں نے یہی کہا کہ انہوں نے جو کچھ دیکھا، بیان کر دیا۔ اس بات کو بھی کئی دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن اس واقعے کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔

شاہد آفریدی کا بلّا

شاہد آفریدی کو اُس وقت شہرت ملی جب 1996ء میں انہوں نے کینیا میں کھیلے گئے ایک ٹورنامنٹ میں اپنے پہلے ایک روزہ میچ میں صرف 37 گیندوں پر سنچری داغ دی۔

یہ میچ سری لنکا کے خلاف کھیلا گیا تھا۔ ہوا یوںکہ شاہد آفریدی اس ٹیم میں شامل ہی نہیں تھے۔ مشتاق احمد زخمی ہو گئے اور ان کی جگہ شاہد آفریدی کو لیگ سپن باؤلر کی حیثیت سے شامل کر لیا گیا۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتاتھا کہ وہ تھوڑی بہت بلے بازی بھی کر لیتے ہیں۔

کپتان نے انہیں سعید انور کے ساتھ اوپننگ کرنے بھیج دیا۔ اس کے بعد آفریدی نے تاریخ رقم کردی۔ چھکوں اور چوکوں کی وہ بارش کی کہ شائقین کرکٹ مبہوت ہو گئے۔ لیکن اس بات کا بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ آفریدی نے جس بلے سے یہ قیامت ڈھائی وہ بلا کس کاتھا؟ دراصل وہ بلا سچن ٹنڈولکر کا تھا جو انہوں نے وقار یونس کو دیا تھا کہ اس جیسے دو بلے سیالکوٹ سے لے آئیں۔ شاہد آفریدی نے وہی بلا وقار یونس سے لیا اور اس سے وہ یادگار اننگز کھیلی، اسے کہتے ہیں قسمت کے کھیل۔

عبدالقادر کیا کھا کر آتے ہو؟

1987ء کا ورلڈ کپ بھارت اور پاکستان میں کھیلا گیا۔ اس میں لاہور میں کھیلا گیا پاکستان اور ویسٹ انڈیز کا ایک لیگ میچ انتہائی سنسنی خیز ثابت ہوا۔ ویسٹ انڈیز کا پلڑا بھاری تھا۔ ان کے باؤلر بہت نپی تلی باؤلنگ کر رہے تھے اور پاکستانی بلے باز مشکل میں تھے، پھر سلیم یوسف میدان میں آئے اور انہوں نے بڑی دلیری سے ویسٹ انڈیز کی طوفانی باؤلنگ کا مقابلہ کیا۔ وہ ٹیم کو جیتنے کی پوزیشن میں لے آئے۔ میچ کا آخری اوور انتہائی اعصاب شکن تھا۔

عبدالقادر کریز پر تھے۔ انہوں نے اپنے اعصاب پر قابو رکھا اور کوٹنی واش کے اوور کی آخری گیند پر چھکا مار دیا اور پاکستان یہ میچ جیت گیا۔ اس پر ویسٹ انڈیز کی پوری ٹیم آبدیدہ ہو گئی۔ کپتان ویوین رچرڈز گراؤنڈ پر لیٹ گئے اور ان کی آنکھوں سے بھی آنسو بہہ رہے تھے۔

ویسٹ انڈیز کے ایک بلے باز لوگی زار وقطار رو رہے تھے۔ چند لمحوں بعد رچررڈز نے عبدالقادر کے پاس آ کر کہا ’’بھائی آج کیا کھا کر آئے ہو‘‘۔ یہ واقعہ عبدالقادر کو آج بھی یاد ہے۔

ویسے ان سے آج بھی پوچھنا پڑے گا کہ واش کی آخری گیند پر چھکا مارنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ سچ بتائیں آپ نے اس دن کیا کھایا تھا۔

لالہ میرا کیا قصور ہے؟

لاہور میں کھیلے گئے بھارت کیخلاف ایک روزہ میچ میں آفریدی بہت جارحانہ موڈ میں تھے۔ انہوں نے بھارتی آف سپنر ہربھجن سنگھ کو نشانے پر لے لیا اور ایک ہی اوور میں انہیں چار چھکے رسید کر دیئے۔ اس پر ہربجھن سنگھ کا برا حال ہو گیا۔ان کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ میچ کے اختتام پر انہوں نے شاہد آفریدی کو پکڑ لیا اور رندھی ہوئی آواز میں کہا لالہ میں نے کیا کر دیا، میراکیا قصور ہے‘‘۔ اس پر شاہد آفریدی نے انہیں دلاسا دیا اور کہا ’’پا جی کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے۔ آخر یہ کھیل ہے اس میں سب کچھ چلتا ہے۔ آج جو آپ کے ساتھ ہوا، کل وہ کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔چھوڑو کوئی اور بات کرو۔‘‘


 
Last edited by a moderator:

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
پاکستانی قوم تیزی سے تعلیم ، تہذیب ، جدید علوم وغیرہ سے بدظن ہوتی جا رہی ہے لوگ اب دھڑلے سے کہتے ہیں کہ پڑھ لکھ کر کیا کرنا ہے
دوسری طرف کرکٹ ، بددیانتی ، جگت بازی دن بہ دن عوام میں مقبولیت پاتی جا رہی ہے
یہی حل رہا تو تباہی مقدر ہے