ٹرمپ نے الیکشن سے پہلے یہ کہہ کر کہ جو تھوڑے بہت امریکی فوجی افغانستان رہ گئے ہیں، انہیں کرسمس سے پہلے واپس آ جانا چاہئے،اپنا افغانستان کارڈ کھیلنے کی کوشش کی ہے۔
لیکن الفاظ اور ٹرمپ کے پچھلے ٹریک ریکارڈ پر غور کیا جائے، تو بظاہر لگتا ہے کہ یہ صرف الیکشن سٹنٹ ہے۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ ٹرمپ نے اپنی پچھلی انتخابی مہم میں جو بہت سے وعدے کئے تھے، ان میں سے ایک وعدہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی سے متعلق تھا۔اور پاکستان یا تیسری دنیا کے ممالک کے برعکس، جہاں یو ٹرن لینا اور اپنے انتخابی وعدوں سے مکرنابڑے لیڈر کی خصوصیات شمار ہوتا ہے، امریکہ میں اس چیز کو بہت سیرئیس لیا جاتا ہے۔، اور با شعور ووٹر کی بڑی تعداد پچھلی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دیتی ہے۔اب ٹرمپ نے واقعی چاہااور کر نہیں سکا، یا اس کی نیت میں کھوٹ تھا، مگر زمینی صورت حال یہ ہے کہ چار سال گزرنے کے باوجود بھی افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد کم و بیش اتنی ہی ہے، جتنی کہ ٹرمپ کے آفس سنبھالنے کے وقت تھی۔تھوڑے سے فوجی واپس ضرور گئے ہیں، مگر یہ وہ تعداد ہے جو خود ٹرمپ نے افغانستان بھیجی تھی۔چنانچہ اب ٹرمپ نے اپنے ووٹروں کو لالی پوپ دیا ہے کہ لوگ اسے ووٹ دیں تا کہ وہ دوبارہ صدر بن کر امریکی فوجیوں کو واپس بلوا سکے۔
پہلی بات تو یہ کہ اس مرتبہ ٹرمپ کا جیتنامشکل ہے، لیکن اگر وہ جیت بھی گیا، تو پھر اسے کسی وعدہ وفائی کی پروا نہیں ہو گی۔ کیوں کہ کوئی بھی شخص تیسری مرتبہ صدر نہیں بن سکتا۔اور ٹرمپ کا اخلاق اور کریکٹر ایسا ہے ہے کہ اس پر اعتبار کرنا مشکل ہے۔چنانچہ کسی بھی حملے، یا بہانے کو بنیاد بنا کر امریکا دوحا معاہدے سے نکل کر دوبارہ جنگ شروع کر سکتا ہے۔اسی خدشے کے پیش نظر اکثر مبصرین کا یہ ماننا ہے کہ مجاہدین کو بہرصورت ایک نئی اور شدید جنگ کے لئے تیار رہنا چاہئے۔اگر امریکا نے دوحا معاہدے سے انحراف کیا،تو امریکا کی سٹریٹیجی یہی ہو گی کہ کہ وہ اپنی زمینی فوج کو نکال کرفضائی قوت استعمال کرے، اور زمین پر کرائے کے افغان فوجی اس کی جنگ لڑیں گے۔یہ اور بات ہے کہ پہلے کی طرح اس بار بھی اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکے گا(ان شا ءاللہ)۔
دوحا معاہدہ
دوحا معاہدے کے حوالے سے ایک بات ہمیشہ ذہن میں رکھی چاہیے کہ امریکہ جب بھی افغانستان سے جاتا ہے، تو وہ کسی انسانی ہمدردی یا رحم کے جذبات کی بنیاد پر نہیں جائے گا، بلکہ خدا کی مدد و نصرت سے، غیور افغان قوم کی لا زوال قربانیوں کی بدولت اور مجاہدین کے ہاتھوں ملنے والی ذلت کی وجہ سے افغانستان چھوڑنے پر مجبور ہے۔
دوحا معاہدے کے دو بڑے خدشات تھے۔ ایک تو یہ کہ کہیں مجاہدین امریکہ کی باتوں اور پریشر میں آ کر ہتھیار نہ رکھ دیں،اور دوسرا یہ کہ امریکا اس معاہدے کو مجاہدین کے درمیان پھوٹ ڈالنے میں استعمال کر سکتا ہے۔
مجاہدین بھی اس بات کو جانتے ہیں، لہذا وہ معاہدے کو ایک چانس دینے کو تو تیار ہیں، مگر امریکا پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں، جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے مقصد کے مکمل حصول سے پہلے کسی بھی قسم کی جنگ بندی کو مسترد کیا ہے۔
جہاں تک دوسرے خدشے کا تعلق ہے، افغان مجاہدین کو دوحا معاہدے کو ایک بھرپور موقع ضرور دینا چاہئے، کہ اگر مقصد ذیادہ خون خرانے کے بغیر حل ہو جاتا ہے تو اس سے اچھی کوئی بات نہیں، مگر اس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے کہ"اچھا بچہ" بننے کے اس عمل میں دیگر جہادی قوتوں سے تعلقات خراب نہ ہوں۔کہ امریکا تو کسی بھی وقت دھوکہ دے سکتا ہے، جبکہ جہادی قوتیں افغان طالبان کی اچھے برے وقتوں کی ساتھی ہیں، جنہوں نے بدترین حالات میں بھی ان کا ساتھ دیا ہے۔ان کے ساتھ بدگمانی یا ناچاقی بڑی مہنگی ثابت ہو سکتی ہے۔اور اگر امریکا اپنے وعدوں سے مکرتا ہے، جس کا بہت ذیادہ امکان ہے، تو یہی وہ وقوتیں ہوں گی، جن کی مدد سے وہ اپنی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔
باطل قوتوں اور میڈیا نے دوحا معاہدے کو لے کر،مجاہدین میں پھوٹ ڈالنے کی نئی کوشش شروع کر دی ہے، جس کا ایک مظہر بی بی سی کی یہ خبر ہے۔
یاد رہے بی بی سی کا یہ پرانا طریقہ واردات ہے۔ یہ اکثر اوقات اپنی خواہشات کو خبر کا رنگ دے کر پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں۔
اللہ مجاہدین کی مدد فرمائے، انہیں سازشوں سے محفوظ رکھے، اور مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑنے والے کفار اور ان کے حوارین کو نیست و نابود کر دے۔آمین۔
لیکن الفاظ اور ٹرمپ کے پچھلے ٹریک ریکارڈ پر غور کیا جائے، تو بظاہر لگتا ہے کہ یہ صرف الیکشن سٹنٹ ہے۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ ٹرمپ نے اپنی پچھلی انتخابی مہم میں جو بہت سے وعدے کئے تھے، ان میں سے ایک وعدہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی سے متعلق تھا۔اور پاکستان یا تیسری دنیا کے ممالک کے برعکس، جہاں یو ٹرن لینا اور اپنے انتخابی وعدوں سے مکرنابڑے لیڈر کی خصوصیات شمار ہوتا ہے، امریکہ میں اس چیز کو بہت سیرئیس لیا جاتا ہے۔، اور با شعور ووٹر کی بڑی تعداد پچھلی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دیتی ہے۔اب ٹرمپ نے واقعی چاہااور کر نہیں سکا، یا اس کی نیت میں کھوٹ تھا، مگر زمینی صورت حال یہ ہے کہ چار سال گزرنے کے باوجود بھی افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد کم و بیش اتنی ہی ہے، جتنی کہ ٹرمپ کے آفس سنبھالنے کے وقت تھی۔تھوڑے سے فوجی واپس ضرور گئے ہیں، مگر یہ وہ تعداد ہے جو خود ٹرمپ نے افغانستان بھیجی تھی۔چنانچہ اب ٹرمپ نے اپنے ووٹروں کو لالی پوپ دیا ہے کہ لوگ اسے ووٹ دیں تا کہ وہ دوبارہ صدر بن کر امریکی فوجیوں کو واپس بلوا سکے۔
پہلی بات تو یہ کہ اس مرتبہ ٹرمپ کا جیتنامشکل ہے، لیکن اگر وہ جیت بھی گیا، تو پھر اسے کسی وعدہ وفائی کی پروا نہیں ہو گی۔ کیوں کہ کوئی بھی شخص تیسری مرتبہ صدر نہیں بن سکتا۔اور ٹرمپ کا اخلاق اور کریکٹر ایسا ہے ہے کہ اس پر اعتبار کرنا مشکل ہے۔چنانچہ کسی بھی حملے، یا بہانے کو بنیاد بنا کر امریکا دوحا معاہدے سے نکل کر دوبارہ جنگ شروع کر سکتا ہے۔اسی خدشے کے پیش نظر اکثر مبصرین کا یہ ماننا ہے کہ مجاہدین کو بہرصورت ایک نئی اور شدید جنگ کے لئے تیار رہنا چاہئے۔اگر امریکا نے دوحا معاہدے سے انحراف کیا،تو امریکا کی سٹریٹیجی یہی ہو گی کہ کہ وہ اپنی زمینی فوج کو نکال کرفضائی قوت استعمال کرے، اور زمین پر کرائے کے افغان فوجی اس کی جنگ لڑیں گے۔یہ اور بات ہے کہ پہلے کی طرح اس بار بھی اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکے گا(ان شا ءاللہ)۔
دوحا معاہدہ
دوحا معاہدے کے حوالے سے ایک بات ہمیشہ ذہن میں رکھی چاہیے کہ امریکہ جب بھی افغانستان سے جاتا ہے، تو وہ کسی انسانی ہمدردی یا رحم کے جذبات کی بنیاد پر نہیں جائے گا، بلکہ خدا کی مدد و نصرت سے، غیور افغان قوم کی لا زوال قربانیوں کی بدولت اور مجاہدین کے ہاتھوں ملنے والی ذلت کی وجہ سے افغانستان چھوڑنے پر مجبور ہے۔
دوحا معاہدے کے دو بڑے خدشات تھے۔ ایک تو یہ کہ کہیں مجاہدین امریکہ کی باتوں اور پریشر میں آ کر ہتھیار نہ رکھ دیں،اور دوسرا یہ کہ امریکا اس معاہدے کو مجاہدین کے درمیان پھوٹ ڈالنے میں استعمال کر سکتا ہے۔
مجاہدین بھی اس بات کو جانتے ہیں، لہذا وہ معاہدے کو ایک چانس دینے کو تو تیار ہیں، مگر امریکا پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں، جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے مقصد کے مکمل حصول سے پہلے کسی بھی قسم کی جنگ بندی کو مسترد کیا ہے۔
جہاں تک دوسرے خدشے کا تعلق ہے، افغان مجاہدین کو دوحا معاہدے کو ایک بھرپور موقع ضرور دینا چاہئے، کہ اگر مقصد ذیادہ خون خرانے کے بغیر حل ہو جاتا ہے تو اس سے اچھی کوئی بات نہیں، مگر اس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے کہ"اچھا بچہ" بننے کے اس عمل میں دیگر جہادی قوتوں سے تعلقات خراب نہ ہوں۔کہ امریکا تو کسی بھی وقت دھوکہ دے سکتا ہے، جبکہ جہادی قوتیں افغان طالبان کی اچھے برے وقتوں کی ساتھی ہیں، جنہوں نے بدترین حالات میں بھی ان کا ساتھ دیا ہے۔ان کے ساتھ بدگمانی یا ناچاقی بڑی مہنگی ثابت ہو سکتی ہے۔اور اگر امریکا اپنے وعدوں سے مکرتا ہے، جس کا بہت ذیادہ امکان ہے، تو یہی وہ وقوتیں ہوں گی، جن کی مدد سے وہ اپنی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔
باطل قوتوں اور میڈیا نے دوحا معاہدے کو لے کر،مجاہدین میں پھوٹ ڈالنے کی نئی کوشش شروع کر دی ہے، جس کا ایک مظہر بی بی سی کی یہ خبر ہے۔
بین الافغان امن مذاکرات پر جہادی گروہ منقسم - BBC News اردو
قطر کے دارالحکومت دوحا میں 12 ستمبر کو بین الافغان مذاکرات پر جہادی حلقوں اور مبصرین میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے اور اس تناظر میں طالبان کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
www.bbc.com
اللہ مجاہدین کی مدد فرمائے، انہیں سازشوں سے محفوظ رکھے، اور مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑنے والے کفار اور ان کے حوارین کو نیست و نابود کر دے۔آمین۔