Dr. Moeed Pirzada exposes inside story of Nawaz's platelets in a Live Show
پاکستان کے دو سزا یافتہ عادی مجرمان کی ضمانت، اور لوٹا ہوا عوام کا کھربوں روپیہ لوٹائے بغیر ان کو پاکستان سے کیسے فرار کرایا جائے؟؟؟ یہ ہے آجکل اس ملک کا سب سے بڑا مسلہ ! میڈیا کی کالی بھیڑیں ، لوٹ مار کے مال میں حصہ دار سیاسی جماعتیں اور ان جماعتوں کے حواری عدالتوں کو پریشرائز کرنے کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں، انکا بس چلے تو وہ اس مجرم اور اسکی مجرمہ لڑکی کو عدالتوں سے زبردستی چھڑوا کر جہاز میں بٹھائیں اور لندن روانہ کر دیں . اس تناظر میں ان دونوں مجرم قیدیوں سے متعلق لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹس کے پچھلے دو روز کے فیصلوں کا تنقیدی نقطہ نظر سے جائزہ لینا وقت کی اہم ضرورت ہے
دونوں عدالتوں کے فیصلوں میں ایکسٹرا آرڈینری تیزی اور انتہا کی سرعت اس بات کی غماز ہیں کہ دونوں عدالتیں غالبا درخواستوں پر سماعت سے پہلے ہی یہ ذہن بنا چکی تھیں اور ہیں کہ حقائق جو مرضی ہوں ان دونوں لاڈلے مجرم قیدیوں کے حقوق ٢٢ کروڑ مظلوم عوام کے حقوق سے کہیں زیادہ ہیں اور بھلے دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے ان دونوں لاڈلوں کو ہر صورت میں ریلیف دینا ہی دینا ہے . ایسی ریلیف جس کا نہ تو کوئی جواز ہے اور نہ ہی جسکو دیتے وقت انصاف کے بنیادی تقاضوں کو مد نظر رکھنے کی کوئی ضرورت ہے
انصاف کی فراہمی کا بنیادی اصول ہے کہ قاضی کسی قسم کے جذبات ، لچھے دار ڈرامائی گفتگو ، کسی قسم کے دباؤ میں آئے بغیر اپنے الله کو حاضر ناظر جانتے ہوئے ، قران پر لیے گئے اپنے حلف کی پاسداری میں ، اپنا مائینڈ اپلائی کرتے ہوئے ، اپنے ضمیر کی آواز پر کیس کے میرٹ اور مروجہ قوانین کی روشنی میں فیصلہ دے
یہاں کیا ہو رہا ہے ؟؟؟
مجرمان کا وکیل خواجہ حارث اپنے دل کی گہرائیوں میں یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسکے موکلان نے یہ تمام جرائم بنفس نفیس کئیے ہیں، وہ کبھی بھی اپنے موکلان کی صفائی میں کسی قسم کا کوئی بھی دستاویزی ثبوت تین سال کے عرصے میں کسی بھی عدالت میں پیش کرنے سے قاصر اور معذور رہا ہے . تین سال سے ملک کی ہر عدالت میں وہ صرف اور صرف جھوٹ پر مبنی اپنی لچھے دار اور جذباتی قوالی سے عدالت کو متاثر کرتا رہا ہے . اس نے سچ اور حقائق پر مبنی کبھی کوئی دلائل نہیں دئیے . اس ملک کے عوام اور عدالت کو گمراہ کرنے کے لیے یہ ہر موقع پر اپنے مؤکل کی چھوٹی موٹی تکلیف یا چھینک آنے کو بھی زندگی اور موت کا کھیل بنا کر رکھ دیتا ہے . جو سب سے زیادہ تکلیف دہ بات ہے وہ عزت مآب جج صاحبان کا اس جھوٹے وکیل کی جذباتی گفتگو سے متاثر ہو جانا ہے جو ان مجرمان قیدیوں کی ضمانتوں کے ضمن میں بھی ہوۓ
دوسری بات دونوں عدالتوں میں عزت مآب جج صاحبان کا بھری عدالتوں میں بار بار ایک بات کا کہنا اور اسکا اقرار کرنا ہے کہ وہ شعبہ طب کے بنیادی معاملات سے بھی بالکل ہی نا آشنا اور نابلد ہیں . یہ کیسا اقرار ہے ؟؟؟ آپ ملک کے بہت بڑے مناصب پر فائز ہیں جہاں لوگوں کی زندگیاں اور موت آپکے یک جنبش قلم پر ہیں ، اسمیں آپ سے یہ جائز توقع کی جاتی ہے کہ آپکا مطالعہ بہت وسیع ہو . آپکو کس نے روکا ہے کہ کوئی بھی ایسا مقدمہ سننے سے پہلے آپ مجرمان یا ملزمان کو لاحق کسی بھی میڈیکل کنڈیشن کے بنیادی اور چیدہ چیدہ نقاط کا خود مطالعہ کر کے آئیں؟؟ یا کسی سبجیکٹ سپیشلسٹ ڈاکٹر سے دو تین گھنٹوں پر محیط بیٹھک لگا کر تشریف لائیں تاکہ بھری عدالتوں میں آپکو بار بار یہ نہ کہنا پڑے کہ میں تو جی بالکل کورا ہوں مجھے کسی معاملے کا ادراک ہی نہیں ہے . ماشاللہ بہت خوب!!! آپکو یاد ہے ناں کہ آپکی جیوریس پروڈینس کیا کہتی ہے
Ignorantia juris non excusat or ignorantia legis neminem excusat: A legal principle holding that a person who is unaware of a law may not escape liability for violating that law merely because one was unaware of it (Just change the word law with the word medicine to make it easier for the Judges to understand)
بظاہر یوں نظر آتا ہے کہ دونوں عدالتوں نے اپنے فیصلے قیدی مجرمان کے پے رول پر میڈیا کے سورماؤں کے پریشر ، خواجہ حارث کی جذباتی قوالی اور شعبہ طب کے بنیادی اجزا سے اپنی نابلدی اور بے پناہ اگنورینس پر دئیے . ان میں انصاف کا عنصر کہاں ہے ؟؟؟ ایسے یکطرفہ فیصلوں کو کون مانے گا ؟؟؟ انصاف سے مبراء ایسے تاریخ ساز فیصلے دینے پر ملک کی ٢٢ کروڑ عوام کے دلوں میں آپکی کتنی تکریم اور تعظیم ہو گی اس کا فیصلہ آپ خود کر لیں
آپکے فیصلوں سے اس ملک کے لٹنے والے عوام کو انصاف کی مہک آنی چاہئیے جنکی روشنی میں انکے دلوں میں آپکی اور جن بھاری بھرکم نشستوں پر آپ براجمان ہیں انکی توقیر اور عزت بڑھے . اگر معزز جج صاحبان کو پٹیشنوں سے جڑے عوامل اور طبی معاملات کا ادرک نہیں ہے اور وہ کچھ پڑھنےلکھنے کا زیادہ شوق بھی نہیں رکھتے تو برائے مہربانی ایسے افراد کو اپنی معاونت کے لیے طلب کر لیں جو سرکاری نوکر تو نہ ہوں لیکن اپنے تجربے ، علمی قابلیت اور اپنی انالیٹیکل سکلس کے باعث پاکستانی عوام کے فائدے کے لیے آپکی رہنمائی اورعدالت کی بہترین معاونت کر سکیں
ایسے ہی لوگوں میں ڈاکٹر معید پیرزادہ بہترین انتخاب ثابت ہونگے . تحریر سے ملحقہ کلپ اس بات کی ترجمانی کرتا ہے
پاکستان کے دو سزا یافتہ عادی مجرمان کی ضمانت، اور لوٹا ہوا عوام کا کھربوں روپیہ لوٹائے بغیر ان کو پاکستان سے کیسے فرار کرایا جائے؟؟؟ یہ ہے آجکل اس ملک کا سب سے بڑا مسلہ ! میڈیا کی کالی بھیڑیں ، لوٹ مار کے مال میں حصہ دار سیاسی جماعتیں اور ان جماعتوں کے حواری عدالتوں کو پریشرائز کرنے کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں، انکا بس چلے تو وہ اس مجرم اور اسکی مجرمہ لڑکی کو عدالتوں سے زبردستی چھڑوا کر جہاز میں بٹھائیں اور لندن روانہ کر دیں . اس تناظر میں ان دونوں مجرم قیدیوں سے متعلق لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹس کے پچھلے دو روز کے فیصلوں کا تنقیدی نقطہ نظر سے جائزہ لینا وقت کی اہم ضرورت ہے
دونوں عدالتوں کے فیصلوں میں ایکسٹرا آرڈینری تیزی اور انتہا کی سرعت اس بات کی غماز ہیں کہ دونوں عدالتیں غالبا درخواستوں پر سماعت سے پہلے ہی یہ ذہن بنا چکی تھیں اور ہیں کہ حقائق جو مرضی ہوں ان دونوں لاڈلے مجرم قیدیوں کے حقوق ٢٢ کروڑ مظلوم عوام کے حقوق سے کہیں زیادہ ہیں اور بھلے دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے ان دونوں لاڈلوں کو ہر صورت میں ریلیف دینا ہی دینا ہے . ایسی ریلیف جس کا نہ تو کوئی جواز ہے اور نہ ہی جسکو دیتے وقت انصاف کے بنیادی تقاضوں کو مد نظر رکھنے کی کوئی ضرورت ہے
انصاف کی فراہمی کا بنیادی اصول ہے کہ قاضی کسی قسم کے جذبات ، لچھے دار ڈرامائی گفتگو ، کسی قسم کے دباؤ میں آئے بغیر اپنے الله کو حاضر ناظر جانتے ہوئے ، قران پر لیے گئے اپنے حلف کی پاسداری میں ، اپنا مائینڈ اپلائی کرتے ہوئے ، اپنے ضمیر کی آواز پر کیس کے میرٹ اور مروجہ قوانین کی روشنی میں فیصلہ دے
یہاں کیا ہو رہا ہے ؟؟؟
مجرمان کا وکیل خواجہ حارث اپنے دل کی گہرائیوں میں یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسکے موکلان نے یہ تمام جرائم بنفس نفیس کئیے ہیں، وہ کبھی بھی اپنے موکلان کی صفائی میں کسی قسم کا کوئی بھی دستاویزی ثبوت تین سال کے عرصے میں کسی بھی عدالت میں پیش کرنے سے قاصر اور معذور رہا ہے . تین سال سے ملک کی ہر عدالت میں وہ صرف اور صرف جھوٹ پر مبنی اپنی لچھے دار اور جذباتی قوالی سے عدالت کو متاثر کرتا رہا ہے . اس نے سچ اور حقائق پر مبنی کبھی کوئی دلائل نہیں دئیے . اس ملک کے عوام اور عدالت کو گمراہ کرنے کے لیے یہ ہر موقع پر اپنے مؤکل کی چھوٹی موٹی تکلیف یا چھینک آنے کو بھی زندگی اور موت کا کھیل بنا کر رکھ دیتا ہے . جو سب سے زیادہ تکلیف دہ بات ہے وہ عزت مآب جج صاحبان کا اس جھوٹے وکیل کی جذباتی گفتگو سے متاثر ہو جانا ہے جو ان مجرمان قیدیوں کی ضمانتوں کے ضمن میں بھی ہوۓ
دوسری بات دونوں عدالتوں میں عزت مآب جج صاحبان کا بھری عدالتوں میں بار بار ایک بات کا کہنا اور اسکا اقرار کرنا ہے کہ وہ شعبہ طب کے بنیادی معاملات سے بھی بالکل ہی نا آشنا اور نابلد ہیں . یہ کیسا اقرار ہے ؟؟؟ آپ ملک کے بہت بڑے مناصب پر فائز ہیں جہاں لوگوں کی زندگیاں اور موت آپکے یک جنبش قلم پر ہیں ، اسمیں آپ سے یہ جائز توقع کی جاتی ہے کہ آپکا مطالعہ بہت وسیع ہو . آپکو کس نے روکا ہے کہ کوئی بھی ایسا مقدمہ سننے سے پہلے آپ مجرمان یا ملزمان کو لاحق کسی بھی میڈیکل کنڈیشن کے بنیادی اور چیدہ چیدہ نقاط کا خود مطالعہ کر کے آئیں؟؟ یا کسی سبجیکٹ سپیشلسٹ ڈاکٹر سے دو تین گھنٹوں پر محیط بیٹھک لگا کر تشریف لائیں تاکہ بھری عدالتوں میں آپکو بار بار یہ نہ کہنا پڑے کہ میں تو جی بالکل کورا ہوں مجھے کسی معاملے کا ادراک ہی نہیں ہے . ماشاللہ بہت خوب!!! آپکو یاد ہے ناں کہ آپکی جیوریس پروڈینس کیا کہتی ہے
Ignorantia juris non excusat or ignorantia legis neminem excusat: A legal principle holding that a person who is unaware of a law may not escape liability for violating that law merely because one was unaware of it (Just change the word law with the word medicine to make it easier for the Judges to understand)
بظاہر یوں نظر آتا ہے کہ دونوں عدالتوں نے اپنے فیصلے قیدی مجرمان کے پے رول پر میڈیا کے سورماؤں کے پریشر ، خواجہ حارث کی جذباتی قوالی اور شعبہ طب کے بنیادی اجزا سے اپنی نابلدی اور بے پناہ اگنورینس پر دئیے . ان میں انصاف کا عنصر کہاں ہے ؟؟؟ ایسے یکطرفہ فیصلوں کو کون مانے گا ؟؟؟ انصاف سے مبراء ایسے تاریخ ساز فیصلے دینے پر ملک کی ٢٢ کروڑ عوام کے دلوں میں آپکی کتنی تکریم اور تعظیم ہو گی اس کا فیصلہ آپ خود کر لیں
آپکے فیصلوں سے اس ملک کے لٹنے والے عوام کو انصاف کی مہک آنی چاہئیے جنکی روشنی میں انکے دلوں میں آپکی اور جن بھاری بھرکم نشستوں پر آپ براجمان ہیں انکی توقیر اور عزت بڑھے . اگر معزز جج صاحبان کو پٹیشنوں سے جڑے عوامل اور طبی معاملات کا ادرک نہیں ہے اور وہ کچھ پڑھنےلکھنے کا زیادہ شوق بھی نہیں رکھتے تو برائے مہربانی ایسے افراد کو اپنی معاونت کے لیے طلب کر لیں جو سرکاری نوکر تو نہ ہوں لیکن اپنے تجربے ، علمی قابلیت اور اپنی انالیٹیکل سکلس کے باعث پاکستانی عوام کے فائدے کے لیے آپکی رہنمائی اورعدالت کی بہترین معاونت کر سکیں
ایسے ہی لوگوں میں ڈاکٹر معید پیرزادہ بہترین انتخاب ثابت ہونگے . تحریر سے ملحقہ کلپ اس بات کی ترجمانی کرتا ہے