وزیراعظم کا پورٹل۔ نوکر شاہی کا نیا فٹ بال

LEGEND OF LEYYAH

Voter (50+ posts)
دوست عزیز رؤف کلاسرا نے اسلام آباد کی بربادی پر نوحہ خوانی کی ہے۔ یہ فقیر بھی کئی بار سینہ کوبی کرچکا ہے۔ لارڈ کلائیو اور وائسرائے کرزن کی ذہنیت رکھنے والے بیورو کریٹ اسلام آباد کی تقدیر کے مالک و مختار ہوں گے تو نتیجہ وہی برآمد ہوگا جو ہم دیکھ رہے ہیں!
وزیراعظم کا سٹیزن پورٹل اس اُوپر سے کالی اور اندر سے گوری نوکر شاہی کا نیا شکار ہے۔ اسے یہ فٹ بال کی طرح ٹھوکریں مارر ہے ہیں۔ کم درجے کے اہلکاروں کے لیے تو یہ پورٹل ہو سکتا ہے مؤثر ہو‘ مگر جن کے ہاتھوں میں اصل اقتدار ہے‘ وہ اس پورٹل کے ساتھ یوں کھیل رہے ہیں جیسے حکومت نہ ہو بازیچہ ہو! اس حقیقت میں کیا شک ہے کہ نوکر شاہی‘ وزیراعظم عمران خان کی اصلاحات کو ناکام کرنے پر تُلی ہوئی ہے اور ایک حد تک کامیاب بھی ہو چکی ہے!
یہ تجربہ سنا سنایا نہیں‘ ذاتی ہے۔ جو حشر پورٹل کا ہوا‘ اس پر ہنسی آتی ہے اور رحم بھی! یہ کالم نگار وفاقی دارالحکومت کے جس حصے میں رہتا ہے‘ وہاں کا ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے خلق ِخدا عاجز آ چکی ہے! چونکہ تعلق میڈیا سے ہے اس لیے کچھ شرفا‘ جو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے‘ آئے اور سر جوڑ کر بیٹھے کہ کیا کیا جائے۔ چونکہ مسئلہ چیف کمشنر کے دائرہ کار میں پڑ رہا تھا اس لیے طے ہوا کہ چیف کمشنر سے وقت لے کر ان سے ملاقات کی جائے اور بتایا جائے کہ یہ آپ کا فرض ہے جو ادا نہیں ہو رہا۔ چیف کمشنر سے بات کرنے کا قرعۂ فال کالم نگار کے نام نکلا۔
یہ چار ستمبر 2019ء تھا جب اس کالم نگار نے چیف کمشنر اسلام آباد کو فون کیا۔ پرائیویٹ سیکرٹری مسٹر مشتاق نے بتایا کہ وہ سیٹ پر نہیں ہیں۔ آئیں گے تو بات کرائیں گے۔ فون نمبر‘ نام نوٹ کرایا۔ پھر معلوم ہوا کہ صاحب‘ سی ڈی اے کے چیئرمین بھی ہیں۔ وہاں فون کیا۔ پرائیویٹ سیکرٹری مسٹر رفاقت نے بتایا کہ مصروف ہیں۔ فارغ ہوں گے تو بات کرائیں گے۔ وہاں بھی نام اور فون نمبر نوٹ کرایا۔ یہ بھی وضاحت کی کہ سائل اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے‘ ذمہ دار شہری ہے اور ٹیکس ادا کرتا ہے اور چیف کمشنر سے کسی مسئلے پر بات کرنا چاہتا ہے۔ اگلے دن پانچ ستمبر کو پھر دونوں جگہ فون کیا اور عرضداشت دہرائی۔ بات نہ ہو سکی۔ چھ ستمبر کو پھر یہ سارا عمل دہرایا گیا‘ سات اور آٹھ ستمبر کو سنیچر اور اتوار تھا۔ نو ستمبر پیر کے دن پھر سائل نے کوشش کی۔ یہ عمل جاری رہا تاوقتیکہ معاونین (پرائیویٹ سیکرٹریز) نے عاجز آ کر صاف کہا کہ جناب! ہمارا کام تو صاحب کو بتانا ہے۔ وہ بات کریں یا نہ کریں ان کی صوابدید ہے!
انیس دن انتظار کرنے کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ چیف کمشنر سے بات کرنا ممکن نہیں! ایک قانون پسند شہری کا بنیادی حق ہے کہ اسے پبلک سرونٹ تک رسائی حاصل ہو تاکہ وہ اپنے حقوق کی حفاظت کر سکے! چنانچہ 23ستمبر کو سٹیزن پورٹل پر شکایت رجسٹر کرائی۔ شکایت کا نمبر تھا 15230919-4768571
متن یہ تھا :
''ایک شہری اور ایک ٹیکس دہندہ کی حیثیت سے چیف کمشنر صاحب سے بات کرنا چاہی تاکہ کچھ معاملات پر احتجاج کیا جا سکے۔ چار ستمبر کو فون کیا۔ پانچ چھ اور نو ستمبر کو بھی فون کیا پرائیویٹ سیکرٹریوں مسٹر مشتاق اور مسٹر رفاقت کو پیغام لکھوائے‘ چیف کمشنر سے بات نہیں ہو سکی۔ شکایت یہ ہے کہ وہ قابلِ رسائی (Accessible) نہیں ہیں!!‘‘
اس شکایت کی کیٹیگر ی ''انسانی حقوق‘‘ اور ''حقوق سے انکار‘‘ تھی! شکایت کے ساتھ کیا ہوا؟ اس کی تاریخ وار تفصیل قارئین کی بصارت پر ناروا بوجھ ہوگا اور کالم کی صنف کے ساتھ زیادتی! مختصراً یہ کہ پہلا کھلواڑ شکایت کے ساتھ یہ ہوا کہ جس چیف کمشنر کے خلاف شکایت تھی‘ یہ اُسی کے ماتحت ڈپٹی کمشنر کو بھیج دی گئی‘ یعنی ع
یکی برسرِ شاخ ‘بُن می برید
کہ جس شاخ پر بیٹھا تھا‘ اُسی کو کاٹ رہا تھا۔ کیا پاکستان کی نوکر شاہی میں یہ ممکن ہے کہ کوئی اپنے افسرِ بالا سے بازپرس کرے کہ آپ ایک شہری کے لیے قابل رسائی کیوں نہیں؟
ڈپٹی کمشنر کیا کر سکتا تھا؟ اُس نے خط و کتابت شروع کر دی۔ سائل سے پوچھا گیا کہ تفصیل بتائیے‘ سائل نے پھر عرض گزاری کہ صاحب بہادر! تفصیل اس سے زیادہ نہیں کہ ساری ممکن کوششوں کے باوجود چیف کمشنر سے بات نہیں ہو سکتی! کہا گیا کہ ''اپنے پوائنٹ کی تشریح کیجیے‘‘ جواب میں عرض کیا گیا کہ تفصیل بتائی جا چکی ہے اور یہ کہ چیف کمشنر کے خلاف شکایت اُس کے ماتحت کو بھیجنا پورٹل کے ساتھ مذاق ہے! اس کا جواب یہ دیا گیا کہ تفصیلات مہیا کیجیے!
یہ فٹ بال کئی دن ٹھوکریں کھاتا رہا! پھر کہا گیا کہ ڈپٹی کمشنر بات کرنا چاہتے ہیں! عرض کیا گیا کہ ناقابلِ رسائی چیف کمشنر صاحب ہیں! ڈپٹی کمشنر نہیں! پھر کہا گیا کہ چیف کمشنر صاحب کے دفتر حاضر ہوں! اس کے جواب میں شکایت کنندہ نے پھر ساری صورت حال بتائی کہ''معاملے کو اس لیے لٹکایا جا رہا ہے کہ چیف کمشنر کو ذمہ داری سے بچایا جا سکے! ایشو یہ ہے کہ چیف کمشنر ناقابل رسائی ہیں اور وہ شہری کی کسی کال کو درخور ِاعتنا نہیں گردانتے۔ ڈپٹی کمشنر سے بات کا کوئی فائدہ نہیں! جیسا کہ وزیراعظم نے ہدایت کی ہے‘ معاملہ چیف کمشنر سے سینئر اتھارٹی کی سطح کا ہے۔ چیف کمشنر پابند ہے کہ اپنی نارسائی کی وجہ بیان کرے‘‘۔چیف کمشنر سے بات کیا ہونی تھی شکایت مسلسل فٹ بال بنی رہی! یہاں تک کہ چھ دسمبر کو ''جزوی داد رسی کر دی گئی‘‘ کہہ کر نمٹا دی گئی۔
یہ ہے حشر وزیراعظم کے پورٹل کا جو اعلیٰ نوکر شاہی کر رہی ہے! اصولی طور پر چیف کمشنر کے باس کو چیف کمشنر سے پوچھنا چاہیے تھا کہ کیا ایک یا دو ماہ کے بعد بھی آپ سائل سے بات نہیں کر سکتے؟ اگر ایسا ہے تو پھر اُس ٹیلی فون کا کیا فائدہ جس کا بل حکومت ادا کر رہی ہے؟
بستی کے شرفا کو جب بتایا گیا کہ چیف کمشنر صاحب سے ملنا تو درکنار‘ بات کرنا بھی ناممکن ہے تو ان کا ایک ہی کمنٹ تھا کہ جب اعلیٰ ترین درجے سے ریٹائر ہونے والا بیورو کریٹ‘ جس کا میڈیا سے بھی تعلق ہے‘ چیف کمشنر سے بات نہیں کر سکتا تو ہما و شما کا کیا حال ہو گا ؛ ع
قیاس کن زگلستانِ من بہارِ مرا
چیف کمشنر صاحب کا عوام کے ساتھ رویہ دیکھ کر انگریز ڈپٹی کمشنروں کے واقعات یاد آ گئے۔ عید کے موقع پر علاقے کے جاگیردار‘ زمیندار‘ معززین‘ حاضر ہوتے تھے اور کوٹھی کے لان میں کھڑے ہو کر صاحب بہادر کا انتظار کرتے تھے کہ درشن ہو تو عید مبارک عرض کی جائے! طویل انتظار کے بعد اندر سے ملازم آتا تھا اور خوش خبری دیتا تھا کہ صاحب نے عید مبارک قبول کر لی ہے یہ سن کر‘ انتظار کرنے والے‘ جنہوں نے طّرے باندھے ہوتے تھے اور اچکنیں زیب تن کر رکھی ہوتی تھیں‘ ایک دوسرے سے گلے ملتے تھے کہ مبارک ہو! صاحب بہادر نے عید مبارک قبول کر لی ہے!
زمانہ بدل گیا۔ مہذب ملکوں میں ایک عام شہری وزیروں اور وزراء اعظم سے بھی بات کرسکتا ہے‘ یہاں شہر کا افسر اعلیٰ رسائی سے کوسوں دور ہے! فیڈ بیک کا کوئی وسیلہ نہیں! نوکر شاہی اپنی دنیا میں مست ہے! کنویں سے باہر کیا ہو رہا ہے؟ کچھ خبر نہیں! ایسے میں رؤف کلاسرا ایک بار نہیں‘ سو بار نوحہ خوانی کرے کہ اسلام آباد برباد ہو رہا ہے‘ کچھ اثر نہیں ہوگا!
نواز شریف ہو یا عمران خان‘ نوکر شاہی کا مخصوص گروپ اُن کی اصلاحات کو سبوتاژ کرتا رہے گا! اصل رکاوٹ وزرا نہیں‘ نوکر شاہی ہے! جن عوام کے خون پسینے کی کمائی سے یہ نوکر شاہی دنیا کے بہترین معیارِ زندگی سے لطف اندوز ہو رہی ہے اور نوابوں جیسے ٹھاٹھ باٹھ سے رہ رہی ہے‘ انہی کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتی!

سوری! جناب وزیراعظم! آپ کی خوش نیتی‘ آپ کا عزمِ ِصمیم‘ اس نوکر شاہی کی موجودگی میں کچھ نہیں کر سکتا نہ کچھ کر سکے گا!



http://dunya.com.pk/index.php/author/muhammad-izhar-ul-haq/2020-01-07/29564/26076938#.XhSZwhdKiRs
 
Last edited by a moderator:

Dream Seller

Chief Minister (5k+ posts)
Dunya news does the cherry-picking and make individual cases a generic issue sometimes, so make sure you don’t fall in their trap. But if it’s factually true then yes there should be a way to tackle it.
 

samkhan

Chief Minister (5k+ posts)
KAPTAAN SAB SIRF BAATEN KOI RELIEF NHI AWAM KE LIYE

کپتان کو ان چیزوں کا علم نہیں ہے. جب علم ہوگا تو اس وقت پانی سر سے گزر چکا ہوگا. پہلے تو جب اپوزیشن میں تھے تو عوام سے رابطہ رہتا تھا اور عوام کا فیڈ بیک بھی ملتا تھا مگر حکومت میں آنے کہ بعد عوام سے کپتان کا تعلق ویسا نہیں رہا. کپتان کی نیت بھلے اچھی ہو مگر کپتان کو پھدو بنانا سب سے آسان کام ہے
 

Khan125

Chief Minister (5k+ posts)
koi kaam lrny vala beta koi maa paeda kr ley.....
kisi ne rasta bnd kia hoa hey kia?
 

Munawarkhan

Chief Minister (5k+ posts)
So his complaint was he's not able to talk to Chief Commisioner Islamabad.

Multiple officers including Deputy Commissioner asked him what the issue is, and he kept on insisting he'll only talk to Chief Commissioner. Now because he couldn't talk to the head of the department, he's now trying to blame the citizen portal.

In all of this process, he didn't mention what the actual issue is, neither complaint about the actual issue, instead took everything to his ego that the chief is not interested to talk to him.

These journalists keep thinking that they are goons, and keep threatening to write against them if things don't get their way. The ultimate looser is the poor public, who entrusted this idiot (IzharulHaq) to solve their issue. For them he will just lie that govt is not cooperating.


دوست عزیز رؤف کلاسرا نے اسلام آباد کی بربادی پر نوحہ خوانی کی ہے۔ یہ فقیر بھی کئی بار سینہ کوبی کرچکا ہے۔ لارڈ کلائیو اور وائسرائے کرزن کی ذہنیت رکھنے والے بیورو کریٹ اسلام آباد کی تقدیر کے مالک و مختار ہوں گے تو نتیجہ وہی برآمد ہوگا جو ہم دیکھ رہے ہیں!
وزیراعظم کا سٹیزن پورٹل اس اُوپر سے کالی اور اندر سے گوری نوکر شاہی کا نیا شکار ہے۔ اسے یہ فٹ بال کی طرح ٹھوکریں مارر ہے ہیں۔ کم درجے کے اہلکاروں کے لیے تو یہ پورٹل ہو سکتا ہے مؤثر ہو‘ مگر جن کے ہاتھوں میں اصل اقتدار ہے‘ وہ اس پورٹل کے ساتھ یوں کھیل رہے ہیں جیسے حکومت نہ ہو بازیچہ ہو! اس حقیقت میں کیا شک ہے کہ نوکر شاہی‘ وزیراعظم عمران خان کی اصلاحات کو ناکام کرنے پر تُلی ہوئی ہے اور ایک حد تک کامیاب بھی ہو چکی ہے!
یہ تجربہ سنا سنایا نہیں‘ ذاتی ہے۔ جو حشر پورٹل کا ہوا‘ اس پر ہنسی آتی ہے اور رحم بھی! یہ کالم نگار وفاقی دارالحکومت کے جس حصے میں رہتا ہے‘ وہاں کا ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے خلق ِخدا عاجز آ چکی ہے! چونکہ تعلق میڈیا سے ہے اس لیے کچھ شرفا‘ جو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے‘ آئے اور سر جوڑ کر بیٹھے کہ کیا کیا جائے۔ چونکہ مسئلہ چیف کمشنر کے دائرہ کار میں پڑ رہا تھا اس لیے طے ہوا کہ چیف کمشنر سے وقت لے کر ان سے ملاقات کی جائے اور بتایا جائے کہ یہ آپ کا فرض ہے جو ادا نہیں ہو رہا۔ چیف کمشنر سے بات کرنے کا قرعۂ فال کالم نگار کے نام نکلا۔
یہ چار ستمبر 2019ء تھا جب اس کالم نگار نے چیف کمشنر اسلام آباد کو فون کیا۔ پرائیویٹ سیکرٹری مسٹر مشتاق نے بتایا کہ وہ سیٹ پر نہیں ہیں۔ آئیں گے تو بات کرائیں گے۔ فون نمبر‘ نام نوٹ کرایا۔ پھر معلوم ہوا کہ صاحب‘ سی ڈی اے کے چیئرمین بھی ہیں۔ وہاں فون کیا۔ پرائیویٹ سیکرٹری مسٹر رفاقت نے بتایا کہ مصروف ہیں۔ فارغ ہوں گے تو بات کرائیں گے۔ وہاں بھی نام اور فون نمبر نوٹ کرایا۔ یہ بھی وضاحت کی کہ سائل اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے‘ ذمہ دار شہری ہے اور ٹیکس ادا کرتا ہے اور چیف کمشنر سے کسی مسئلے پر بات کرنا چاہتا ہے۔ اگلے دن پانچ ستمبر کو پھر دونوں جگہ فون کیا اور عرضداشت دہرائی۔ بات نہ ہو سکی۔ چھ ستمبر کو پھر یہ سارا عمل دہرایا گیا‘ سات اور آٹھ ستمبر کو سنیچر اور اتوار تھا۔ نو ستمبر پیر کے دن پھر سائل نے کوشش کی۔ یہ عمل جاری رہا تاوقتیکہ معاونین (پرائیویٹ سیکرٹریز) نے عاجز آ کر صاف کہا کہ جناب! ہمارا کام تو صاحب کو بتانا ہے۔ وہ بات کریں یا نہ کریں ان کی صوابدید ہے!
انیس دن انتظار کرنے کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ چیف کمشنر سے بات کرنا ممکن نہیں! ایک قانون پسند شہری کا بنیادی حق ہے کہ اسے پبلک سرونٹ تک رسائی حاصل ہو تاکہ وہ اپنے حقوق کی حفاظت کر سکے! چنانچہ 23ستمبر کو سٹیزن پورٹل پر شکایت رجسٹر کرائی۔ شکایت کا نمبر تھا 15230919-4768571
متن یہ تھا :
''ایک شہری اور ایک ٹیکس دہندہ کی حیثیت سے چیف کمشنر صاحب سے بات کرنا چاہی تاکہ کچھ معاملات پر احتجاج کیا جا سکے۔ چار ستمبر کو فون کیا۔ پانچ چھ اور نو ستمبر کو بھی فون کیا پرائیویٹ سیکرٹریوں مسٹر مشتاق اور مسٹر رفاقت کو پیغام لکھوائے‘ چیف کمشنر سے بات نہیں ہو سکی۔ شکایت یہ ہے کہ وہ قابلِ رسائی (Accessible) نہیں ہیں!!‘‘
اس شکایت کی کیٹیگر ی ''انسانی حقوق‘‘ اور ''حقوق سے انکار‘‘ تھی! شکایت کے ساتھ کیا ہوا؟ اس کی تاریخ وار تفصیل قارئین کی بصارت پر ناروا بوجھ ہوگا اور کالم کی صنف کے ساتھ زیادتی! مختصراً یہ کہ پہلا کھلواڑ شکایت کے ساتھ یہ ہوا کہ جس چیف کمشنر کے خلاف شکایت تھی‘ یہ اُسی کے ماتحت ڈپٹی کمشنر کو بھیج دی گئی‘ یعنی ع
یکی برسرِ شاخ ‘بُن می برید
کہ جس شاخ پر بیٹھا تھا‘ اُسی کو کاٹ رہا تھا۔ کیا پاکستان کی نوکر شاہی میں یہ ممکن ہے کہ کوئی اپنے افسرِ بالا سے بازپرس کرے کہ آپ ایک شہری کے لیے قابل رسائی کیوں نہیں؟
ڈپٹی کمشنر کیا کر سکتا تھا؟ اُس نے خط و کتابت شروع کر دی۔ سائل سے پوچھا گیا کہ تفصیل بتائیے‘ سائل نے پھر عرض گزاری کہ صاحب بہادر! تفصیل اس سے زیادہ نہیں کہ ساری ممکن کوششوں کے باوجود چیف کمشنر سے بات نہیں ہو سکتی! کہا گیا کہ ''اپنے پوائنٹ کی تشریح کیجیے‘‘ جواب میں عرض کیا گیا کہ تفصیل بتائی جا چکی ہے اور یہ کہ چیف کمشنر کے خلاف شکایت اُس کے ماتحت کو بھیجنا پورٹل کے ساتھ مذاق ہے! اس کا جواب یہ دیا گیا کہ تفصیلات مہیا کیجیے!
یہ فٹ بال کئی دن ٹھوکریں کھاتا رہا! پھر کہا گیا کہ ڈپٹی کمشنر بات کرنا چاہتے ہیں! عرض کیا گیا کہ ناقابلِ رسائی چیف کمشنر صاحب ہیں! ڈپٹی کمشنر نہیں! پھر کہا گیا کہ چیف کمشنر صاحب کے دفتر حاضر ہوں! اس کے جواب میں شکایت کنندہ نے پھر ساری صورت حال بتائی کہ''معاملے کو اس لیے لٹکایا جا رہا ہے کہ چیف کمشنر کو ذمہ داری سے بچایا جا سکے! ایشو یہ ہے کہ چیف کمشنر ناقابل رسائی ہیں اور وہ شہری کی کسی کال کو درخور ِاعتنا نہیں گردانتے۔ ڈپٹی کمشنر سے بات کا کوئی فائدہ نہیں! جیسا کہ وزیراعظم نے ہدایت کی ہے‘ معاملہ چیف کمشنر سے سینئر اتھارٹی کی سطح کا ہے۔ چیف کمشنر پابند ہے کہ اپنی نارسائی کی وجہ بیان کرے‘‘۔چیف کمشنر سے بات کیا ہونی تھی شکایت مسلسل فٹ بال بنی رہی! یہاں تک کہ چھ دسمبر کو ''جزوی داد رسی کر دی گئی‘‘ کہہ کر نمٹا دی گئی۔
یہ ہے حشر وزیراعظم کے پورٹل کا جو اعلیٰ نوکر شاہی کر رہی ہے! اصولی طور پر چیف کمشنر کے باس کو چیف کمشنر سے پوچھنا چاہیے تھا کہ کیا ایک یا دو ماہ کے بعد بھی آپ سائل سے بات نہیں کر سکتے؟ اگر ایسا ہے تو پھر اُس ٹیلی فون کا کیا فائدہ جس کا بل حکومت ادا کر رہی ہے؟
بستی کے شرفا کو جب بتایا گیا کہ چیف کمشنر صاحب سے ملنا تو درکنار‘ بات کرنا بھی ناممکن ہے تو ان کا ایک ہی کمنٹ تھا کہ جب اعلیٰ ترین درجے سے ریٹائر ہونے والا بیورو کریٹ‘ جس کا میڈیا سے بھی تعلق ہے‘ چیف کمشنر سے بات نہیں کر سکتا تو ہما و شما کا کیا حال ہو گا ؛ ع
قیاس کن زگلستانِ من بہارِ مرا
چیف کمشنر صاحب کا عوام کے ساتھ رویہ دیکھ کر انگریز ڈپٹی کمشنروں کے واقعات یاد آ گئے۔ عید کے موقع پر علاقے کے جاگیردار‘ زمیندار‘ معززین‘ حاضر ہوتے تھے اور کوٹھی کے لان میں کھڑے ہو کر صاحب بہادر کا انتظار کرتے تھے کہ درشن ہو تو عید مبارک عرض کی جائے! طویل انتظار کے بعد اندر سے ملازم آتا تھا اور خوش خبری دیتا تھا کہ صاحب نے عید مبارک قبول کر لی ہے یہ سن کر‘ انتظار کرنے والے‘ جنہوں نے طّرے باندھے ہوتے تھے اور اچکنیں زیب تن کر رکھی ہوتی تھیں‘ ایک دوسرے سے گلے ملتے تھے کہ مبارک ہو! صاحب بہادر نے عید مبارک قبول کر لی ہے!
زمانہ بدل گیا۔ مہذب ملکوں میں ایک عام شہری وزیروں اور وزراء اعظم سے بھی بات کرسکتا ہے‘ یہاں شہر کا افسر اعلیٰ رسائی سے کوسوں دور ہے! فیڈ بیک کا کوئی وسیلہ نہیں! نوکر شاہی اپنی دنیا میں مست ہے! کنویں سے باہر کیا ہو رہا ہے؟ کچھ خبر نہیں! ایسے میں رؤف کلاسرا ایک بار نہیں‘ سو بار نوحہ خوانی کرے کہ اسلام آباد برباد ہو رہا ہے‘ کچھ اثر نہیں ہوگا!
نواز شریف ہو یا عمران خان‘ نوکر شاہی کا مخصوص گروپ اُن کی اصلاحات کو سبوتاژ کرتا رہے گا! اصل رکاوٹ وزرا نہیں‘ Sنوکر شاہی ہے! جن عوام کے خون پسینے کی کمائی سے یہ نوکر شاہی دنیا کے بہترین معیارِ زندگی سے لطف اندوز ہو رہی ہے اور نوابوں جیسے ٹھاٹھ باٹھ سے رہ رہی ہے‘ انہی کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتی!

سوری! جناب وزیراعظم! آپ کی خوش نیتی‘ آپ کا عزمِ ِصمیم‘ اس نوکر شاہی کی موجودگی میں کچھ نہیں کر سکتا نہ کچھ کر سکے گا!




http://dunya.com.pk/index.php/author/muhammad-izhar-ul-haq/2020-01-07/29564/26076938#.XhSZwhdKiRs
 

Munawarkhan

Chief Minister (5k+ posts)
Read the article first, then comment.

کپتان کو ان چیزوں کا علم نہیں ہے. جب علم ہوگا تو اس وقت پانی سر سے گزر چکا ہوگا. پہلے تو جب اپوزیشن میں تھے تو عوام سے رابطہ رہتا تھا اور عوام کا فیڈ بیک بھی ملتا تھا مگر حکومت میں آنے کہ بعد عوام سے کپتان کا تعلق ویسا نہیں رہا. کپتان کی نیت بھلے اچھی ہو مگر کپتان کو پھدو بنانا سب سے آسان کام ہے
KAPTAAN SAB SIRF BAATEN KOI RELIEF NHI AWAM KE LIYE
 

samkhan

Chief Minister (5k+ posts)
So his complaint was he's not able to talk to Chief Commisioner Islamabad.

Multiple officers including Deputy Commissioner asked him what the issue is, and he kept on insisting he'll only talk to Chief Commissioner. Now because he couldn't talk to the head of the department, he's now trying to blame the citizen portal.

In all of this process, he didn't mention what the actual issue is, neither complaint about the actual issue, instead took everything to his ego that the chief is not interested to talk to him.

These journalists keep thinking that they are goons, and keep threatening to write against them if things don't get their way. The ultimate looser is the poor public, who entrusted this idiot (IzharulHaq) to solve their issue. For them he will just lie that govt is not cooperating.

چیف کمشنر کیا پبلک کا نوکر نہیں؟ ٹھیک ہے بڑا افسر ہوگا لیکن کوئی سائل اگر ملنا چاہتا ہے تو اسے کچھ دن بعد اسے ملنے میں کیا قباحت ہے؟ مجھے نہیں لگتا کہ چیف کمشنر سے عام ملاقاتیوں یا سائلین کی کوئی لمبی فہرست بھی ہوگی جس کی وجہ سے وہ ٹائم نہیں دے پا رہا تھا. کالم لکھنے والے خود کچھ عرصۂ پہلے بائیس گریڈ میں ریٹائرڈ ہوا ہے، ہوسکتا ہے کہ ایگو کا مسئلہ بھی ہو لیکن یہ بھی ممکن ہے سابق سرکاری افسر ہونے کہ ناتے انہیں معلوم ہوگا یہ مسئلہ صرف چیف کمشنر ہی حل کر سکتا ہے جبھی وہ ملنا چاہتا ہو
 

Munawarkhan

Chief Minister (5k+ posts)
آپ کہ پوسٹ کرنے سے پہلے ہی دنیا اخبار میں پڑھ لیا تھا. کیوں؟

In my opinion, the guy didn't use the citizen portal to register a public complaint, instead his complaint was only that Chief commissioner is not replying to his call.

Why he thinks he's entitled, is it because he is an ex-bureaucrat and now in media.

So my question is not that IK knows or doesnt know about the issue instead:
Why didn't he complaint about the actual issue?

Is it right to conclude that Citizen portal is not useful, considering they tried multiple times to ask him about the issue he wants to discuss?
 

Munawarkhan

Chief Minister (5k+ posts)
True, but maybe Chief could've met him if he actually raised the issue.
He had the time to register the complaint about the Chief but not about the actual issue.

Eventually the loss is of the people whose issue he took. because in all these days, his concern was only his ego, not the actual issue.


چیف کمشنر کیا پبلک کا نوکر نہیں؟ ٹھیک ہے بڑا افسر ہوگا لیکن کوئی سائل اگر ملنا چاہتا ہے تو اسے کچھ دن بعد اسے ملنے میں کیا قباحت ہے؟ مجھے نہیں لگتا کہ چیف کمشنر سے عام ملاقاتیوں یا سائلین کی کوئی لمبی فہرست بھی ہوگی جس کی وجہ سے وہ ٹائم نہیں دے پا رہا تھا. کالم لکھنے والے خود کچھ عرصۂ پہلے بائیس گریڈ میں ریٹائرڈ ہوا ہے، ہوسکتا ہے کہ ایگو کا مسئلہ بھی ہو لیکن یہ بھی ممکن ہے سابق سرکاری افسر ہونے کہ ناتے انہیں معلوم ہوگا یہ مسئلہ صرف چیف کمشنر ہی حل کر سکتا ہے جبھی وہ ملنا چاہتا ہو
 

miangan

MPA (400+ posts)

کپتان کو ان چیزوں کا علم نہیں ہے. جب علم ہوگا تو اس وقت پانی سر سے گزر چکا ہوگا. پہلے تو جب اپوزیشن میں تھے تو عوام سے رابطہ رہتا تھا اور عوام کا فیڈ بیک بھی ملتا تھا مگر حکومت میں آنے کہ بعد عوام سے کپتان کا تعلق ویسا نہیں رہا. کپتان کی نیت بھلے اچھی ہو مگر کپتان کو پھدو بنانا سب سے آسان کام ہے
Bilkul kapan poodoo hay saraf speach mi oska koi sani nahe. Jithna ganad corruption ka tha nikal kuch nahe bilk inko es ki hokmat mi saf keya gaya. Es biwaqof ni hum sub ko biwaqof banaya. Es mi koi shak nahe ke ye masom insan hay liken eski erd gherd wohe choor hokomat mi hay in ko es waqat esthifa deyna chaheye tha jesdin establishment ki order par nora ko bahar bejwa deya tha . Ye bechara bori thrha phans geya hay anjam keya hoga saf nazar aa raha hay
 

samkhan

Chief Minister (5k+ posts)
In my opinion, the guy didn't use the citizen portal to register a public complaint, instead his complaint was only that Chief commissioner is not replying to his call.

Why he thinks he's entitled, is it because he is an ex-bureaucrat and now in media.

So my question is not that IK knows or doesnt know about the issue instead:
Why didn't he complaint about the actual issue?

Is it right to conclude that Citizen portal is not useful, considering they tried multiple times to ask him about the issue he wants to discuss?

کالم میں لکھا ہے کہ بطور شہری ہمارا یہ حق ہے کہ پبلک سرونٹ تک رسائی ہو اگر رسائی نہ ملی تو اسکی شکایت ایپ میں انسانی حقوق اور حقوق سے انکار والی کٹیگری میں ڈال کر درج کروائی گئی. ہوسکتا ہے کہ یہ عام بندوں کہ لیے اتنا اہم نہ ہو مگر اصول اصول ہے

بہرحال عوامی شکایت کہ ازالے کا کام صرف سرکاری افسران پر نہیں رکھا جاسکتا. پاکستان میں سب کو معلوم ہے یہ لوگ کس طرح حرام خوری کرتے ہیں. جن لوگوں کی شکایت دور نہیں ہوتی انکی فیڈ بیک لینے اور اسے دور کرنے کا بھی وزیراعظم ہاؤس میں کوئی انتظام ہونا چاہئے