پاکستان کی نامور خاتون صحافی عاصمہ شیرازی نے برطانوی نشریاتی ادارے کے اردو پلیٹ فارم پر ایک کالم لکھا جس میں وزیراعظم اور ان کے اہلخانہ کا نام لیے بغیر ذاتی نوعیت کے حملے کیے۔ انہوں نے یہ کالم اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے شیئر بھی کیا۔
خاتون صحافی نے اس کے کیپش میں لکھا کہ اب کالے بکرے سرِ دار چڑھیں یا کبوتروں کا خون بہایا جائے، پُتلیاں لٹکائی جائیں یا سوئیاں چبھوئی جائیں، معیشت یوں سنبھلنے والی نہیں جبکہ معیشت کے تقاضے تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اس کے جواب میں تحریک انصاف کے مختلف رہنماؤں نے سخت مؤقف اپنایا اور عاصمہ شیرازی کے کالم میں کیے گئے دعوؤں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس طرح ذاتی نوعیت کے حملے نہیں کرنے چاہییں۔ رہنما تحریک انصاف مسرت چیمہ اور معاون خصوصی شہباز گل نے کہا کہ وہ سابق حکومت سے مالی فوائد حاصل کرتی رہی ہیں جو اس حکومت سے انہیں میسر نہیں۔
اس کالم کے چھپنے پر تنقید کے بعد مخصوص صحافی عاصمہ شیرازی کی حمایت میں بھی سامنے آئے ہیں۔ جن میں اویس توحید، بینظیر شاہ، ریما عمر، محمل سرفراز، زیب النساء برکی، عمار علی جان و دیگر شامل ہیں۔
ٹوئٹر پر ہی صحافی اویس توحید نے لکھا کہ درست اخلاقیات جمہوریت کا اہم جزو ہے۔
انہوں نے مزید کہا لیکن اس طرح کے اقوال زریں اپنے مشیران کو روزانہ یاد کرائیں اور عمل کی ہدایت دیں۔ آج ہی ہماری ساتھی عاصمہ شیرازی کی صحافتی کردار کشی کی کوشش کی گئی ہے جو بد تہذیبی ہے اور قابل مذمت بھی۔
فہد حسین نے کہا کہ پی ٹی آئی کے مختلف پارٹی عہدیداروں کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے بڑے پیمانے پر معزز ایوارڈ یافتہ صحافی عاصمہ شیرازی کو آن لائن ہراساں کرنا قابل مذمت ہے۔ پارٹی قیادت کو اسے فوری طور پر روکنا چاہئے۔
بینظیر شاہ نے تحریک انصاف کے آفیشل اکاؤنٹ سے عاصمہ شیرازی کے متعلق ٹوئٹ کا حوال دیتے ہوئے کہا کہ حکمران سیاسی پارٹی کی جانب سے ہماری نڈر خاتون صحافی کو چپ کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ریما عمر نے کہا کہ یہ ثبوت ہے کہ کس طرح ان کی قابل دوست اور خاتون صحافی پر الزام تراشی اور کردار کشی کی جا رہی ہے۔ انہوں نے ایک اور پیغام میں کہا کہ کیا انہیں سمجھ نہیں آتی کہ حکومت پر تنقید کرنا اور سوال پوچھنا ہی صحافی کا کام ہے۔ اس میں کسی کی اطاعت کرنے کا تاثر پھیلانا غلط ہے۔
محمل سرفراز نے کہا کہ حکمران جماعت کی جانب سے اس طرح خاتون صحافی کو ہراساں کیا جا رہا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ٹرول کہاں بیٹھے ہیں۔ انہوں نے عاصمہ شیرازی کو اپنے بھرپور ساتھ کا یقین دلایا۔
زیب النسا برکی نے کہا کہ اس طرح کے حملے کر کے عاصمہ شیرازی کو چپ نہیں کرایا جا سکتا، کیونکہ وہ بہادر اور نرم دل شخصیت کی حامل ہیں۔
یہی نہیں کچھ صحافیوں نے ان کے اس کالم کی کھل کر تعریف بھی کی، عمار علی جان نے کہا کہ عاصمہ شیرازی نے نہایت باکمال کالم لکھا ہے۔ جس سے ان کی بہادری اور بے باکی عیاں ہے حکومت اس سے خوفزدہ نظر آ رہی ہے۔ اس کے ترجمان بھی پریشان ہیں۔
ابصار عالم نے کہا کہ بہت اعلیٰ آپ کی بات اور تجاویز اچھی اور میانہ روی والی ہیں۔ کاش کہ لوگ چند الفاظ کی بجائے پورا کالم پڑھ کر تبصرہ کریں۔
صحافی مظہر عباس نے عاصمہ شیرازی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ہمیشہ عاصمہ شیرازی کو ایک اینکر بننے سے پہلے ہی محنتی صحافی کے طور پر پایا۔ ان کے خیالات سے اختلاف ہوسکتا ہے اور کسی دوسرے صحافی کی طرح وہ اپنے خیالات پر تنقید کا نشانہ بھی بن سکتی ہے لیکن دھمکی اور ہراساں کرنا صرف ناقابل قبول ہے۔ میں عاصمہ شیرازی کے ساتھ کھڑا ہوں۔
افتخاراحمد کا کہنا تھا کہ لفظوں کا جو استعمال عاصمہ شیرازی نے کیا ہے یہ پچھلے دو سال سے چھپنے والے استعاروں اور تشبیہوں پر مبنی تحریروں کے حوالہ سے بہترین کالم قرار دیا جا سکتا ہے۔اس کی مخالفت کرنے والے لفظوں کے استعمال کو سمجھنے سے عاری ہیں۔۔اس کی مخالفت کرکے وہ خود ہی اس کی تشہیر کر رہے ہیں
منصور علی خان نے بھی عاصمہ شیرازی کی حمایت کی۔
طاہر عمران میاں نے بھی عاصمہ شیرازی کے کالم کی اپنے الفاظ میں تعریف کی۔
ماجد نظامی نے لکھا کہ صحافی عاصمہ شیرازی کی تحریر پر 60 منٹ گزرنے سے پہلے ہی حکومتی جواب آنا ظاہر کرتا ہے کہ تحریر کی کاٹ تلوار کی دھار سے کہیں زیادہ کاری ثابت ہوئی۔