ن لیگ کے حمایتی صحافیوں کی رائے بدل گئی، عدم اعتماد کو غلطی قراردیدیا

14pmlnhamaytisahafipreshaaat.jpg

پاکستان مسلم لیگ ن کیلئے نرم گوشہ رکھنے اور تحریک انصاف پر تنقید کرنے والے صحافیوں کی ایک بار پھر سے رائے بدل گئی ہے، صحافیوں نے عدم اعتماد کو بھی ایک غلطی قرار دیدیا ہے ۔

تفصیلات کے مطابق عمران خان کو گھر بھیجنے کے بعد اتحادی جماعتوں کی حکومت کو ایک ماہ گزرنے کے بعد عدم اعتماد کی حمایت میں بڑھ چڑھ کر بولنے والے صحافیوں کی رائے بھی بدل گئی ہے اور انہوں نے اس حوالے سے پی ڈی ایم جماعتوں پرطنز کرنا شروع کردیئے ہیں۔

سینئر صحافی مطیع اللہ جان نے اس حوالے سے ٹویٹر پر اپنے بیان میں سرائیکی زبان استعمال کرتے ہوئے کہا کہ اور لیں مزے عدم اعتمادیوں کے۔

Whats-App-Image-2022-05-19-at-7-47-35-PM.jpg


تحریک انصاف کو سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنانے والے صحافی و تجزیہ کار سلیم صافی نے موجودہ صورتحال میں ریاستی اداروں کو سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے مقتدر حلقوں نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا، اگر عمرانی بلیک میلنگ کا شکار ہوکر حکومت کو اسمبلی توڑنے پر مجبور کیا گیا تو مقتدر حلقوں کی وہ پوزیشن ہوجائے گی کہ نا خدا ہی ملا نا وصال صنم۔

انہوں نے کہا کہ انہیں پھر نا عمران خان اپنائیں گے اور دوسری طرف باقی تمام سیاسی جماعتیں بھی بھپر جائیں گی۔

نصرت جاوید نے بھی اس سے ملتا جلتا بیانیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان ملٹری اور عدلیہ پر دباؤ ڈال رہے ہیں، ملٹری و عدلیہ حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں جبکہ حکومت خود اپنے اوپر دباؤ ڈال رہی ہے، لاڈلا اقتدار میں ہو یا باہر لاڈلا ہی ہوتا ہے۔

سینئر تجزیہ کار نجم سیٹھی بولے کیا اس حکومت کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ میں آکر اسمبلیاں توڑ کر انتخابات کا اعلان کردینا چاہیے؟ یا یہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ڈکٹیشن لینےسے انکار کرنے کی جرات کرسکتی ہے؟

سینئر اینکر و تجزیہ کار محمد مالک نے کہا کہ وزیراعظم آفس میں ہلچل کا سماں ہے، وزیراعظم کی تمام مصروفیات منسوخ کردی گئی ہیں اور اس وقت بحث یہ چل رہی ہے کہ وزیراعظم کو کب قوم سے خطاب کرنا چاہیے، "ایک پیج" اب مزید ایک نہیں رہا۔

سرل المیڈا نے کہا کہ ن لیگ اس وقت کسی ڈیل کی تلاش میں ہے جبکہ عمران خان لڑکوں کو اپنے تابع کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش میں ہیں۔

سینئر تجزیہ کار نصرت جاوید بولے کیا میں نے پہلے بار بار یہ نہیں بتایا تھا کہ شہباز شریف اور ان کے اتحادی دھوکہ کھا گئے ہیں، عمران خان کو عدم اعتماد کے ذریعے نکالنا ایک غلط فیصلہ تھا، اس میں کامیابی کے باوجود ان کے پاس قبل از وقت انتخابات ہی واحد آپشن بچتا ہے۔

عمر چیمہ نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو عمران خان سے یہ سیکھنا چاہیے کہ اداروں سےکیسے پیش آیا جائے تو وہ نہ صرف بات سنتے ہیں بلکہ آپ کے موقف کے ترجمان بھی بن جاتے ہیں۔

کامران یوسف بولےایک طرف پی ڈی ایم کہتی ہے کہ اسٹیبلمشنٹ نیوٹرل ہوگئی ہے تو دوسری طرف اسی اسٹیبلشمنٹ سے ضمانت مانگی جارہی ہے کہ ہم مشکل فیصلے تب کریں گے جب ہمیں بقیہ مدت تک حکومت میں رہنے دیا جائے گا۔

یادرہے کہ سینئر صحافی و تجزیہ کار سینئر صحافی و تجزیہ کار سید طلعت حسین نے چند روز قبل اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ نواز شریف نے عمران خان کی تباہ کن پالیسیوں کی سیاسی قیمت چکانے سے انکار کردیا ہے،اب بے سمت و بے اثر نظر آنے والے وزیراعظم شہباز شریف کے پاس اسمبلیاں تحلیل کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا ۔
 

Citizen X

President (40k+ posts)
Only means msg has been sent in whatsapp lifafa group to prepare for dissolving assemblies and calling elections.
 

Ferrari

Senator (1k+ posts)
سلیم صافی، حامد میر، منصور علی خان، شاہزیب خانزادہ، سہیل وڑائچ، نجم سیٹھی، عاصمہ شیرازی، منیزے جہانگیر، غریدہ فاروقی، کامران شاہد اور اس قماش کے تمام صحافتی دلالوں اور طوائفوں پر لعنت بے شمار

copied
 

stranger

Chief Minister (5k+ posts)
wah kia post hai... tumam kanjar aik post main pro diay takeh awam aik saath mushtarka lanat bhej sakay in naam nihad tawaifi sahafion per
 

Melanthus

Chief Minister (5k+ posts)
سلیم صافی، حامد میر، منصور علی خان، شاہزیب خانزادہ، سہیل وڑائچ، نجم سیٹھی، عاصمہ شیرازی، منیزے جہانگیر، غریدہ فاروقی، کامران شاہد اور اس قماش کے تمام صحافتی دلالوں اور طوائفوں پر لعنت بے شمار

copied
In per lakh di lanaat.
 

fatimakhan

Councller (250+ posts)
14pmlnhamaytisahafipreshaaat.jpg

پاکستان مسلم لیگ ن کیلئے نرم گوشہ رکھنے اور تحریک انصاف پر تنقید کرنے والے صحافیوں کی ایک بار پھر سے رائے بدل گئی ہے، صحافیوں نے عدم اعتماد کو بھی ایک غلطی قرار دیدیا ہے ۔

تفصیلات کے مطابق عمران خان کو گھر بھیجنے کے بعد اتحادی جماعتوں کی حکومت کو ایک ماہ گزرنے کے بعد عدم اعتماد کی حمایت میں بڑھ چڑھ کر بولنے والے صحافیوں کی رائے بھی بدل گئی ہے اور انہوں نے اس حوالے سے پی ڈی ایم جماعتوں پرطنز کرنا شروع کردیئے ہیں۔

سینئر صحافی مطیع اللہ جان نے اس حوالے سے ٹویٹر پر اپنے بیان میں سرائیکی زبان استعمال کرتے ہوئے کہا کہ اور لیں مزے عدم اعتمادیوں کے۔

Whats-App-Image-2022-05-19-at-7-47-35-PM.jpg


تحریک انصاف کو سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنانے والے صحافی و تجزیہ کار سلیم صافی نے موجودہ صورتحال میں ریاستی اداروں کو سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے مقتدر حلقوں نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا، اگر عمرانی بلیک میلنگ کا شکار ہوکر حکومت کو اسمبلی توڑنے پر مجبور کیا گیا تو مقتدر حلقوں کی وہ پوزیشن ہوجائے گی کہ نا خدا ہی ملا نا وصال صنم۔

انہوں نے کہا کہ انہیں پھر نا عمران خان اپنائیں گے اور دوسری طرف باقی تمام سیاسی جماعتیں بھی بھپر جائیں گی۔

نصرت جاوید نے بھی اس سے ملتا جلتا بیانیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان ملٹری اور عدلیہ پر دباؤ ڈال رہے ہیں، ملٹری و عدلیہ حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں جبکہ حکومت خود اپنے اوپر دباؤ ڈال رہی ہے، لاڈلا اقتدار میں ہو یا باہر لاڈلا ہی ہوتا ہے۔

سینئر تجزیہ کار نجم سیٹھی بولے کیا اس حکومت کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ میں آکر اسمبلیاں توڑ کر انتخابات کا اعلان کردینا چاہیے؟ یا یہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ڈکٹیشن لینےسے انکار کرنے کی جرات کرسکتی ہے؟

سینئر اینکر و تجزیہ کار محمد مالک نے کہا کہ وزیراعظم آفس میں ہلچل کا سماں ہے، وزیراعظم کی تمام مصروفیات منسوخ کردی گئی ہیں اور اس وقت بحث یہ چل رہی ہے کہ وزیراعظم کو کب قوم سے خطاب کرنا چاہیے، "ایک پیج" اب مزید ایک نہیں رہا۔

سرل المیڈا نے کہا کہ ن لیگ اس وقت کسی ڈیل کی تلاش میں ہے جبکہ عمران خان لڑکوں کو اپنے تابع کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش میں ہیں۔

سینئر تجزیہ کار نصرت جاوید بولے کیا میں نے پہلے بار بار یہ نہیں بتایا تھا کہ شہباز شریف اور ان کے اتحادی دھوکہ کھا گئے ہیں، عمران خان کو عدم اعتماد کے ذریعے نکالنا ایک غلط فیصلہ تھا، اس میں کامیابی کے باوجود ان کے پاس قبل از وقت انتخابات ہی واحد آپشن بچتا ہے۔

عمر چیمہ نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو عمران خان سے یہ سیکھنا چاہیے کہ اداروں سےکیسے پیش آیا جائے تو وہ نہ صرف بات سنتے ہیں بلکہ آپ کے موقف کے ترجمان بھی بن جاتے ہیں۔

کامران یوسف بولےایک طرف پی ڈی ایم کہتی ہے کہ اسٹیبلمشنٹ نیوٹرل ہوگئی ہے تو دوسری طرف اسی اسٹیبلشمنٹ سے ضمانت مانگی جارہی ہے کہ ہم مشکل فیصلے تب کریں گے جب ہمیں بقیہ مدت تک حکومت میں رہنے دیا جائے گا۔

یادرہے کہ سینئر صحافی و تجزیہ کار سینئر صحافی و تجزیہ کار سید طلعت حسین نے چند روز قبل اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ نواز شریف نے عمران خان کی تباہ کن پالیسیوں کی سیاسی قیمت چکانے سے انکار کردیا ہے،اب بے سمت و بے اثر نظر آنے والے وزیراعظم شہباز شریف کے پاس اسمبلیاں تحلیل کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا ۔
Dallay sahafion say hakumat jaati Dekh Kar shobaaz nay lifafay wapis maang liyay