نواز عدلیہ گٹھ جوڑ

Muhmmad Bilal

Voter (50+ posts)
آئیں، کچھ ہسٹری کے اوراق پلٹ کر دیکھیں۔
1991
میں جب نوازشریف پہلی مرتبہ وزیراعظم بنا اور پنجاب میں غلام حیدروائیں کی حکومت ہوا کرتی تھی، اس وقت عاصمہ جہانگیر اور پیپلزلائرزفورم کے پاس ہائیکورٹ بار کا کنٹرول ہوا کرتا تھا۔ نوازشریف کو یہ بات سخت ناپسند تھی، چنانچہ اس نے 1991 میں ملک نعیم، چوہدری امیر حسین اور عبدالستار لالیکا کے ذریعے بھاری رقم خرچ کر اپنے ایک قریبی دوست کو لاہور ہائیکورٹ بار کا سیکرٹری جنرل بنوا دیا۔

1997 میں نوازشریف دوسری مرتبہ وزیراعظم بنا اور بیوروکریسی میں جو سب سے پہلی تقرری کی، وہ سیکرٹری قانون کی تھی۔ یہ سیکرٹری قانون وہی تھا جسے 1991 میں لاہور ہائیکورٹ بار کا سیکرٹری جنرل بھی بنوایا گیا تھا۔ یاد رہے، 1997 میں نوازشریف نے سپریم کورٹ کے ساتھ تاریخی محاذآرائی کرتے ہوئے دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ پر حملہ بھی کروایا تھا۔

1997 میں جب چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ نوازشریف نے محاذ آرائی شروع کی تو اسے تمام قانونی مشوروں کی کمک پہنچانے والا وفاقی سیکرٹری قانون ہی ہوا کرتا تھا۔

پھر دسمبر 1997 میں نوازشریف نے چیف جسٹس کو غیرآئینی اور غیرقانونی طریقے سے عہدے سے فارغ کرکے سپریم کورٹ میں اپنی مرضی کی قیادت کا تقرر کیا، اس کے ساتھ ساتھ صدر کے عہدے پر بھی ایک سابق جج رفیق تارڑ کو منتخب کروا دیا۔

جب حالات قابو میں آگئے تو چند ہفتوں کے بعد وزیراعظم نوازشریف نے ایک سمری بھجوا کر سیکرٹری قانون کو لاہور ہائیکورٹ کا جج تعینات کروا دیا۔ یہ وہ دور تھا جب نوازشریف اپنی مرضی کے تمام فیصلے لاہور ہائیکورٹ سے کروایا کرتا تھا۔ شہبازشریف کی جسٹس قیوم کے ساتھ ریکارڈڈ کالز انٹرنیٹ پر موجود ہیں جن میں وہ اپنی مرضی کے فیصلے لینے کا حکم جاری کررہا ہے۔

پھر 2010 میں اس شخص کو سینیارٹی کی بنیاد پر سپریم کورٹ بھیجنے کا فیصلہ ہوا۔ اس وقت صدر زرداری ہوا کرتا تھا اور اس شخص کی نوازشریف کے ساتھ وفاداری سے بہت اچھی طرح آگاہ تھا، چنانچہ اس نے ایک صدارتی آرڈیننس جاری کرتے ہوئے اس شخص کو ہائیکورٹ کا ایکٹنگ چیف جسٹس بنا دیا اور اس کی جگہ خواجہ شریف کو سپریم کورٹ میں بھیجنے کا حکم نامہ جاری کردیا۔ جسٹس افتخار نے شام 7 بجے اس کا سوموٹو نوٹس لیتے ہوئے تین ججوں کا بنچ مقرر کیا جنہوں نے فی الفور آرڈیننس منسوخ کرکے اس شخص کو سپریم کورٹ کا جج بنا دیا۔

یہ شخص آج کل سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ہے اور اس کا نام ثاقب نثار ہے۔

جناب والا، ثاقب نثار صاحب اسٹیبلشمنٹ اور نوازشریف کی گریٹ گیم کا حصہ ہیں اور ابھی تک جو کچھ بھی ہوا، اس میں نوازشریف کی پوری رضامندی شامل تھی، اس کے ثبوت کے طور پر مندرجہ ذیل دلائل پیش خدمت ہیں:

1۔ تیسری ٹرم کے چار سال میں نوازشریف ڈیلیور کرنے میں مکمل ناکام ہوچکا تھا اور اگر وہ وزارت عظمی پر فائز رہتے ہوئے 2018 کے الیکشن میں جاتا تو اس کے پاس ووٹرز سے کہنے کیلئے کچھ نہ ہوتا۔

2۔ پانامہ لیکس اور جے آئی ٹی کی رپورٹ ایک مکمل ٹرائل تھا جس میں پاکستان کی تمام تحقیقاتی ایجنسیز کے اراکین شامل تھے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں شہادتیں، گواہیاں اور جرائم کے مکمل ثبوت موجود تھے لیکن اس کے باوجود نوازشریف کو بجائے جیل بھجوانے کے، محض اقامہ کی بنیاد پر نااہل کیا گیا، حالانکہ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر وہ سخت ترین سزا کا مستحق تھا۔

3۔ نوازشریف کو عدالت کی طرف سے مکمل آزادی دی گئی کہ وہ اپنا مظلومیت والا بیانیہ تیار کرکے اگلے الیکشن میں عوام کو نئے سرے سے بیوقوف بنا سکے۔ آج اگر نوازشریف یہ کہتا ہے کہ اسے موقع ملتا تو ہر ایک کے پاس اپنا گھر ہوتا، تو اس پر ایک سمجھدار شخص یا تو ہنسے گا یا روئے گا لیکن جاہل سپورٹرز اس پر واہ واہ کرتے نظر آتے ہیں۔ نوازشریف کو یہ بیانیہ دینے والی کوئی اور نہیں بلکہ پاکستان کی عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ تھی۔

4۔ حدیبیہ پیپرزمل کرپشن کا اتنا واضح کیس ہے کہ اس پر محض آدھے گھنٹے کی سماعت کے بعد شریف برادران کو سزا سنائی جاسکتی تھی لیکن داد دیں اس عدلیہ کی، کہ جس نے نیب کی طرف سے حدیبیہ کیس ری اوپن کرنے کی اپیل یہ کہہ کر مسترد کردی کہ اپیل دائر کرنے کا وقت ختم ہوچکا تھا۔ اس فیصلے کی نظیر دنیا کی عدالتی تاریخ میں نہیں ملتی کیونکہ اپیل دائر کرنے کی مدت سول مقدمات کیلئے ہوتی ہے۔ جہاں ریاست کا خزانہ لوٹا گیا ہو، وہ مقدمہ تو سو سال بعد بھی کھولا جاسکتا ہے کیونکہ وہ عوامی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

5۔ آجکل سپریم کورٹ نوازشریف کی نااہلی کی مدت کا بھی تعین کرنے جارہی ہے اور آپ دیکھتے جائیں کہ یہ عدالت کس قسم کا فیصلہ کرے گی۔

6۔ جس اقامے پر نوازشریف کو نااہل قرار دیا گیا، وہی اقامہ خواجہ آصف اور احسن اقبال سمیت بہت سے دوسرے وزرا کے پاس بھی ہے لیکن سپریم کورٹ اس پر آنکھیں بند کرکے بیٹھی ہے کیونکہ اگر انہیں بھی نااہل قرار دے دیا تو ن لیگ کا پنجاب سے بوریا بستر گول ہوجائے گا۔

7۔ جہانگیر ترین کو ٹیکنیکل بنیادوں پر نااہل قرار دیا گیا حالانکہ اس نے تمام رقم جائز طریقے سے بیرون ملک ٹرانسفر کی تھی۔ مقصد عمران خان کو کمزور کرنا تھا۔

8۔ ن لیگ کی قیادت کی طرف سے جس طرح سپریم کورٹ کو گالیاں دی جارہی ہیں، اس پر بھی عدالت آنکھیں بند کئے بیٹھی ہے کیونکہ اس سے ن لیگ کو سیاسی فائدہ ہورہا ہے۔

9۔ شاہد خاقان عباسی کے خلاف ایل این جی امپورٹ میں کرپشن کا واضح ثبوت موجود تھا، ہر روز ڈھائی کروڑ روپے ایل این جی پلانٹ کے کرائے کی مد میں اپنے دوستوں کو نوازنے کیلئے دیئے جارہے ہیں اور شیخ رشید کی اس مقدمے میں اپیل کو بھی سپریم کورٹ نے پچھلے ہفتے مسترد کردیا۔

جناب، یہ جوڈیشل ایکٹوازم نہیں بلکہ جوڈیشل ٹیکٹ ہے جس کے ذریعے نوازشریف کو فائدہ پہنچایا جارہا ہے۔

آپ سب لوگوں سے درخواست ہے کہ اس فراڈ، اس دھوکے کو پہچانیں۔ سپریم کورٹ، بیوروکریسی اور نوازشریف مل کر آپ سب کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔

قبل اس کے کہ بہت دیر ہوجائے، اس نواز عدلیہ گٹھ جوڑ کے خلاف اپنی آواز بلند کریں!!! بقلم خود باباکوڈا

https://www.facebook.com/babakodda/posts/1662779227123359
 
Last edited by a moderator: