سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی نااہلی سے متعلق 17 سال قبل دائر کی گئی درخواستیں مسترد کر دی ہیں۔
1997 میں دائر کی گئی ان درخواستوں کو غیر موثر ہونے کی بنا پر خارج کیا گیا ہے۔
یہ درخواستیں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بابر اعوان، متحدہ وکلا محاذ اور منظور قادر نے دائر کی تھیں۔
چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ان درخواستوں کی سماعت کی۔
1997 میں دائر ہونے والی ان درخواستوں میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ اُس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نہ صرف مختلف بینکوں کے نادہندہ ہیں بلکہ اُن کے خلاف احتساب عدالتوں میں متعدد مقدمات درج ہیں لہٰذا اُنھیں نااہل قرار دیا جائے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ درخواستیں اس لیے بھی غیر موثر ہو چکی ہیں کہ جس قومی اسمبلی کی رکنیت سے اُس وقت کے وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا جانا تھا وہ اب نہیں رہی۔
سماعت کے دوران درخواست گُزاروں میں سے کوئی بھی کمرۂ عدالت میں موجود نہیں تھا۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے زیر التوا مقدمات کو نمٹنانے کا فیصلہ کیا ہے اور اسی تناظر میں ان درخواستوں کی سماعت کی گئی تھی۔
پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی وزیر اعظم میاں نواز شریف کی نااہلی سے متعلق درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔
ان درخواستوں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج جسٹس جواد ایس خواجہ نے پاکستان کے چیف جسٹس سے لارجر بینچ بنانے کی استدعا کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ عدالت آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 میں انتخابات میں حصہ لینے والے اُمیدواروں سے متعلق صادق اور امین کی تشریح کرے تاکہ ان درخواستوں پر فیصلہ دیا جا سکے۔
درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے غلط بیانی سے کام لیا تھا کہ اُنھوں نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر دھرنا دینے والی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے مذاکرات کے لیے فوج کو سہولت کار کا کردار ادا کرنے کو کہا تھا، تاہم فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ نے اس بیان کی تردید کی تھی۔
Source
1997 میں دائر کی گئی ان درخواستوں کو غیر موثر ہونے کی بنا پر خارج کیا گیا ہے۔
یہ درخواستیں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بابر اعوان، متحدہ وکلا محاذ اور منظور قادر نے دائر کی تھیں۔
چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ان درخواستوں کی سماعت کی۔
1997 میں دائر ہونے والی ان درخواستوں میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ اُس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نہ صرف مختلف بینکوں کے نادہندہ ہیں بلکہ اُن کے خلاف احتساب عدالتوں میں متعدد مقدمات درج ہیں لہٰذا اُنھیں نااہل قرار دیا جائے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ درخواستیں اس لیے بھی غیر موثر ہو چکی ہیں کہ جس قومی اسمبلی کی رکنیت سے اُس وقت کے وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا جانا تھا وہ اب نہیں رہی۔
سماعت کے دوران درخواست گُزاروں میں سے کوئی بھی کمرۂ عدالت میں موجود نہیں تھا۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے زیر التوا مقدمات کو نمٹنانے کا فیصلہ کیا ہے اور اسی تناظر میں ان درخواستوں کی سماعت کی گئی تھی۔
پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی وزیر اعظم میاں نواز شریف کی نااہلی سے متعلق درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔
ان درخواستوں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج جسٹس جواد ایس خواجہ نے پاکستان کے چیف جسٹس سے لارجر بینچ بنانے کی استدعا کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ عدالت آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 میں انتخابات میں حصہ لینے والے اُمیدواروں سے متعلق صادق اور امین کی تشریح کرے تاکہ ان درخواستوں پر فیصلہ دیا جا سکے۔
درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے غلط بیانی سے کام لیا تھا کہ اُنھوں نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر دھرنا دینے والی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے مذاکرات کے لیے فوج کو سہولت کار کا کردار ادا کرنے کو کہا تھا، تاہم فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ نے اس بیان کی تردید کی تھی۔
Source