نری جذباتیت
دلیل ومنطق کا ناحق خون جس قدر ہمارے ہاں کل ہوا ہے، شاید ہی ماضی قریب میں ایسا ہوا ہوگا
چونکہ بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس میں انصاف کا قتل کرکے بھارتیہ سماج وتاریخ کا منہ کالا کردیا لہذا ہمیں بھی کرتارپور راہداری روک کر ویسا ہی رویہ رکھنا چاہیے تھا- یعنی وہ اپنے چہرے پر کالک ملیں تو ہمیں بھی پیروی کرنی چاہیے- ایک نرالی منطق ہے
اور یہ شام غریباں اس طبقہ کی جانب سے بپا کی گئی جو بقول امیرمینائی کے " سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے" - امت کے خودساختہ ٹھیکدار جو اپنی ہی بسائی ہی دنیا میں رہتے ہیں، کے مطابق اینٹ کا جواب پتھر میں یوں دیا جاتا کہ راہداری کو مستقل بند کردیا جاتا- چونکہ ایک ریاست کا رویہ معتصبانہ ہے تو جواباً کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ بند کردینا چاہیے تھی- ایسے معصوم دوستوں کو آج کی عالمی اخبارات و چینلز کی سرخیاں دیکھنی چاہیں جو پاکستان کی تعریف میں رطب اللسان ہیں- سبھی پاکستان کی امن دوستی اور مذہبی رواداری کی تعریف کرنے پر مجبور ہیں- ایک ہی خبر میں بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کو معتصبانہ اور کرتارپور راہداری کو اخلاقی فتح قرار دیا جارہا ہے- کل کے فیصلہ نے ہندوستانی نام نہاد سیکولرزم کی کینچلی کو اتار پھینکا ہے- بھارت کا اصل چہرہ دنیا پر عیاں ہو رہا ہے- پاکستان کے حق میں یہ فضا بننا کسی کامیابی سے کم ہے کیا؟
زیادہ دن نہیں گزرے جب سندھ میں چند شرپسند عناصر نے اسلام کی آڑ میں ایک مندر پر حملہ کردیا اور توڑ پھوڑ کی- جواب میں سارا شہر امڈ آیا اور مندر کی شب بھر حفاظت کی- یوں اپنے عمل سے ثابت کیا کہ ایک مسلمان وپاکستانی کا کیا کردار ہونا چاہیے
سعودی ایران مخاصمت سے کون واقف نہیں- 2015 میں حج کے دوران جب بھگدڑ کے نتیجے میں ایرانی حجاج کی اموات ہوئیں تو ایران نے الزام مملکت سعودیہ پردھر دیا، لفظی گولہ باری سے بات بگڑتے بگڑتے تہران میں سعودی سفارت خانہ کی آتش زدگی تک جا پہنچی- ایسے نازک حالات میں بھی حجاج اور زائرین کا سلسلہ نہ ٹوٹا- صرف اسی لیے کہ کوئی بھی ملک اخلاقی طور پر مذہبی زائرین پر قدغن نہیں لگا سکتا- شرانگیزی یا سازشی عناصر کا خطرہ ہو تو پھر متبادل ریاستی پالیسی ہونی چاہیے
کرتارپور راہداری کھلنا سکھ برادری کی ہمیشہ سے خواہش رہی- طویل عرصہ سے دونوں ریاستوں کی باہمی گفت وشنید کا نکتہ بھی رہا- اسے کسی عدالتی یا سیاسی فیصلہ کی نذر کرنے سے ایک بڑی اقلیت کے ساتھ زیادتی کے مترادف قرار دیا جاتا
امید ہے کہ آنے والے دنوں میں اس کے پاکستان کی معیشت اور خارجہ پالیسی پرمثبت اثرات مرتب ہوں گے
دلیل ومنطق کا ناحق خون جس قدر ہمارے ہاں کل ہوا ہے، شاید ہی ماضی قریب میں ایسا ہوا ہوگا
چونکہ بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس میں انصاف کا قتل کرکے بھارتیہ سماج وتاریخ کا منہ کالا کردیا لہذا ہمیں بھی کرتارپور راہداری روک کر ویسا ہی رویہ رکھنا چاہیے تھا- یعنی وہ اپنے چہرے پر کالک ملیں تو ہمیں بھی پیروی کرنی چاہیے- ایک نرالی منطق ہے
اور یہ شام غریباں اس طبقہ کی جانب سے بپا کی گئی جو بقول امیرمینائی کے " سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے" - امت کے خودساختہ ٹھیکدار جو اپنی ہی بسائی ہی دنیا میں رہتے ہیں، کے مطابق اینٹ کا جواب پتھر میں یوں دیا جاتا کہ راہداری کو مستقل بند کردیا جاتا- چونکہ ایک ریاست کا رویہ معتصبانہ ہے تو جواباً کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ بند کردینا چاہیے تھی- ایسے معصوم دوستوں کو آج کی عالمی اخبارات و چینلز کی سرخیاں دیکھنی چاہیں جو پاکستان کی تعریف میں رطب اللسان ہیں- سبھی پاکستان کی امن دوستی اور مذہبی رواداری کی تعریف کرنے پر مجبور ہیں- ایک ہی خبر میں بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کو معتصبانہ اور کرتارپور راہداری کو اخلاقی فتح قرار دیا جارہا ہے- کل کے فیصلہ نے ہندوستانی نام نہاد سیکولرزم کی کینچلی کو اتار پھینکا ہے- بھارت کا اصل چہرہ دنیا پر عیاں ہو رہا ہے- پاکستان کے حق میں یہ فضا بننا کسی کامیابی سے کم ہے کیا؟
زیادہ دن نہیں گزرے جب سندھ میں چند شرپسند عناصر نے اسلام کی آڑ میں ایک مندر پر حملہ کردیا اور توڑ پھوڑ کی- جواب میں سارا شہر امڈ آیا اور مندر کی شب بھر حفاظت کی- یوں اپنے عمل سے ثابت کیا کہ ایک مسلمان وپاکستانی کا کیا کردار ہونا چاہیے
سعودی ایران مخاصمت سے کون واقف نہیں- 2015 میں حج کے دوران جب بھگدڑ کے نتیجے میں ایرانی حجاج کی اموات ہوئیں تو ایران نے الزام مملکت سعودیہ پردھر دیا، لفظی گولہ باری سے بات بگڑتے بگڑتے تہران میں سعودی سفارت خانہ کی آتش زدگی تک جا پہنچی- ایسے نازک حالات میں بھی حجاج اور زائرین کا سلسلہ نہ ٹوٹا- صرف اسی لیے کہ کوئی بھی ملک اخلاقی طور پر مذہبی زائرین پر قدغن نہیں لگا سکتا- شرانگیزی یا سازشی عناصر کا خطرہ ہو تو پھر متبادل ریاستی پالیسی ہونی چاہیے
کرتارپور راہداری کھلنا سکھ برادری کی ہمیشہ سے خواہش رہی- طویل عرصہ سے دونوں ریاستوں کی باہمی گفت وشنید کا نکتہ بھی رہا- اسے کسی عدالتی یا سیاسی فیصلہ کی نذر کرنے سے ایک بڑی اقلیت کے ساتھ زیادتی کے مترادف قرار دیا جاتا
امید ہے کہ آنے والے دنوں میں اس کے پاکستان کی معیشت اور خارجہ پالیسی پرمثبت اثرات مرتب ہوں گے