نبی اکرمﷺ نے مباہلے کا چیلنج کس کو دیا تھا؟

Status
Not open for further replies.

PakiPatriot

MPA (400+ posts)
آیات مباہلہ سورہ آل عمران میں وارد ہوئی ہیں ۔ سورہ آل عمران کا آخری حصہ غزوہ احد کے نتائج سے بحث کرر ہا ہے، گویا قرآن کے نظم کی بنیاد پر اس سورت کا دورِ نزول ۳ ہجری بنتا ہے۔ سورت کے ابتدائی حصہ میں حضرت عیسیٰؑ کی شخصیت سے متعلق اہلِ کتاب کے ایک گروہ سے کلام ہورہا ہے۔ ان آیات کا اگر خالی الذہن ہوکر مطالعہ کیا جائے تو تین چیزیں بالکل واضح ہوجاتی ہیں، کہ حضرت عیسیٰؑ سے متعلق اس بحث میں مخاطب وہ لوگ ہیں، جنہوں نے حضرت عیسیٰ کا انکار کیا ہے نہ کہ وہ جو حضرت عیسیٰ کے ماننے والے ہیں، یعنی یہودی نہ کہ عیسائی۔

دوسری بات یہ کہ مخاطب گروہ توحید پر یقین رکھتا ہے۔ یہ بھی اسی بات کی تائید کرتی ہے کہ مخاطب گروہ یہودی ہی ہے نہ کہ عیسائی۔تیسری بات یہ کہ جس گروہ کو مباہلے کی دعوت دی گئی ہے وہ مدینہ میں اہل خانہ سمیت مقیم ہے، یعنی اسکے بیوی ہچے ساتھ ہیں، نہ کہ ہزار میل
دور سے آیا ہوا مردوں کا کوئی وفد۔

حب علیؓ کا دعویٰ کرنے والی برادری نے شانِ نزول کے نام پر قرآن پرجو بڑے بڑے ڈاکے ڈالے ہیں ان میں سب سے بڑا ڈاکہ انہی آیات پر ہے، کیونکہ ان آیات کی تفسیرسورت میں درج الفاظ کو نظر انداز کرتے ہوئے مکمل طور پر بیان کردہ شانِ نزول کے آئینہ میں کی جاتی ہے۔ جبکہ آیتِ تطہیر (سورہ احزاب) پر تو پھر بھی ڈرتے ڈرتے بعض لوگوں نے یہ بات کہنے کی جسارت کرلی ہے کہ وہاں بالاصل ازواجِ رسولﷺ بھی (ہی) مراد ہیں۔ شانِ نزول کا بنیادی قول مورخ محمد بن اسحٰق کا ہے، جن کے مطابق "اس سورت کی اسّی (۸۰) سے کچھ زائد ابتدائی آیات وفدِ نجران کی آمد کے موقع پر نازل ہوئی تھیں، اور نجرانی عیسائیوں کا وفد ۹ ہجری میں آیا تھا"- کہا جاتا ہے مباہلہ میں مسلمانوں کی طرف سے پنجتن پاکؓ پیش ہوئے تھے، اور پھر عیسائی مباہلے سے دست بردار ہوگئے۔

غزوہ احد (۳ ہجری ) کے زمانے میں نازل ہونے والی سورت کی بعض آیات کو ۹ ہجری میں پہنچانے کی ضرورت اہل تشیع کو اس لیے محسوس ہوئی کہ ۳ہجری میں حضرات حسنینؓ کی پیدائش نہیں ہوئی تھی، لہذا پنجتن فارمولے کا قرآنی ثبوت ۳ہجری میں نہیں مل سکتا تھا- ۹ ہجری میں پنجتنؓ کا تو وجود تھا، لیکن مدینہ میں یہود موجود نہیں تھے، لہذا آیات میں حضرت عیسیٰؑ کے نام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے واقعہ کا رخ عیسائیوں کی طرف پھیر دیا گیا۔

غور کرنے والے حضرات کے لیے ۳ نکات پیش کردیتا ہوں:

مباہلہ کی دعوت دیتے وقت کہا گیا ہے کہ اپنی عورتوں اور بیٹوں کے ساتھ تم بھی آؤ اور ہم بھی-
( آل عمران آیت 61)فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَکہہ دے آؤ ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں بلائیں پھر سب التجا کریں اور الله کی لعنت ڈالیں ان پر جو جھوٹے ہوں

یہاں تم اور ہم کے صیغے بہت اہم ہیں- اردو زبان میں تم کا لفظ واحد اور جمع دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، تاہم عربی میں تم کے لیے 'کم' کا لفظ آیا ہے جو کہ ایک یا دو لوگوں کے لیے نہیں آتا- یہاں لفظ 'کم' سے مراد 'تم لوگ' ہے، دوسری جانب لفظ 'نا' سے مراد 'ہم لوگ' ہے- نجرانی وفد سے متعلق روایت بتاتی ہے کہ ہم لوگ سے مراد صرف ایک فرد یعنی حضرت علیؓ ہیں- کیا جس چیز کا مطالبہ ازروئے قرآن مجسم قرآن نبی اکرم ﷺ نجرانیوں سے کر رہے تھے، نعوذباللہ خود اس پر عمل نہیں کر رہے تھے۔

اگر باہر سے آئے ہوئے کسی وفد کو مباہلے کی دعوت دی گئی ہوتی تو بیوی بچوں کو لانے کا نہ کہا گیا ہوتا، ورنہ ان کے پاس اس مباہلے کو مسترد کرنے کا منطقی جواب موجود ہوتا کہ جب بیوی بچے مدینہ میں ہیں ہی نہیں تو کہاں سے لائیں، یہ تو آپ (نبی پاکﷺ) کی طرف سے ٹالنے والی بات ہوئی (نعوذ باللہ)۔

مزید یہ کہ روایت کے مطابق مرد نجرانیوں سے تو بیوی بچوں کو لانے کا مطالبہ کیا گیا، دوسری جانب مسلمانوں کی جانب سے پنجتں پاکؓ کو بھیج دیا گیا- کیا نجرانیوں کی طرف سے یہ جواب نہیں آنا چاہیے تھا کہ ہم سے تو ہزار میل کے فاصلے سے عورتیں (جمع کا صیغہ) بلوانے کا کہا ہے اور خود اپنی عورتوں (بیویوں) کی موجودگی کے باوجود بھی صرف ایک بیٹی (واحد کا صیغہ) بھیجی۔(گویا نبیﷺ کی طرف سے مباہلے کی بنیادی شرط ہی کی خلاف ورزی مانی جائے)۔ گویا اس روایت کی رو سے مباہلہ میں جھوٹا ہونے کی لعنت نعوذ باللہ خود رسول اللہ ﷺ پر پڑتی ہے۔

تیسری بات نجرانی یہ بھی کہنے میں حق بجانب ہوتے کہ ہم سے بیٹے منگوائے گئے ہیں اور خود اپنے بیٹے کے موجود ہوتے ہوئے بھی دو نواسے بھیج دیے (واضح رہے کہ ۹ ہجری میں نبی اکرمﷺ کے صاحب زادے حضرت ابراہیمؓ حیات تھے) ۔ گویا حب علیؓ کی آڑ میں نبیﷺ کو مسلسل جھوٹا قرار دلوا کر لعنت پڑوائی جائے۔

یاد رہے اس روایت کے مطابق مباہلہ عیسائیوں سے ہو رہا تھا، اہلِ سنت سے تو نہیں ہورہا تھا کہ جواب نہ ملنے پر وہ نیم رافضی ہوجائیں- عیسائیوں نے تو اس سکیم پر صاف کہہ دینا تھا کہ مسلمانوں کے رسول نے تو اپنی ہی پیش کردہ شرائط کا پاس نہیں کیا، وہ اللہ کے رسول کیسے ہو سکتے ہیں۔

ظاہر ہے عقیدت کے نام پر نبیﷺ سے یہ جھوٹ بعد کے کسی دور میں منسوب کیا گیا ہے، جبکہ عیسائی یہ باتیں اس وقت پوچھنے کی سکت نہ رکھتے ہوں۔ اور عباسیوں/علویوں کی خلافت حاصل کرنے کی تحریک زوروں پر ہو۔

دوسری آیت ٦٤ ہے، جس میں اہلِ کتاب کے اس مخاطب گروہ کو کہا گیا ہے کہ آؤ ہم لوگ اس بات پر جمع ہوجائیں جو ہم میں یکساں ہے:

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا کہہ اے اہلِ کتاب! ایک بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ سوائے الله کے اور کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں

آیت کا متن اس بات میں بالکل واضح ہے کہ اہل کتاب کے اس گروہ کو مخاطب کیا جا رہا ہے جو مسلمانوں ہی کی طرح توحید پر یقین رکھتے ہیں. دنیا کے تمام مذاہب میں سے صرف یہودی ہی ہیں جو توحید پر ویسے ہی ایمان رکھتے ہیں جیسے اسلام کہتا ہے. دوسری جانب نجرانی عیسائی تو ویسے بھی حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا مانتے تھے. اور توحید کے قائل نہیں تھے

مزے کی بات یہ ہے کہ روایت کی رو سے تو نجرانی بحث ہی یہ کر رہے تھے کہ حضرت عیسیٰ خدا کے بیٹے ہیں اور اسی بات پر مباہلہ بھی ہوا، کیا یہ ممکن ہے کہ ایسے صریح شرک کرنے والوں کو فوراً بعد ہی الله، عقیدہ توحید میں ان کو مسلمانوں کا ہمسر قرار دے دے. استغفرالله
۳)- تیسری آیت ٥٩ ہے جسکو بڑے طمطراق کے ساتھ الوہیت مسیح کے انکار کی دلیل کے طور پر ہمیں بتایا جاتا ہے- یہی وہ آیت ہے جس پر عیسائیوں کے ساتھ مباہلے کی پوری کہانی کھڑی ہے- کیونکہ باقی تو کسی ایک آیت سے بھی ادنی سا شائبہ بھی نہیں ہوسکتا کہ اس تقریر کے مخاطب عیسائی ہیں۔

إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ" بے شک عیسیٰ کی مثال الله کے نزدیک آدم کی سی ہے، اسے مٹی سے بنایا پھر اسے کہا کہ ہو جا پھر ہو گیا"

کہا جاتا ہے کہ عیسائیوں سے کہا گیا کہ اگر تم بن باپ کی پیدائش کی وجہ سے عیسیٰ کو خدا کا بیٹا مانتے ہو تو پھر تو آدم کو بدرجہ اولیٰ خدا کا بیٹا مانو، کیونکہ اسکے تو ماں اور باپ دونوں ہی بیان نہیں کیے جاتے ۔

مگر آیت کے الفاظ اس مفروضے کی مکمل طور پر ابا کر رہے ہیں۔ کیونکہ یہاں الوہیت مسیح کا انکار نہیں کیا جا رہا بلکہ حضرت عیسیٰ کی غیر معمولی پیدائشِ زیرِ بحث ہے۔ اور ان کی غیر معمولی پیدائش پر مسلمانوں کا اختلاف یہودیوں سے ہے نہ کہ عیسائیوں سے، کیوںکہ عیسائی اور مسلمان دونوں ہی ان کی غیر معمولی طور پر پیدا ہونے کے قائل ہیں ۔ مزید یہ کہ آیت نمبر ٦٤ بھی یہی واضح کر رہی ہے کہ الوہیت کا موضوع مباہلہ کی وجہ نہیں ہو سکتا کیونکہ مباہلہ کے دونوں فریق توحید یعنی صرف ایک ہی خدا کے ہونے کے قائل ہیں

حاصل کلام یہ کہ مباہلہ حضرت عیسیٰ کی غیر معمولی طور پر ہونے والی پیدائش کے موضوع پر تھا. اور حضرت مریم، حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ کی زندگیوں کے احوال بھی اسی پس منظر میں بتائے گئے ہیں. آیت نمبر ٣٩ میں جب حضرت زکریا کو بیٹے کی خوشخبری سنائی گئی ہے تو کہا گیا ہے کہ الله تجھ کو یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے جو الله کے ایک فرمان (حضرت عیسیٰ) کی گواہی دے گا۔

بات صاف ہوگئی کہ مباہلے کی دعوت بنو نضیر کے یہودیوں کو ۳ ہجری میں غزوہ احد کے زمانے میں ہی مدینہ منورہ میں دی گئی تھی، جسکو انہوں نے قبول نہ کیا- اسی بات کی تصدیق آیت ٦٣ سے بھی ہو رہی ہے کہ منہ موڑنے والے ہی فسادی ہیں. درحقیقت یہ بات تو سوره بقرہ اور سوره نساء سے بھی واضح ہے کہ مدینہ کا یہودی حضرت عیسیٰ کے متعلق کج بحثیاں کر رہے تھے. ظاہر سی بات ہے کہ نجران سے آنے والے عیسائیوں کا وفد اگر اپنے عقائد کے متعلق استفسار کر رہا تھا تو مباہلہ سے گریز کی صورت میں ان کو مفسد تو نہیں قرار دیا جا سکتا.
دراصل اس مباہلہ کی دعوت میں مدینہ کے مفسد یہودیوں کو کہا گیا تھا کہ اگر تم اپنے آپ کو سچا سمجھتے ہو تو نو مسلم معاشرے میں فتنہ و فساد پھیلانے کی بجائے مباہلہ کی دعوت قبول کرو تم بھی آل اولاد سمیت آؤ اور ہم مدینہ کے مسلمان بھی اپنی آل اولاد کو لے کر الله کے حضور مباہلہ کے لئے پیش کر دیں. اور دعا کریں کہ جو فریق بھی جھوٹا ہے اس پر الله کی لعنت پڑے. اور مباہلہ سے فرار کی صورت میں تمہارا مفسد ہونا ثابت ہو جائے گا

یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اگر یہاں دونوں فریقوں کے خدا مختلف ہوتے جیسا کہ عیسائیوں اور مسلمانوں کے مباہلہ کی صورت میں ہوتا تو کس فریق کے خدا سے دعا کی جاتی کہ جھوٹوں پر لعنت بھیجے. کیا نبی آخر الزمان عیسائیوں کے خدا حضرت عیسیٰ سے دعا کرتے؟ نعوذ باللہ

آیات یہودیوں کے ساتھ مباہلہ پر مکمل طور پر واضح ہیں لیکن کیونکہ یہودیوں اور مجوسیوں کا گٹھ جوڑ روزِ اول سے ہے، اس لیے الزام عیسائیوں پر ڈلواکر یہودیوں کو مباہلے کے فرار کے الزام سے پاک کروایا گیا ہے۔اور دوسرا کیونکہ مجوسیوں کا مخصوص ایجنڈا حضراتِ حسنینؓ کی عدم پیدائش کے باءث ۳ ہجری میں پورا نہیں ہو رہا تھا، تو سورہ آلِ عمران کے ابتدائی حصے کو غزوہِ احد سے ٦ سال بعد پہنچادیا گیا- اس اقدام نے جہاں حقیقی مجرموں یعنی یہودیوں کی چشم پوشی کی، وہیں قران کے طرز استدلال کو بھی کمزور طریقے پر پیش کیا، کیونکہ آیات کو تاویل کرکے عیسائیوں سے مباہلے کا قابل بنایا گیا ہے، نبی پاکﷺ کے قول و فعل میں تضاد دکھایا گیا ہے، کہ فریق مخالف سے جس طور لوگوں کو لانے کو کہا ہے، خود اس طور لوگ نہیں لاہے، سورت کے نظم کو توڑا گیا ہے، کہ آیات کی ترتیب آگے پیچھے گرداندی گئی ہے۔ جس گروہ نے اپنی سیاسی اجارا داری کے لیے رسول اور قرآن پر اس قدر دست درازی کی ہے، تو باقی تاریخ بدلنا تو اسکے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا
 
Last edited by a moderator:

WatanDost

Chief Minister (5k+ posts)
[FONT=&quot]فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ [/FONT]
[FONT=&quot]وَنِسَاءَنَا[/FONT]​
[FONT=&quot] وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
کہہ دے آؤ ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور [/FONT]
[FONT=&quot]اپنی عورتیں[/FONT]​
[FONT=&quot] اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں بلائیں پھر سب التجا کریں اور الله کی لعنت ڈالیں ان پر جو جھوٹے ہوں

Enough to prove RAWAFIZ lie

[/FONT]
 

WatanDost

Chief Minister (5k+ posts)
[FONT=&amp]فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ [/FONT]
[FONT=&amp]وَنِسَاءَنَا[/FONT]​
[FONT=&amp] وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
کہہ دے آؤ ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور [/FONT]
[FONT=&amp]اپنی عورتیں[/FONT]​
[FONT=&amp] اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں بلائیں پھر سب التجا کریں اور الله کی لعنت ڈالیں ان پر جو جھوٹے ہوں

Enough to prove RAWAFIZ lie

[/FONT]
 

PakiPatriot

MPA (400+ posts)
[FONT=&amp]فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ [/FONT]
[FONT=&amp]وَنِسَاءَنَا[/FONT]​
[FONT=&amp] وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
کہہ دے آؤ ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور [/FONT]

[FONT=&amp]اپنی عورتیں[/FONT]​
[FONT=&amp] اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں بلائیں پھر سب التجا کریں اور الله کی لعنت ڈالیں ان پر جو جھوٹے ہوں

Enough to prove RAWAFIZ lie

[/FONT]


کس الله کی لعنت، حضرت عیسیٰ جس کو عیسائی خدا مانتے ہیں؟

یہودی روایات، قرآن، قصہ حضرت موسیٰ و ہارون

یہودیوں کے ہاں متواتر روایات بتاتی ہیں کہ حضرت موسیٰ کو جب نبوت ملی تھی تو وہ اس سفر میں تنہا تھے. جب کہ قرآن کہتا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ تھے. یہودیوں نے ان کے بیوی بچوں کو روایت میں سے اس لئے غائب کیا کیونکہ ان کی بیگم غیر اسرائیلی تھیں. اور نسل پرست یہودیوں کو یہ بات گوارہ نہیں تھی.

مزید یہ کہ یہودی روایات بتاتی ہیں کہ الله پاک نے حضرت ہارون کو حضرت موسیٰ کے ساتھ کیا. جب کہ قرآن کہتا ہے کہ یہ حضرت موسیٰ کی درخواست کے بعد ہوا.

یہودی روایات بتاتی ہیں کہ فرعون کے دربار میں عصا پھینکنے والے حضرت ہارون تھے جب کہ قرآن کہتا ہے کہ عصا حضرت موسیٰ نے دربار میں پھینکا تھا.

ہماری روایتوں میں کون سے سرخاب کے پر ہیں کہ ہم ان کو قرآن سے بھی اپر رکھ دیتے ہیں.؟

یہود روایات میں اولاد موسیٰ کا ذکر مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے اور ان کے ہاں پیر زادے حضرت ہارون کی نسل سے ہیں.
 
Last edited:
آل عمران

- Aal-e-Imran - The family of Imran
تفسیر ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر
Urdu Translation: اردو - Ahmad Raza Khan Brailvi - Urdu Tafseer: Urdu Tafseer Ibne-Kaseer - تفسیر ابن کثیر



حضرت باری جل اسمہ وعلا قدرہ اپنی قدرت کاملہ کا بیان فرما رہا ہے کہ حضرت عیسیٰ کا تو صرف باپ نہ تھا اور میں نے انہیں پیدا کر دیا تو کیا کون سی حیرانی بات ہے؟ میں نے حضرت آدم کو تو ان سے پہلے پیدا کیا تھا ان کا بھی باپ نہ تھا بلکہ ماں بھی نہ تھی، مٹی سے پتلا بنایا اور کہدیا آدم ہو جا اسی وقت ہو گیا، پھر میرے لئے صرف ماں سے پیدا کرنا کون سا مشکل ہو سکتا جبکہ بغیر ماں اور باپ کے بھی میں نے پیدا کر دیا، پس اگر صرف باپ نہ ہونے کی وجہ سے حضرت عیسیٰ کو تو سب سے پہلے اس مرتبہ سے ہٹا دینا چاہئے، کیونکہ ان کے دعوے کا جھوٹا ہونا اور خرابی اس سے بھی زیادہ یہاں ظاہر ہے یہاں ماں تو ہے وہاں تو نہ ماں تھی نہ باپ، یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ جل جلالہ کی قدرت کاملہ کا ظہور ہے کہ آدم کو بغیر مرد و عورت کے پیدا کیا اور حوا کو صرف مرد سے بغیر عورت کے پیدا کیا، اور عیسیٰ کو صرف عورت سے بغیر مرد کے پیدا کر دیا اور باقی مخلوق کو مرد و عورت سے پیدا کیا اسی لئے سورۃ مریم میں فرمایا(وَلِنَجْعَلَهٗٓ اٰيَةً لِّلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا ۚ وَكَانَ اَمْرًا مَّقْضِيًّا) 19۔مریم:21) ہم نے عیسیٰ کو لوگوں کے لئے اپنی قدرت کا نشان بنایا اور یہاں فرمایا ہے۔ عیسیٰ کے بارے میں اللہ کا سچا فیصلہ یہی ہے اس کے سوا اور کچھ کسی کمی یا زیادتی کی گنجائش ہی نہیں ہے کیونکہ حق کے بعد گمراہی ہی ہوتی ہے پس تجھے اے نبی ہرگز ان شکی لوگوں میں نہ ہونا چاہئے، اللہ رب العالمین اس کے بعد اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ اگر اس قدر واضح اور کامل بیان کے بعد بھی کوئی شخص تجھ سے امر عیسیٰ کے بارے میں جھگڑے تو تو انہیں مباہلہ کی دعوت دے کہ ہم فریقین مع اپنے بیٹوں اور بیویوں کے مباہلہ کے لئے نکلیں اور اللہ جل شانہ سے عاجزی کے ساتھ کہیں کہ اے اللہ ہم دونوں میں جو بھی جھوٹا ہو اس پر تو اپنی لعنت نازل فرما، اس مباہلہ کے نازل ہونے اور سورت کی ابتداء سے یہاں تک کی ان تمام آیتوں کے نازل ہونے کا سبب نجران کے نصاریٰ کا وفد تھا یہ لوگ یہاں آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے، ان کا عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ حکمرانی کے حصہ دار اور اللہ جل شانہ کے بیٹے ہیں پس ان کی تردید اور ان کے جواب میں یہ سب آیتیں نازل ہوئیں، ابن اسحاق اپنی مشہور عام سیرت میں لکھتے ہیں ان کے علاوہ دوسرے مؤرخین نے بھی اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ نجران کے نصرانیوں نے بطور وفد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے ساٹھ آدمی بھیجے تھے جن میں چودہ شخص ان کے سردار تھے جن کے نام یہ ہیں، عاقب جس کا نام عبدالمسیح تھا، سید جس کا نام ایہم تھا، ابو حارثہ بن علقمہ جو بکر بن وائل کا بھائی تھا، اور اوث بن حارث، زید، قیس، یزید اور اس کے دونوں لڑکے، اور خویلد اور عمرو، خالد، عبداللہ اور محسن یہ سب چودہ سردار تھے لیکن پھر ان میں بڑے سردار تین شخص تھے عاقب جو امیر قوم تھا اور عقلمند سمجھا جاتا تھا اور صاحب مشورہ تھا اور اسی کی رائے پر یہ لوگ مطمئن ہو جاتے تھے اور سید جو ان کا لاٹ پادری تھا اور مدرس اعلیٰ تھا یہ بنوبکر بن وائل کے عرب قبیلے میں سے تھا لیکن نصرانی بن گیا تھا اور رومیوں کے ہاں اس کی بڑی آؤ بھگت تھی اس کے لئے انہوں نے بڑے بڑے گرجے بنا دئیے تھے اور اس کے دین کی مضبوطی دیکھ کر اس کی بہت کچھ خاطر و مدارات اور خدمت و عزت کرتے رہتے تھے یہ شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت و شان سے واقف تھا اور اگلی کتابوں میں آپ کی صفتیں پڑھ چکا تھا دل سے آپ کی نبوت کا قائل تھا لیکن نصرانیوں میں جو اس کی تکریم و تعظیم تھی اور وہاں جو جاہ و منصب اسے حاصل تھا اس کے چھن جانے کے خوف سے راہ حق کی طرف نہیں آتا تھا، غرض یہ وفد مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مسجد نبوی میں حاضر ہوا آپ اس وقت عصر کی نماز سے فارغ ہو کر بیٹھے ہی تھے یہ لوگ نفیس پوشاکیں پہنے ہوئے اور خوبصورت نرم چادریں اوڑھے ہوئے تھے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے بنو حارث بن کعب کے خاندان کے لوگ ہوں صحابہ کہتے ہیں ان کے بعد ان جیسا باشوکت وفد کوئی نہیں آیا، ان کی نماز کا وقت آگیا تو آپ کی اجازت سے انہوں نے مشرق کی طرف منہ کر کے مسجد نبوی میں ہی اپنے طریق پر نماز ادا کر لی۔ بعد نماز کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی گفتگو ہوئی ادھر سے بولنے والے یہ تین شخص تھے حارثہ بن علقمہ عاقب یعنی عبدالمسیح اور سید یعنی ایہم یہ گو شاہی مذہب پر تھے لیکن کچھ امور میں اختلاف رکھتے تھے۔ حضرت مسیح کی نسبت ان کے تینوں خیال تھے یعنی وہ خود اللہ جل شانہ ہے اور اللہ کا لڑکا ہے اور تین میں کا تیسرا ہے اللہ ان کے اس ناپاک قول سے مبرا ہے اور بہت ہی بلند و بالا، تقریباً تمام نصاریٰ کا یہی عقیدہ ہے، مسیح کے اللہ ہونے کی دلیل تو ان کے پاس یہ تھی کہ وہ مردوں کو زندہ کر دیتا تھا اور اندھوں اور کوڑھیوں اور بیماروں کو شفا دیتا تھا، غیب کی خبریں دیتا تھا اور مٹی کی چڑیا بنا کر پھونک مار کر اڑا دیا کرتا تھا اور جواب اس کا یہ ہے کہ یہ ساری باتیں اس سے اللہ کے حکم سے سرزد ہوتی تھیں اس لئے کہ اللہ کی نشانیاں اللہ کی باتوں کے سچ ہونے پر اور حضرت عیسیٰ کی نبوت پر مثبت دلیل ہو جائیں، اللہ کا لڑکا ماننے والوں کی حجت یہ تھی کہ ان کا بہ ظاہر کوئی باپ نہ تھا اور گہوارے میں ہی بولنے لگے تھے، یہ باتیں بھی ایسی ہیں کہ ان سے پہلے دیکھنے میں ہی نہیں آئی تھیں (اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بھی اللہ کی قدرت کی نشانیاں تھیں تاکہ لوگ اللہ کو اسباب کا محکوم اور عادت کا محتاج نہ سمجھیں وغیرہ۔ مترجم) اور تین میں تیسرا اس لئے کہتے تھے کہ اس نے اپنے کلام میں فرمایا ہے ہم نے کیا ہمارا امر ہماری مخلوق ہم نے فیصلہ کیا وغیرہ پس اگر اللہ اکیلا ایک ہی ہوتا تو یوں نہ فرماتا بلکہ فرماتا میں نے کیا میرا امر میری مخلوق میں نے فیصلہ کیا وغیرہ پس ثابت ہوا کہ اللہ تین ہیں خود اللہ رب کعبہ اور عیسیٰ اور مریم (جس کا جواب یہ ہے کہ ہم کا لفظ صرف بڑائی کے لئے اور عظمت کے لئے ہے۔ مترجم) اللہ تعالیٰ ان ظالموں منکروں کعے قول سے پاک و بلند ہے، ان کے تمام عقائد کی تردید قرآن کریم میں نازل ہوئی، جب یہ دونوں پادری حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بات چیت کر چکے تو آپ نے فرمایا تم مسلمان ہو جاؤ انہوں نے کہا ہم تو ماننے والے ہیں ہی، آپ نے فرمایا نہیں نہیں تمہیں چاہئے کہ اسلام قبول کر لو وہ کہنے لگے ہم تو آپ سے پہلے کے مسلمان ہیں فرمایا نہیں تمہارا یہاسلامق بول نہیں اس لئے کہ تم اللہ کی اولاد مانتے ہو صلیب کی پوجا کرتے ہو خنزیر کھاتے ہو۔ انہوں نے کہا اچھا پھر یہ تو فرمائے کہ حضرت عیسیٰ کا باپ کون تھا؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو اس پر خاموش رہے اور سورۃ آل عمرانھ کی شروع سے لے کر اوپر تک کی آیتیں ان کے جواب میں نازل ہوئیں، ابن اسحاق ان سب کی مختصر سی تفسیر بیان کر کے پھر لکھتے ہیں آپ نے یہ سب تلاوت کر کے انہیں سمجھا دیں۔ اس مباہلہ کی آیت کو پڑھ کر آپ نے فرمایا اگر نہیں مانتے تو آؤ مباہلہ کا نکلو




اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ ۭخَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ 59؀ اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِيْنَ 60؀ فَمَنْ حَاۗجَّكَ فِيْهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَاۗءَنَا وَاَبْنَاۗءَكُمْ وَنِسَاۗءَنَا وَنِسَاۗءَكُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَكُمْ ۣ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَي الْكٰذِبِيْنَ 61؀ ) 3۔آل عمران:59-60-61) تلاوت کر سنائی انہوں نے اس بات کا اقرار کرنے سے انکار کر دیا، دوسرے دن صبح ہی صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملاعنہ کے لئےتشریف لائے
، حضرت جابر فرماتے ہیں ندع ابنائنا الخ، والی آیت انہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے انفسنا سے مراد خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی ابنائنا سے مراد حسن اور حسین نسائنا سے مراد حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہ مستدرک حاکم وغیرہ میں بھی اس معنی کی حدیث مروی ہے

، شرحیل یہ دیکھتے ہی اپنے دونوں ساتھیوں سے کہنے لگا تم جانتے ہو کہ نجران کی ساری وادی میری بات کو مانتی ہے اور میری رائے پر کاربند ہوتی ہے، سنو اللہ کی قسم یہ معاملہ بڑا بھاری ہے اگر یہ شخص (صلی اللہ علیہ وسلم) مبعوث کیا گیا ہے تو سب سے پہلے اس کی نگاہوں میں ہم ہی مطعون ہوں گے اور سب سے پہلے اس کی تردید کرنے والے ہم ہی ٹھہریں گے یہ بات اس کے اور اس کے ساتھیوں کے دلوں میں نہیں جائے گی اور ہم پر کوئی نہ کوئی مصیبت و آفت آئے گی عرب بھر میں سب سے زیادہ قریب ان سے میں ہی ہوں اور سنو اگر یہ شخص بنی مرسل ہے تو مباہلہ کرتے ہی روئے زمین پر ایک بال یا ایک ناخن بھی ہمارا نہ رہے گا، اس کے دونوں ساتھیوں نے کہا پھر اے ابو ویہم آپ کی کیا رائے ہے؟ اس نے کہا میری رائے یہ ہے کہ اسی کو ہم حاکم بنا دیں جو کچھ یہ حکم دے ہم اسے منظور کرلیں یہ کبھی بھی خلاف عدل حکم نہ دے گا، ان دونوں نے اس بات کو تسلیم کر لیا، اب شرجیل نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں اس ملاعنہ سے بہتر چیز جناب کے سامنے پیش کرتا ہوں آپ نے دریافت فرمایا وہ کیا؟ کہا آج کا دن آنے والی رات اور کل کی صبح تک آپ ہمارے بارے میں جو حکم کریں ہمیں منظور ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاید اور لوگ تمہارے اس فیصلے کو نہ مانیں، شرحیل نے کہا اس کی بابت میرے ان دونوں ساتھیوں سے دریافت فرما لیجئے آپ نے ان دونوں سے پوچھا انہوں نے جواب دیا کہ سارے وادی کے لوگ انہی کی رائے پر چلتے ہیں وہاں ایک بھی ایسا نہیں جو ان کے فیصلے کو ٹال سکے، پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ درخواست قبول فرمائی۔ مباہلہ نہ کیا اور واپس لوٹ گئے




دوسرے دن صبح ہی وہ حاضر خدمت ہوئے تو آپ نے ایک تحریر انہیں لکھ دی کہ جس میں بسم اللہ کے بعد یہ مضمون تھا کہ "تحریر اللہ کے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نجرانیوں کے لئے ہے ان پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم جاری تھا ہر پھل، ہر سیاہ و سفید اور ہر غلام پر لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب انہی کو دیتے ہیں یہ ہر سال صرف دو ہزار حلے دے دیا کریں ایک ہزار رجب میں اور ایک ہزار صفر میں وغیرہ وغیرہ، پورا عہد نامہ انہیں عطا فرمایا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا یہ وفد سن٩ ہجری میں آیا تھا


http://myonlinequran.com/tafseer.ph...5b&PHPSESSID=357a16e36a0eb1a8d9a91a983c96135b
 

khan_sultan

Banned
ابن آدم لکھتے ہیں: نبی اکرمﷺ نے مباہلے کا چیلنج کس کو دیا تھا؟

ابن آدم لکھتے ہیں: نبی اکرمﷺ نے مباہلے کا چیلنج کس کو دیا تھا؟آیات مباہلہ سورہ آل عمران میں وارد ہوئی ہیں ۔ سورہ آل عمران کا آخری حصہ غزوہ احد کے نتائج سے بحث کرر ہا ہے، گویا قرآن کے نظم کی بنیاد پر اس سورت کا دورِ نزول ۳ ہجری بنتا ہے۔ سورت کے ابتدائی حصہ میں حضرت عیسیٰؑ کی شخصیت سے متعلق اہلِ کتاب کے ایک گروہ سے کلام ہورہا ہے۔ ان آیات کا اگر خالی الذہن ہوکر مطالعہ کیا جائے تو تین چیزیں بالکل واضح ہوجاتی ہیں، کہ حضرت عیسیٰؑ سے متعلق اس بحث میں مخاطب وہ لوگ ہیں، جنہوں نے حضرت عیسیٰ کا انکار کیا ہے نہ کہ وہ جو حضرت عیسیٰ کے ماننے والے ہیں، یعنی یہودی نہ کہ عیسائی۔دوسری بات یہ کہ مخاطب گروہ توحید پر یقین رکھتا ہے۔ یہ بھی اسی بات کی تائید کرتی ہے کہ مخاطب گروہ یہودی ہی ہے نہ کہ عیسائی۔تیسری بات یہ کہ جس گروہ کو مباہلے کی دعوت دی گئی ہے وہ مدینہ میں اہل خانہ سمیت مقیم ہے، یعنی اسکے بیوی ہچے ساتھ ہیں، نہ کہ ہزار میل دور سے آیا ہوا مردوں کا کوئی وفد۔حب علیؓ کا دعویٰ کرنے والی برادری نے شانِ نزول کے نام پر قرآن پرجو بڑے بڑے ڈاکے ڈالے ہیں ان میں سب سے بڑا ڈاکہ انہی آیات پر ہے، کیونکہ ان آیات کی تفسیرسورت میں درج الفاظ کو نظر انداز کرتے ہوئے مکمل طور پر بیان کردہ شانِ نزول کے آئینہ میں کی جاتی ہے۔ جبکہ آیتِ تطہیر (سورہ احزاب) پر تو پھر بھی ڈرتے ڈرتے بعض لوگوں نے یہ بات کہنے کی جسارت کرلی ہے کہ وہاں بالاصل ازواجِ رسولﷺ بھی (ہی) مراد ہیں۔ شانِ نزول کا بنیادی قول مورخ محمد بن اسحٰق کا ہے، جن کے مطابق "اس سورت کی اسّی (۸۰) سے کچھ زائد ابتدائی آیات وفدِ نجران کی آمد کے موقع پر نازل ہوئی تھیں، اور نجرانی عیسائیوں کا وفد ۹ ہجری میں آیا تھا"- کہا جاتا ہے مباہلہ میں مسلمانوں کی طرف سے پنجتن پاکؓ پیش ہوئے تھے، اور پھر عیسائی مباہلے سے دست بردار ہوگئے۔غزوہ احد (۳ ہجری ) کے زمانے میں نازل ہونے والی سورت کی بعض آیات کو ۹ ہجری میں پہنچانے کی ضرورت اہل تشیع کو اس لیے محسوس ہوئی کہ ۳ہجری میں حضرات حسنینؓ کی پیدائش نہیں ہوئی تھی، لہذا پنجتن فارمولے کا قرآنی ثبوت ۳ہجری میں نہیں مل سکتا تھا- ۹ ہجری میں پنجتنؓ کا تو وجود تھا، لیکن مدینہ میں یہود موجود نہیں تھے، لہذا آیات میں حضرت عیسیٰؑ کے نام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے واقعہ کا رخ عیسائیوں کی طرف پھیر دیا گیا۔غور کرنے والے حضرات کے لیے ۳ نکات پیش کردیتا ہوں:۱)- مباہلہ کی دعوت دیتے وقت کہا گیا ہے کہ اپنی عورتوں اور بیٹوں کے ساتھ تم بھی آؤ اور ہم بھی-
( آل عمران آیت 61)
فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
کہہ دے آؤ ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں بلائیں پھر سب التجا کریں اور الله کی لعنت ڈالیں ان پر جو جھوٹے ہوں
یہاں تم اور ہم کے صیغے بہت اہم ہیں- اردو زبان میں تم کا لفظ واحد اور جمع دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، تاہم عربی میں تم کے لیے 'کم' کا لفظ آیا ہے جو کہ ایک یا دو لوگوں کے لیے نہیں آتا- یہاں لفظ 'کم' سے مراد 'تم لوگ' ہے، دوسری جانب لفظ 'نا' سے مراد 'ہم لوگ' ہے- نجرانی وفد سے متعلق روایت بتاتی ہے کہ ہم لوگ سے مراد صرف ایک فرد یعنی حضرت علیؓ ہیں- کیا جس چیز کا مطالبہ ازروئے قرآن مجسم قرآن نبی اکرم ﷺ نجرانیوں سے کر رہے تھے، نعوذباللہ خود اس پر عمل نہیں کر رہے تھے۔اگر باہر سے آئے ہوئے کسی وفد کو مباہلے کی دعوت دی گئی ہوتی تو بیوی بچوں کو لانے کا نہ کہا گیا ہوتا، ورنہ ان کے پاس اس مباہلے کو مسترد کرنے کا منطقی جواب موجود ہوتا کہ جب بیوی بچے مدینہ میں ہیں ہی نہیں تو کہاں سے لائیں، یہ تو آپ (نبی پاکﷺ) کی طرف سے ٹالنے والی بات ہوئی (نعوذ باللہ)۔مزید یہ کہ روایت کے مطابق مرد نجرانیوں سے تو بیوی بچوں کو لانے کا مطالبہ کیا گیا، دوسری جانب مسلمانوں کی جانب سے پنجتں پاکؓ کو بھیج دیا گیا- کیا نجرانیوں کی طرف سے یہ جواب نہیں آنا چاہیے تھا کہ ہم سے تو ہزار میل کے فاصلے سے عورتیں (جمع کا صیغہ) بلوانے کا کہا ہے اور خود اپنی عورتوں (بیویوں) کی موجودگی کے باوجود بھی صرف ایک بیٹی (واحد کا صیغہ) بھیجی۔(گویا نبیﷺ کی طرف سے مباہلے کی بنیادی شرط ہی کی خلاف ورزی مانی جائے)۔ گویا اس روایت کی رو سے مباہلہ میں جھوٹا ہونے کی لعنت نعوذ باللہ خود رسول اللہ ﷺ پر پڑتی ہے۔تیسری بات نجرانی یہ بھی کہنے میں حق بجانب ہوتے کہ ہم سے بیٹے منگوائے گئے ہیں اور خود اپنے بیٹے کے موجود ہوتے ہوئے بھی دو نواسے بھیج دیے (واضح رہے کہ ۹ ہجری میں نبی اکرمﷺ کے صاحب زادے حضرت ابراہیمؓ حیات تھے) ۔ گویا یحب علیؓ کی آڑ میں نبیﷺ کو مسلسل جھوٹا قرار دلوا کر لعنت پڑوائی جائے۔یاد رہے اس روایت کے مطابق مباہلہ عیسائیوں سے ہو رہا تھا، اہلِ سنت سے تو نہیں ہورہا تھا کہ جواب نہ ملنے پر وہ نیم رافضی ہوجائیں- عیسائیوں نے تو اس سکیم پر صاف کہہ دینا تھا کہ مسلمانوں کے رسول نے تو اپنی ہی پیش کردہ شرائط کا پاس نہیں کیا، وہ اللہ کے رسول کیسے ہو سکتے ہیں۔ظاہر ہے عقیدت کے نام پر نبیﷺ سے یہ جھوٹ بعد کے کسی دور میں منسوب کیا گیا ہے، جبکہ عیسائی یہ باتیں اس وقت پوچھنے کی سکت نہ رکھتے ہوں۔ اور عباسیوں/علویوں کی خلافت حاصل کرنے کی تحریک زوروں پر ہو۔۲)- دوسری آیت ٦٤ ہے، جس میں اہلِ کتاب کے اس مخاطب گروہ کو کہا گیا ہے کہ آؤ ہم لوگ اس بات پر جمع ہوجائیں جو ہم میں یکساں ہے:قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا
کہہ اے اہلِ کتاب! ایک بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ سوائے الله کے اور کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں
آیت کا متن اس بات میں بالکل واضح ہے کہ اہل کتاب کے اس گروہ کو مخاطب کیا جا رہا ہے جو مسلمانوں ہی کی طرح توحید پر یقین رکھتے ہیں. دنیا کے تمام مذاہب میں سے صرف یہودی ہی ہیں جو توحید پر ویسے ہی ایمان رکھتے ہیں جیسے اسلام کہتا ہے. دوسری جانب نجرانی عیسائی تو ویسے بھی حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا مانتے تھے. اور توحید کے قائل نہیں تھے.مزے کی بات یہ ہے کہ روایت کی رو سے تو نجرانی بحث ہی یہ کر رہے تھے کہ حضرت عیسیٰ خدا کے بیٹے ہیں اور اسی بات پر مباہلہ بھی ہوا، کیا یہ ممکن ہے کہ ایسے صریح شرک کرنے والوں کو فوراً بعد ہی الله، عقیدہ توحید میں ان کو مسلمانوں کا ہمسر قرار دے دے. استغفرالله۳)- تیسری آیت ٥٩ ہے جسکو بڑے طمطراق کے ساتھ الوہیت مسیح کے انکار کی دلیل کے طور پر ہمیں بتایا جاتا ہے- یہی وہ آیت ہے جس پر عیسائیوں کے ساتھ مباہلے کی پوری کہانی کھڑی ہے- کیونکہ باقی تو کسی ایک آیت سے بھی ادنی سا شائبہ بھی نہیں ہوسکتا کہ اس تقریر کے مخاطب عیسائی ہیں۔إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ
" بے شک عیسیٰ کی مثال الله کے نزدیک آدم کی سی ہے، اسے مٹی سے بنایا پھر اسے کہا کہ ہو جا پھر ہو گیا"
کہا جاتا ہے کہ عیسائیوں سے کہا گیا کہ اگر تم بن باپ کی پیدائش کی وجہ سے عیسیٰ کو خدا کا بیٹا مانتے ہو تو پھر تو آدم کو بدرجہ اولیٰ خدا کا بیٹا مانو، کیونکہ اسکے تو ماں اور باپ دونوں ہی بیان نہیں کیے جاتے ۔مگر آیت کے الفاظ اس مفروضے کی مکمل طور پر ابا کر رہے ہیں۔ کیونکہ یہاں الوہیت مسیح کا انکار نہیں کیا جا رہا بلکہ حضرت عیسیٰ کی غیر معمولی پیدائشِ زیرِ بحث ہے۔ اور ان کی غیر معمولی پیدائش پر مسلمانوں کا اختلاف یہودیوں سے ہے نہ کہ عیسائیوں سے، کیوںکہ عیسائی اور مسلمان دونوں ہی ان کی غیر معمولی طور پر پیدا ہونے کے قائل ہیں ۔ مزید یہ کہ آیت نمبر ٦٤ بھی یہی واضح کر رہی ہے کہ الوہیت کا موضوع مباہلہ کی وجہ نہیں ہو سکتا کیونکہ مباہلہ کے دونوں فریق توحید یعنی صرف ایک ہی خدا کے ہونے کے قائل ہیں.حاصل کلام یہ کہ مباہلہ حضرت عیسیٰ کی غیر معمولی طور پر ہونے یوالی پیدائش کے موضوع پر تھا. اور حضرت مریم، حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ کی زندگیوں کے احوال بھی اسی پس منظر میں بتائے گئے ہیں. آیت نمبر ٣٩ میں جب حضرت زکریا کو بیٹے کی خوشخبری سنائی گئی ہے تو کہا گیا ہے کہ الله تجھ کو یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے جو الله کے ایک فرمان (حضرت عیسیٰ) کی گواہی دے گا۔بات صاف ہوگئی کہ مباہلے کی دعوت بنو نضیر کے یہودیوں کو ۳ ہجری میں غزوہ احد کے زمانے میں ہی مدینہ منورہ میں دی گئی تھی، جسکو انہوں نے قبول نہ کیا- اسی بات کی تصدیق آیت ٦٣ سے بھی ہو رہی ہے کہ منہ موڑنے والے ہی فسادی ہیں. درحقیقت یہ بات تو سوره بقرہ اور سوره نساء سے بھی واضح ہے کہ مدینہ کا یہودی حضرت عیسیٰ کے متعلق کج بحثیاں کر رہے تھے. ظاہر سی بات ہے کہ نجران سے آنے والے عیسائیوں کا وفد اگر اپنے عقائد کے متعلق استفسار کر رہا تھا تو مباہلہ سے گریز کی صورت میں ان کو مفسد تو نہیں قرار دیا جا سکتا.

اقول: ایک گروہ جہلاء آج کل سرگرم ہے جو اپنی جہالت کو تحقیق کا نام دے کر حلقہ یاراں میں بندر تماشہ کرنے میں مصروف ہے اسی گروہ کے ایک رکن ابن آدم نے مباہلہ پر قلمی گھوڑے دوڑائے اور اپنے اجداد کی پیروی میں فضائل اہل بیت ع ھضم نہ کر سکنے کے سبب انتہائی بے ہودہ سوالات اٹھائے. اوپر کی موصوف کی ساری واردات کا لب لباب دو باتوں پر ہے کہ سورہ ال عمران یہود سے خطاب ہے عیسائیوں سے نہیں اور یہ کہ یہ سورہ غزوہ احد کے متعلق آیات کے سبب 3ہجری سے متعلق ہے نہ کہ 9ہجری سے(جبکہ واقعہ مباہلہ 10ہجری کا ہے یہ موصوف کی ایک اور علمی موشگافی ہے) ہمیں باوجود کوشش کے اس گروہ کا منہج معلوم نہ ہو پایا کہ کبھی یہ احادیث کا صریحاً انکار کرتے ہیں اور کبھی یہ اپنے مطلب کی براوری کے لئے ہر قسم کی روایات سے استدلال کرتے ہیں چنانچہ ہم اس گروہ کو گروہ منافقین کے زمرے میں رکھتے ہوئے جواب دیتے ہیں. کیونکہ یہ گروہ بظاہر اپنی تحریر سے حسبنا کتاب اللہ کے قول سے تمسک رکھتا ہے اس لئے ہم انہی کا حربہ انہیں پر پلٹاتے ہیں.
پہلا نقطہ: کہ سورہ آل عمران نصاری سے نہیں یہود سے خطاب ہے.
جواب: یہ آپ کی علم سے دوری اور بغض و عناد کا قصور ہے کہ آپ کو پورے سورہ میں یہود کا تذکرہ تو نظر آیا حضرت عیسی ع سے متعلق وضاحتیں نظر نہ آئیں کہ جو خالصتاً عیسائیوں کے لئے ہیں. اور یہ سورہ نہ تو اکیلے یہود سے متعلق ہے اور نہ اکیلے نصاری سے متعلق یہ دونوں گروہوں کو شامل ہے اور ہم یہ بات آپ کی طرح بے دلیل نہیں کر رہے آیات میں دلیل تو ہے ہی ہم روایت سے اس کی دلیل دیتے ہیں ابن کثیر نے حضرت ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ نجران کے عیسائیوں اور یہود کا وفد مدینہ میں آیا اور انہوں نے سورہ آل عمران کی دونوں سے متعلق آیات بھی واضح کر دی ہیں.ملاحظہ کریں
حدثني محمد بن أبي محمد مولى زيد بن ثابت ، حدثني سعيد بن جبير أو عكرمة ، عن ابن عباس قال : اجتمعت نصارى نجران وأحبار يهود عند رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فتنازعوا عنده ، فقالت الأحبار : ما كان إبراهيم إلا يهوديا . وقالت النصارى ما كان إبراهيم إلا نصرانيا . فأنزل الله تتعالى : ( يا أهل الكتاب لم تحاجون في إبراهيم [ وما أنزلت التوراة والإنجيل إلا من بعده أفلا تعقلون ] ) أي : كيف تدعون ، أيها اليهود ، أنه كان يهوديا ، وقد كان زمنه قبل أن ينزل الله التوراة على موسى ، وكيف تدعون ، أيها النصارى ، أنه كان نصرانيا ، وإنما حدثت النصرانية بعد زمنه بدهر . ولهذا قال : ( أفلا تعقلون ) . (تفسير ابن كثير)
گروہ دونوں ہی آئے اس لئے دونوں سے متعلق ذکر ہوا مگر مباہلہ نصاری نجران سے ہوا جس پر الگ سے دلائل موجود ہیں. اب اس کے بعد موصوف کے لئے کچھ جائے پناہ بچتی ہے؟ نقطہ اول باطل ٹھہرا.....
نقطہ دوم: سورہ آل عمران میں غزوہ احد کا ذکر ہے اور یہ غزوہ 3ہجری سے متعلق ہے چنانچہ یہ سارا واقعہ 3ہجری کا ہے.
جواب: ان صاحب کی عقل پر افسوس ہے کہ ان کو سورہ آل عمران میں 3 ہجری کا غزوہ احد تو نظر آ گیا مگر اسی سورہ میں 2ہجری کا غزوہ بدر نظر نہ آیا اسی سورہ کی آیت نمبر 13 میں درمیان کی کچھ آیات. آیت 123-124پھر آیات 126-127 میں اور باقی آیت سورہ انفال پارہ نمبر 9 میں غزوہ بدر سے متعلق ہیں تو کیوں نہ اس عقل کل نے اس واقعہ کو 2ہجری کا قرار دیا؟ کیا ایسی جہالت کی نظیر ممکن ہے؟ ایک ہی سورہ 2ہجری اور 3 ہجری سے بحث کر رہا ہے تو کیا مضائقہ ہے کہ وہ 9-10 ہجری سے بحث کر لے؟ یہ عقلی دلائل ہم اس لئے دے رہے ہیں کہ ان موصوف کی پوسٹ کے نیچے ہم نے دیکھا کہ ترتیب پر بحث کرنے والوں کو یہ شخص کوئی جواب شافی دینے کی بجائے گھسے پٹے طریقے سے ان کو تحریف قرآن کا قائل قرار دے کر جان چھڑاتا نظر آتا ہے. اب ہم مزید کچھ واقعاتی ترتیب سے اس کو نصیحت کرتے ہیں شاید عقل میں سما جائے.
فدک خیبر سے واپسی پر ملا مگر اس کا ذکر سورہ بنی اسرائیل اور سورہ الروم میں ہے اور مزے کی بات یہ کہ یہ دونوں سورے ہی مکی ہیں اور واقعہ فدک مدنی ہے.جبکہ خیبر کا ذکر سورہ الفتح میں ہے تو کیا موصوف واقعہ فدک کو مکی قرار دیں گے؟
اسی طرح بعض واقعات کا ایک جز کسی سورہ میں اور دوسرا کسی اور سورہ میں. موخر کا ذکر مقدم میں ہے اور مقدم کا ذکر موخر میں. بحث طول پکڑ جائے گی ورنہ اس کا تفصیلاً ذکر کرتے. تو کیا اس سب سے واقعات کا مطلقاً انکار کر دیں؟
اس گفتگو سے بتائے آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ آپ مباہلہ پر مزید خبث باطن دکھائیں؟
یاد ریے ہم نے کتب کا سہارا اس لئے کم لیا کہ موصوف اپنے عقلی گھوڑے دوڑانے کی خاطر آغاذ بحث سے ہی ان کو خارج گفتگو کر دیتے ہیں. ورنہ ہم اپنے دلائل میں کتب کے انبار لگا دیتے.






 

khan_sultan

Banned
Re: ابن آدم لکھتے ہیں: نبی اکرمﷺ نے مباہلے کا چیلنج کس کو دیا تھا؟

ابن آدم کے آیہ مباہلہ پر اعتراض کے جواب میں ہم نے ایک سرسری سا جائزہ پیش کیا اور اس میں موصوف کے دعویٰ کی نکارت ظاہر کی مگر شاید ہمارا سرسری جائزہ ایسا تھا جو موصوف کے سر سے گزر گیا اس لئے خاطب الناس علی قدر عقولہم کے تحت ہم ذرا سہل انداز میں اور نقطہ در نقطہ اپنی بات پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

قال المخاطب:۔ آیات مباہلہ سورہ آل عمران میں وارد ہوئی ہیں ۔ سورہ آل عمران کا آخری حصہ غزوہ احد کے نتائج سے بحث کرر ہا ہے، گویا قرآن کے نظم کی بنیاد پر اس سورت کا دورِ نزول ۳ ہجری بنتا ہے۔

اقول:۔ صد افسوس کہ ابن آدم صاحب دوسروں کے لئے تو فرما رہے ہیں کہ سوائے قرآن کے سب ٹھکرا دو اور خود تاریخ سے استدلال فرما رہے ہیں۔ ہم کہتے ہیں غزوہ احد 3 ہجری میں نہیں 10 ہجری میں ہوا۔ کیا موصوف کے پاس قرآن کی کسی آیت میں یہ دلیل موجود ہے کہ یہ غزوہ 3 ہجری میں ہوا؟ اگر نہیں تو موصوف کو یہ علم کہاں سے ملا کہ یہ غزوہ 3 ہجری میں ہوا؟ اب موصوف کا فرمان کہ “تو پہلا نکتہ کا جواب یہ ہے کہ قرآن فرقان ہے نہ کہ روایت. یعنی قرآن پرکھے گا کہ روایت ٹھیک ہے نہ کہ روایت بتائے گی کہ قرآن ٹھیک ہے کہ نہیں. تو جو روایت قرآن کے تابع ہو گی اسی کو مانا جائے گا.“ جب قرآن فرقان ہے تو ہمیں غزوہ احد کی تاریخ 3 ہجری قرآن سے ثابت کر کے دیں ورنہ اپنا دعویٰ سمیٹ کر چلتے بنیں۔ اور اگر آپ روایت کو قرآن سے پرکھتے ہیں تو 3 ہجری تاریخ والی روایت کی صحت قرآن سے ثابت کریں ورنہ ہم آپ کو اپنے قول و فعل دونوں میں غیر منصف قرار دیں گے۔

قال المخاطب:۔ سورت کے ابتدائی حصہ میں حضرت عیسیٰؑ کی شخصیت سے متعلق اہلِ کتاب کے ایک گروہ سے کلام ہورہا ہے۔ ان آیات کا اگر خالی الذہن ہوکر مطالعہ کیا جائے تو تین چیزیں بالکل واضح ہوجاتی ہیں، کہ حضرت عیسیٰؑ سے متعلق اس بحث میں مخاطب وہ لوگ ہیں، جنہوں نے حضرت عیسیٰ کا انکار کیا ہے نہ کہ وہ جو حضرت عیسیٰ کے ماننے والے ہیں، یعنی یہودی نہ کہ عیسائی۔دوسری بات یہ کہ مخاطب گروہ توحید پر یقین رکھتا ہے۔ یہ بھی اسی بات کی تائید کرتی ہے کہ مخاطب گروہ یہودی ہی ہے نہ کہ عیسائی۔

اقول:۔ جناب کاش آپ خالی الذہن ہو کر مطالعہ کرتے تو آپ کو سورہ کے ابتداء سے ہی شواہد مل جاتے کہ یہ یہود و نصاریٰ دونوں سے خطاب ہے۔ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 3 “نزل علیک الکتاب بالحق مصدقا لما بین یدیۃ وانزل التورۃ والانجیل“ صاف بتا رہی ہے کہ مخاطب اہل توراۃ یعنی یہود اور اہل انجیل یعنی نصاریٰ ہیں۔ ایسا ہی خطاب اسی سورہ کی آیت نمبر 65 “وما انزلت التوراۃ والانجیل“ میں ہے۔ اور بقول آپ کے یہودی حضرت عیسیٰ (ع) کے انکاری تھے تو یقیناً وہ انجیل کے بھی انکاری ہوئے تو آیات میں انجیل کا ذکر کس لئے؟ پھر آیت نمبر 67 میں ہے “ما کان ابراہیم یھودیا ولا نصرانیا“۔ تو اگر مخاطب فقط یہود ہیں تو حضرت ابراہیم کے لئے یہ کیوں نہ کہا گیا کہ وہ یہودی نہیں تھے۔نصرانی نہیں تھے کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور اسی آیت کے تحت ہم نے وہ روایت پیش کی تھی جس کو موصوف اپنی عقل سے قرآن کے مخالف سمجھ بیٹھے کیونکہ اس میں اسی آیت کی تشریح ہے کہ یہود و نصاریٰ جھگڑ رہے تھے کہ حضرت ابراہیم ع یہودی ہیں یا نصرانی تب یہ آیت نازل ہوئی۔ چنانچہ آپ ہی کے اصول کے تحت وہ روایت معتبر ٹھہری کیونکہ اس کی قرآن تصدیق کر رہا ہے۔ پھر آیت نمبر 80 میں اللہ تعالیٰ تثلیث کی نفی فرما رہے ہیں جو عیسائیوں کا عقیدہ ہے یعنی “ولا یامرکم ان تتخذواالملائکۃ والنبین اربابا“ یعنی کوئی نبی تم کو فرشتوں اور پیغمبروں کو خدا ٹھہرانے کا حکم نہیں دے گا۔اور آپ کے بقول یہود تو خدائے واحد پر ایمان رکھتے تھے تو ان سے ایسی بات کہنا کیا درست ہے؟ طوالت کے خوف سے انہی چند آیات پر اکتفا کرتا ہوں کیونکہ مدعا واضح ہے۔ پھر ہم نے قرآن سے ہی ایک مثال پیش کی کہ واقعہ مدنی مگر درج مکی سورتوں میں یعنی واقعہ فدک۔ قرآن کو فرقان ماننے والے نے قرآن سے ہی دی گئی ہماری اس دلیل پر بھی آنکھ بند رکھی شاید یہاں انہیں قرآن فرقان نظر نہ آیا۔

قال المخاطب:۔ تیسری بات یہ کہ جس گروہ کو مباہلے کی دعوت دی گئی ہے وہ مدینہ میں اہل خانہ سمیت مقیم ہے، یعنی اسکے بیوی ہچے ساتھ ہیں، نہ کہ ہزار میل دور سے آیا ہوا مردوں کا کوئی وفد۔

اقول:۔ یہاں پھر ایسے بے تُکے عقلی گھوڑے دوڑانے کی کوشش کی گئی۔ کیا یہ نا ممکنات سے ہے کہ نصاریٰ نجران کا وفد اہل و عیال کے ساتھ آیا ہو؟ اگر نہیں اور ہرگز نہیں تو امکان کو آپ غیر امکان میں کیسے بالیقین بدل سکتے ہیں؟

قال المخاطب:۔ جبکہ آیتِ تطہیر (سورہ احزاب) پر تو پھر بھی ڈرتے ڈرتے بعض لوگوں نے یہ بات کہنے کی جسارت کرلی ہے کہ وہاں بالاصل ازواجِ رسولﷺ بھی (ہی) مراد ہیں۔ شانِ نزول کا بنیادی قول مورخ محمد بن اسحٰق کا ہے، جن کے مطابق "اس سورت کی اسّی (۸۰) سے کچھ زائد ابتدائی آیات وفدِ نجران کی آمد کے موقع پر نازل ہوئی تھیں، اور نجرانی عیسائیوں کا وفد ۹ ہجری میں آیا تھا"- کہا جاتا ہے مباہلہ میں مسلمانوں کی طرف سے پنجتن پاکؓ پیش ہوئے تھے، اور پھر عیسائی مباہلے سے دست بردار ہوگئے۔

غزوہ احد (۳ ہجری ) کے زمانے میں نازل ہونے والی سورت کی بعض آیات کو ۹ ہجری میں پہنچانے کی ضرورت اہل تشیع کو اس لیے محسوس ہوئی کہ ۳ہجری میں حضرات حسنینؓ کی پیدائش نہیں ہوئی تھی، لہذا پنجتن فارمولے کا قرآنی ثبوت ۳ہجری میں نہیں مل سکتا تھا- ۹ ہجری میں پنجتنؓ کا تو وجود تھا، لیکن مدینہ میں یہود موجود نہیں تھے، لہذا آیات میں حضرت عیسیٰؑ کے نام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے واقعہ کا رخ عیسائیوں کی طرف پھیر دیا گیا۔

اقول:۔ ہم مخاطب کو یاد دہانی کرواتے ہیں کہ روایات سے آپ کا کچھ سروکار نہیں ورنہ آپ کو ہماری طرف سے بھی روایات قبول کرنا ہوں گی۔ غزوہ احد کے 3 ہجری میں ہونے کو قرآن سے پیش کیا جائے اور یہ بھی قرآن سے پیش کیا جائے کہ حضرات حسنین ع کی پیدائش تین ہجری میں نہیں ہوئی تھی اور صرف 9 ہجری میں پنجتن کا وجود تھا۔ بصورت دیگر مخاطب کی کسی بات کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا کیونکہ قاعدہ مخاطب کے تحت روایت سے قرآن کو نہیں پرکھا جا سکتا۔

قال المخاطب:۔ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ

کہہ دے آؤ ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں بلائیں پھر سب التجا کریں اور الله کی لعنت ڈالیں ان پر جو جھوٹے ہوں

یہاں تم اور ہم کے صیغے بہت اہم ہیں- اردو زبان میں تم کا لفظ واحد اور جمع دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، تاہم عربی میں تم کے لیے 'کم' کا لفظ آیا ہے جو کہ ایک یا دو لوگوں کے لیے نہیں آتا- یہاں لفظ 'کم' سے مراد 'تم لوگ' ہے، دوسری جانب لفظ 'نا' سے مراد 'ہم لوگ' ہے- نجرانی وفد سے متعلق روایت بتاتی ہے کہ ہم لوگ سے مراد صرف ایک فرد یعنی حضرت علیؓ ہیں- کیا جس چیز کا مطالبہ ازروئے قرآن مجسم قرآن نبی اکرم ﷺ نجرانیوں سے کر رہے تھے، نعوذباللہ خود اس پر عمل نہیں کر رہے تھے۔

اقول:۔ کاش ہمارے مخاطب منطق کے علاوہ عربی ادب سے بھی کچھ واقفیت رکھتے۔ لفظ “کم“ مخاطب مخالف سے اس لئے ہے کہ وہ اپنی قوم کا نمائندہ ہے نہ کہ فرد واحد اس لئے “کم“ کی ضمیر اس کی قوم کی اجتماعیت کے سبب ہے نہ کہ اس نمائندہ کی ذات کے لئے۔ اسی طرح “نا“ کی ضمیر اسلام کا نمائندہ کی حیثیت سے ہے نہ کہ ایک ذات کی حیثیت سے۔ اس کو ہم انتہائی سہل انداز میں یوں سمجھاتے ہیں کہ میں کسی سے کہوں علماءنا و علماءکم یعنی ہمارے علما اور تمہارے علماء اب کہنے والا میں اکیلا ہوں مگر کیونکہ میں اپنی قوم کے علماء کی بات کر رہا ہوں تو قوم کے نمائندہ کی حیثیت سے ضمیر کا اطلاق واحد پر نہیں قوم کی اجتماعیت پر ہو گا اسی طرح علماءکم میں “کم“ کی ضمیر کا اطلاق آپ کی اکیلی ذات پر نہیں بلکہ آپ کی قومی اجتماعیت پر ہو گا۔ اور اسی لئے یہاں پر ضمائر جمع استعمال ہوئے۔ رسول اللہ ص تو اس پر ہی عمل کر رہے تھے جو قرآن کا حکم تھا مگر آپ کا ذہن کیونکہ منطق میں اٹکا ہے تو آپ کسی پر بھی الزام دھرنے کو کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔

قال المخاطب:۔ اگر باہر سے آئے ہوئے کسی وفد کو مباہلے کی دعوت دی گئی ہوتی تو بیوی بچوں کو لانے کا نہ کہا گیا ہوتا، ورنہ ان کے پاس اس مباہلے کو مسترد کرنے کا منطقی جواب موجود ہوتا کہ جب بیوی بچے مدینہ میں ہیں ہی نہیں تو کہاں سے لائیں، یہ تو آپ (نبی پاکﷺ) کی طرف سے ٹالنے والی بات ہوئی (نعوذ باللہ)۔

اقول:۔ باہر سے آیا وفد بھی بیوی بچوں سمیت آ سکتا ہے وہ کسی جنگ کے لئے نہیں آیا تھا۔ بلکہ جنگ میں بھی عرب میں رواج تھا کہ عورتوں کا گروہ ساتھ ہوتا تھا (جنگ احد مثال موجود ہے جہاں عورتیں اپنے مردوں کو جنگ کے لئے اکسانے کے لئے ساتھ موجود تھے) اور بچے بھی موجود ہوتے تھے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اسلام نے جنگ میں بچوں اور عورتوں کے خلاف اقدام سے منع فرمایا ہے۔ کیا مخاطب موصوف کے باس کوئی دلیل ہے کہ وفد کے لئے عورتوں اور بچوں کا ساتھ لانا ناممکنات میں سے تھا؟

وال المخاطب:۔ مزید یہ کہ روایت کے مطابق مرد نجرانیوں سے تو بیوی بچوں کو لانے کا مطالبہ کیا گیا، دوسری جانب مسلمانوں کی جانب سے پنجتں پاکؓ کو بھیج دیا گیا- کیا نجرانیوں کی طرف سے یہ جواب نہیں آنا چاہیے تھا کہ ہم سے تو ہزار میل کے فاصلے سے عورتیں (جمع کا صیغہ) بلوانے کا کہا ہے اور خود اپنی عورتوں (بیویوں) کی موجودگی کے باوجود بھی صرف ایک بیٹی (واحد کا صیغہ) بھیجی۔(گویا نبیﷺ کی طرف سے مباہلے کی بنیادی شرط ہی کی خلاف ورزی مانی جائے)۔ گویا اس روایت کی رو سے مباہلہ میں جھوٹا ہونے کی لعنت نعوذ باللہ خود رسول اللہ ﷺ پر پڑتی ہے۔

اقول:۔ آیت میں نساء نا و نساء کم اس لئے استعمال ہوا کہ یہ لفظ عورتوں پر عموم ہے یعنی بیٹی اور بیوی دونوں پر اطلاق ہو سکتا ہے۔ یہاں ایسی کوئی قید نہیں تھی کہ فقط بیویوں کو لاؤ یا فقط بیٹیوں کو لاؤ یہاں عموم تھا کہ جس کو بہتر سمجھو لے آؤ یعنی “چوائس از یورز“۔ اور اس سلسلے میں رسول اللہ ص کی بیٹی اور نواسوں سے بڑھ کر کون ایسا خونی رشتہ تھا اور حضرت علی ع سے بڑھ کون سا ایسا فرد تھا جو تین تین رشتے رکھتا ہو جو اس کے لئے موزوں ہوتا؟ بیویوں کو نہ لے کر جانا اسی چوائس کا حصہ تھی جو نساء کم میں بھی دی گئی۔ موصوف اپنی کم عقلی کا بھار نوذ باللہ رسول اللہ ص پر ڈالے تو اس میں اللہ کے رسول ص کا تو کوئی قصور نہیں۔ رہی بات نساءنا کی جگہ ایک عورت لے جانے کی تو یہ بھی بطور نمائیدہ گئیں نہ کہ بطور ذات واحد۔ چنانچہ منطق سے نکل کر اگر مخاطب مخالف تھوڑی سے عربی ادب کے ساتھ انسیت پیدا کر لے تو یہ زیادہ مناسب ہے ورنہ آپ رسول اللہ ص کی ساری زندگی نعوذ باللہ مخالف اسلام قرار دے بیٹھیں گے۔

قال المخاطب:۔ تیسری بات نجرانی یہ بھی کہنے میں حق بجانب ہوتے کہ ہم سے بیٹے منگوائے گئے ہیں اور خود اپنے بیٹے کے موجود ہوتے ہوئے بھی دو نواسے بھیج دیے (واضح رہے کہ ۹ ہجری میں نبی اکرمﷺ کے صاحب زادے حضرت ابراہیمؓ حیات تھے) ۔ گویا حب علیؓ کی آڑ میں نبیﷺ کو مسلسل جھوٹا قرار دلوا کر لعنت پڑوائی جائے۔

اقول:۔ ہم مخاطب سے قرآن سے دلیل طلب کرتے ہیں کہ یہ واقعہ 9 ہجری کا ہے اور اس وقت رسول اللہ ص کے بیٹے حضرت ابراہیم ع زندہ تھے۔ ورنہ یہ جھوٹا جھوٹا کی گردار اپنی گردن میں بطور طوق لعنت ڈال لیں۔ اور اگر آپ روایات سے یہ بات ثابت کریں گے تو یہ آپ کے کلیہ کے خلاف ہے اور ہم تو الحمدللہ روایات سے ثابت کر دیں گے کہ یہ واقعہ 10 ہجری کا ہے اور اس وقت حضرت ابراہیم ع زندہ نہیں تھے۔ مگر کیونکہ فرقان فقط قرآن ہے چنانچہ ہم مخاطب مخالف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ قرآن سے اپنی بات کا ثبوت مہیا کریں۔

قال المخاطب:۔ یاد رہے اس روایت کے مطابق مباہلہ عیسائیوں سے ہو رہا تھا، اہلِ سنت سے تو نہیں ہورہا تھا کہ جواب نہ ملنے پر وہ نیم رافضی ہوجائیں- عیسائیوں نے تو اس سکیم پر صاف کہہ دینا تھا کہ مسلمانوں کے رسول نے تو اپنی ہی پیش کردہ شرائط کا پاس نہیں کیا، وہ اللہ کے رسول کیسے ہو سکتے ہیں۔

ظاہر ہے عقیدت کے نام پر نبیﷺ سے یہ جھوٹ بعد کے کسی دور میں منسوب کیا گیا ہے، جبکہ عیسائی یہ باتیں اس وقت پوچھنے کی سکت نہ رکھتے ہوں۔

اقول:۔ کاش اس وقت کے عیسائی آپ کی طرح سیانے ہوتے تو ضرور یہ بات پوچھتے مگر کیونکہ ان کا نمائیدہ علم و ادب سے گہرہ شغف رکھتا تھا اس لئے اسے علم تھا کہ یہ سب کیا ہے اور اس کی دلیل کیا ہے۔ کسی بھی قضیہ پر ہمیشہ نمائییندہ گفتگو کرتا ہے اگر سب بیک زبان بولنے لگ جائیں تو قضیہ حل ہونے کی بجائے مچھلی منڈی کا بازار سج جاتا ہے۔ ہم مناظرہ میں دو مناظرین کے درمیان بولنے والے تیسرے بندے کا بولنا پسند نہیں کرتے تو وہاں دو بدو ہر کسی کے لئے بولنا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ چنانچہ صاف ظاہر ہے کہ بات دو نمائندگان کے درمیان تھی نہ کہ ٹبروں کے ٹبر کے ساتھ۔

قال المخاطب:۔ دوسری آیت ٦٤ ہے، جس میں اہلِ کتاب کے اس مخاطب گروہ کو کہا گیا ہے کہ آؤ ہم لوگ اس بات پر جمع ہوجائیں جو ہم میں یکساں ہے:

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا

کہہ اے اہلِ کتاب! ایک بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ سوائے الله کے اور کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں

آیت کا متن اس بات میں بالکل واضح ہے کہ اہل کتاب کے اس گروہ کو مخاطب کیا جا رہا ہے جو مسلمانوں ہی کی طرح توحید پر یقین رکھتے ہیں. دنیا کے تمام مذاہب میں سے صرف یہودی ہی ہیں جو توحید پر ویسے ہی ایمان رکھتے ہیں جیسے اسلام کہتا ہے. دوسری جانب نجرانی عیسائی تو ویسے بھی حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا مانتے تھے. اور توحید کے قائل نہیں تھے.

مزے کی بات یہ ہے کہ روایت کی رو سے تو نجرانی بحث ہی یہ کر رہے تھے کہ حضرت عیسیٰ خدا کے بیٹے ہیں اور اسی بات پر مباہلہ بھی ہوا، کیا یہ ممکن ہے کہ ایسے صریح شرک کرنے والوں کو فوراً بعد ہی الله، عقیدہ توحید میں ان کو مسلمانوں کا ہمسر قرار دے دے. استغفرالله

تیسری آیت ٥٩ ہے جسکو بڑے طمطراق کے ساتھ الوہیت مسیح کے انکار کی دلیل کے طور پر ہمیں بتایا جاتا ہے- یہی وہ آیت ہے جس پر عیسائیوں کے ساتھ مباہلے کی پوری کہانی کھڑی ہے- کیونکہ باقی تو کسی ایک آیت سے بھی ادنی سا شائبہ بھی نہیں ہوسکتا کہ اس تقریر کے مخاطب عیسائی ہیں۔

إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ

" بے شک عیسیٰ کی مثال الله کے نزدیک آدم کی سی ہے، اسے مٹی سے بنایا پھر اسے کہا کہ ہو جا پھر ہو گیا"

کہا جاتا ہے کہ عیسائیوں سے کہا گیا کہ اگر تم بن باپ کی پیدائش کی وجہ سے عیسیٰ کو خدا کا بیٹا مانتے ہو تو پھر تو آدم کو بدرجہ اولیٰ خدا کا بیٹا مانو، کیونکہ اسکے تو ماں اور باپ دونوں ہی بیان نہیں کیے جاتے ۔

مگر آیت کے الفاظ اس مفروضے کی مکمل طور پر ابا کر رہے ہیں۔ کیونکہ یہاں الوہیت مسیح کا انکار نہیں کیا جا رہا بلکہ حضرت عیسیٰ کی غیر معمولی پیدائشِ زیرِ بحث ہے۔ اور ان کی غیر معمولی پیدائش پر مسلمانوں کا اختلاف یہودیوں سے ہے نہ کہ عیسائیوں سے، کیوںکہ عیسائی اور مسلمان دونوں ہی ان کی غیر معمولی طور پر پیدا ہونے کے قائل ہیں ۔ مزید یہ کہ آیت نمبر ٦٤ بھی یہی واضح کر رہی ہے کہ الوہیت کا موضوع مباہلہ کی وجہ نہیں ہو سکتا کیونکہ مباہلہ کے دونوں فریق توحید یعنی صرف ایک ہی خدا کے ہونے کے قائل ہیں.

حاصل کلام یہ کہ مباہلہ حضرت عیسیٰ کی غیر معمولی طور پر ہونے والی پیدائش کے موضوع پر تھا. اور حضرت مریم، حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ کی زندگیوں کے احوال بھی اسی پس منظر میں بتائے گئے ہیں. آیت نمبر ٣٩ میں جب حضرت زکریا کو بیٹے کی خوشخبری سنائی گئی ہے تو کہا گیا ہے کہ الله تجھ کو یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے جو الله کے ایک فرمان (حضرت عیسیٰ) کی گواہی دے گا۔

اقول:۔ کاش مخاطب نے خود آل عمران کا مطالعہ کیا ہوتا۔ ہم نے اوپر چند آیات پیش کیں جن میں صراحت ہے کہ اس سورہ میں مخاطب گروہ واحد نہیں اگر یہ آیت توحید پر تیقن دکھاتی ہے تو آیت نمبر 80 نصاریٰ کا عقیدہ تثلیث یعنی باپ، بیتا اور روح القدس پر صرب ہے یعنی “ولا یامرکم ان تتخذواالملائکۃ والنبین اربابا“ یعنی کوئی نبی تم کو فرشتوں اور پیغمبروں کو خدا ٹھہرانے کا حکم نہیں دے گا۔ بتائیے ہم اپنی بات میں حق بجانب ہیں یا آپ کی منطق یہاں پر بھی توحید کا تیقن دیکھ رہی ہے؟ اللہ نے تو ان کو ہمسر قرار نہیں دیا البہ ان کی مذمت فرما دی مگر آپ کی منطق ان کو شاید ہمسری کے مقام پر لے آئے۔


نوٹ:۔ اس سے آگے ہمارے مخاطب کی تحریر انہی باتوں کے گرد گردش کر رہی ہے کہ جو اوپر بیان ہو چُکی اس لئے ہم اس کی تکرار میں نہیں جائیں گے۔


یہ اس تحریر کے جواب میں جو موصوف نے ہماری تحریر کے جواب میں لکھی۔

قال المخاطب:۔ تو پہلا نکتہ کا جواب یہ ہے کہ قرآن فرقان ہے نہ کہ روایت. یعنی قرآن پرکھے گا کہ روایت ٹھیک ہے نہ کہ روایت بتائے گی کہ قرآن ٹھیک ہے کہ نہیں. تو جو روایت قرآن کے تابع ہو گی اسی کو مانا جائے گا. ادھر روایت کے الفاظ قرآن سے متصادم ہیں تو یا تو آپ اپنے آپ کو منکر قرآن مانیں یا پھر روایت کو چھوڑ دیں.


اقول:۔ ہم نے اوپر آپ کو چیلنج کر دیا کہ بنا روایت کے آپغزوہ احد 3 ہجری میں ثابت کریں۔ پھر وفد نصاریٰ کی آمد 9 ہجری میں ثابت کریں۔ وفات حضرت ابراہیم ع 9 ہجری میں ثابت کریں پھر ہم سے آ کر کہیں کہ روایات کو چھوڑ دیں۔ ہم تو الحمدللہ منکر قرآن قرار نہیں پائیں گے کیونکہ ہم قرآن کی آیت کے تحت دلیل کے طور پر روایت لاتے ہیں نہ کہ روایت کے تحت دلیل کے لئے قرآن کی آیت جبکہ آپ روایت سے تو گئے ہی اب اگر آپ قرآن سے درج بالا باتیں ثابت نہ کر پائے تو آپ قرآن فرقان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے کہ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔

قال المخاطب:۔ دوسرا نکتہ الله نے قرآن میں غیر مسلموں کو قرآن کے مثل دس سورت یا ایک سورت کا چیلنج دیا ہے. تو اگر سورتیں ہی بیس بیس سال میں اتر رہی تھیں تو پھر تو یہ چیلنج بھی ٢٠ سال بعد ہی دینے چاہیے تھے یہ تو مکی دور کے آغار میں اور مدنی دور کے آغاز میں دیے گئے ہیں. تو جیسے قرآن کہتا ہے کہ آخر تم سوچتے کیوں نہیں، یہی میرا آپ سے سوال ہے کہ آخر آپ سوچتے کیوں نہیں کہ اگر یہ سورتیں ہی ٢٠ ٢٠ سال میں اتر رہی تھیں تو یہ چیلنج کیسے الله دے سکتا ہے؟

اقول:۔ قرآن کی ایک آیت بھی قرآن ہی ہے اور ایک سورت بھی قرآن ہی ہے۔ چنانچہ اگر اس دعویٰ کے وقت ایک آیت بھی اتری ہوتی تو بھی یہ چیلنج قابل عمل تھا کہ اسی ایک آیت جیسی کوئی بنا لاؤ۔ آپ کی کس منطق کے تحت یہ چیلنج پورے قرآن پر ہوا؟ اور یہ فقط کسی بیس سال کے لئے نہیں بلکہ قیامت تک کے لئے چیلنج تھا اور اگر بلفرض آیات بیس بیس سال بعد اترتی بھی تو کفار کو تو آسانی تھی بیس سال محنت کر کے کوئی دس آیات ہی بنا لیتے۔ مگر یہ بذات خود ایک معجزہ ہے کہ قیامت تلک ایسا نہ ہو پائے گا۔ اور قرآن بماطق نزول ہونے پر ہی معجزہ قرار نہیں پاتا بلکہ اس کی ایک ایک آیت معجزہ ہے اور ادب کا ایسا شاہکار ہے کہ آیات کو ان کی ترتیب سے بدل کر بھی پڑھ لو تو کسی ایک جگہ بھی مطلب فوت نہیں ہوتا ہاں تسلسل ٹوٹ جاتا ہے۔ جیسے بطور مثال ہم سورہ الحمد کی چند آیات آگے پیچھے کر کے پڑھتے ہیں۔ الرحمن الرحیم۔ الحمدللہ رب العالمین۔ ایاک نعبد وایاک نستعین۔ مالک یوم الدین۔ بتائیے کس آیت کے مطلب میں فرق پڑا؟ یہ ہے معجزہ قرآنی۔ اور اسی پر بی بی عائشہ کی بخاری میں روایت ہے کہ قرآن کو جس مرضہ ترتیب سے پڑھ لو کوئی مضائقہ نہیں۔ (ضرورت پڑھنے پر پیش کر دی جائے گی۔)

مخاطب کی باقی باتوں کا جواب ہم اوپر دے چُکے جواب الجواب میں بھی موصوف نے انہی باتوں کی تکرار کی۔


 

PakiPatriot

MPA (400+ posts)
آیات مباہلہ سورہ آل عمران میں وارد ہوئی ہیں ۔ سورہ آل عمران کا آخری حصہ غزوہ احد کے نتائج سے بحث کرر ہا ہے، گویا قرآن کے نظم کی بنیاد پر اس سورت کا دورِ نزول ۳ ہجری بنتا ہے۔ سورت کے ابتدائی حصہ میں حضرت عیسیٰؑ کی شخصیت سے متعلق اہلِ کتاب کے ایک گروہ سے کلام ہورہا ہے۔ ان آیات کا اگر خالی الذہن ہوکر مطالعہ کیا جائے تو تین چیزیں بالکل واضح ہوجاتی ہیں، کہ حضرت عیسیٰؑ سے متعلق اس بحث میں مخاطب وہ لوگ ہیں، جنہوں نے حضرت عیسیٰ کا انکار کیا ہے نہ کہ وہ جو حضرت عیسیٰ کے ماننے والے ہیں، یعنی یہودی نہ کہ عیسائی۔

دوسری بات یہ کہ مخاطب گروہ توحید پر یقین رکھتا ہے۔ یہ بھی اسی بات کی تائید کرتی ہے کہ مخاطب گروہ یہودی ہی ہے نہ کہ عیسائی۔تیسری بات یہ کہ جس گروہ کو مباہلے کی دعوت دی گئی ہے وہ مدینہ میں اہل خانہ سمیت مقیم ہے، یعنی اسکے بیوی ہچے ساتھ ہیں، نہ کہ ہزار میل
دور سے آیا ہوا مردوں کا کوئی وفد۔

حب علیؓ کا دعویٰ کرنے والی برادری نے شانِ نزول کے نام پر قرآن پرجو بڑے بڑے ڈاکے ڈالے ہیں ان میں سب سے بڑا ڈاکہ انہی آیات پر ہے، کیونکہ ان آیات کی تفسیرسورت میں درج الفاظ کو نظر انداز کرتے ہوئے مکمل طور پر بیان کردہ شانِ نزول کے آئینہ میں کی جاتی ہے۔ جبکہ آیتِ تطہیر (سورہ احزاب) پر تو پھر بھی ڈرتے ڈرتے بعض لوگوں نے یہ بات کہنے کی جسارت کرلی ہے کہ وہاں بالاصل ازواجِ رسولﷺ بھی (ہی) مراد ہیں۔ شانِ نزول کا بنیادی قول مورخ محمد بن اسحٰق کا ہے، جن کے مطابق "اس سورت کی اسّی (۸۰) سے کچھ زائد ابتدائی آیات وفدِ نجران کی آمد کے موقع پر نازل ہوئی تھیں، اور نجرانی عیسائیوں کا وفد ۹ ہجری میں آیا تھا"- کہا جاتا ہے مباہلہ میں مسلمانوں کی طرف سے پنجتن پاکؓ پیش ہوئے تھے، اور پھر عیسائی مباہلے سے دست بردار ہوگئے۔

غزوہ احد (۳ ہجری ) کے زمانے میں نازل ہونے والی سورت کی بعض آیات کو ۹ ہجری میں پہنچانے کی ضرورت اہل تشیع کو اس لیے محسوس ہوئی کہ ۳ہجری میں حضرات حسنینؓ کی پیدائش نہیں ہوئی تھی، لہذا پنجتن فارمولے کا قرآنی ثبوت ۳ہجری میں نہیں مل سکتا تھا- ۹ ہجری میں پنجتنؓ کا تو وجود تھا، لیکن مدینہ میں یہود موجود نہیں تھے، لہذا آیات میں حضرت عیسیٰؑ کے نام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے واقعہ کا رخ عیسائیوں کی طرف پھیر دیا گیا۔

غور کرنے والے حضرات کے لیے ۳ نکات پیش کردیتا ہوں:

مباہلہ کی دعوت دیتے وقت کہا گیا ہے کہ اپنی عورتوں اور بیٹوں کے ساتھ تم بھی آؤ اور ہم بھی-
( آل عمران آیت 61)فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَکہہ دے آؤ ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں بلائیں پھر سب التجا کریں اور الله کی لعنت ڈالیں ان پر جو جھوٹے ہوں

یہاں تم اور ہم کے صیغے بہت اہم ہیں- اردو زبان میں تم کا لفظ واحد اور جمع دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، تاہم عربی میں تم کے لیے 'کم' کا لفظ آیا ہے جو کہ ایک یا دو لوگوں کے لیے نہیں آتا- یہاں لفظ 'کم' سے مراد 'تم لوگ' ہے، دوسری جانب لفظ 'نا' سے مراد 'ہم لوگ' ہے- نجرانی وفد سے متعلق روایت بتاتی ہے کہ ہم لوگ سے مراد صرف ایک فرد یعنی حضرت علیؓ ہیں- کیا جس چیز کا مطالبہ ازروئے قرآن مجسم قرآن نبی اکرم ﷺ نجرانیوں سے کر رہے تھے، نعوذباللہ خود اس پر عمل نہیں کر رہے تھے۔

اگر باہر سے آئے ہوئے کسی وفد کو مباہلے کی دعوت دی گئی ہوتی تو بیوی بچوں کو لانے کا نہ کہا گیا ہوتا، ورنہ ان کے پاس اس مباہلے کو مسترد کرنے کا منطقی جواب موجود ہوتا کہ جب بیوی بچے مدینہ میں ہیں ہی نہیں تو کہاں سے لائیں، یہ تو آپ (نبی پاکﷺ) کی طرف سے ٹالنے والی بات ہوئی (نعوذ باللہ)۔

مزید یہ کہ روایت کے مطابق مرد نجرانیوں سے تو بیوی بچوں کو لانے کا مطالبہ کیا گیا، دوسری جانب مسلمانوں کی جانب سے پنجتں پاکؓ کو بھیج دیا گیا- کیا نجرانیوں کی طرف سے یہ جواب نہیں آنا چاہیے تھا کہ ہم سے تو ہزار میل کے فاصلے سے عورتیں (جمع کا صیغہ) بلوانے کا کہا ہے اور خود اپنی عورتوں (بیویوں) کی موجودگی کے باوجود بھی صرف ایک بیٹی (واحد کا صیغہ) بھیجی۔(گویا نبیﷺ کی طرف سے مباہلے کی بنیادی شرط ہی کی خلاف ورزی مانی جائے)۔ گویا اس روایت کی رو سے مباہلہ میں جھوٹا ہونے کی لعنت نعوذ باللہ خود رسول اللہ ﷺ پر پڑتی ہے۔

تیسری بات نجرانی یہ بھی کہنے میں حق بجانب ہوتے کہ ہم سے بیٹے منگوائے گئے ہیں اور خود اپنے بیٹے کے موجود ہوتے ہوئے بھی دو نواسے بھیج دیے (واضح رہے کہ ۹ ہجری میں نبی اکرمﷺ کے صاحب زادے حضرت ابراہیمؓ حیات تھے) ۔ گویا حب علیؓ کی آڑ میں نبیﷺ کو مسلسل جھوٹا قرار دلوا کر لعنت پڑوائی جائے۔

یاد رہے اس روایت کے مطابق مباہلہ عیسائیوں سے ہو رہا تھا، اہلِ سنت سے تو نہیں ہورہا تھا کہ جواب نہ ملنے پر وہ نیم رافضی ہوجائیں- عیسائیوں نے تو اس سکیم پر صاف کہہ دینا تھا کہ مسلمانوں کے رسول نے تو اپنی ہی پیش کردہ شرائط کا پاس نہیں کیا، وہ اللہ کے رسول کیسے ہو سکتے ہیں۔

ظاہر ہے عقیدت کے نام پر نبیﷺ سے یہ جھوٹ بعد کے کسی دور میں منسوب کیا گیا ہے، جبکہ عیسائی یہ باتیں اس وقت پوچھنے کی سکت نہ رکھتے ہوں۔ اور عباسیوں/علویوں کی خلافت حاصل کرنے کی تحریک زوروں پر ہو۔

دوسری آیت ٦٤ ہے، جس میں اہلِ کتاب کے اس مخاطب گروہ کو کہا گیا ہے کہ آؤ ہم لوگ اس بات پر جمع ہوجائیں جو ہم میں یکساں ہے:

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا کہہ اے اہلِ کتاب! ایک بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ سوائے الله کے اور کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں

آیت کا متن اس بات میں بالکل واضح ہے کہ اہل کتاب کے اس گروہ کو مخاطب کیا جا رہا ہے جو مسلمانوں ہی کی طرح توحید پر یقین رکھتے ہیں. دنیا کے تمام مذاہب میں سے صرف یہودی ہی ہیں جو توحید پر ویسے ہی ایمان رکھتے ہیں جیسے اسلام کہتا ہے. دوسری جانب نجرانی عیسائی تو ویسے بھی حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا مانتے تھے. اور توحید کے قائل نہیں تھے

مزے کی بات یہ ہے کہ روایت کی رو سے تو نجرانی بحث ہی یہ کر رہے تھے کہ حضرت عیسیٰ خدا کے بیٹے ہیں اور اسی بات پر مباہلہ بھی ہوا، کیا یہ ممکن ہے کہ ایسے صریح شرک کرنے والوں کو فوراً بعد ہی الله، عقیدہ توحید میں ان کو مسلمانوں کا ہمسر قرار دے دے. استغفرالله
۳)- تیسری آیت ٥٩ ہے جسکو بڑے طمطراق کے ساتھ الوہیت مسیح کے انکار کی دلیل کے طور پر ہمیں بتایا جاتا ہے- یہی وہ آیت ہے جس پر عیسائیوں کے ساتھ مباہلے کی پوری کہانی کھڑی ہے- کیونکہ باقی تو کسی ایک آیت سے بھی ادنی سا شائبہ بھی نہیں ہوسکتا کہ اس تقریر کے مخاطب عیسائی ہیں۔

إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ" بے شک عیسیٰ کی مثال الله کے نزدیک آدم کی سی ہے، اسے مٹی سے بنایا پھر اسے کہا کہ ہو جا پھر ہو گیا"

کہا جاتا ہے کہ عیسائیوں سے کہا گیا کہ اگر تم بن باپ کی پیدائش کی وجہ سے عیسیٰ کو خدا کا بیٹا مانتے ہو تو پھر تو آدم کو بدرجہ اولیٰ خدا کا بیٹا مانو، کیونکہ اسکے تو ماں اور باپ دونوں ہی بیان نہیں کیے جاتے ۔

مگر آیت کے الفاظ اس مفروضے کی مکمل طور پر ابا کر رہے ہیں۔ کیونکہ یہاں الوہیت مسیح کا انکار نہیں کیا جا رہا بلکہ حضرت عیسیٰ کی غیر معمولی پیدائشِ زیرِ بحث ہے۔ اور ان کی غیر معمولی پیدائش پر مسلمانوں کا اختلاف یہودیوں سے ہے نہ کہ عیسائیوں سے، کیوںکہ عیسائی اور مسلمان دونوں ہی ان کی غیر معمولی طور پر پیدا ہونے کے قائل ہیں ۔ مزید یہ کہ آیت نمبر ٦٤ بھی یہی واضح کر رہی ہے کہ الوہیت کا موضوع مباہلہ کی وجہ نہیں ہو سکتا کیونکہ مباہلہ کے دونوں فریق توحید یعنی صرف ایک ہی خدا کے ہونے کے قائل ہیں

حاصل کلام یہ کہ مباہلہ حضرت عیسیٰ کی غیر معمولی طور پر ہونے والی پیدائش کے موضوع پر تھا. اور حضرت مریم، حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ کی زندگیوں کے احوال بھی اسی پس منظر میں بتائے گئے ہیں. آیت نمبر ٣٩ میں جب حضرت زکریا کو بیٹے کی خوشخبری سنائی گئی ہے تو کہا گیا ہے کہ الله تجھ کو یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے جو الله کے ایک فرمان (حضرت عیسیٰ) کی گواہی دے گا۔

بات صاف ہوگئی کہ مباہلے کی دعوت بنو نضیر کے یہودیوں کو ۳ ہجری میں غزوہ احد کے زمانے میں ہی مدینہ منورہ میں دی گئی تھی، جسکو انہوں نے قبول نہ کیا- اسی بات کی تصدیق آیت ٦٣ سے بھی ہو رہی ہے کہ منہ موڑنے والے ہی فسادی ہیں. درحقیقت یہ بات تو سوره بقرہ اور سوره نساء سے بھی واضح ہے کہ مدینہ کا یہودی حضرت عیسیٰ کے متعلق کج بحثیاں کر رہے تھے. ظاہر سی بات ہے کہ نجران سے آنے والے عیسائیوں کا وفد اگر اپنے عقائد کے متعلق استفسار کر رہا تھا تو مباہلہ سے گریز کی صورت میں ان کو مفسد تو نہیں قرار دیا جا سکتا.
دراصل اس مباہلہ کی دعوت میں مدینہ کے مفسد یہودیوں کو کہا گیا تھا کہ اگر تم اپنے آپ کو سچا سمجھتے ہو تو نو مسلم معاشرے میں فتنہ و فساد پھیلانے کی بجائے مباہلہ کی دعوت قبول کرو تم بھی آل اولاد سمیت آؤ اور ہم مدینہ کے مسلمان بھی اپنی آل اولاد کو لے کر الله کے حضور مباہلہ کے لئے پیش کر دیں. اور دعا کریں کہ جو فریق بھی جھوٹا ہے اس پر الله کی لعنت پڑے. اور مباہلہ سے فرار کی صورت میں تمہارا مفسد ہونا ثابت ہو جائے گا

یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اگر یہاں دونوں فریقوں کے خدا مختلف ہوتے جیسا کہ عیسائیوں اور مسلمانوں کے مباہلہ کی صورت میں ہوتا تو کس فریق کے خدا سے دعا کی جاتی کہ جھوٹوں پر لعنت بھیجے. کیا نبی آخر الزمان عیسائیوں کے خدا حضرت عیسیٰ سے دعا کرتے؟ نعوذ باللہ

آیات یہودیوں کے ساتھ مباہلہ پر مکمل طور پر واضح ہیں لیکن کیونکہ یہودیوں اور مجوسیوں کا گٹھ جوڑ روزِ اول سے ہے، اس لیے الزام عیسائیوں پر ڈلواکر یہودیوں کو مباہلے کے فرار کے الزام سے پاک کروایا گیا ہے۔اور دوسرا کیونکہ مجوسیوں کا مخصوص ایجنڈا حضراتِ حسنینؓ کی عدم پیدائش کے باءث ۳ ہجری میں پورا نہیں ہو رہا تھا، تو سورہ آلِ عمران کے ابتدائی حصے کو غزوہِ احد سے ٦ سال بعد پہنچادیا گیا- اس اقدام نے جہاں حقیقی مجرموں یعنی یہودیوں کی چشم پوشی کی، وہیں قران کے طرز استدلال کو بھی کمزور طریقے پر پیش کیا، کیونکہ آیات کو تاویل کرکے عیسائیوں سے مباہلے کا قابل بنایا گیا ہے، نبی پاکﷺ کے قول و فعل میں تضاد دکھایا گیا ہے، کہ فریق مخالف سے جس طور لوگوں کو لانے کو کہا ہے، خود اس طور لوگ نہیں لاہے، سورت کے نظم کو توڑا گیا ہے، کہ آیات کی ترتیب آگے پیچھے گرداندی گئی ہے۔ جس گروہ نے اپنی سیاسی اجارا داری کے لیے رسول اور قرآن پر اس قدر دست درازی کی ہے، تو باقی تاریخ بدلنا تو اسکے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا
Link

اگر اڈمن کو اس تحریر پر کوئی اعتراض ہے تو برائے مہربانی یہ بتا دے کہ کیا سیاست.پی کے پر قرآن کے بارے میں لکھنا ممنوع ہے؟


 

Shaji

Banned
دندان شکن جواب ملاحظہ فرمائیں

ابن آدم کے آیہ مباہلہ پر اعتراض کے جواب میں ہم نے ایک سرسری سا جائزہ پیش کیا اور اس میں موصوف کے دعویٰ کی نکارت ظاہر کی مگر شاید ہمارا سرسری جائزہ ایسا تھا جو موصوف کے سر سے گزر گیا اس لئے خاطب الناس علی قدر عقولہم کے تحت ہم ذرا سہل انداز میں اور نقطہ در نقطہ اپنی بات پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔


[FONT=&amp]قال المخاطب:۔ آیات مباہلہ سورہ آل عمران میں وارد ہوئی ہیں ۔ سورہ آل عمران کا آخری حصہ غزوہ احد کے نتائج سے بحث کرر ہا ہے، گویا قرآن کے نظم کی بنیاد پر اس سورت کا دورِ نزول ۳ ہجری بنتا ہے۔

[FONT=&amp]اقول:۔ صد افسوس کہ ابن آدم صاحب دوسروں کے لئے تو فرما رہے ہیں کہ سوائے قرآن کے سب ٹھکرا دو اور خود تاریخ سے استدلال فرما رہے ہیں۔ ہم کہتے ہیں غزوہ احد 3 ہجری میں نہیں 10 ہجری میں ہوا۔ کیا موصوف کے پاس قرآن کی کسی آیت میں یہ دلیل موجود ہے کہ یہ غزوہ 3 ہجری میں ہوا؟ اگر نہیں تو موصوف کو یہ علم کہاں سے ملا کہ یہ غزوہ 3 ہجری میں ہوا؟ اب موصوف کا فرمان کہ “تو پہلا نکتہ کا جواب یہ ہے کہ قرآن فرقان ہے نہ کہ روایت. یعنی قرآن پرکھے گا کہ روایت ٹھیک ہے نہ کہ روایت بتائے گی کہ قرآن ٹھیک ہے کہ نہیں. تو جو روایت قرآن کے تابع ہو گی اسی کو مانا جائے گا.“ جب قرآن فرقان ہے تو ہمیں غزوہ احد کی تاریخ 3 ہجری قرآن سے ثابت کر کے دیں ورنہ اپنا دعویٰ سمیٹ کر چلتے بنیں۔ اور اگر آپ روایت کو قرآن سے پرکھتے ہیں تو 3 ہجری تاریخ والی روایت کی صحت قرآن سے ثابت کریں ورنہ ہم آپ کو اپنے قول و فعل دونوں میں غیر منصف قرار دیں گے۔
[/FONT]​

[FONT=&amp]قال المخاطب:۔ سورت کے ابتدائی حصہ میں حضرت عیسیٰؑ کی شخصیت سے متعلق اہلِ کتاب کے ایک گروہ سے کلام ہورہا ہے۔ ان آیات کا اگر خالی الذہن ہوکر مطالعہ کیا جائے تو تین چیزیں بالکل واضح ہوجاتی ہیں، کہ حضرت عیسیٰؑ سے متعلق اس بحث میں مخاطب وہ لوگ ہیں، جنہوں نے حضرت عیسیٰ کا انکار کیا ہے نہ کہ وہ جو حضرت عیسیٰ کے ماننے والے ہیں، یعنی یہودی نہ کہ عیسائی۔دوسری بات یہ کہ مخاطب گروہ توحید پر یقین رکھتا ہے۔ یہ بھی اسی بات کی تائید کرتی ہے کہ مخاطب گروہ یہودی ہی ہے نہ کہ عیسائی۔
[/FONT]​

[FONT=&amp]اقول:۔ جناب کاش آپ خالی الذہن ہو کر مطالعہ کرتے تو آپ کو سورہ کے ابتداء سے ہی شواہد مل جاتے کہ یہ یہود و نصاریٰ دونوں سے خطاب ہے۔ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 3 “نزل علیک الکتاب بالحق مصدقا لما بین یدیۃ وانزل التورۃ والانجیل“ صاف بتا رہی ہے کہ مخاطب اہل توراۃ یعنی یہود اور اہل انجیل یعنی نصاریٰ ہیں۔ ایسا ہی خطاب اسی سورہ کی آیت نمبر 65 “وما انزلت التوراۃ والانجیل“ میں ہے۔ اور بقول آپ کے یہودی حضرت عیسیٰ (ع) کے انکاری تھے تو یقیناً وہ انجیل کے بھی انکاری ہوئے تو آیات میں انجیل کا ذکر کس لئے؟ پھر آیت نمبر 67 میں ہے “ما کان ابراہیم یھودیا ولا نصرانیا“۔ تو اگر مخاطب فقط یہود ہیں تو حضرت ابراہیم کے لئے یہ کیوں نہ کہا گیا کہ وہ یہودی نہیں تھے۔نصرانی نہیں تھے کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور اسی آیت کے تحت ہم نے وہ روایت پیش کی تھی جس کو موصوف اپنی عقل سے قرآن کے مخالف سمجھ بیٹھے کیونکہ اس میں اسی آیت کی تشریح ہے کہ یہود و نصاریٰ جھگڑ رہے تھے کہ حضرت ابراہیم ع یہودی ہیں یا نصرانی تب یہ آیت نازل ہوئی۔ چنانچہ آپ ہی کے اصول کے تحت وہ روایت معتبر ٹھہری کیونکہ اس کی قرآن تصدیق کر رہا ہے۔ پھر آیت نمبر 80 میں اللہ تعالیٰ تثلیث کی نفی فرما رہے ہیں جو عیسائیوں کا عقیدہ ہے یعنی “ولا یامرکم ان تتخذواالملائکۃ والنبین اربابا“ یعنی کوئی نبی تم کو فرشتوں اور پیغمبروں کو خدا ٹھہرانے کا حکم نہیں دے گا۔اور آپ کے بقول یہود تو خدائے واحد پر ایمان رکھتے تھے تو ان سے ایسی بات کہنا کیا درست ہے؟ طوالت کے خوف سے انہی چند آیات پر اکتفا کرتا ہوں کیونکہ مدعا واضح ہے۔ پھر ہم نے قرآن سے ہی ایک مثال پیش کی کہ واقعہ مدنی مگر درج مکی سورتوں میں یعنی واقعہ فدک۔ قرآن کو فرقان ماننے والے نے قرآن سے ہی دی گئی ہماری اس دلیل پر بھی آنکھ بند رکھی شاید یہاں انہیں قرآن فرقان نظر نہ آیا۔
[/FONT]​

[FONT=&amp]قال المخاطب:۔ تیسری بات یہ کہ جس گروہ کو مباہلے کی دعوت دی گئی ہے وہ مدینہ میں اہل خانہ سمیت مقیم ہے، یعنی اسکے بیوی ہچے ساتھ ہیں، نہ کہ ہزار میل دور سے آیا ہوا مردوں کا کوئی وفد۔
[/FONT]​

[FONT=&amp]اقول:۔ یہاں پھر ایسے بے تُکے عقلی گھوڑے دوڑانے کی کوشش کی گئی۔ کیا یہ نا ممکنات سے ہے کہ نصاریٰ نجران کا وفد اہل و عیال کے ساتھ آیا ہو؟ اگر نہیں اور ہرگز نہیں تو امکان کو آپ غیر امکان میں کیسے بالیقین بدل سکتے ہیں؟
[/FONT]​

[FONT=&amp]قال المخاطب:۔ جبکہ آیتِ تطہیر (سورہ احزاب) پر تو پھر بھی ڈرتے ڈرتے بعض لوگوں نے یہ بات کہنے کی جسارت کرلی ہے کہ وہاں بالاصل ازواجِ رسولﷺ بھی (ہی) مراد ہیں۔ شانِ نزول کا بنیادی قول مورخ محمد بن اسحٰق کا ہے، جن کے مطابق "اس سورت کی اسّی (۸۰) سے کچھ زائد ابتدائی آیات وفدِ نجران کی آمد کے موقع پر نازل ہوئی تھیں، اور نجرانی عیسائیوں کا وفد ۹ ہجری میں آیا تھا"- کہا جاتا ہے مباہلہ میں مسلمانوں کی طرف سے پنجتن پاکؓ پیش ہوئے تھے، اور پھر عیسائی مباہلے سے دست بردار ہوگئے۔
[/FONT]​

[FONT=&amp]غزوہ احد (۳ ہجری ) کے زمانے میں نازل ہونے والی سورت کی بعض آیات کو ۹ ہجری میں پہنچانے کی ضرورت اہل تشیع کو اس لیے محسوس ہوئی کہ ۳ہجری میں حضرات حسنینؓ کی پیدائش نہیں ہوئی تھی، لہذا پنجتن فارمولے کا قرآنی ثبوت ۳ہجری میں نہیں مل سکتا تھا- ۹ ہجری میں پنجتنؓ کا تو وجود تھا، لیکن مدینہ میں یہود موجود نہیں تھے، لہذا آیات میں حضرت عیسیٰؑ کے نام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے واقعہ کا رخ عیسائیوں کی طرف پھیر دیا گیا۔
[/FONT]​

[FONT=&amp]اقول:۔ ہم مخاطب کو یاد دہانی کرواتے ہیں کہ روایات سے آپ کا کچھ سروکار نہیں ورنہ آپ کو ہماری طرف سے بھی روایات قبول کرنا ہوں گی۔ غزوہ احد کے 3 ہجری میں ہونے کو قرآن سے پیش کیا جائے اور یہ بھی قرآن سے پیش کیا جائے کہ حضرات حسنین ع کی پیدائش تین ہجری میں نہیں ہوئی تھی اور صرف 9 ہجری میں پنجتن کا وجود تھا۔ بصورت دیگر مخاطب کی کسی بات کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا کیونکہ قاعدہ مخاطب کے تحت روایت سے قرآن کو نہیں پرکھا جا سکتا۔
[/FONT]​

[FONT=&amp]قال المخاطب:۔ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
[/FONT]​

[FONT=&amp]کہہ دے آؤ ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں بلائیں پھر سب التجا کریں اور الله کی لعنت ڈالیں ان پر جو جھوٹے ہوں
[/FONT]​

[FONT=&amp]یہاں تم اور ہم کے صیغے بہت اہم ہیں- اردو زبان میں تم کا لفظ واحد اور جمع دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، تاہم عربی میں تم کے لیے 'کم' کا لفظ آیا ہے جو کہ ایک یا دو لوگوں کے لیے نہیں آتا- یہاں لفظ 'کم' سے مراد 'تم لوگ' ہے، دوسری جانب لفظ 'نا' سے مراد 'ہم لوگ' ہے- نجرانی وفد سے متعلق روایت بتاتی ہے کہ ہم لوگ سے مراد صرف ایک فرد یعنی حضرت علیؓ ہیں- کیا جس چیز کا مطالبہ ازروئے قرآن مجسم قرآن نبی اکرم ﷺ نجرانیوں سے کر رہے تھے، نعوذباللہ خود اس پر عمل نہیں کر رہے تھے۔
[/FONT]​

[FONT=&amp]اقول:۔ کاش ہمارے مخاطب منطق کے علاوہ عربی ادب سے بھی کچھ واقفیت رکھتے۔ لفظ “کم“ مخاطب مخالف سے اس لئے ہے کہ وہ اپنی قوم کا نمائندہ ہے نہ کہ فرد واحد اس لئے “کم“ کی ضمیر اس کی قوم کی اجتماعیت کے سبب ہے نہ کہ اس نمائندہ کی ذات کے لئے۔ اسی طرح “نا“ کی ضمیر اسلام کا نمائندہ کی حیثیت سے ہے نہ کہ ایک ذات کی حیثیت سے۔ اس کو ہم انتہائی سہل انداز میں یوں سمجھاتے ہیں کہ میں کسی سے کہوں علماءنا و علماءکم یعنی ہمارے علما اور تمہارے علماء اب کہنے والا میں اکیلا ہوں مگر کیونکہ میں اپنی قوم کے علماء کی بات کر رہا ہوں تو قوم کے نمائندہ کی حیثیت سے ضمیر کا اطلاق واحد پر نہیں قوم کی اجتماعیت پر ہو گا اسی طرح علماءکم میں “کم“ کی ضمیر کا اطلاق آپ کی اکیلی ذات پر نہیں بلکہ آپ کی قومی اجتماعیت پر ہو گا۔ اور اسی لئے یہاں پر ضمائر جمع استعمال ہوئے۔ رسول اللہ ص تو اس پر ہی عمل کر رہے تھے جو قرآن کا حکم تھا مگر آپ کا ذہن کیونکہ منطق میں اٹکا ہے تو آپ کسی پر بھی الزام دھرنے کو کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
[/FONT]​

[FONT=&amp]قال المخاطب:۔ اگر باہر سے آئے ہوئے کسی وفد کو مباہلے کی دعوت دی گئی ہوتی تو بیوی بچوں کو لانے کا نہ کہا گیا ہوتا، ورنہ ان کے پاس اس مباہلے کو مسترد کرنے کا منطقی جواب موجود ہوتا کہ جب بیوی بچے مدینہ میں ہیں ہی نہیں تو کہاں سے لائیں، یہ تو آپ (نبی پاکﷺ) کی طرف سے ٹالنے والی بات ہوئی (نعوذ باللہ)۔
[/FONT]​

[FONT=&amp]اقول:۔ باہر سے آیا وفد بھی بیوی بچوں سمیت آ سکتا ہے وہ کسی جنگ کے لئے نہیں آیا تھا۔ بلکہ جنگ میں بھی عرب میں رواج تھا کہ عورتوں کا گروہ ساتھ ہوتا تھا (جنگ احد مثال موجود ہے جہاں عورتیں اپنے مردوں کو جنگ کے لئے اکسانے کے لئے ساتھ موجود تھے) اور بچے بھی موجود ہوتے تھے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اسلام نے جنگ میں بچوں اور عورتوں کے خلاف اقدام سے منع فرمایا ہے۔ کیا مخاطب موصوف کے باس کوئی دلیل ہے کہ وفد کے لئے عورتوں اور بچوں کا ساتھ لانا ناممکنات میں سے تھا؟
[/FONT]​

[FONT=&amp]وال المخاطب:۔ مزید یہ کہ روایت کے مطابق مرد نجرانیوں سے تو بیوی بچوں کو لانے کا مطالبہ کیا گیا، دوسری جانب مسلمانوں کی جانب سے پنجتں پاکؓ کو بھیج دیا گیا- کیا نجرانیوں کی طرف سے یہ جواب نہیں آنا چاہیے تھا کہ ہم سے تو ہزار میل کے فاصلے سے عورتیں (جمع کا صیغہ) بلوانے کا کہا ہے اور خود اپنی عورتوں (بیویوں) کی موجودگی کے باوجود بھی صرف ایک بیٹی (واحد کا صیغہ) بھیجی۔(گویا نبیﷺ کی طرف سے مباہلے کی بنیادی شرط ہی کی خلاف ورزی مانی جائے)۔ گویا اس روایت کی رو سے مباہلہ میں جھوٹا ہونے کی لعنت نعوذ باللہ خود رسول اللہ ﷺ پر پڑتی ہے۔
[/FONT]​

[FONT=&amp]اقول:۔ آیت میں نساء نا و نساء کم اس لئے استعمال ہوا کہ یہ لفظ عورتوں پر عموم ہے یعنی بیٹی اور بیوی دونوں پر اطلاق ہو سکتا ہے۔ یہاں ایسی کوئی قید نہیں تھی کہ فقط بیویوں کو لاؤ یا فقط بیٹیوں کو لاؤ یہاں عموم تھا کہ جس کو بہتر سمجھو لے آؤ یعنی “چوائس از یورز“۔ اور اس سلسلے میں رسول اللہ ص کی بیٹی اور نواسوں سے بڑھ کر کون ایسا خونی رشتہ تھا اور حضرت علی ع سے بڑھ کون سا ایسا فرد تھا جو تین تین رشتے رکھتا ہو جو اس کے لئے موزوں ہوتا؟ بیویوں کو نہ لے کر جانا اسی چوائس کا حصہ تھی جو نساء کم میں بھی دی گئی۔ موصوف اپنی کم عقلی کا بھار نوذ باللہ رسول اللہ ص پر ڈالے تو اس میں اللہ کے رسول ص کا تو کوئی قصور نہیں۔ رہی بات نساءنا کی جگہ ایک عورت لے جانے کی تو یہ بھی بطور نمائیدہ گئیں نہ کہ بطور ذات واحد۔ چنانچہ منطق سے نکل کر اگر مخاطب مخالف تھوڑی سے عربی ادب کے ساتھ انسیت پیدا کر لے تو یہ زیادہ مناسب ہے ورنہ آپ رسول اللہ ص کی ساری زندگی نعوذ باللہ مخالف اسلام قرار دے بیٹھیں گے۔
[/FONT]​

[FONT=&amp]قال المخاطب:۔ تیسری بات نجرانی یہ بھی کہنے میں حق بجانب ہوتے کہ ہم سے بیٹے منگوائے گئے ہیں اور خود اپنے بیٹے کے موجود ہوتے ہوئے بھی دو نواسے بھیج دیے (واضح رہے کہ ۹ ہجری میں نبی اکرمﷺ کے صاحب زادے حضرت ابراہیمؓ حیات تھے) ۔ گویا حب علیؓ کی آڑ میں نبیﷺ کو مسلسل جھوٹا قرار دلوا کر لعنت پڑوائی جائے۔
[/FONT]​

[FONT=&amp]اقول:۔ ہم مخاطب سے قرآن سے دلیل طلب کرتے ہیں کہ یہ واقعہ 9 ہجری کا ہے اور اس وقت رسول اللہ ص کے بیٹے حضرت ابراہیم ع زندہ تھے۔ ورنہ یہ جھوٹا جھوٹا کی گردار اپنی گردن میں بطور طوق لعنت ڈال لیں۔ اور اگر آپ روایات سے یہ بات ثابت کریں گے تو یہ آپ کے کلیہ کے خلاف ہے اور ہم تو الحمدللہ روایات سے ثابت کر دیں گے کہ یہ واقعہ 10 ہجری کا ہے اور اس وقت حضرت ابراہیم ع زندہ نہیں تھے۔ مگر کیونکہ فرقان فقط قرآن ہے چنانچہ ہم مخاطب مخالف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ قرآن سے اپنی بات کا ثبوت مہیا کریں۔
[/FONT]​

[FONT=&amp]قال المخاطب:۔ یاد رہے اس روایت کے مطابق مباہلہ عیسائیوں سے ہو رہا تھا، اہلِ سنت سے تو نہیں ہورہا تھا کہ جواب نہ ملنے پر وہ نیم رافضی ہوجائیں- عیسائیوں نے تو اس سکیم پر صاف کہہ دینا تھا کہ مسلمانوں کے رسول نے تو اپنی ہی پیش کردہ شرائط کا پاس نہیں کیا، وہ اللہ کے رسول کیسے ہو سکتے ہیں۔
[/FONT]​

[FONT=&amp]ظاہر ہے عقیدت کے نام پر نبیﷺ سے یہ جھوٹ بعد کے کسی دور میں منسوب کیا گیا ہے، جبکہ عیسائی یہ باتیں اس وقت پوچھنے کی سکت نہ رکھتے ہوں۔
[/FONT]​

[FONT=&amp]اقول:۔ کاش اس وقت کے عیسائی آپ کی طرح سیانے ہوتے تو ضرور یہ بات پوچھتے مگر کیونکہ ان کا نمائیدہ علم و ادب سے گہرہ شغف رکھتا تھا اس لئے اسے علم تھا کہ یہ سب کیا ہے اور اس کی دلیل کیا ہے۔ کسی بھی قضیہ پر ہمیشہ نمائییندہ گفتگو کرتا ہے اگر سب بیک زبان بولنے لگ جائیں تو قضیہ حل ہونے کی بجائے مچھلی منڈی کا بازار سج جاتا ہے۔ ہم مناظرہ میں دو مناظرین کے درمیان بولنے والے تیسرے بندے کا بولنا پسند نہیں کرتے تو وہاں دو بدو ہر کسی کے لئے بولنا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ چنانچہ صاف ظاہر ہے کہ بات دو نمائندگان کے درمیان تھی نہ کہ ٹبروں کے ٹبر کے ساتھ۔
[/FONT]​

[FONT=&amp]قال المخاطب:۔ دوسری آیت ٦٤ ہے، جس میں اہلِ کتاب کے اس مخاطب گروہ کو کہا گیا ہے کہ آؤ ہم لوگ اس بات پر جمع ہوجائیں جو ہم میں یکساں ہے:
[/FONT]​

[FONT=&amp]قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا
[/FONT]​

[FONT=&amp]کہہ اے اہلِ کتاب! ایک بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ سوائے الله کے اور کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں
[/FONT]​

[FONT=&amp]آیت کا متن اس بات میں بالکل واضح ہے کہ اہل کتاب کے اس گروہ کو مخاطب کیا جا رہا ہے جو مسلمانوں ہی کی طرح توحید پر یقین رکھتے ہیں. دنیا کے تمام مذاہب میں سے صرف یہودی ہی ہیں جو توحید پر ویسے ہی ایمان رکھتے ہیں جیسے اسلام کہتا ہے. دوسری جانب نجرانی عیسائی تو ویسے بھی حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا مانتے تھے. اور توحید کے قائل نہیں تھے.
[/FONT]​

[FONT=&amp]مزے کی بات یہ ہے کہ روایت کی رو سے تو نجرانی بحث ہی یہ کر رہے تھے کہ حضرت عیسیٰ خدا کے بیٹے ہیں اور اسی بات پر مباہلہ بھی ہوا، کیا یہ ممکن ہے کہ ایسے صریح شرک کرنے والوں کو فوراً بعد ہی الله، عقیدہ توحید میں ان کو مسلمانوں کا ہمسر قرار دے دے. استغفرالله
[/FONT]​

[FONT=&amp]تیسری آیت ٥٩ ہے جسکو بڑے طمطراق کے ساتھ الوہیت مسیح کے انکار کی دلیل کے طور پر ہمیں بتایا جاتا ہے- یہی وہ آیت ہے جس پر عیسائیوں کے ساتھ مباہلے کی پوری کہانی کھڑی ہے- کیونکہ باقی تو کسی ایک آیت سے بھی ادنی سا شائبہ بھی نہیں ہوسکتا کہ اس تقریر کے مخاطب عیسائی ہیں۔
[/FONT]​

[FONT=&amp]إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ
[/FONT]​

[FONT=&amp]" بے شک عیسیٰ کی مثال الله کے نزدیک آدم کی سی ہے، اسے مٹی سے بنایا پھر اسے کہا کہ ہو جا پھر ہو گیا"
[/FONT]​

[FONT=&amp]کہا جاتا ہے کہ عیسائیوں سے کہا گیا کہ اگر تم بن باپ کی پیدائش کی وجہ سے عیسیٰ کو خدا کا بیٹا مانتے ہو تو پھر تو آدم کو بدرجہ اولیٰ خدا کا بیٹا مانو، کیونکہ اسکے تو ماں اور باپ دونوں ہی بیان نہیں کیے جاتے ۔
[/FONT]​

[FONT=&amp]مگر آیت کے الفاظ اس مفروضے کی مکمل طور پر ابا کر رہے ہیں۔ کیونکہ یہاں الوہیت مسیح کا انکار نہیں کیا جا رہا بلکہ حضرت عیسیٰ کی غیر معمولی پیدائشِ زیرِ بحث ہے۔ اور ان کی غیر معمولی پیدائش پر مسلمانوں کا اختلاف یہودیوں سے ہے نہ کہ عیسائیوں سے، کیوںکہ عیسائی اور مسلمان دونوں ہی ان کی غیر معمولی طور پر پیدا ہونے کے قائل ہیں ۔ مزید یہ کہ آیت نمبر ٦٤ بھی یہی واضح کر رہی ہے کہ الوہیت کا موضوع مباہلہ کی وجہ نہیں ہو سکتا کیونکہ مباہلہ کے دونوں فریق توحید یعنی صرف ایک ہی خدا کے ہونے کے قائل ہیں.
[/FONT]​

[FONT=&amp]حاصل کلام یہ کہ مباہلہ حضرت عیسیٰ کی غیر معمولی طور پر ہونے والی پیدائش کے موضوع پر تھا. اور حضرت مریم، حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ کی زندگیوں کے احوال بھی اسی پس منظر میں بتائے گئے ہیں. آیت نمبر ٣٩ میں جب حضرت زکریا کو بیٹے کی خوشخبری سنائی گئی ہے تو کہا گیا ہے کہ الله تجھ کو یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے جو الله کے ایک فرمان (حضرت عیسیٰ) کی گواہی دے گا۔
[/FONT]​

[FONT=&amp]اقول:۔ کاش مخاطب نے خود آل عمران کا مطالعہ کیا ہوتا۔ ہم نے اوپر چند آیات پیش کیں جن میں صراحت ہے کہ اس سورہ میں مخاطب گروہ واحد نہیں اگر یہ آیت توحید پر تیقن دکھاتی ہے تو آیت نمبر 80 نصاریٰ کا عقیدہ تثلیث یعنی باپ، بیتا اور روح القدس پر صرب ہے یعنی “ولا یامرکم ان تتخذواالملائکۃ والنبین اربابا“ یعنی کوئی نبی تم کو فرشتوں اور پیغمبروں کو خدا ٹھہرانے کا حکم نہیں دے گا۔ بتائیے ہم اپنی بات میں حق بجانب ہیں یا آپ کی منطق یہاں پر بھی توحید کا تیقن دیکھ رہی ہے؟ اللہ نے تو ان کو ہمسر قرار نہیں دیا البہ ان کی مذمت فرما دی مگر آپ کی منطق ان کو شاید ہمسری کے مقام پر لے آئے۔

[/FONT]​

[FONT=&amp]نوٹ:۔ اس سے آگے ہمارے مخاطب کی تحریر انہی باتوں کے گرد گردش کر رہی ہے کہ جو اوپر بیان ہو چُکی اس لئے ہم اس کی تکرار میں نہیں جائیں گے۔

[/FONT]​

[FONT=&amp]یہ اس تحریر کے جواب میں جو موصوف نے ہماری تحریر کے جواب میں لکھی۔
[/FONT]​

[FONT=&amp]قال المخاطب:۔ تو پہلا نکتہ کا جواب یہ ہے کہ قرآن فرقان ہے نہ کہ روایت. یعنی قرآن پرکھے گا کہ روایت ٹھیک ہے نہ کہ روایت بتائے گی کہ قرآن ٹھیک ہے کہ نہیں. تو جو روایت قرآن کے تابع ہو گی اسی کو مانا جائے گا. ادھر روایت کے الفاظ قرآن سے متصادم ہیں تو یا تو آپ اپنے آپ کو منکر قرآن مانیں یا پھر روایت کو چھوڑ دیں.

[/FONT]​

[FONT=&amp]اقول:۔ ہم نے اوپر آپ کو چیلنج کر دیا کہ بنا روایت کے آپغزوہ احد 3 ہجری میں ثابت کریں۔ پھر وفد نصاریٰ کی آمد 9 ہجری میں ثابت کریں۔ وفات حضرت ابراہیم ع 9 ہجری میں ثابت کریں پھر ہم سے آ کر کہیں کہ روایات کو چھوڑ دیں۔ ہم تو الحمدللہ منکر قرآن قرار نہیں پائیں گے کیونکہ ہم قرآن کی آیت کے تحت دلیل کے طور پر روایت لاتے ہیں نہ کہ روایت کے تحت دلیل کے لئے قرآن کی آیت جبکہ آپ روایت سے تو گئے ہی اب اگر آپ قرآن سے درج بالا باتیں ثابت نہ کر پائے تو آپ قرآن فرقان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے کہ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔
[/FONT]​

[FONT=&amp]قال المخاطب:۔ دوسرا نکتہ الله نے قرآن میں غیر مسلموں کو قرآن کے مثل دس سورت یا ایک سورت کا چیلنج دیا ہے. تو اگر سورتیں ہی بیس بیس سال میں اتر رہی تھیں تو پھر تو یہ چیلنج بھی ٢٠ سال بعد ہی دینے چاہیے تھے یہ تو مکی دور کے آغار میں اور مدنی دور کے آغاز میں دیے گئے ہیں. تو جیسے قرآن کہتا ہے کہ آخر تم سوچتے کیوں نہیں، یہی میرا آپ سے سوال ہے کہ آخر آپ سوچتے کیوں نہیں کہ اگر یہ سورتیں ہی ٢٠ ٢٠ سال میں اتر رہی تھیں تو یہ چیلنج کیسے الله دے سکتا ہے؟
[/FONT]​

[FONT=&amp]اقول:۔ قرآن کی ایک آیت بھی قرآن ہی ہے اور ایک سورت بھی قرآن ہی ہے۔ چنانچہ اگر اس دعویٰ کے وقت ایک آیت بھی اتری ہوتی تو بھی یہ چیلنج قابل عمل تھا کہ اسی ایک آیت جیسی کوئی بنا لاؤ۔ آپ کی کس منطق کے تحت یہ چیلنج پورے قرآن پر ہوا؟ اور یہ فقط کسی بیس سال کے لئے نہیں بلکہ قیامت تک کے لئے چیلنج تھا اور اگر بلفرض آیات بیس بیس سال بعد اترتی بھی تو کفار کو تو آسانی تھی بیس سال محنت کر کے کوئی دس آیات ہی بنا لیتے۔ مگر یہ بذات خود ایک معجزہ ہے کہ قیامت تلک ایسا نہ ہو پائے گا۔ اور قرآن بماطق نزول ہونے پر ہی معجزہ قرار نہیں پاتا بلکہ اس کی ایک ایک آیت معجزہ ہے اور ادب کا ایسا شاہکار ہے کہ آیات کو ان کی ترتیب سے بدل کر بھی پڑھ لو تو کسی ایک جگہ بھی مطلب فوت نہیں ہوتا ہاں تسلسل ٹوٹ جاتا ہے۔ جیسے بطور مثال ہم سورہ الحمد کی چند آیات آگے پیچھے کر کے پڑھتے ہیں۔ الرحمن الرحیم۔ الحمدللہ رب العالمین۔ ایاک نعبد وایاک نستعین۔ مالک یوم الدین۔ بتائیے کس آیت کے مطلب میں فرق پڑا؟ یہ ہے معجزہ قرآنی۔ اور اسی پر بی بی عائشہ کی بخاری میں روایت ہے کہ قرآن کو جس مرضہ ترتیب سے پڑھ لو کوئی مضائقہ نہیں۔ (ضرورت پڑھنے پر پیش کر دی جائے گی۔)
[/FONT]​

[FONT=&amp]مخاطب کی باقی باتوں کا جواب ہم اوپر دے چُکے جواب الجواب میں بھی موصوف نے انہی باتوں کی تکرار کی۔[/FONT]​
[/FONT]​
 

Shaji

Banned

اگر ایڈمن کو جواب آن غزل پڑھ کر گھبراہٹ ہوتی ہو تو آغاز کے مرتکب کذاب مجرموں کی حوصلہ شکنی کریں۔ ان شا للہ یہاں امن کی فاختاؤں کا راج ہوگا۔

 

مسلمان متوجہ ہوں
-------------

ابن ایڈمز (مضمون نویس) اور تھریڈ سٹارٹر ہذا دونوں منکرین حدیث ہیں۔
بتانا میری اور بچنا آپکی ذمہ داری ہے۔
 

alimula

Senator (1k+ posts)
بس فتوہ تو فورن تلوار کی طرح نکلتا ہے۔ بات بھی پوری نہیں سننی۔

مسلمان متوجہ ہوں
-------------

ابن ایڈمز (مضمون نویس) اور تھریڈ سٹارٹر ہذا دونوں منکرین حدیث ہیں۔
بتانا میری اور بچنا آپکی ذمہ داری ہے۔
 

Foreigner

Senator (1k+ posts)

اگر ایڈمن کو جواب آن غزل پڑھ کر گھبراہٹ ہوتی ہو تو آغاز کے مرتکب کذاب مجرموں کی حوصلہ شکنی کریں۔ ان شا للہ یہاں امن کی فاختاؤں کا راج ہوگا۔



مسلمان متوجہ ہوں
-------------

ابن ایڈمز (مضمون نویس) اور تھریڈ سٹارٹر ہذا دونوں منکرین حدیث ہیں۔
بتانا میری اور بچنا آپکی ذمہ داری ہے۔

بس فتوہ تو فورن تلوار کی طرح نکلتا ہے۔ بات بھی پوری نہیں سننی۔

..ہاہا
.وہ بھی مسلمان نہیں. اور وہ بھی مسلمان نہیں .. اور تم بھی مسلمان نہیں، صرف میں ہی مسلمان ہوں
..واہ میرے مسلمان بھائیو

 
Status
Not open for further replies.