نائیجیریا میں لوٹی رقم کی واپسی

sumisrar

Senator (1k+ posts)
نائیجریا کے وزیر برائے زراعت و دیہی ترقی اودو اوگے نے سینیٹ کے اجلاس میں نائیجریا کے اقتصادی بحران پر بات کرتے ہوئے اپنے ملک کے ساتھ عالمی مالیاتی اداروں کے سلوک پر تبصرہ کیا۔ یہ کہ ’’عالمی مالیاتی اداروں نے نائیجیریا کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔

images


ورلڈ بینک کے قابل لوگوں نے آکر کہا آپ ہر ہفتے کرنسی کی قدر گرا کر بہتر کر رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا ’’ہماری اس تباہی کا آغاز 1986سے ہوا جب ہم نے ملک میں اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام بنایا، ہمیں 32سال میں ہر ہفتے اپنی کرنسی کی قدر گرانا پڑی، کبھی ایک نائیرا ایک ڈالر پچاس سینٹ کے برابر تھا۔

ہم نے 32سال کرنسی اتنی ڈی ویلیو کی کہ ایک ڈالر 557نائیرا کے برابر ہو گیا، جس سے ملک میں غربت اور ابتری آئی شرح سود تیس فیصد تک پہنچ گئی، جس کے بعد نہ کوئی فیکٹری چلا سکا اور نہ ہی کوئی زمیندار کھیتی باڑی کر سکا۔ جب ہم چاولوں کا جہاز درآمد کر رہے ہوتے ہیں تو ساتھ ہی ہم بیروزگاری کا جہاز بھی درآمد کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ ایسا کر کے ہم اپنی دولت مستحکم معیشت کے حوالے کر دیتے ہیں‘‘۔

نائیجریا میں ٹوتھ پک لانے کا خرچہ اٹھارہ لاکھ ڈالر اور ٹماٹر کی پیسٹ کی درآمد کا خرچہ چار کروڑ ڈالر تھا، اب ٹماٹر کی ایک ٹوکری 2ہزار نائیرا میں دستیاب ہے۔ کھانے کے قابل ٹماٹر پیسٹ بنانے کے لئے سٹین لیس اسٹیل کا پلانٹ درکار ہے، دو لگالیں تو ایک سال میں ٹماٹر پیسٹ کی درآمد بند ہو جائے گی مگر جب ایسا ہو گا

تو آپ کے کئی دشمن بن جائیں گے۔ ان لوگوں نے ملکی معیشت کو یرغمال بنا لیا ہے جسے آزاد کرنے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں۔ ہماری حکومت اس لئے کم مقبول ہے کیونکہ ہم درآمد کم کرنا چاہتے ہیں۔ دولت اپنے ہی لوگوں کو منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ جب ہم درآمد پر کنٹرول کرتے ہیں تو انہیں نقصان ہوتا ہے اور یہ ہمارے خلاف ہر قسم کا پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ قومی معیشت کو نقصان ہو رہا ہے ‘‘۔

آج ہی عمران حکومت کی کوئی ٹیم اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ کی کسی ایک سپرمارکیٹ میں جاکر انسپکشن کر لے، اسے ڈالروں میں درآمد شدہ اچار، چٹنی، مربے، ٹماٹر پیسٹ، مش روم، گائے کا دودھ، مکھن، شہد، پنیر اور ایسی درجنوں اشیائے خورونوش ملیں گی جو ملک میں بکثرت موجود ہیں، لیکن ان کے معیار کو قدرے بڑھانے کی بجائے کروڑوں ڈالر کی یہ اشیائے خورونوش ہمسایہ چین سے سستی ہی نہیں امریکہ، برطانیہ، ڈنمارک سے لے کر تھائی لینڈ، مراکش اور کئی ترقی پزیر ممالک سے درآمد کی جا رہی ہیں،

حتیٰ کہ ملک میں بکثرت پیدا ہونے والا فروٹ جیسے کیلا، سیب، مالٹا اور لیمن تک بھی دھڑ لے سے درآمد کیا جا رہا ہے، جبکہ اس سے کہیں زیادہ اپر مڈل کلاس کیا اب یہ بے موسمی پھل، سبزیاں اور ان سے تیار اشیاء بڑی مقدار میں درآمدات کرکے مڈل کلاس کو بھی ان کی لت میں مبتلا کیا جا رہا ہے۔ یہ اور ایسی کتنی ہی اشیائے خورونوش جو پاکستان کسی پالیسی اور توجہ سے برآمد کر سکتا ہے (اور کرتا رہا ہے) اب ملک میں درآمد کی جا رہی ہیں وہ بھی تب جب ہماری درآمد اور برآمدات کا توازن تشویشناک حد تک بگڑ چکا ہے۔

عمران خان کابینہ کا تو وزیر تجارت بھی نہیں معلوم کہ کون ہے، کچھ کرے تو نام معلوم ہو، اگر سرکار کے میڈیا منیجر معمولی سے بھی ذمہ دار اور پروفیشنل ہیں تو ’’آئین نو‘‘ کے ذریعے ان سے گزارش ہے کہ نائیجیریا کے وزیر زراعت و دیہی ترقی جناب اودو اوگے کو پاکستان کے دورے کی خصوصی دعوت دیں اور اپنی موجودگی میں اپنے وزیر تجارت کی ملاقات کرا کر ان سے ہی مشاورت کر لیں۔ عالمی سطح کے ٹیکنو کریٹس تو بڑے مہنگے بھی ہیں اور مشکوک بھی۔ پاکستان کے کرپشن کلچر نے ہمیں ہماری بڑی کیش کراپ کپاس جو ہم ویلیو ایڈ کر کے اربوں ڈالر کی برآمد کرتے تھے، درآمد کرنے پر مجبور کر دیا ہے تاکہ ٹیکسٹائل صنعت بالکل ہی نہ بیٹھ جائے۔

بکثرت پیدا کیا جا سکنے والا ٹماٹر ہم سال کے آٹھ مہینوں تک بھارت سے منگواتے ہیں۔ اُبلی مکئی تک ٹن پیک میں درآمد ہو رہی ہے اور پیک فرنچ فرائز بھی یہ سب کیا ہے۔ کون ہے اب ہمارا وزیر تجارت؟ کیا کر رہا ہے وہ؟ یہ تو ہے نائیجرین وزیر زراعت کے اپنے ملک کے منتخب ایوان میں کئے تبصرے کے تناظر میں ہماری زرعی پیداوار اور اس کے مقابل نیوزی لینڈ اور امریکہ سے لیکر چین اور بھارت سے درآمدہ کتنی ہی اشیائے خورونوش(ذکر تو چند کا ہی ہوا ہے) کا بیان جنہوں نے بڑی تیزی سے پاکستانی مارکیٹوں میں بہ آسانی جگہ بنالی جس کے پس پردہ کتنی ہی کرپشن کہانیاں چھپی ہوئی ہیں۔ کیا ہم حکومتی کارکردگی میں بھی ’’تبدیلی والی حکومت‘‘ کے برسر اقتدار آنے کے بعد کرپشن زدہ نائیجیریا سے پیچھے رہ جائیں گے۔

وہ نائیجریا جو اپنے سابق فوجی ڈکٹیٹر سانی اباچہ کی 2.2بلین ڈالر کی لوٹی سرکاری خزانے کی رقم میں سے اس کے مرنے کے بعد بھی سوئس بینکوں سے رجوع کرکے اور وہاں کی نئی قانون سازی کا فائدہ اٹھا کر ساری تو نہیں 300ملین ڈالر کی رقم واپس لاکر 3لاکھ غریب خاندانوں میں تقسیم کر چکا ہے اور گزشتہ دس سال میں لٹیرے حکمرانوں کو واپس لانے میں بھی کامیاب ہوا اور ایک بلین ڈالر کی واپسی بھی کرائی، مزید کے لئے کوشش بھی کی جا رہی ہے جبکہ ابھی اس کے لئے نئی قانون سازی بھی نہ ہوئی تھی۔ یہ کیسے ہوا؟

اس کے لئے بھی وزیراعظم عمران خان نائیجیریا کے تجربے سے سیکھیں کیونکہ افریقہ میں تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا اور دنیا میں 11واں بڑا نائیجیریا اب اوپر کی سطح پر اندھا دھند کرپشن کنٹرول کرکے پٹڑی پر آ رہا ہے۔ عمران حکومت آئی ایم ایف کے جال میں تو 100ارب ڈالر کے قرضوں کے باعث آ گئی یقیناً جس کی بڑی ذمے دار سابق دو حکومتیں ہی ہیں لیکن ان کی پیدا کی گئی برآمد و درآمدات کی متذکرہ صورتحال پر قابو پانے کے لئے تو اپنی گڈگورننس سے ہی کام لینا ہے جس کا تمام تر ساماں ملک میں موجود ہے، تجربہ، مہارت، آئی ٹیک اور باقی سب کچھ پھر گڈگورننس کا فقدان کیوں؟

 
Last edited by a moderator:

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
ملک میں جو چیزیں پیدا ہوتی ہیں یا بنتی ہیں ان کے مالکان ان کا بحران پیدا کر کے زیادہ منافع کمانے کی کوشش کرتے ہیں نتیجہ حکومت انہیں درامد کرنا شروع کر دیتی ہے
.
یقینا یہ حکومت کی نالائقی ہے کہ وہ قیمت کنٹرول کرنے کی بجائے درآمد شروع کر دے لیکن اس کا قصور منافع خوروں کا بھی ہے
.
اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہم نے رزق کمانے کے نئے زرائےع (نئی انڈسٹری ) نہیں لگائی لہٰذا لوگوں نے پرانی انڈسٹری میں ہی زیادہ نفع کمانے کی کوشش شروع کر دی ہے
 

sumisrar

Senator (1k+ posts)
ہم سب پاکستانی ہیں اور پاکستان سے پیار کے دعوے دار ہیں

کیا ہم سب مل کر یا اپنی ذاتی حثیت میں کچھ کر سکتے ہیں

مثال کے طور پر

اپنی قیمتی آرا - لڑائی اور تنقید کیے بغیر

متبادل اشیا کا چارٹ

کوئی ایپ - کوئی کلپ، کوئی میسج

یہ ایک بدنصیب حقیقت ہے کے پیسے والے کے لئے پیسا پاکستان سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے

اس نے ڈالر لینا ہی لینا ہے
 

sumisrar

Senator (1k+ posts)
میرے خیال میں حکومت کو بڑے سپر اسٹورز کی حوصلہ افزائی کرنی چاہے

اس کے فائدے

قیمت میں موجود (مڈل مین / کمیشن ایجنٹ ) کا عنصر ختم ہو جائے گا
ٹرانسپورٹیشن کا خرچہ بھی کم ہو جائے گا
لوگوں کو زیادہ نوکریاں ملیں گی
قیمتیں کم ہونے سے صارف اور کسان دونوں کا فائدہ ھے
حکومت کو ٹیکس اکٹھا کرنا آسان ہو گا


لیکن ایک کی بجاے چار یا پانچ سپرسٹور چینز کی حوصلہ افزائی کی جائے
تا کہ مقابلہ رہے اور قیمتیں کنٹرول میں رہیں