موٹروے پر خاتون کا ریپ، نابالغ بچوں سے زیادتی۔ جنسی گھٹن کا نتیجہ

Majid Sheikh

MPA (400+ posts)
پاکستان میں خواتین، نابالغ بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے، آئے روز کوئی نہ کوئی بچہ یا کوئی نہ کوئی خاتون کسی نہ کسی جنسی درندے کی ہوس کا شکار بنی ہوتی ہے۔ لاہور میں موٹروے پر کھڑی گاڑی سے اتار کر خاتون کو اسکے بچوں کے سامنے جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا واقعہ تو انتہائی اندوہناک ہے۔ حسبِ سابق کم عقل پاکستانی قوم ایک ہی گردان کررہی ہے، سرعام پھانسی پرلٹکادو، سنگسار کردو۔۔ یہ طریقہ غصے کو ٹھنڈا کرنے کے کام تو آسکتا ہے، لیکن اس سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔ ہمیں مسئلے کی جڑ پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جنسی فعل بھوک اور پیاس کی طرح انسان کی فطری ضرورت ہے اور اس کو دبانے سے ویسے ہی مسائل پیدا ہوتے ہیں جیسے اگر کسی معاشرے پر بھوک اور پیاس مسلط کردی جائے تو وہ بغاوت پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔

سیکس ایک حیوانی جذبہ ہے اور انسان پر جب جنسی جذبات کا غلبہ ہوتا ہے تو اس وقت وہ انسان نہیں ایک جانور ہوتا ہے۔ اگرکسی معاشرے پر اس کی جنسی ضرورت پورا کرنے کی راہ میں رکاوٹیں حائل کی جائیں اور غیر ضروری پابندیاں عائد کی جائیں تو لامحالہ طور پر اس معاشرے کے لوگ حیوانی حرکات پر اتر آتے ہیں۔ پاکستان میں انسان کی جنسی ضرورت کو غیر ضروری طور پر دبایا جاتا ہے، بغیر شادی کے سیکس کو انتہائی غلط سمجھا جاتا ہے، نہ صرف معاشرہ، بلکہ ریاست بھی مرد اور عورت کے ذاتی تعلقات کے بیچ میں مداخلت کرتی ہے، حدود آرڈنینس جیسے جاہلانہ قوانین اس معاشرے پر مسلط کئے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی مرد اور عورت، لڑکا لڑکی اپنی مرضی سے ایک دوسرے سے جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں تو کسی بھی دوسرے تیسرے شخص کو یا ریاست کو اس سے سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ پولیس کو یا کسی بھی محکمے کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی گاڑی میں، کسی پارک میں یا کسی ہوٹل میں داخل ہوکر لوگوں کے ذاتی معاملات میں دخل دیں۔ مغربی ممالک نے اس مسئلے کو بہت پہلے سمجھ کر اس کا حل نکال لیا تھا کہ لوگوں کو انفرادی اور ذاتی معاملات میں آزاد چھوڑ دیا، لوگوں کے مذہب کو پرائیوٹ مان لیا، لوگوں کے جنسی تعلقات کو ان کی جائز اور ناگزیر ضرورت مان کر اس پر عائد غیر ضروری پابندیاں ختم کردیں اور اب صورتحال یہ ہے کہ امریکہ، کینیڈا اور یوکے میں تو میں عورت اکیلی باہر نکلنے پر خود کو غیر محفوظ محسوس نہیں کرتی، جبکہ پاکستان میں عورت باہر نکلے تو پورے معاشرے کی نظریں اس کے بدن کا طواف کرتی ہیں، عورت تو چھوڑیئے، اب تو چھوٹے چھوٹے بچے بھی اس معاشرے میں غیر محفوظ ہیں۔ ذرا اس چودہ پندرہ سالہ لڑکے کا انٹرویو ملاحظہ کریں، اس نے سات سالہ بچی کا ریپ کرکے اس کو قتل کردیا۔



کیا یہ شکل سے کوئی درندہ لگتا ہے؟ ہم اسے پتھر مار مار کر یا سرعام پھانسی پرلٹکا کر اپنے غصیلے جذبات کو راحت پہنچا بھی لیں، مگر کیا اس سے مسئلہ حل ہوجائے گا؟ کتنوں کو پھانسی پر لٹکائیں گے؟ ہمیں مسئلے کا روٹ کاز سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جنسی گھٹن کی وجہ سے پورا معاشرہ نفسیاتی مریض بنتا جارہا ہے، لوگ انسانوں سے حیوان بنتے جارہے ہیں۔ اگر اس چودہ پندرہ سالہ لڑکے کو اپنی ہم عمر لڑکی سے آزادانہ جنسی اختلاط کی سہولت میسر ہوتی تو کیا یہ اپنے حیوانی جذبات سے مغلوب ہوکر اس معصوم بچی کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتا؟ ہمیں خود کو فرسودہ سوچ سے نکالنا ہوگا، سیکس انسان کی بنیادی اور اہم ضرورت ہے، اس کو شادی کے ساتھ نتھی کرنا انتہائی احمقانہ اور خطرناک رویہ ہے۔

ایک اور غلط فہمی ہے جس کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ جس کی شادی ہوجائے اس کی جنسی ضرورت پوری ہونے کا سامان ہوگیا۔ ایسا بالکل نہیں ہے، کیونکہ ہمارے ہاں جوائنٹ فیملی سسٹم ، چھوٹے گھروں اور بے دریغ آبادی کی وجہ سے شادی شدہ جوڑے بھی پوری طرح اپنی جنسی طلب پوری نہیں کرپاتے۔ جنسی ضرورت پوری کرنے ذہنی سکون اور خاموش ماحول ضروری ہے۔ جب پانچ مرلے کے گھر میں کمرے کے ساتھ کمرہ ٹھکا ہو اور گھر میں تین چار شادی شدہ جوڑے رہتے ہیں، ہر جوڑا خوف اور جلد بازی کے عالم میں دم سادھ کر اپنی جنسی ضرورت پوری کرے، ایک سال بعد بچوں کی آمد ہوجائے اور پھر یہ جائز ضرورت بھی چوری چھپے کا کھیل بن جائے تو ایسے میں جنسی تسکین کیا خاک ملے گی۔ ہم نے انسان کی اس اہم ضرورت کو اتنا دبا دیا ہے کہ ذہنی طور پر ہمارا معاشرہ پوری طرح انتشار اور خلفشار کا شکار ہوچکا ہے، ہم پر تحقیق، جستجو اور تخلیق کے دروازے بند ہوچکے ہیں، کیونکہ ہم نے اپنے معاشرے کو بنیادی انسانی ضروریات کے چکر سے ہی نہیں نکلنے دیا، جس شخص کو جنسی تسکین حاصل نہ ہو، اسکا ذہن کسی قسم کے تخلیقی کام کے قابل نہیں رہتا، اس کے ذہن پر ہر وقت عورت سوار رہتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہر قسم کے نئے آئیڈیاز، دریافتیں اور ایجادات یورپ اور ان معاشروں سے آرہی ہیں جہاں لوگوں کو جنسی اور فکری آزادی میسر ہے۔۔ سوچیے اور بار بار سوچیے کہ سوچنے پر پابندی نہیں۔
 

Nightcrawl

Chief Minister (5k+ posts)
پاکستان میں خواتین، نابالغ بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے، آئے روز کوئی نہ کوئی بچہ یا کوئی نہ کوئی خاتون کسی نہ کسی جنسی درندے کی ہوس کا شکار بنی ہوتی ہے۔ لاہور میں موٹروے پر کھڑی گاڑی سے اتار کر خاتون کو اسکے بچوں کے سامنے جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا واقعہ تو انتہائی اندوہناک ہے۔ حسبِ سابق کم عقل پاکستانی قوم ایک ہی گردان کررہی ہے، سرعام پھانسی پرلٹکادو، سنگسار کردو۔۔ یہ طریقہ غصے کو ٹھنڈا کرنے کے کام تو آسکتا ہے، لیکن اس سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔ ہمیں مسئلے کی جڑ پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جنسی فعل بھوک اور پیاس کی طرح انسان کی فطری ضرورت ہے اور اس کو دبانے سے ویسے ہی مسائل پیدا ہوتے ہیں جیسے اگر کسی معاشرے پر بھوک اور پیاس مسلط کردی جائے تو وہ بغاوت پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔

سیکس ایک حیوانی جذبہ ہے اور انسان پر جب جنسی جذبات کا غلبہ ہوتا ہے تو اس وقت وہ انسان نہیں ایک جانور ہوتا ہے۔ اگرکسی معاشرے پر اس کی جنسی ضرورت پورا کرنے کی راہ میں رکاوٹیں حائل کی جائیں اور غیر ضروری پابندیاں عائد کی جائیں تو لامحالہ طور پر اس معاشرے کے لوگ حیوانی حرکات پر اتر آتے ہیں۔ پاکستان میں انسان کی جنسی ضرورت کو غیر ضروری طور پر دبایا جاتا ہے، بغیر شادی کے سیکس کو انتہائی غلط سمجھا جاتا ہے، نہ صرف معاشرہ، بلکہ ریاست بھی مرد اور عورت کے ذاتی تعلقات کے بیچ میں مداخلت کرتی ہے، حدود آرڈنینس جیسے جاہلانہ قوانین اس معاشرے پر مسلط کئے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی مرد اور عورت، لڑکا لڑکی اپنی مرضی سے ایک دوسرے سے جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں تو کسی بھی دوسرے تیسرے شخص کو یا ریاست کو اس سے سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ پولیس کو یا کسی بھی محکمے کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی گاڑی میں، کسی پارک میں یا کسی ہوٹل میں داخل ہوکر لوگوں کے ذاتی معاملات میں دخل دیں۔ مغربی ممالک نے اس مسئلے کو بہت پہلے سمجھ کر اس کا حل نکال لیا تھا کہ لوگوں کو انفرادی اور ذاتی معاملات میں آزاد چھوڑ دیا، لوگوں کے مذہب کو پرائیوٹ مان لیا، لوگوں کے جنسی تعلقات کو ان کی جائز اور ناگزیر ضرورت مان کر اس پر عائد غیر ضروری پابندیاں ختم کردیں اور اب صورتحال یہ ہے کہ امریکہ، کینیڈا اور یوکے میں تو میں عورت اکیلی باہر نکلنے پر خود کو غیر محفوظ محسوس نہیں کرتی، جبکہ پاکستان میں عورت باہر نکلے تو پورے معاشرے کی نظریں اس کے بدن کا طواف کرتی ہیں، عورت تو چھوڑیئے، اب تو چھوٹے چھوٹے بچے بھی اس معاشرے میں غیر محفوظ ہیں۔ ذرا اس چودہ پندرہ سالہ لڑکے کا انٹرویو ملاحظہ کریں، اس نے سات سالہ بچی کا ریپ کرکے اس کو قتل کردیا۔



کیا یہ شکل سے کوئی درندہ لگتا ہے؟ ہم اسے پتھر مار مار کر یا سرعام پھانسی پرلٹکا کر اپنے غصیلے جذبات کو راحت پہنچا بھی لیں، مگر کیا اس سے مسئلہ حل ہوجائے گا؟ کتنوں کو پھانسی پر لٹکائیں گے؟ ہمیں مسئلے کا روٹ کاز سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جنسی گھٹن کی وجہ سے پورا معاشرہ نفسیاتی مریض بنتا جارہا ہے، لوگ انسانوں سے حیوان بنتے جارہے ہیں۔ اگر اس چودہ پندرہ سالہ لڑکے کو اپنی ہم عمر لڑکی سے آزادانہ جنسی اختلاط کی سہولت میسر ہوتی تو کیا یہ اپنے حیوانی جذبات سے مغلوب ہوکر اس معصوم بچی کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتا؟ ہمیں خود کو فرسودہ سوچ سے نکالنا ہوگا، سیکس انسان کی بنیادی اور اہم ضرورت ہے، اس کو شادی کے ساتھ نتھی کرنا انتہائی احمقانہ اور خطرناک رویہ ہے۔

ایک اور غلط فہمی ہے جس کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ جس کی شادی ہوجائے اس کی جنسی ضرورت پوری ہونے کا سامان ہوگیا۔ ایسا بالکل نہیں ہے، کیونکہ ہمارے ہاں جوائنٹ فیملی سسٹم ، چھوٹے گھروں اور بے دریغ آبادی کی وجہ سے شادی شدہ جوڑے بھی پوری طرح اپنی جنسی طلب پوری نہیں کرپاتے۔ جنسی ضرورت پوری کرنے ذہنی سکون اور خاموش ماحول ضروری ہے۔ جب پانچ مرلے کے گھر میں کمرے کے ساتھ کمرہ ٹھکا ہو اور گھر میں تین چار شادی شدہ جوڑے رہتے ہیں، ہر جوڑا خوف اور جلد بازی کے عالم میں دم سادھ کر اپنی جنسی ضرورت پوری کرے، ایک سال بعد بچوں کی آمد ہوجائے اور پھر یہ جائز ضرورت بھی چوری چھپے کا کھیل بن جائے تو ایسے میں جنسی تسکین کیا خاک ملے گی۔ ہم نے انسان کی اس اہم ضرورت کو اتنا دبا دیا ہے کہ ذہنی طور پر ہمارا معاشرہ پوری طرح انتشار اور خلفشار کا شکار ہوچکا ہے، ہم پر تحقیق، جستجو اور تخلیق کے دروازے بند ہوچکے ہیں، کیونکہ ہم نے اپنے معاشرے کو بنیادی انسانی ضروریات کے چکر سے ہی نہیں نکلنے دیا، جس شخص کو جنسی تسکین حاصل نہ ہو، اسکا ذہن کسی قسم کے تخلیقی کام کے قابل نہیں رہتا، اس کے ذہن پر ہر وقت عورت سوار رہتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہر قسم کے نئے آئیڈیاز، دریافتیں اور ایجادات یورپ اور ان معاشروں سے آرہی ہیں جہاں لوگوں کو جنسی اور فکری آزادی میسر ہے۔۔ سوچیے اور بار بار سوچیے کہ سوچنے پر پابندی نہیں۔
You can't open strip clubs here are you suggesting that?
 

AhmadSaleem264

Minister (2k+ posts)
Consensual sex is lot common in africa and south America yet rape cases are on peak there. Partly I do agree with the fact that easy availability of partner might reduce such cases but real problem is having a criminal mindset and having the feeling of above law and knowing there will be no repercussions.
 

yaar 20

Senator (1k+ posts)
بالکل غلط ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
اگر آپ نے کوئی گیم کھیلنی ھے تو اس کے اصول و قواعد کے مطابق کھیلنا پڑے گا۔ اگر آپ نے ہمارے معاشرےمیں رھنا قبول کیا ہے تو ہمارے اسلامی قوانین کو بھی فالو کرنا پڑے گا ۔اسلام میں بغیر شادی کے ازدواجی تعلقات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
جن ملکوں کی آپ مثال دے رہے ہیں وھاں ریب کو ایک انتہائی سنگین جرم تصور کیا جاتا ہے اور اس کی سنگینی قتل کے جرم کے برابر تصور کی جاتی ہے ضرورت انصاف کے نظام کو صحیح کر نے اور ریپ کی سزا کو مؤثر بنانے کی ھے۔جب کہ حیرت انگیز طور آپ ایک انتہائی غیر منطقی بات کر رہے ہیں۔اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اگر یہاں زیادہ قتل ہوتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ کہ قتل کی سزاھی کو ختم کر دیا جائے۔ اسی طرح چوری چکاری بھی ایک حیوانی جذبہ ہے تو پھر اس کی بھی اجازت دے دی جائے ۔۔۔ماشااللہ۔ویسے کافی حیرت ہوئی آپ کی سوچ پر؟۔۔۔!ر
 
Last edited:

Raza888

Councller (250+ posts)
No one is thinking about the problem with the society and it’s solution.
Sab kabooter ki terha aankhein band kiye hue hein
 

Behrouz27

Minister (2k+ posts)
بھائی میرے آپ کے جج بکاؤ مال ہیں ، اگر اس ملک میں عدل و انصاف لانا ہے تو ان بکاؤ مال ججوں کا پہلے کوئی مستقل بندوبست کریں , جب تک ان میں سے دو چار کو الٹا نہیں لٹکایا جائے گا اس وقت تک انصاف کسی کو نہیں ملے گا
 

Hussain1967

Chief Minister (5k+ posts)
There are lot many rape cases in the US on daily basis. Culprits are mostly African American. When they don’t get the opportunity to have consensual sex with beautiful white girls, they rape them.
 

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
مگر امریکہ اور بھارت میں تو سیکس ہی سیکس ہے، پھر کیوں یہ دونوں دنیا میں فی میلز کے لیئے خطرناک ترین ہیں۔۔
 

Aliimran1

Chief Minister (5k+ posts)
ان سب بے غیرتوں دلوں کے نفس کاٹ کر بیچ چوراہے کے
پھانسیدے دو
ان کا اس کے علاوہ کوئی حل نہیں --- اور اگر کوئی وکیل
یا جج ان کی حمایت کرے -- اسے بھی سر عام پھانسی دو
اس پوری قوم کا یہی علاج ہے --- ورنہ یہ نا سور پھیل جائے گا
اور اس قوم کو بے غیرتی کا سبق مت دو --- یہ سبق اپنے بھارت کے
لوگوں کو پڑھاؤ
??????
 

Shah Shatranj

Chief Minister (5k+ posts)
انتہائی افسوسناک تحریر بھوک لگی ہے تو ڈاکہ مارنا کس طرح جائز ہے . حلال کما کر کھانے میں کیا حرج ہے . جرم ایک درندگی ہے اس کی وجہ بھوک نہیں اس کی وجہ فطرت ہے . لوگ اپنی فطرت سے مجبور ہو کر جرم کرتے ہیں جب کہ حلال کا رستہ موجود ہے . جنسی گھٹن کا کوئی وجود نہیں جب دو فریق راضی ہوتے ہیں تو ہزار رستے نکل آتے ہیں . آپ کی تحریر کے مطابق ملک میں اڈلٹ سیکس کو ترویج ملنی چاہیے جس سے جرم کم ہو گا . جب کہ سیکس جرائم کی جڑ ہی پورن فلمیں اور فحاشی ہے . یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے آزاد خیال ممالک میں عورتوں کا جنسی استحصال زیادہ ہے . مگر مچھوں کے پیٹ نہیں بھرتے اور ایسے درندوں کا علاج صرف و صرف ایک ہولناک موت ہے
 

dr waqar ahmad

Voter (50+ posts)
What law and justice you idiots are talking about? Have not YOU all tasted a recent example of a drunk MPA from Baluchistan crushing a police inspector to death. He walked away free courtesy of these mother fu----- layers and judges. if our justice system continues on the same path, rest assure there will be armed people on the streets to eliminate these so called criminal layers, judges and corrupt politicians.
Islamic system got buried with the burial of our founder M A Jinnah.... so forget about Islamic System. Its time to talk and implement blood bath in our filthy courts and provincial/national assemblies. It hearts me to write this but PPP and PLMN have brought us to this stage. Pakistani "quom aub gunnay choopow gunnay" and stop crying on the spilled MILK.
 

amir786

Voter (50+ posts)
پاکستان میں خواتین، نابالغ بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے، آئے روز کوئی نہ کوئی بچہ یا کوئی نہ کوئی خاتون کسی نہ کسی جنسی درندے کی ہوس کا شکار بنی ہوتی ہے۔ لاہور میں موٹروے پر کھڑی گاڑی سے اتار کر خاتون کو اسکے بچوں کے سامنے جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا واقعہ تو انتہائی اندوہناک ہے۔ حسبِ سابق کم عقل پاکستانی قوم ایک ہی گردان کررہی ہے، سرعام پھانسی پرلٹکادو، سنگسار کردو۔۔ یہ طریقہ غصے کو ٹھنڈا کرنے کے کام تو آسکتا ہے، لیکن اس سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔ ہمیں مسئلے کی جڑ پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جنسی فعل بھوک اور پیاس کی طرح انسان کی فطری ضرورت ہے اور اس کو دبانے سے ویسے ہی مسائل پیدا ہوتے ہیں جیسے اگر کسی معاشرے پر بھوک اور پیاس مسلط کردی جائے تو وہ بغاوت پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔

سیکس ایک حیوانی جذبہ ہے اور انسان پر جب جنسی جذبات کا غلبہ ہوتا ہے تو اس وقت وہ انسان نہیں ایک جانور ہوتا ہے۔ اگرکسی معاشرے پر اس کی جنسی ضرورت پورا کرنے کی راہ میں رکاوٹیں حائل کی جائیں اور غیر ضروری پابندیاں عائد کی جائیں تو لامحالہ طور پر اس معاشرے کے لوگ حیوانی حرکات پر اتر آتے ہیں۔ پاکستان میں انسان کی جنسی ضرورت کو غیر ضروری طور پر دبایا جاتا ہے، بغیر شادی کے سیکس کو انتہائی غلط سمجھا جاتا ہے، نہ صرف معاشرہ، بلکہ ریاست بھی مرد اور عورت کے ذاتی تعلقات کے بیچ میں مداخلت کرتی ہے، حدود آرڈنینس جیسے جاہلانہ قوانین اس معاشرے پر مسلط کئے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی مرد اور عورت، لڑکا لڑکی اپنی مرضی سے ایک دوسرے سے جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں تو کسی بھی دوسرے تیسرے شخص کو یا ریاست کو اس سے سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ پولیس کو یا کسی بھی محکمے کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی گاڑی میں، کسی پارک میں یا کسی ہوٹل میں داخل ہوکر لوگوں کے ذاتی معاملات میں دخل دیں۔ مغربی ممالک نے اس مسئلے کو بہت پہلے سمجھ کر اس کا حل نکال لیا تھا کہ لوگوں کو انفرادی اور ذاتی معاملات میں آزاد چھوڑ دیا، لوگوں کے مذہب کو پرائیوٹ مان لیا، لوگوں کے جنسی تعلقات کو ان کی جائز اور ناگزیر ضرورت مان کر اس پر عائد غیر ضروری پابندیاں ختم کردیں اور اب صورتحال یہ ہے کہ امریکہ، کینیڈا اور یوکے میں تو میں عورت اکیلی باہر نکلنے پر خود کو غیر محفوظ محسوس نہیں کرتی، جبکہ پاکستان میں عورت باہر نکلے تو پورے معاشرے کی نظریں اس کے بدن کا طواف کرتی ہیں، عورت تو چھوڑیئے، اب تو چھوٹے چھوٹے بچے بھی اس معاشرے میں غیر محفوظ ہیں۔ ذرا اس چودہ پندرہ سالہ لڑکے کا انٹرویو ملاحظہ کریں، اس نے سات سالہ بچی کا ریپ کرکے اس کو قتل کردیا۔



کیا یہ شکل سے کوئی درندہ لگتا ہے؟ ہم اسے پتھر مار مار کر یا سرعام پھانسی پرلٹکا کر اپنے غصیلے جذبات کو راحت پہنچا بھی لیں، مگر کیا اس سے مسئلہ حل ہوجائے گا؟ کتنوں کو پھانسی پر لٹکائیں گے؟ ہمیں مسئلے کا روٹ کاز سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جنسی گھٹن کی وجہ سے پورا معاشرہ نفسیاتی مریض بنتا جارہا ہے، لوگ انسانوں سے حیوان بنتے جارہے ہیں۔ اگر اس چودہ پندرہ سالہ لڑکے کو اپنی ہم عمر لڑکی سے آزادانہ جنسی اختلاط کی سہولت میسر ہوتی تو کیا یہ اپنے حیوانی جذبات سے مغلوب ہوکر اس معصوم بچی کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتا؟ ہمیں خود کو فرسودہ سوچ سے نکالنا ہوگا، سیکس انسان کی بنیادی اور اہم ضرورت ہے، اس کو شادی کے ساتھ نتھی کرنا انتہائی احمقانہ اور خطرناک رویہ ہے۔

ایک اور غلط فہمی ہے جس کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ جس کی شادی ہوجائے اس کی جنسی ضرورت پوری ہونے کا سامان ہوگیا۔ ایسا بالکل نہیں ہے، کیونکہ ہمارے ہاں جوائنٹ فیملی سسٹم ، چھوٹے گھروں اور بے دریغ آبادی کی وجہ سے شادی شدہ جوڑے بھی پوری طرح اپنی جنسی طلب پوری نہیں کرپاتے۔ جنسی ضرورت پوری کرنے ذہنی سکون اور خاموش ماحول ضروری ہے۔ جب پانچ مرلے کے گھر میں کمرے کے ساتھ کمرہ ٹھکا ہو اور گھر میں تین چار شادی شدہ جوڑے رہتے ہیں، ہر جوڑا خوف اور جلد بازی کے عالم میں دم سادھ کر اپنی جنسی ضرورت پوری کرے، ایک سال بعد بچوں کی آمد ہوجائے اور پھر یہ جائز ضرورت بھی چوری چھپے کا کھیل بن جائے تو ایسے میں جنسی تسکین کیا خاک ملے گی۔ ہم نے انسان کی اس اہم ضرورت کو اتنا دبا دیا ہے کہ ذہنی طور پر ہمارا معاشرہ پوری طرح انتشار اور خلفشار کا شکار ہوچکا ہے، ہم پر تحقیق، جستجو اور تخلیق کے دروازے بند ہوچکے ہیں، کیونکہ ہم نے اپنے معاشرے کو بنیادی انسانی ضروریات کے چکر سے ہی نہیں نکلنے دیا، جس شخص کو جنسی تسکین حاصل نہ ہو، اسکا ذہن کسی قسم کے تخلیقی کام کے قابل نہیں رہتا، اس کے ذہن پر ہر وقت عورت سوار رہتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہر قسم کے نئے آئیڈیاز، دریافتیں اور ایجادات یورپ اور ان معاشروں سے آرہی ہیں جہاں لوگوں کو جنسی اور فکری آزادی میسر ہے۔۔ سوچیے اور بار بار سوچیے کہ سوچنے پر پابندی نہیں۔
Totally disagree with you. Sorry to say, if you sister or daughter have sex relationship with some, Would you be ok with that. We are Muslim Alhamdolillah. People should be close to Islam brother. By the way, I live in Canada. Women usually avoide going outside alone at night. If they go, they usually have big dogs with them.
 

monkk

Senator (1k+ posts)
Sari dunya darando sy bhari hui hy.. faraq itna hy ky developed mulkoon meen police saloon tak mujram dhondti rehti hy... some time for decades...
Pak police mader chood ghareebon ko marny me masroof hy... kuty ka bachy.. eesi stories sun kar hasty heen...