I am not sure how much truthful that guy is but about FAZLO FAMILY I know personally that they are corrupt from top to bottom, because of Fazlo corruption I left Pakistan, he & all his brothers' are morally, religiously, financially and physically corrupt. He started Shia Sunni fassad in 1984 and 1986 in Dera Ismail Khan with the help Maulana Qadoos Sahib ( Late).
یہ 1988کا تذکرہ ہے۔ تب میاں نوازشریف، مقتدر حلقوں کےاسی طرح لاڈلے تھے، جس طرح ان دنوں عمران خان ہیں اور ان سے پیپلز پارٹی کے خلاف وہ کام لیاجارہا تھا جو اس وقت مسلم لیگ(ن) وغیرہ کے خلاف خان صاحب سے لیا جارہا ہے۔
انتخابات کے بعد صورت حال ایسی بن گئی کہ نواز شریف صرف اس صورت میں وزیراعظم بن سکتے تھے کہ مولانا کے ووٹ بھی ان کو جاتے
۔ مولانافضل الرحمٰن نے مفتی محمود مرحوم کی رحلت کی بعد سیاست جنرل ضیا الحق کی مخالفت اور جیل سے شروع کی تھی اور پیپلز پارٹی کی قیادت میں ایم آر ڈی کا حصہ رہ کر جنرل ضیا کی آمریت کی مزاحمت کررہے تھے۔ انتخابی نتائج آنے کے بعد جنرل اسلم بیگ نے انہیں مبارکباد کی آڑ لے کر ڈی آئی خان فون کیااور طریقے سے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ نواز شریف کا ساتھ دیں۔
اگلے دن میاں نواز شریف ان کے پاس پہنچ گئے اور ساتھ دینے کی صورت میں ہر طرح کا لالچ دیا۔
مولانا کا اصرار تھا کہ چونکہ وہ(نوازشریف) ضیا الحق کے کیمپ کے آدمی ہیں، اس لئے وہ یہ یوٹرن نہیں لے سکتے۔ چند روز بعد مولانا نے وزیراعظم کے انتخاب کے لئے کسی کی حمایت یا مخالفت کرنے کے فیصلے کے لئے اپنی جماعت کی شوریٰ کا اجلاس لاہور میں طلب کیا۔
اجلاس سے ایک روز قبل انہیں اچانک سعودی عرب سے رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل کی کال آئی کہ کل لاہور میں ان کا نمائندہ ان سے ملنا چاہتاہے۔ درمیان میں خالد خواجہ وغیرہ بھی آگئے۔
چند لمحے بعد مولانا کو اس سعودی کا فون آیا، جس کا ذکر رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سیکرٹری نے کیا تھا۔ان کا نام شیخ صواف تھا( اسی شیخ صواف کے بارے میں بعض لوگوں نے یہ غلط مشہور کررکھا تھا اور خود میرا بھی ابتدا میں یہ خیال تھا کہ وہ اسامہ بن لادن تھے)۔
یہ میٹنگ لاہور کے فائیو اسٹار ہوٹل کے ایک کمرے میں ہوئی اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ دوسرے کمرے میں خود میاں نواز شریف بھی موجودتھے۔ شیخ صواف نے مولانا فضل الرحمٰن سے کہا کہ وہ میاں نواز شریف کو سپورٹ کریں۔
یہ دلائل بھی دئیے کہ عورت کی حکمرانی اسلام میں حرام ہے اور اگر انہوں نے یہ کام کیا تو وہ پورے عالم عرب کے علما سے مولانا کے حق میں بیانات دلوادیں گے کہ انہوں نے عورت کی حکمرانی کا راستہ روکا۔ مولانا نے یہ کہہ کر ان سے معذرت کرلی کہ یہ فیصلہ ان کی شوریٰ نے کرنا ہے۔
اس دوران شیخ صواف نے اشاروں کنایوں میں انہیں کروڑوں ریال کی بھی پیشکش کی جس کا مولانا نے برا منایا۔
دوسری طرف جنرل حمید گل نے بھی تمام حربے استعمال کئے لیکن مولانا فضل الرحمٰن نے میاں نواز شریف کو ووٹ نہ دے کر بے نظیر بھٹو کی حکمرانی کا راستہ ہموار کیا۔
اس کے بعد صدارتی الیکشن کا مرحلہ آیا تو جنرل اسلم بیگ نے انہیں گھر بلا کر غلام اسحاق کو سپورٹ کرنے کا کہا لیکن مولانا نے نوابزادہ نصراللہ کو کھڑا کیا۔
یہ تھے ابتدائی دنوں کے مولانا فضل الرحمٰن جو اپنے اسلاف کی طرح اسٹیبلشمنٹ کی مخالف سمت میں چل رہے تھے تاہم جب افغانستان میں دیوبندی طالبان اسٹیبلشمنٹ کے فیورٹ بنےتو مولانا فضل الرحمٰن کی نہ صرف دوستی ہوگئی بلکہ انہوں نے ان کے ساتھ جوڑتوڑ اور مصلحتوں کی سیاست شروع کی اور 2018تک کرتے رہے لیکن الیکشن کے بعد مولانا دو وجوہات کی وجہ سے برہم ہوئے۔
ایک تو وہ سمجھتے ہیں اور ٹھیک سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ دھوکہ دہی اور دھاندلی سے کام لیا گیا۔ دوسرا وہ عمران خان کے بارے میں سازشی تھیوریز پر یقین رکھتے ہیں۔ 2018کے انتخابات کے بعد جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) اپنی اپنی ڈیل کی کوششوں میں مصروف تھیں، مولانا فضل الرحمٰن عمران خان اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف تسلسل کے ساتھ اپوزیشن کرتے رہے۔
گزشتہ سال وہ اسلام آباد دھرنا دینے آئے اور اب ان کی ناراضی میں یہ بات بھی شامل ہوگئی ہے کہ جن وعدوں کی بنیاد پر ان کو اٹھایا گیا، وہ پورے نہیں ہوئے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی ڈیلیں ناکام ہوئیں تو پیپلز پارٹی آگے بڑھی اور اے پی سی بلاکر اورپی ڈی ایم تشکیل دے کر مولانا فضل الرحمٰن کو اس کاصدر بنادیا۔ ابتدا میں دونوں جماعتوں نے بڑا جارحانہ رویہ اپنایا۔
میاں صاحب نے نام لینے شروع کئے اور پیپلز پارٹی نے پختون تحفظ موومنٹ کے محسن داوڑ تک کو پی ڈی ایم میں شامل کرایالیکن جب پیپلز پارٹی کے ساتھ رابطے ہوئے تو وہ پھرمصلحت کی سیاست پر اتر آئی۔
اب مسلم لیگ(ن) پر محنت ہورہی ہے اور بڑی حد تک وہ بھی ڈانواں ڈول ہوگئی ہے لیکن مولانا کا لہجہ دن بدن تلخ ہوتا جارہا ہے۔
کوشش یہ ہورہی ہے کہ مولانا کو تنہا کرکے ان کے ساتھ حساب برابر کیا جائے لیکن ایک تو مولانا اس مرتبہ مکمل تنہا کبھی نہیں ہوں گے اور دوسرا مولانا کوجو نقصان ہوگا سو ہوگا لیکن اگر ان کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی تو یہ عمل جتناعمران خان کے لئے فائدے مند ہوگا، اتنا ریاست کے لئے نقصان دہ ہوگا۔
اس وقت قبائلی اضلاع اور بلوچستان میں یا تو پی ٹی ایم کا بیانیہ چل رہا ہے یا پھر بلوچ قوم پرستوں کا۔ ابھی تک دونوں فالٹ لائنز میں میں ان قوتوں کو جے یو آئی کارنر کررہی تھی کیونکہ وہ اسلام اور پاکستان کی بات کررہی تھی۔
اب اگر مولانا بھی منظور پشتین، محمود خان اچکزئی اور اختر مینگل جیسی زبان استعمال کرنے لگے تو ان علاقوں میں ریاست کا دفاع کرنے والی سیاسی قوت کوئی نہیں رہ جائے گی۔
تبھی میں عرض کرتا ہوں کہ عمران خان کو تو فائدہ ہوگا لیکن ریاست کو نقصان ہوگا۔
ابھی تو مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی جیسی قومی اور مجبور جماعتوں کی وجہ سے مولانا اور قوم پرست لیڈروں کا بیانیہ کافی نرم ہوجاتا ہے لیکن اگر پی ڈی ایم سے قومی جماعتوں کی یہ چھتری ہٹ گئی تو ریاستی اداروں سے متعلق ان لوگوں کا لہجہ اور عمل مزید تلخ ہونا بعید از قیاس نہیں۔
یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ مولانا فضل الرحمٰن نسلاً افغان ہیں، ان کا ناصر قبیلہ ماضی میں افغانستان سے ڈی آئی خان منتقل ہوا تھا۔ گزشتہ بیس برسوں میں ہم نے مولانا کو حامد کرزئی طرز کی سیاست کرتے دیکھا ہے لیکن اگر ان کو دیوار سے لگایا گیا تو خاکم بدہن، وہ ملا عمر بن سکتے ہیں۔
اس لئے میری گزارش ہے کہ مولانا کو حامد کرزئی رہنے دیا جائے، ملا عمر بننے پر مجبور نہ کیا جائے۔ باقی مرضی ہے پاکستان میں اپنی مرضی چلانے والوں کی۔
مولانا فضل الرحمٰن زیادہ خطرناک کیوں؟
یہ 1988کا تذکرہ ہے۔ تب میاں نوازشریف، مقتدر حلقوں...jang.com.pk
فضلو ڈیزل ایک خبیث بیغرت بیشرم منافقت سے بھرا ہؤا شیطان ھے یہ اپنی موت آپ ہی مر جائے گا اور ایسی طرح کے جو بھی خنزیر پاکستان کے خلاف دشمنوں کی مدد کریں گے دشمنوں کے ایجنڈے پر چلیں گے انشاءاللہ وہ خود بخود ختم ہو جائیں گے
ملا عمر ایک بہادر خودار غیرت مند دیانتدار آفغانی سپہ سالار مجاہد تھا سلیم کافی اس خینزیر منافق خبیث بیغرت بیشرم شیطان کو ملا عمر سے ملا کر تمام افغان قوم کے وقار کی توہین کر رہا ھے یہ کمینا خینزیر کافی بھی اپنے باپ فضلو ڈیزل کے ساتھ جہاد پر افغانستان گیا تھا یہ بات اس نے ایک انٹرویو میں کہی تھی پھر اس حرامی کو وہاں سے بھاگا دیاتھا بہادر افغانوں نے ان دونوں بیغرتوں کو دوبارہ افغانستان سے ان کے گاؤں بیجھ دیا یہ دونوں حرامی وآپس آگئے۔اور دونوں بد ذات پاکستان کی روٹیاں توڑ رھے ھیں اور پاکستان سے ہی دشمنی کر رھے ھیں ان دونوں کے ڈی این اے میں غداروں کا ڈی این اے شامل ھے یہ دونوں بد ذات۔غداروں کی نسل سے ہیں جس طرح چند اور لوگ ہیں ان کے کے ڈی این اے کی کوئی ذات کوئی مذہب کوئی فرقہ نہیں ہوتا ان حرامی نسل کے کتوں کو کیسی بھی قوم یا نسل سے ملانا کیسی بھی قوم کی توہین ہوگی ایسے غدار لوگوں کی بد ذات نسل صرف اور صرف حرامی نسل کے خینزیروں سے ملتی ھےملاں عمر ?????اور فضلو ڈیزل ملاں عمر بنُکر سب سے پہلے وہ سلیم لفافی کی والدہ محترمہ سے نکاح کر کے اس کو اعلانیہ فرزند گی میں لے گا کیونکہ افغانی گشتی کا یہ لفافی نطفہ اور کرزئی کا پالتو کتا بھی اب اسی طرح بھونک کر پاکستانیوں کو اور اسٹلشمنٹ کو ڈرانے کی ناکام کوشش کرنے کی روش پر ہی جیسا مودی کا پالتو کتا حامد میر جعفر روزانہ بھونکتا تھا زرداری کو پکڑا آ سمان ٹوٹ پڑے گا نواز جیل میں باہر سے زیادہ خطرناک ہو جائے گا
فلاں کو جوتے مارے تو جوتے کھانے کے بعد اور خطرناک ہو جائیے لگا فضلو شیطان نطفہ حرام طوفان کی طرح اسلام آ باد آ کر سب کچھ بہا کر لے جائیے گا سوائیے بھونکنے بکواس کرنے اور بڑھکیں مارنے اور اسٹبلشمنٹ کو ڈرانے کے اور گشتی زاد میر جعفر نے کچھ نہ کیا مگر اللہ نے اس ۔۔۔زادے کا مونہہ کالا کر کے اسے زلیل کیا اور اب یہ افغانی گشتی کا بچہ ایسے بھونک رہا ہی جیسے ملاں عمر منافق تھا اسلام فروش تھا اس کے سارے بھائی حرام خور چور فراڈئے کوئی ۔۔۔زادہ سینیٹر تھا کوئی وزیر اور لوٹ مار پر تھا ابے افغانی گشتی کے نطفے کیا ملا عمر کرپٹ تھا کیا وہ تیری ماں کے اس نئے خصم فضل الشیطان نطفہ حرام کی طرح کوئی ۔۔۔۔زادہ فراڈیا مدرسے کے نام پر غیر ملکی فنڈنگ لے کر کھا جاتا تھا شہیدوں کی بیواؤں کی زمین وردی کو ووٹ دے کر کھا جاتا تھا
سب سے پہلے اپنی والدہ کا نکاح کرا دے اس مجاہد اوّل فضلُ الشیطان کے ساتھ تو بھی خوش والدہ بھی اور فضلو بھی تجھے ریڈی میڈ ابا مل جائے گا
اس پاگل لفافی افغانی گشتی زاد کا بھونکنا سنو فضلو ڈیزل ملاں عمر اور اسکا کرپٹ خاندان خلیفہ اور اسکا سور کی طرح کا موٹا کرپٹ بھائی ڈائٹنگ کرکے اسامہ بن لادن بن جائے گا
وغیرہ وغیرہ
ویسے کیا پاکستان کی اسٹبلشمنٹ اس افغانی گشتی کے بچے لفافی اور کرزئی کے لونڈے کی نظر میں روس ہے یا امریکی جارج بش
یہ کھوتی کا پتر بھی حامد میر جعفر کی طرح اپنی حرامُزدگی کی ناکامی کی صدمے سے پاگل ہو گیا ہے
ملاں عمر فضلو ڈیزل نطفئہ حرامُکا حرامی نطفہ لفافی اور یہ آفغانی گشتی کا نطفہ لفافی تو اپنے آ پ کو شاید کوئی اصحابیُ نعوذ باللہ بھی کہے گا
https://twitter.com/x/status/1352718111158513665 سلیم کافی کے لئے اس مولانا صاحب کا بیان بھی کافی ھے جو اس نے فضلو ڈیزل کے حق میں بات کی ھے شاید سلیم کافی حرامی صحافتی طوائف کو کچھ شرم محسوس ہو جائے آگر اس میں غیرتِ تو قوم سے معافی مانگ لے گا
یہ 1988کا تذکرہ ہے۔ تب میاں نوازشریف، مقتدر حلقوں کےاسی طرح لاڈلے تھے، جس طرح ان دنوں عمران خان ہیں اور ان سے پیپلز پارٹی کے خلاف وہ کام لیاجارہا تھا جو اس وقت مسلم لیگ(ن) وغیرہ کے خلاف خان صاحب سے لیا جارہا ہے۔
انتخابات کے بعد صورت حال ایسی بن گئی کہ نواز شریف صرف اس صورت میں وزیراعظم بن سکتے تھے کہ مولانا کے ووٹ بھی ان کو جاتے
۔ مولانافضل الرحمٰن نے مفتی محمود مرحوم کی رحلت کی بعد سیاست جنرل ضیا الحق کی مخالفت اور جیل سے شروع کی تھی اور پیپلز پارٹی کی قیادت میں ایم آر ڈی کا حصہ رہ کر جنرل ضیا کی آمریت کی مزاحمت کررہے تھے۔ انتخابی نتائج آنے کے بعد جنرل اسلم بیگ نے انہیں مبارکباد کی آڑ لے کر ڈی آئی خان فون کیااور طریقے سے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ نواز شریف کا ساتھ دیں۔
اگلے دن میاں نواز شریف ان کے پاس پہنچ گئے اور ساتھ دینے کی صورت میں ہر طرح کا لالچ دیا۔
مولانا کا اصرار تھا کہ چونکہ وہ(نوازشریف) ضیا الحق کے کیمپ کے آدمی ہیں، اس لئے وہ یہ یوٹرن نہیں لے سکتے۔ چند روز بعد مولانا نے وزیراعظم کے انتخاب کے لئے کسی کی حمایت یا مخالفت کرنے کے فیصلے کے لئے اپنی جماعت کی شوریٰ کا اجلاس لاہور میں طلب کیا۔
اجلاس سے ایک روز قبل انہیں اچانک سعودی عرب سے رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل کی کال آئی کہ کل لاہور میں ان کا نمائندہ ان سے ملنا چاہتاہے۔ درمیان میں خالد خواجہ وغیرہ بھی آگئے۔
چند لمحے بعد مولانا کو اس سعودی کا فون آیا، جس کا ذکر رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سیکرٹری نے کیا تھا۔ان کا نام شیخ صواف تھا( اسی شیخ صواف کے بارے میں بعض لوگوں نے یہ غلط مشہور کررکھا تھا اور خود میرا بھی ابتدا میں یہ خیال تھا کہ وہ اسامہ بن لادن تھے)۔
یہ میٹنگ لاہور کے فائیو اسٹار ہوٹل کے ایک کمرے میں ہوئی اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ دوسرے کمرے میں خود میاں نواز شریف بھی موجودتھے۔ شیخ صواف نے مولانا فضل الرحمٰن سے کہا کہ وہ میاں نواز شریف کو سپورٹ کریں۔
یہ دلائل بھی دئیے کہ عورت کی حکمرانی اسلام میں حرام ہے اور اگر انہوں نے یہ کام کیا تو وہ پورے عالم عرب کے علما سے مولانا کے حق میں بیانات دلوادیں گے کہ انہوں نے عورت کی حکمرانی کا راستہ روکا۔ مولانا نے یہ کہہ کر ان سے معذرت کرلی کہ یہ فیصلہ ان کی شوریٰ نے کرنا ہے۔
اس دوران شیخ صواف نے اشاروں کنایوں میں انہیں کروڑوں ریال کی بھی پیشکش کی جس کا مولانا نے برا منایا۔
دوسری طرف جنرل حمید گل نے بھی تمام حربے استعمال کئے لیکن مولانا فضل الرحمٰن نے میاں نواز شریف کو ووٹ نہ دے کر بے نظیر بھٹو کی حکمرانی کا راستہ ہموار کیا۔
اس کے بعد صدارتی الیکشن کا مرحلہ آیا تو جنرل اسلم بیگ نے انہیں گھر بلا کر غلام اسحاق کو سپورٹ کرنے کا کہا لیکن مولانا نے نوابزادہ نصراللہ کو کھڑا کیا۔
یہ تھے ابتدائی دنوں کے مولانا فضل الرحمٰن جو اپنے اسلاف کی طرح اسٹیبلشمنٹ کی مخالف سمت میں چل رہے تھے تاہم جب افغانستان میں دیوبندی طالبان اسٹیبلشمنٹ کے فیورٹ بنےتو مولانا فضل الرحمٰن کی نہ صرف دوستی ہوگئی بلکہ انہوں نے ان کے ساتھ جوڑتوڑ اور مصلحتوں کی سیاست شروع کی اور 2018تک کرتے رہے لیکن الیکشن کے بعد مولانا دو وجوہات کی وجہ سے برہم ہوئے۔
ایک تو وہ سمجھتے ہیں اور ٹھیک سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ دھوکہ دہی اور دھاندلی سے کام لیا گیا۔ دوسرا وہ عمران خان کے بارے میں سازشی تھیوریز پر یقین رکھتے ہیں۔ 2018کے انتخابات کے بعد جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) اپنی اپنی ڈیل کی کوششوں میں مصروف تھیں، مولانا فضل الرحمٰن عمران خان اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف تسلسل کے ساتھ اپوزیشن کرتے رہے۔
گزشتہ سال وہ اسلام آباد دھرنا دینے آئے اور اب ان کی ناراضی میں یہ بات بھی شامل ہوگئی ہے کہ جن وعدوں کی بنیاد پر ان کو اٹھایا گیا، وہ پورے نہیں ہوئے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی ڈیلیں ناکام ہوئیں تو پیپلز پارٹی آگے بڑھی اور اے پی سی بلاکر اورپی ڈی ایم تشکیل دے کر مولانا فضل الرحمٰن کو اس کاصدر بنادیا۔ ابتدا میں دونوں جماعتوں نے بڑا جارحانہ رویہ اپنایا۔
میاں صاحب نے نام لینے شروع کئے اور پیپلز پارٹی نے پختون تحفظ موومنٹ کے محسن داوڑ تک کو پی ڈی ایم میں شامل کرایالیکن جب پیپلز پارٹی کے ساتھ رابطے ہوئے تو وہ پھرمصلحت کی سیاست پر اتر آئی۔
اب مسلم لیگ(ن) پر محنت ہورہی ہے اور بڑی حد تک وہ بھی ڈانواں ڈول ہوگئی ہے لیکن مولانا کا لہجہ دن بدن تلخ ہوتا جارہا ہے۔
کوشش یہ ہورہی ہے کہ مولانا کو تنہا کرکے ان کے ساتھ حساب برابر کیا جائے لیکن ایک تو مولانا اس مرتبہ مکمل تنہا کبھی نہیں ہوں گے اور دوسرا مولانا کوجو نقصان ہوگا سو ہوگا لیکن اگر ان کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی تو یہ عمل جتناعمران خان کے لئے فائدے مند ہوگا، اتنا ریاست کے لئے نقصان دہ ہوگا۔
اس وقت قبائلی اضلاع اور بلوچستان میں یا تو پی ٹی ایم کا بیانیہ چل رہا ہے یا پھر بلوچ قوم پرستوں کا۔ ابھی تک دونوں فالٹ لائنز میں میں ان قوتوں کو جے یو آئی کارنر کررہی تھی کیونکہ وہ اسلام اور پاکستان کی بات کررہی تھی۔
اب اگر مولانا بھی منظور پشتین، محمود خان اچکزئی اور اختر مینگل جیسی زبان استعمال کرنے لگے تو ان علاقوں میں ریاست کا دفاع کرنے والی سیاسی قوت کوئی نہیں رہ جائے گی۔
تبھی میں عرض کرتا ہوں کہ عمران خان کو تو فائدہ ہوگا لیکن ریاست کو نقصان ہوگا۔
ابھی تو مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی جیسی قومی اور مجبور جماعتوں کی وجہ سے مولانا اور قوم پرست لیڈروں کا بیانیہ کافی نرم ہوجاتا ہے لیکن اگر پی ڈی ایم سے قومی جماعتوں کی یہ چھتری ہٹ گئی تو ریاستی اداروں سے متعلق ان لوگوں کا لہجہ اور عمل مزید تلخ ہونا بعید از قیاس نہیں۔
یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ مولانا فضل الرحمٰن نسلاً افغان ہیں، ان کا ناصر قبیلہ ماضی میں افغانستان سے ڈی آئی خان منتقل ہوا تھا۔ گزشتہ بیس برسوں میں ہم نے مولانا کو حامد کرزئی طرز کی سیاست کرتے دیکھا ہے لیکن اگر ان کو دیوار سے لگایا گیا تو خاکم بدہن، وہ ملا عمر بن سکتے ہیں۔
اس لئے میری گزارش ہے کہ مولانا کو حامد کرزئی رہنے دیا جائے، ملا عمر بننے پر مجبور نہ کیا جائے۔ باقی مرضی ہے پاکستان میں اپنی مرضی چلانے والوں کی۔
مولانا فضل الرحمٰن زیادہ خطرناک کیوں؟
یہ 1988کا تذکرہ ہے۔ تب میاں نوازشریف، مقتدر حلقوں...jang.com.pk
ان دونوں حرامی نسل کے بد ذات خینزیروں ڈیزل اور سلیم کافی باپ بیٹے کو پوری افغان قوم سے معافی مانگنی چاہئے کہ اس سلیم کافی نے ایک چور حرام خور منافق الخبیث الشیطان فراڈیئے کو ایک خودار دیانتدار بہادر مجاہد آزادی سے ملانے کی کوشش کی ھے سلیم کافی تیرے پر ھزاروں لا کھوں کڑوروں لعنتیں تیرے سوچ پر لعنت تیرے ضمیر پر لعنتیں جو تجھ جیسے بیغرت بیشرم انسان کو جس نے صحافت کے روپ میں طوائف کا لبادہ اوڑھا ھوا ھے تیرا بےضمیر نفس تم جیسی صحافت کی طوائفوں کو ملامت نہیں کرتا۔ملا فجلو کچرا کنڈی بن چکا ہے، گل سڑ کر تحلیل ہونا اسکا انجام ہے ، صافی حواس کھو چکا ہے کہ اس غلاظت پر عطر چھڑک کرخوشی ہو رہا ہے ۔ بہتر ہو صافی اب میڈیا سے علیحدہ ہو ورنہ خدا نخواسطہ مایوسی سے خود کشی ہی نہ کر لے ۔
خیر صافی کا بنیادی نکتہ ہی غلط ہے ، جمیعت اسلام کا خاتمہ نہ ہدف ہے نہ سیاسی ضرورت مگر جمیعت اسلام اور ملا فجلو لازم و ملزوم نہیں ہے ۔
یعنی ایک سور یا چھوٹے سور کو سور کا بچہ کہ سکتے ہیں یعنی لفافی سور کے بچے کا دوسرے موٹے سور کے واسطے کالمُAik pig ka dosray pig k liye column
یعنی اس مودی کے پالتو کتے فضل الشیطان نطفہ حرام کے مقابلے میں انشا اللہ مسلمانوں کی جیت ہوگی
یہ تو شاہ ولی الله کی پیش گوئی ہے کہ اٹک کا دریا خون سے سرخ ہو گا ، میرا تو بس خیال ہے کہ یہ سب فضلو جیسے مذہبی غدار لوگ ہی ہوں گے جن کو دبڑ دہوس کیا جائے گا
اور یہ بات بھی انتہائی حیرت انگیز ہے کہ شاہ ولی الله قسم کھا کر کہتے ہیں کہ جیت مسلمانوں کی ہو گی