جب بھی کوئی ملک بیجنے سے زیادہ خرید رہا ہوتا ہے تو اسے ٹریڈ ڈیفیسٹ یا تجارتی خسارہ کہتے ہیں۔یعنی درآمدات زیادہ اور برآمدات کم۔اگر کسی ملک کی برآمدات درآمدات سے زیادہ ہوں تو اسے ٹریڈ سرپلس کہتے ہیں۔اگر یہ خسارہ کافی عرٖصے تک جاری رہے تو کسی بھی ملک کی آنے والی نسلیں
بھاری قرضوں اور ان پر بھاری سود کی قسطوں کے پہاڑ تلے دبی رہتی ہیں۔
کرنٹ اکاؤنٹ کسی بھی ملک کی کل آمدن کو کہتے ہیں جس میں غیر ملکی امداد،ترسیلات زر،ڈیویڈنڈز اور ٹرانسفرز سب شامل ہوتی ہیں۔کرنٹ اکاؤنٹ کسی بھی ملک کی غیرملکی لین دین کی نمائندگی کرتا ہے اور ملکی ادائیگیوں کے توازن کا ایک بنیادی جزو ہوتا ہے۔اگر کرنٹ اکاؤنٹ میں
خسارے کا سامنا ہو تو اسے کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفسٹ کہا جاتا ہے۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کو پچھلے مالی سال میں تقریبا 40 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کا سامنا تھا جب کہ اس میں اگر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر،غیر ملکی امداد وغیرہ
بھی ملا دی جائے تب بھی پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسٹ تقریبا 20 ارب ڈالر بنتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو تقریبا 20 ارب کے قریب ڈالر یا تو اپنے ذخائر سے نکالنے پڑیں گے یا پھر غیر ملکی قرضوں کے ذریعے اس کا انتظام کرنا پڑے گا۔
ڈالرز یا غیر ملکی کرنسی(فارکس ریزروز) کے ذخائر کی پاکستان کو ضرورت کیوں پڑتی ہے۔
۱ ۔ اس کی وجہ سے سٹیٹ بنک کی یہ صلاحیت بڑھتی ہے کہ وہ فارکس مارکیٹ میں دخل اندازی کر کے غیر ملکی کرنسی کی شرح کو مستحکم رکھ سکے۔
۲ ۔ دنیا بھر کی تجارت اس وقت ڈالر میں ہوتی ہے۔ پاکستان ہر سال تقریبا 60 ارب ڈالر کی اشیاء باہر سے خریدتا ہے جس کا مطلب ہے کہ اتنے ہی ڈالر پاکستان کو چاہئیں ہر سال اتنی خریداری کرنے کیلئے دنیا سے۔
۳ ۔ غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی بھی ڈالرز کی صورت میں ہی ہوتی ہے.
۴ ۔ بحران کے وقت یہی غیر ملکی کرنسی کے ذخائر ہی بحران سے متعلقہ تکالیف/مشکلات کے ازالے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
۵ ۔ غیر ملکی کرنسی کے ذخائر جتنے زیادہ ہوں اتنا ہی زیادہ اعتماد بڑھتا ہے مارکیٹ/سرمایہ کاروں کا حکومتی مالیاتی اور ایکسچینج ریٹ کی پالیسیز پر
٦ ۔ غیر ملکی کرنسی کے ذخائر اگر زیادہ ہوں تو مارکیٹ کے شرکاء کے لئے یہ اطمینان کی بات ہوتی ہے کہ روپے کو بیرونی اثاثوں کا سہارا میسر ہے۔اس کی وجہ سے غیر ملکیوں کا ملک میں سرمایہ کاری کا رحجان بھی بڑھتا ہے۔
جب کہ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ تمام پاکستانی بینکوں بشمول سٹیٹ بینک کے پاس صرف 16 ارب کے قریب ڈالر کے ذخائر ہیں۔
آئیے نظر ڈالتے ہیں کہ ڈالر/غیرملکی کرنسی کے ذخائر پاکستان کہاں کہاں سے حاصل کرتا ہے۔
۱۔ ایکسپورٹس جو کہ پچھلے مالی سال میں تقریبا 23 ارب ڈالر تھیں۔
۲۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر جو کہ تقریبا 20 ارب ڈالرز کے قریب ہیں۔یہ رقم صرف وہ ہے جو بینکوں/ایکسچینج کمپنیوں یا ایزی پیسہ/جیز کیش کے ذریعے بجھوائی جاتی ہے(آپ اگر ریال میں بھی ٹرانسفر کریں پاکستان تو پاکستانی بنک کو ڈالر ہی ملیں گے جبکہ آپکو اس روز کے ڈالر ریٹ کے مطابق روپے مل جائیں گے)۔ہنڈی یا حوالہ کے ذریعے بھیجی جانے والی رقم سے ملک کو صرف پاکستانی روپیہ ہی ملتا ہے جب کہ غیر ملکی کرنسی اسی ملک میں لگا دی جاتی ہے جہاں سے ان ذرائع کے ذریعے پیسا بھیجا جاتا ہے
۳۔ کچھ بیرون ملک مقیم پاکستانی بذات خود بھی غیرملکی کرنسی پاکستان لاتے ہیں۔زیادہ تر اس کا ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیوں کہ اکثر اوقات لوگ مہنگا ہونے کے لالچ میں ذخیرہ اندوزی کر کے بیٹھے رہتے ہیں اور اوپن مارکیٹ میں پیچتے نہیں ہیں۔
۴۔ براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری (Foreign Direct Investment) جو کہ پچھلے مالی سال میں 3.4 ارب ڈالر رہی۔
۵۔ غیر ملکی امداد
٦۔ غیر ملکی قرضے
۷۔ غیر ملکی سفارتخانوں/کونسلیٹز کے اخراجات
۸۔ غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کے اخراجات بعض اوقات غیر ملکی ایجنسیاں جعلی کرنسی بھی استعمال کرتی ہیں سو ملک کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
۹. سیاحت
اب دیکھتے ہیں کہ موجودہ حکومت تقریبا 20 ارب ڈالرز کے کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفسٹ کو بھرنے کے لئے کیا کچھ کر رہی/چکی ہے۔
۱۔ امپورٹڈ پراڈکٹس پر ڈیوٹیوں کی شرح بڑھا دی گئی ہے۔امپورٹس میں تقریبا 13 فیصد کی کمی لائی جا چکی ہے۔
۲۔ ایکسپورٹ انڈسٹریز کو گیس 12.8 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو سے کم کر کے 6.5 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کر دی گئ اور بجلی 15 سنٹز فی کلوواٹ آور سے کم کر کے 7.5 سنٹز فی کلوواٹ آور کر دی گئی ہے سبسڈی کے ذریعے نیز ان کے را میٹیریل،مشینری اور ٹولز کی امپورٹ پر بھی ڈیوٹیوں میں بے تحاشا کمی کی گئی ہے۔ن لیگی حکومت میں ٹیکس کلیکشن کو زیادہ دکھانے کے لئے ایکسپورٹرز کے روکے گئے تقریبا 250 ارب روپے کے ری فنڈز بھی نہایت تیزی سے واپس کئے جا رہے ہیں۔ سپیشل اکنامک زونز ،گرین فیلڈ پراجیکٹس اور قابل تجدید توانائی ایکوپمنٹ مینوفیکچر کرنے والی انڈسٹریز پر سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ دی گئی ہے۔ ان انڈسٹریز کی پلانٹ اور مشینری کی درآمد پر بھی سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ دی گئی ہے۔
۳۔ اوور سیز پاکستانیوں کی ترسیلات زر بڑھانے کیلئے موبائل والٹ کے استعمال پر ہر 1 ڈالر پر 2 روپے کا ائر ٹام حکومت دے رہی ہے نیز بنکوں اور فارن ایکسچینج کمپنیوں کو بھی ترسیلات میں کم از کم 15 فیصد اضافے پر ہر ڈالر پر 1 روپے حکومت انعام دے رہی ہے۔اس کے علاوہ بنکوں کی ٹرانسیکشن لمٹ بھی بڑھا دی گئی ہے اور دیگر مراعات بھی دی گئی ہیں ترسیلات زر بڑھانے کے لئے۔ ترسیلات زر پچھلے 9 ماہ میں 11 فیصد بڑھ چکی ہیں۔
۴۔ ڈالر کی قدر گرا دی گئی تاکہ امپورٹڈ پراڈکس مہنگی ہو جائیں لوکل کے مقابلے میں
۵۔ اوپر درج کئے گئے 4 اقدامات کے نتیجے میں ہی حکومت کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفسٹ 20 اب ڈالر سے کم کر کے 15 ارب ڈالر پر لا چکی ہے۔
٦. سیاحت کے فروغ کے لئے 175 ممالک کے شہریوں کو ای ویزا جبکہ 56 ممالک کے شہریوں کو ائرپورٹ پر ویزا کے اجراء شروع کیا جا رہا ہے۔
۷۔ پاکستان بناؤ سرٹیفیکیٹ کا اجراء جس کے ذریعے حکومت کو تقریبا 500 ملین ڈالرز ملنے کی توقع ہے جون کے آخر تک۔
۸ ۔ سعودی عرب ،یو اے ای اور چین سے بالترتیب 3،3 اور 2.5 ارب ڈالر کے ڈیپازٹس تقریبا ہو چکے ہیں سیٹ بنک کے فارکس ریزروز میں۔یہ تینوں ممالک سال بعد یہ ڈیپازٹس نکال لینگے سٹیٹ بنک سے۔کل ملا کر یہ رقم 8.5 ارب ڈالرز بنتی ہے۔
۹۔ سعودی عرب نے 3 ارب ڈالر کا تیل ادھار پر دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن ابھی تک شروع نہیں ہوا کیونکہ سعودیہ کچھ رولز پر نرمی چاہتا ہے جن کی منظوری ای سی سی اور کابینہ کی طرف سے ہوتے ہی وہ بھی جلد شروع ہو جائے گا۔
۱۰۔ اوپر درج تین اقدامات کے نتیجے میں 12 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسٹ کور ہو جاتا ہے اور پیچھے تقریبا 3 ارب ڈالرز کا خسارہ ہی رہ جاتا ہے۔
۱۱۔ اس بچ جانے والے 3 ارب ڈالرز کے خسارے کو پورا کرنے کے لئے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کر لیا گیا ہے جس کے تحت اگلے تین سالوں میں تقریبا 6 ارب ڈالرز مہیا کئے جائیں گے پاکستان کو۔
۱۲. براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کےفروغ کے لئے Ease of doing Business پر بہت زیادہ زور دیا جا رہا ہے۔ٹیکسز جو پہلے 45 کے قریب ہوتے تھے کم کر کے اب 13 کر دئے گئے ہیں۔تمام صوبائی کمپنی رجسٹریشن پورٹلزاور تمام صوبائی و وفاقی محکموں کو ایس ای سی پی کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے ایک ای پورٹل کے ذریعے جس کے بعد کوئی بھی کمپنی ایک دن کے اندر اندر رجسٹر کروائی جا سکے گی۔ایکسپورٹس کے لئے کلیرنس ٹائم بھی کم کیا جا رہا ہے۔پراپرٹی رجسٹریشن اور کنسٹرکشن پرمٹس کی آٹومیشن پر بھی کام جاری ہے۔بجلی اور گیس کی تنصیب کا کام کم سے کم وقت میں کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ان اقدامات کے نتیجے میں پاکستان Ease of doing business Index میں کم از کم 20 پوائنٹس اوپر آئے گا۔
امید ہے اس تحریر کے ذریعے ان سوالوں کا جواب مل گیا ہو گا کہ قرضے جو لئے گئے وہ کہاں گئے،آئی ایم ایف کے پاس کیوں گئے،قرضے کیوں لئے،ڈالر کیوں گرا اور ڈالر اب کیوں گر رہا ہے۔??
تحریر: ناصر عباس
https://www.facebook.com/ufi/reaction/profile/browser/?ft_ent_identifier=ZmVlZGJhY2s6NTk0Nzk4MjExMDM5Mzc2&av=100015276064396
بھاری قرضوں اور ان پر بھاری سود کی قسطوں کے پہاڑ تلے دبی رہتی ہیں۔
کرنٹ اکاؤنٹ کسی بھی ملک کی کل آمدن کو کہتے ہیں جس میں غیر ملکی امداد،ترسیلات زر،ڈیویڈنڈز اور ٹرانسفرز سب شامل ہوتی ہیں۔کرنٹ اکاؤنٹ کسی بھی ملک کی غیرملکی لین دین کی نمائندگی کرتا ہے اور ملکی ادائیگیوں کے توازن کا ایک بنیادی جزو ہوتا ہے۔اگر کرنٹ اکاؤنٹ میں
خسارے کا سامنا ہو تو اسے کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفسٹ کہا جاتا ہے۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کو پچھلے مالی سال میں تقریبا 40 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کا سامنا تھا جب کہ اس میں اگر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر،غیر ملکی امداد وغیرہ
بھی ملا دی جائے تب بھی پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسٹ تقریبا 20 ارب ڈالر بنتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو تقریبا 20 ارب کے قریب ڈالر یا تو اپنے ذخائر سے نکالنے پڑیں گے یا پھر غیر ملکی قرضوں کے ذریعے اس کا انتظام کرنا پڑے گا۔
ڈالرز یا غیر ملکی کرنسی(فارکس ریزروز) کے ذخائر کی پاکستان کو ضرورت کیوں پڑتی ہے۔
۱ ۔ اس کی وجہ سے سٹیٹ بنک کی یہ صلاحیت بڑھتی ہے کہ وہ فارکس مارکیٹ میں دخل اندازی کر کے غیر ملکی کرنسی کی شرح کو مستحکم رکھ سکے۔
۲ ۔ دنیا بھر کی تجارت اس وقت ڈالر میں ہوتی ہے۔ پاکستان ہر سال تقریبا 60 ارب ڈالر کی اشیاء باہر سے خریدتا ہے جس کا مطلب ہے کہ اتنے ہی ڈالر پاکستان کو چاہئیں ہر سال اتنی خریداری کرنے کیلئے دنیا سے۔
۳ ۔ غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی بھی ڈالرز کی صورت میں ہی ہوتی ہے.
۴ ۔ بحران کے وقت یہی غیر ملکی کرنسی کے ذخائر ہی بحران سے متعلقہ تکالیف/مشکلات کے ازالے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
۵ ۔ غیر ملکی کرنسی کے ذخائر جتنے زیادہ ہوں اتنا ہی زیادہ اعتماد بڑھتا ہے مارکیٹ/سرمایہ کاروں کا حکومتی مالیاتی اور ایکسچینج ریٹ کی پالیسیز پر
٦ ۔ غیر ملکی کرنسی کے ذخائر اگر زیادہ ہوں تو مارکیٹ کے شرکاء کے لئے یہ اطمینان کی بات ہوتی ہے کہ روپے کو بیرونی اثاثوں کا سہارا میسر ہے۔اس کی وجہ سے غیر ملکیوں کا ملک میں سرمایہ کاری کا رحجان بھی بڑھتا ہے۔
جب کہ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ تمام پاکستانی بینکوں بشمول سٹیٹ بینک کے پاس صرف 16 ارب کے قریب ڈالر کے ذخائر ہیں۔
آئیے نظر ڈالتے ہیں کہ ڈالر/غیرملکی کرنسی کے ذخائر پاکستان کہاں کہاں سے حاصل کرتا ہے۔
۱۔ ایکسپورٹس جو کہ پچھلے مالی سال میں تقریبا 23 ارب ڈالر تھیں۔
۲۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر جو کہ تقریبا 20 ارب ڈالرز کے قریب ہیں۔یہ رقم صرف وہ ہے جو بینکوں/ایکسچینج کمپنیوں یا ایزی پیسہ/جیز کیش کے ذریعے بجھوائی جاتی ہے(آپ اگر ریال میں بھی ٹرانسفر کریں پاکستان تو پاکستانی بنک کو ڈالر ہی ملیں گے جبکہ آپکو اس روز کے ڈالر ریٹ کے مطابق روپے مل جائیں گے)۔ہنڈی یا حوالہ کے ذریعے بھیجی جانے والی رقم سے ملک کو صرف پاکستانی روپیہ ہی ملتا ہے جب کہ غیر ملکی کرنسی اسی ملک میں لگا دی جاتی ہے جہاں سے ان ذرائع کے ذریعے پیسا بھیجا جاتا ہے
۳۔ کچھ بیرون ملک مقیم پاکستانی بذات خود بھی غیرملکی کرنسی پاکستان لاتے ہیں۔زیادہ تر اس کا ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیوں کہ اکثر اوقات لوگ مہنگا ہونے کے لالچ میں ذخیرہ اندوزی کر کے بیٹھے رہتے ہیں اور اوپن مارکیٹ میں پیچتے نہیں ہیں۔
۴۔ براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری (Foreign Direct Investment) جو کہ پچھلے مالی سال میں 3.4 ارب ڈالر رہی۔
۵۔ غیر ملکی امداد
٦۔ غیر ملکی قرضے
۷۔ غیر ملکی سفارتخانوں/کونسلیٹز کے اخراجات
۸۔ غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کے اخراجات بعض اوقات غیر ملکی ایجنسیاں جعلی کرنسی بھی استعمال کرتی ہیں سو ملک کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
۹. سیاحت
اب دیکھتے ہیں کہ موجودہ حکومت تقریبا 20 ارب ڈالرز کے کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفسٹ کو بھرنے کے لئے کیا کچھ کر رہی/چکی ہے۔
۱۔ امپورٹڈ پراڈکٹس پر ڈیوٹیوں کی شرح بڑھا دی گئی ہے۔امپورٹس میں تقریبا 13 فیصد کی کمی لائی جا چکی ہے۔
۲۔ ایکسپورٹ انڈسٹریز کو گیس 12.8 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو سے کم کر کے 6.5 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کر دی گئ اور بجلی 15 سنٹز فی کلوواٹ آور سے کم کر کے 7.5 سنٹز فی کلوواٹ آور کر دی گئی ہے سبسڈی کے ذریعے نیز ان کے را میٹیریل،مشینری اور ٹولز کی امپورٹ پر بھی ڈیوٹیوں میں بے تحاشا کمی کی گئی ہے۔ن لیگی حکومت میں ٹیکس کلیکشن کو زیادہ دکھانے کے لئے ایکسپورٹرز کے روکے گئے تقریبا 250 ارب روپے کے ری فنڈز بھی نہایت تیزی سے واپس کئے جا رہے ہیں۔ سپیشل اکنامک زونز ،گرین فیلڈ پراجیکٹس اور قابل تجدید توانائی ایکوپمنٹ مینوفیکچر کرنے والی انڈسٹریز پر سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ دی گئی ہے۔ ان انڈسٹریز کی پلانٹ اور مشینری کی درآمد پر بھی سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ دی گئی ہے۔
۳۔ اوور سیز پاکستانیوں کی ترسیلات زر بڑھانے کیلئے موبائل والٹ کے استعمال پر ہر 1 ڈالر پر 2 روپے کا ائر ٹام حکومت دے رہی ہے نیز بنکوں اور فارن ایکسچینج کمپنیوں کو بھی ترسیلات میں کم از کم 15 فیصد اضافے پر ہر ڈالر پر 1 روپے حکومت انعام دے رہی ہے۔اس کے علاوہ بنکوں کی ٹرانسیکشن لمٹ بھی بڑھا دی گئی ہے اور دیگر مراعات بھی دی گئی ہیں ترسیلات زر بڑھانے کے لئے۔ ترسیلات زر پچھلے 9 ماہ میں 11 فیصد بڑھ چکی ہیں۔
۴۔ ڈالر کی قدر گرا دی گئی تاکہ امپورٹڈ پراڈکس مہنگی ہو جائیں لوکل کے مقابلے میں
۵۔ اوپر درج کئے گئے 4 اقدامات کے نتیجے میں ہی حکومت کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفسٹ 20 اب ڈالر سے کم کر کے 15 ارب ڈالر پر لا چکی ہے۔
٦. سیاحت کے فروغ کے لئے 175 ممالک کے شہریوں کو ای ویزا جبکہ 56 ممالک کے شہریوں کو ائرپورٹ پر ویزا کے اجراء شروع کیا جا رہا ہے۔
۷۔ پاکستان بناؤ سرٹیفیکیٹ کا اجراء جس کے ذریعے حکومت کو تقریبا 500 ملین ڈالرز ملنے کی توقع ہے جون کے آخر تک۔
۸ ۔ سعودی عرب ،یو اے ای اور چین سے بالترتیب 3،3 اور 2.5 ارب ڈالر کے ڈیپازٹس تقریبا ہو چکے ہیں سیٹ بنک کے فارکس ریزروز میں۔یہ تینوں ممالک سال بعد یہ ڈیپازٹس نکال لینگے سٹیٹ بنک سے۔کل ملا کر یہ رقم 8.5 ارب ڈالرز بنتی ہے۔
۹۔ سعودی عرب نے 3 ارب ڈالر کا تیل ادھار پر دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن ابھی تک شروع نہیں ہوا کیونکہ سعودیہ کچھ رولز پر نرمی چاہتا ہے جن کی منظوری ای سی سی اور کابینہ کی طرف سے ہوتے ہی وہ بھی جلد شروع ہو جائے گا۔
۱۰۔ اوپر درج تین اقدامات کے نتیجے میں 12 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسٹ کور ہو جاتا ہے اور پیچھے تقریبا 3 ارب ڈالرز کا خسارہ ہی رہ جاتا ہے۔
۱۱۔ اس بچ جانے والے 3 ارب ڈالرز کے خسارے کو پورا کرنے کے لئے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کر لیا گیا ہے جس کے تحت اگلے تین سالوں میں تقریبا 6 ارب ڈالرز مہیا کئے جائیں گے پاکستان کو۔
۱۲. براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کےفروغ کے لئے Ease of doing Business پر بہت زیادہ زور دیا جا رہا ہے۔ٹیکسز جو پہلے 45 کے قریب ہوتے تھے کم کر کے اب 13 کر دئے گئے ہیں۔تمام صوبائی کمپنی رجسٹریشن پورٹلزاور تمام صوبائی و وفاقی محکموں کو ایس ای سی پی کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے ایک ای پورٹل کے ذریعے جس کے بعد کوئی بھی کمپنی ایک دن کے اندر اندر رجسٹر کروائی جا سکے گی۔ایکسپورٹس کے لئے کلیرنس ٹائم بھی کم کیا جا رہا ہے۔پراپرٹی رجسٹریشن اور کنسٹرکشن پرمٹس کی آٹومیشن پر بھی کام جاری ہے۔بجلی اور گیس کی تنصیب کا کام کم سے کم وقت میں کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ان اقدامات کے نتیجے میں پاکستان Ease of doing business Index میں کم از کم 20 پوائنٹس اوپر آئے گا۔
امید ہے اس تحریر کے ذریعے ان سوالوں کا جواب مل گیا ہو گا کہ قرضے جو لئے گئے وہ کہاں گئے،آئی ایم ایف کے پاس کیوں گئے،قرضے کیوں لئے،ڈالر کیوں گرا اور ڈالر اب کیوں گر رہا ہے۔??
تحریر: ناصر عباس
https://www.facebook.com/ufi/reaction/profile/browser/?ft_ent_identifier=ZmVlZGJhY2s6NTk0Nzk4MjExMDM5Mzc2&av=100015276064396