منظر کشی اک افطاری کی۔

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
61312070_2309073109381517_5081315051290230784_n.jpg


61401036_2309072789381549_7502609581739081728_o.jpg

منظر کشی اک افتاری کی۔
تحریر:جانی


بڑے سے کمرے میں چھوٹے صوفوں پر موجود مہمانوں کے چہروں پر تناو کی سی کیفیت تھی۔ اور بعض کی آنکھیں ان کے اندر کا حال بتاتی تھیں۔ تو بعض کی آنکھوں کے سمندر میں اُٹھتے طنز کے طوفان کی لہریں تھیں، جو سامنے والے کو ڈبونے کے لیئے کافی تھیں، مگر یہاں تو کوئی ڈوبنے کو تیار نہ تھا۔ جبکہ صاحب شرم چلو بھر پانی میں بھی ڈوب جایا کرتے ہیں۔۔
ان میں سے بعض کو میزبان کی صنف پر شک تھا تو بعض کو میزبان کے ابا کی صداقت پر۔۔

مُٹھیاں بھینچے ، ناگواری صورت بنائے، ایک صاحب سب سے پہلی کرسی پر ایسے براجمان تھے جیسے انہیں زبردستی کیل والی کُرسی پر سو روپے ملنے کی شرط پر بٹھایا گیا ہو۔۔جبکہ دوسرے گنجے بڈھے سے وہ صاحب تھے جو بلوچ قوم کا ووٹ پنجاب کے خلاف گلا پھاڑنے پر لیتے تھے، مگر مفاد کے لیئے بغل میں ایک پنجابی ککڑی کے ہی بیٹھتے ہیں۔

درمیان میں درمیانے سے میزبان تشریف فرما تھے۔جن پر بعض مولانے قسم کے مہمان دل ہی دل میں ہنس بھی رہے تھے۔مگر وہ کافی مطمعن سے بیٹھے تھے۔ شاید اس لیئے کہ سارے مردوں کو خود سے دور بٹھایا ہوا تھا۔ اور ایک طرف بڈھا کھوسٹ تھا تو دوسری طرف قوم کی وہ نانی اماں جسے نامحرموں سے بات کرنا معیوب لگتا تھا۔۔ مگر اس کے بازو میں بیٹھنے سے اس نے بھی یہی ثابت کیا ۔کہ درمیانوں سے کیا گھبرانا۔

جن کا ذکر اوپر ہوچکا کہ، قوم کی اک ایسی نانی درمیانے کے بعد بیٹھی تھی، جو نامحرم سے بات کرنا حرام سمجھتے تھی، مگر گپ شپ لگانے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتی تھی۔۔یہ وہی خاتون تھیں، جنہوں نے ابے کو جیل ڈھول تاشے کے سائے میں پہنچاکر نیا ریکارڈ قائم کیا تھا۔

اس کے بعد جو مولانا قسم کے نوجوان بیٹھے تھے، وہ در اصل پختون قوم کے موٹی ناک والے لال ٹینی تھوپ کے بیٹھے تھے، جو اس بات پر ووٹ مانگتے تھے، کہ پنجاب سے حق وصول کرکے دکھائینگے۔۔ پتہ نہیں کیسے، کیونکہ اس وقت تو وہ اپنا حق مانگتے نظر آرہے تھے۔ ۔اور جس پنجاب سے جھگڑا تھا، اس کی نانی اماں کے بغل میں بیٹھنا جیسے ثواب سمجھ رہے تھے۔ ۔اور درمیانے کے آگے لالٹین سے موم بتی بنے جارہے تھے۔۔

اس کے بعد جو منافق طبیعت رکھنے والے صاحب تھے، وہ ایک جوان کے قاتل کو پکڑنے نکلے تھے، مگر آج انہی قاتلوں کی گود میں جابیٹھے ہیں۔ ..اس کے علاوہ جن کے ابا مفرور یا مُقید تھے ، ان کے بدلے ان کے چمچمے کانٹوں کو سامنے والی کُرسیوں پر بٹھایا گیا تھا۔۔ لے دے کر ایک میزبان کا ابا ہی بچتا تھا، جسے بٹھادیا گیا تھا۔۔۔

اس سے قبل جب مہمانان جمع ہورہے تھے۔ تو اس وقت صوفوں پر جھگڑا پڑ گیا۔ ۔ جو کسی سازش کے تحت چھوٹے بنائے گئے تھے۔ آخر میں بات یہاں تک پہچی کہ نہ کوئی محرم رہا اور نہ
کوئی حرام کا، سوری ۔ آئی مین آرام کا۔ بس جسے جہاں جگہ ملی بیٹھ گیا۔

61643523_2309076296047865_3395680442198786048_n.jpg


پروگرام کے اختتام پر ناگوار صورت والے ککڑی نما مہمان نے میزبان کے ابے کو تعنہ مارتے ہوئے وہ وقت یاد دلایا جب وہ سڑکوں پر گھسنے سے بال بال بچے تھے، اس کے بغیر بال والے ابے کی بدولت، ۔
اور جاتے ہوئے یہ لائن بھی بول دی کہ ۔۔او زرداری ۔دیکھ لی تیری یاری بھی اور افتاری بھی۔
جس کا جواب ملا۔۔
ابے کی تیری مجبوری میں مفروری کے قصے
اگر کردوں تو ہوگا تو خامخواہ میں غصے۔
چل دفع ہو اب ، کام نہیں تھا کوئی تیرا یہاں
خواہ مخواہ میں ہی چھوٹے صوفے میں تم گُھسے