ملائیت یا ریاست؟
اس بات میں کسی کو شبہ نہیں ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کا پنجاب میں حال یہ ہو چکا ہے کہ ہر چیز آٹو پہ ہے۔کسی بھی مسئلے پہ ارباب حل و عقد کے ردعمل کا تعلق میڈیا پہ اس معاملے کی کوریج اور سوشل میڈیا پہ مچنے والے شور سے ہوتا ہے۔معاشرہ پہلے سے ہی بیمار تھا،ایک آخری امید عمران خان سے تھی کہ شاید وہ اپنی بہتر طرز حکمرانی کی بدولت معاشرے میں سدھار کاسبب بن سکیں مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!
پنجاب حکومت نے ہر معاملے کی طرح تحریک لبیک والے معاملے کو بھی مس ہینڈل کرکے اپنی پچھلی روش کو برقرار رکھا اور میڈیا کومرچ مصالحہ پلیٹ میں رکھ کر پیش کردیا۔حکومت سے تو گلہ کرنے کو بھی دل نہیں کرتا جہاں وزراء ہر روز نااہلی اور نکمے پن کی نت نئی پستیوں کو چھوتے نظر آتے ہیں مگر پورا معاشرہ جتنی تیز رفتاری سے تنزلی کا سفر طے کررہا ہے وہ ہم سب حساس لوگوں کےکان کھڑے کرنے کےلیے کافی ہے۔تحریک لبیک کے اکثر کارکنان ممبر رسول پہ دوسرے مسلمانوں کو گالی گلوچ کرنے والے مرحوم خادم رضوی کو ولی اللہ کا درجہ دے چکے ہیں۔
کچھ دن قبل ہونے والے تحریک لبیک کے پرتشدد مظاہروں اور دھرنوں نے جہاں حکومتی وزراء کی کوتاہ اندیشی،میڈیا کی مسلسل ثابت شدہ منافقت اور پولیس کی صلاحیتوں پہ بہت سارے سوالات اٹھائے ہیں وہیں ہمارے نام نہاد علماء کی تنگ نظری اور شدت پسندی کوبھی اجاگر کیا ہے۔یہ سوال اب اس بد نصیب معاشرے کے عام لوگ پوچھنا شروع ہوگئے ہیں کہ آخر مدارس کے نصاب میں ایسا کیاپڑھایا جاتا ہے کہ ہر دوسرا مولوی خود کو عقل کل سمجھ کے کسی کو بھی کوئی بھی ٹائیٹل دینے کا مجاز بن جاتا ہے؟مولوی خادم رضوی مرحوم جس کو ہمار میڈیا نے “عاشق رسول” کا بلا شرکت غیرے ٹائیٹل دے رکھا ہے،
نواز شریف دور میں ہر دوسرے سیاستدان اور جنرل کو گستاخ،جاہل اور واجب القتل قرار دیتا رہا مگر اس کے خلاف ملک کا قانون ہمیشہ کی طرح نکمی اور مجبور پولیس کیوساطت سے حرکت میں آیا اور پھر مظاہرین پہ قابو پانے میں ناکامی کے بعد کچھوے کی طرح اپنے ہی حفاظتی خول میں بند ہوگیا توپھر خادم رضوی اور اس کے ساتھیوں کے حوصلے ساتوں آسمان پہ پہنچ گئے۔حکومت نے پریشانی میں فوج سے رابطہ کیا اور پرامن حل کے لیے مدد طلب کی جو کہ فوج نے کی اور جن لوگوں کے پاس واپسی کا کرایہ نہیں تھا انہیں واپسی کا کرایہ تک دے دیا تو اس چیز کو بھی سکینڈلائز کردیا گیا اور وہ پولیس جو مظاہرین سے مار کھاتی رہی،اسی پولیس کی نام نہاد سپریمیسی کا راگ الاپاجانے لگا۔
اس پورے قضیے میں نقصان اس بد نصیب ریاست کا ہوا اور فائدہ ان جاہل مولویوں کا ہوا جن کی اخلاقیات اور وضع داری کا یہ عالم تھا کہ ایک ہی نشست میں لبیک اور گالی پہ مبنی نعرے اور اول فُول بکا جاتا تھا مگر پورا معاشرہ گونگا بہرہ بن کے ان مولویوں کو یہ اختیار دے چکا تھا کہ وہ جس کی چاہیں مٹی پلید کرسکیں۔
قانون اور ریاستی عملداری پہ پہلا شب خون مارنے کےبعد ان مولویوں نے اگلی حکومت کو پھر نشانے پہ لے لیا اور “نئے” گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وسلم تلاش کرلیے۔گستاخی فرانس میں ہو یا ہالینڈ میں یا کہیں اور،ان نام نہاد عاشقان رسول نے جہاد بہر حال پاکستان میں ہی کرنا ہوتا ہے۔اس لیے اپنے ہی پولیس والوں کے سر پھاڑ کے لبیک کے نعرے لگاتے ہیں اور تلواریں لے کر لوگوں کو اپنےہی ملک میں سڑکوں پہ چلنے اور کاروبار کرنے سے روک کر خود کو سچا عاشق ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ریاستی قوانین اورشہری فرائض سے نابلد ان مولویوں نے عام لوگوں کا جینا دو بھر کردیا تھا
اور تازہ ترین مثال ملک کے تمام بڑے شہروں میں سعدرضوی کی گرفتاری کے ردعمل میں ہونے والی سڑکوں کی بندش ہے جس کے نتیجے میں بلا مبالغہ لاکھوں لوگ متاثر ہوئے۔حیرت مگر ان تعلیم یافتہ جہلاء پہ ہوتی ہے جو پہلے خادم رضوی کی گالیوں پہ سبحان اللہ کہتے اور پھر اس مولوی کے “آیا جے غوری” کی جاہلانہ دھمکیوں پہ لبیک کے نعرے لگاتے نظر آتے۔
سچ پوچھیے تو رضوی ،فضل الرحمان اور اس قبیل کے دیگر ملا ہمارے معاشرے کی مجموعی صورت کا آئینہ ہیں۔ہمارے بریلوی مولویوں کو جشن عید میلاد پہ اگر پورا کاروبار بند کروانے سے روکنے کی درخواست کی جائے تو فوری طور پہ لال پیلا ہوکر آپ کوگستاخ رسول کا ٹائیٹل دے دیا جائے گا۔اسی طرح دیوبندیوں کو اگر ناموس صحابہ کے نام پہ کانفرنسز یا ریلیاں کرنے کے نام پہ شاہراہیں بند کرنے کی اجازت نہ دی جائے تو آپ صحابہ کے دشمن شمار ہوتے ہیں اور اگر اہل تشیع کو تعزیت کے جلوسوں کے لیےپورے شہروں کا نظام زندگی درہم برہم کرنے کی اجازت نہ دی جائے تو آپ اہل بیت کے دشمن شمار ہوں گے۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام ملا نما دین فروش لوگ دین کو کاروبار اور دھونس کا ایک زریعہ بنا چکے ہیں۔دنیا کے کسی بھی اسلامی ملک میں ایسا نہیں ہوتاجو یہاں ہوتا ہے۔آپ نے جو جلسہ یا جلوس نکالنا ہے اپنے عقیدے کے مطابق نکالیں مگر کسی غریب کا کاروبار بند کروانے والے آپ ہوتےکون ہیں؟
اگر حکومت یا ریاست نام کی کوئی بھی چیز اس ملک میں باقی رہ گئی ہو تو اسے چاہیے کہ ان تمام نام نہاد عشاق اور محبان کوکسی بھی جلسے یا جلوس کی صورت میں ایک مخصوص جگہ الاٹ کردے جو ایسی جگہ ہو کہ جس سے کاروبار زندگی میں کسی بھی قسم کا کوئی تعطل پیدا نہ کیا جاسکے۔یقین کریں اگر ایسا ہوگیا تو یہ ہمارا ہجوم سے قوم بننے کی جانب پہلا قدم ہوگا اور ان نام نہاد عشاق اور محبان کا اثر و نفوز بھی کم ہوتا چلاجائےگا۔
اس بات میں کسی کو شبہ نہیں ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کا پنجاب میں حال یہ ہو چکا ہے کہ ہر چیز آٹو پہ ہے۔کسی بھی مسئلے پہ ارباب حل و عقد کے ردعمل کا تعلق میڈیا پہ اس معاملے کی کوریج اور سوشل میڈیا پہ مچنے والے شور سے ہوتا ہے۔معاشرہ پہلے سے ہی بیمار تھا،ایک آخری امید عمران خان سے تھی کہ شاید وہ اپنی بہتر طرز حکمرانی کی بدولت معاشرے میں سدھار کاسبب بن سکیں مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!
پنجاب حکومت نے ہر معاملے کی طرح تحریک لبیک والے معاملے کو بھی مس ہینڈل کرکے اپنی پچھلی روش کو برقرار رکھا اور میڈیا کومرچ مصالحہ پلیٹ میں رکھ کر پیش کردیا۔حکومت سے تو گلہ کرنے کو بھی دل نہیں کرتا جہاں وزراء ہر روز نااہلی اور نکمے پن کی نت نئی پستیوں کو چھوتے نظر آتے ہیں مگر پورا معاشرہ جتنی تیز رفتاری سے تنزلی کا سفر طے کررہا ہے وہ ہم سب حساس لوگوں کےکان کھڑے کرنے کےلیے کافی ہے۔تحریک لبیک کے اکثر کارکنان ممبر رسول پہ دوسرے مسلمانوں کو گالی گلوچ کرنے والے مرحوم خادم رضوی کو ولی اللہ کا درجہ دے چکے ہیں۔
کچھ دن قبل ہونے والے تحریک لبیک کے پرتشدد مظاہروں اور دھرنوں نے جہاں حکومتی وزراء کی کوتاہ اندیشی،میڈیا کی مسلسل ثابت شدہ منافقت اور پولیس کی صلاحیتوں پہ بہت سارے سوالات اٹھائے ہیں وہیں ہمارے نام نہاد علماء کی تنگ نظری اور شدت پسندی کوبھی اجاگر کیا ہے۔یہ سوال اب اس بد نصیب معاشرے کے عام لوگ پوچھنا شروع ہوگئے ہیں کہ آخر مدارس کے نصاب میں ایسا کیاپڑھایا جاتا ہے کہ ہر دوسرا مولوی خود کو عقل کل سمجھ کے کسی کو بھی کوئی بھی ٹائیٹل دینے کا مجاز بن جاتا ہے؟مولوی خادم رضوی مرحوم جس کو ہمار میڈیا نے “عاشق رسول” کا بلا شرکت غیرے ٹائیٹل دے رکھا ہے،
نواز شریف دور میں ہر دوسرے سیاستدان اور جنرل کو گستاخ،جاہل اور واجب القتل قرار دیتا رہا مگر اس کے خلاف ملک کا قانون ہمیشہ کی طرح نکمی اور مجبور پولیس کیوساطت سے حرکت میں آیا اور پھر مظاہرین پہ قابو پانے میں ناکامی کے بعد کچھوے کی طرح اپنے ہی حفاظتی خول میں بند ہوگیا توپھر خادم رضوی اور اس کے ساتھیوں کے حوصلے ساتوں آسمان پہ پہنچ گئے۔حکومت نے پریشانی میں فوج سے رابطہ کیا اور پرامن حل کے لیے مدد طلب کی جو کہ فوج نے کی اور جن لوگوں کے پاس واپسی کا کرایہ نہیں تھا انہیں واپسی کا کرایہ تک دے دیا تو اس چیز کو بھی سکینڈلائز کردیا گیا اور وہ پولیس جو مظاہرین سے مار کھاتی رہی،اسی پولیس کی نام نہاد سپریمیسی کا راگ الاپاجانے لگا۔
اس پورے قضیے میں نقصان اس بد نصیب ریاست کا ہوا اور فائدہ ان جاہل مولویوں کا ہوا جن کی اخلاقیات اور وضع داری کا یہ عالم تھا کہ ایک ہی نشست میں لبیک اور گالی پہ مبنی نعرے اور اول فُول بکا جاتا تھا مگر پورا معاشرہ گونگا بہرہ بن کے ان مولویوں کو یہ اختیار دے چکا تھا کہ وہ جس کی چاہیں مٹی پلید کرسکیں۔
قانون اور ریاستی عملداری پہ پہلا شب خون مارنے کےبعد ان مولویوں نے اگلی حکومت کو پھر نشانے پہ لے لیا اور “نئے” گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وسلم تلاش کرلیے۔گستاخی فرانس میں ہو یا ہالینڈ میں یا کہیں اور،ان نام نہاد عاشقان رسول نے جہاد بہر حال پاکستان میں ہی کرنا ہوتا ہے۔اس لیے اپنے ہی پولیس والوں کے سر پھاڑ کے لبیک کے نعرے لگاتے ہیں اور تلواریں لے کر لوگوں کو اپنےہی ملک میں سڑکوں پہ چلنے اور کاروبار کرنے سے روک کر خود کو سچا عاشق ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ریاستی قوانین اورشہری فرائض سے نابلد ان مولویوں نے عام لوگوں کا جینا دو بھر کردیا تھا
اور تازہ ترین مثال ملک کے تمام بڑے شہروں میں سعدرضوی کی گرفتاری کے ردعمل میں ہونے والی سڑکوں کی بندش ہے جس کے نتیجے میں بلا مبالغہ لاکھوں لوگ متاثر ہوئے۔حیرت مگر ان تعلیم یافتہ جہلاء پہ ہوتی ہے جو پہلے خادم رضوی کی گالیوں پہ سبحان اللہ کہتے اور پھر اس مولوی کے “آیا جے غوری” کی جاہلانہ دھمکیوں پہ لبیک کے نعرے لگاتے نظر آتے۔
سچ پوچھیے تو رضوی ،فضل الرحمان اور اس قبیل کے دیگر ملا ہمارے معاشرے کی مجموعی صورت کا آئینہ ہیں۔ہمارے بریلوی مولویوں کو جشن عید میلاد پہ اگر پورا کاروبار بند کروانے سے روکنے کی درخواست کی جائے تو فوری طور پہ لال پیلا ہوکر آپ کوگستاخ رسول کا ٹائیٹل دے دیا جائے گا۔اسی طرح دیوبندیوں کو اگر ناموس صحابہ کے نام پہ کانفرنسز یا ریلیاں کرنے کے نام پہ شاہراہیں بند کرنے کی اجازت نہ دی جائے تو آپ صحابہ کے دشمن شمار ہوتے ہیں اور اگر اہل تشیع کو تعزیت کے جلوسوں کے لیےپورے شہروں کا نظام زندگی درہم برہم کرنے کی اجازت نہ دی جائے تو آپ اہل بیت کے دشمن شمار ہوں گے۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام ملا نما دین فروش لوگ دین کو کاروبار اور دھونس کا ایک زریعہ بنا چکے ہیں۔دنیا کے کسی بھی اسلامی ملک میں ایسا نہیں ہوتاجو یہاں ہوتا ہے۔آپ نے جو جلسہ یا جلوس نکالنا ہے اپنے عقیدے کے مطابق نکالیں مگر کسی غریب کا کاروبار بند کروانے والے آپ ہوتےکون ہیں؟
اگر حکومت یا ریاست نام کی کوئی بھی چیز اس ملک میں باقی رہ گئی ہو تو اسے چاہیے کہ ان تمام نام نہاد عشاق اور محبان کوکسی بھی جلسے یا جلوس کی صورت میں ایک مخصوص جگہ الاٹ کردے جو ایسی جگہ ہو کہ جس سے کاروبار زندگی میں کسی بھی قسم کا کوئی تعطل پیدا نہ کیا جاسکے۔یقین کریں اگر ایسا ہوگیا تو یہ ہمارا ہجوم سے قوم بننے کی جانب پہلا قدم ہوگا اور ان نام نہاد عشاق اور محبان کا اثر و نفوز بھی کم ہوتا چلاجائےگا۔