وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ گزشتہ حکومت نے تیل کیلئے روس سے رابطہ کیا تھا، پابندیاں ہونے پر روس نے گزشتہ حکومت کو جواب نہیں دیا، اگر روس سستا تیل دے اور عالمی پابندیاں نہ ہوں تو ضرور لیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پابندیوں کے باعث روس سے تیل خریدنا مشکل ہوگا، آئی ایم ایف کی نظریں بجٹ پر ہیں۔ اس کے بعد معاہدہ متوقع ہے، بجٹ میں سبسڈیز واپس لینےاورٹیکس میں کچھ اضافے کا امکان ہے،عمران خان نے ہمیں پھنسانے کیلئے سبسڈیز کا اعلان کیا تھا۔ ان کے اس بیان پر سوشل میڈیا پر خوب تنقید کی جا رہی ہے۔
شہباز گل نے اس حوالے سے کہا میر صادق اور میر جعفر کو لایا ہی اسی لئے گیا ہے کیا انڈیا نہیں خرید رہا۔ کیا سری لنکا نہیں خرید رہا؟ قوم کا یہی سوال ہے کیا ہم کوئی غلام ہیں! جو تمھیں لانے والے کہیں ہم کر لیں؟
تجزیہ کار ہارون الرشید نے کہا کہ مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ روس نے پاکستان کو 30 فیصد کم قیمت پر تیل کی پیشکش نہیں کی تھی۔ معاف کیجیے گا "صریح غلط بیانی ہے یہ۔ پاکستان ہی کیا ہر ملک کو انہوں نے پیشکش کی۔ بھارت نے صرف مئی میں کروڑوں بیرل تیل خریدا" اربوں ڈالر بچائے۔
اینکر جمیل فاروقی نے کہا مفتاح اسماعیل نے ”امپورٹڈ حکومت“ ہونے اور امریکی مفاد کے حق میں معاشی فیصلے کرنے کا اعتراف کر لیا۔
صحافی خاور گھمن نے کہا لیکن انڈیا سمیت ساری دنیا روس سے تیل خرید رہی ہے سوائے چند ممالک کے۔
ڈاکٹر فائق سعید نے کہا مفتاح اسماعیل نے تسلیم کرلیا عمران خان کی حکومت نے روس کو سستا تیل لینے کےخط لکھاتھا۔ بھارت امریکہ کا اسٹرٹیجک پارٹنر بھی اور روس سے 3کروڑ 40لاکھ بیرل سستا تیل لیا ہے بھارت پر پابندی نہیں لگی یہ غلام حکومت پاکستان اور عوام کانقصان کررہی ہے۔
فیصل مغل نے لکھا ہم روس سے گندم خریدنے کے لیے تیار ہیں۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ حکومت روس سے تیل خرید سکتی ہے اگر کوئی پابندی نہیں ہے۔
انجنیئر شاہد نے کہا پاکستان کی فی الحال نہ امپورٹ ہے نہ ایکسپورٹ ہے کوئی ملک منہ لگانے کو تیار نہیں معشیت کا دیوالیہ نکلا ہوا ہے ڈالر اونچی اڑان پر ہے ملک میں امن نام کی کوئی چیز نہیں ابھی کون سی پابندی کا ڈر ہے؟
علی رضا نے لکھا کہ اس بندے کو پریس سے دور رکھا جائے پہلے ہی ملک کی بہت ناک کٹ چکی ہے اب رہی سہی کسر یہ پوری کر رہے ہیں۔
عائشہ نے سوال اٹھایا کہ کیا بھارت اور یورپ پر روس سے پٹرول خریدنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔