چند سال پہلے کی بات ہے عمران خان کے حمایتی یہ چیلنج کرتے نہیں تھکتے تھے کہ ہے کوئی ہمارے لیڈر کی طرح بولنے والا تو سامنے لاؤ، نواز شریف کو چیلنج کئے جاتے تھے کہ وہ بھی امریکی طرز پر انتخابات سے قبل عمران خان کے مقابل آکر ڈیبیٹ کریں۔ نواز شریف کا اس معاملے میں ہاتھ کافی ہلکا ہے اور تقریروں کیلئے انہیں اکثر پرچیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ مگر یہ بھی ایک دانشمندانہ عمل ہے کہ آپ بلاوجہ منہ سے کچھ بھی اگل دیں اور بعد میں وضاحتیں دیتے پھریں اس سے کہیں بہتر ہے کہ پہلے لکھ لیا جائے اور پھر بولا جائے۔۔ خیر نوازشریف تو عمران خان کے سامنے بیٹھ کر ڈیبیٹ کرنے کی صلاحیت نہ رکھتے تھے، مگر وہ ساری کمی پوری کردی ہے مریم نواز نے۔
مریم نواز نے پچھلے کچھ عرصے میں جس طرح خود کو منوایا ہے اس سے اسٹیبلشمنٹ کے تو چودہ طبق روشن ہوگئے ہیں۔ اور یہ واقعی حیرت کی بات ہے کیونکہ چند سال پہلے تک مریم نواز کسی کو معقول انٹرویو بھی نہیں دے سکتی تھیں، مگر اب پی ڈی ایم کی تحریک میں جس طرح مریم نواز نے چوکے چھکے مارے ہیں، اس سے عمران خان تو مریم نواز کے سامنے بچہ لگنے لگا ہے اور مجھے یقین ہے اگر مریم نواز کے سامنے عمران خان کو بٹھا دیا جائے تو اس کے چھکے چھوٹ جائیں گے۔۔ مریم نواز کی پہلی تقریر کے بعد عمران خان نے جواب دینے کی کوشش کی تھی جس میں اس نے مریم نواز کو نانی کہا، مگر اگلے ہی دن مریم نواز نے عمران خان کو وہ دھلائی کی کہ اس کے بعد عمران خان کو جرات نہیں ہوئی جواب دینے کی۔۔
کچھ عرصہ پہلے تک نوازشریف، زرداری اور عمران خان کے بعد پاکستان میں لیڈرشپ کا قحط نظر آرہا تھا، یہ سب بوڑھے ہوچکے ہیں اور اب سیاست میں کوئی متحرک کردار ادا کرنے کے قابل نہیں۔ پاکستانی عوام کی اکثریت چونکہ موروثی سیاست کو ہی قبول کرتی ہے اور چاہے کسی پارٹی کا لیڈر ہو یا معمولی ایم این اے، ان کے بعد ان کی اولاد کو ہی بطور اگلا لیڈر قبول کیا جاتا ہے اور جمہوری روایات کی کوئی قدر نہیں کہ قابلیت کی بنا پر کوئی آگے آئے، اس لئے ٹاپ لیڈرشپ میں مستقبل کا لیڈر کون ہوگا، اس کیلئے بہت محدود سٹاک دستیاب ہے، یعنی نواز شریف کے بعد ان کی اولاد، بے نظیر کے بعد ان کی اولاد اور عمران خان کے بعد کوئی بھی نہیں۔ میری نظر میں پارٹی لیڈرشپ میں بھی موروثیت کی بجائے جمہوری طرزِ انتخاب اپنایا جانا چاہئے، مگر کیا کہا جائے پاکستانی عوام کا، سطحی ذہنیت اور اپنے اپنے لیڈرز پر جان دینے والی عوام یہ کب برداشت کرسکتی ہے۔۔ پہلے تو صرف شریف فیملی اور بھٹو فیملی آسیب کی طرح پاکستانی سیاست پر مسلط تھے، مگر اب نیا فرقہء عمرانیہ بھی وجود میں آچکا ہے جو جیالیوں اور لیگیوں سے بڑھ کر اپنے لیڈر کی پوجا کرتے ہیں۔ ایسے میں پاکستان میں جمہوری روایات کیسے پنپ سکتی ہیں۔ خیر یہ تو ضمنی بات ہوگئی، اصل مدعا یہ ہے کہ چند سال پہلے نواز شریف،بے نظیر یا شہباز شریف کی اولاد میں سے کوئی بھی اس قابل نہ تھا کہ وہ مستقبل کا لیڈر قرار پاسکتا، اسی لئے اسٹیبشلمنٹ نے عمران خان کو آگے لاکر پاکستان میں بھی چائنا کی طرح ون پارٹی سسٹم لانا چاہا تاکہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا بستر گول کردیا جائے، اور صرف عمرانی گھوڑے پرسواری کرکے ملک کو چلایا جائے، مگر ہوا یہ کہ گھوڑا توقع سے زیادہ نکما نکلا۔۔۔ اور سب سے اہم بات جو ہماری تحریر کا مرکزی نکتہ بھی ہے کہ مریم نواز تھوڑے ہی عرصہ میں اچانک ایک دبنگ لیڈر کے طور پر سامنے آگئیں۔
اب یہ اعتراض تو اپنی موت آپ مرچکا ہے کہ پاکستان کے پاس کوئی مستقبل کا لیڈر موجود نہیں ہے، کیونکہ فی الحال مریم نواز سے زیادہ بااعتماد اور قائدانہ صلاحیتیں رکھنے والا لیڈر پاکستان میں موجود نہیں۔ دوسری بات یہ کہ مریم نواز ایک خاتون ہیں اور یہ پاکستان کیلئے اعزاز کی بات ہوگی کہ بےنظیر کے بعد مریم نواز کی صورت میں ایک اور خاتون وزیراعظم پاکستان کی مستند اقتدار پر براجمان ہوں گی۔۔ عمران خان کے دن گنے جا چکے ہیں، یہ حد سے زیادہ نا اہل ثابت ہوا ہے، ہوسکتا ہے مریم نواز بھی نا اہل ثابت ہو، مگر پاکستان کے پاس فی الوقت یہی آپشن دستیاب ہے۔۔ اور یہ بات روزنِ روشن کی طرح واضح نظر آرہی ہے کہ بہت جلد مریم نواز وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہونے والی ہیں۔۔