متحدہ کسی نہ کسی قومیت سے برسرپیکار رہتی ہ&#17

rakeem

Senator (1k+ posts)
Re: متحدہ کسی نہ کسی قومیت سے برسرپیکار رہتی ہ

It iss not about MQM, its actually the Karachi's literatti vs. the Gandhi Khan[divide and rule] party ANP, which has totally f***** up the city and wants to take us back into the 18th century by doing heavy weaponization, bringing Afghans and other criminal elements of Frontier into the city , with PP's Aman committee supporting them. MQM has been laying quiet and letting ANP terrorists have their way, in land grabbing,carjacking,mobile snatching,etc. doing nothing to keep this bloody coalition with PPP alive or probably trying to show Karachiites that it is either the MQM or the barbarians from frontier, those who don't live in Karachi are so bloody experts of Karachi even don't know the ground reality. One thing they need to remember is, that whether it is Nawaz Sharif or Zardari[the same b*st*rds] MQM will be in next coalition, so why bother crying about 25 years, the rest of 25 years thanx to this qatil jamhuriyat will look the bloody same.
 
Last edited:

Bombaybuz

Minister (2k+ posts)
Re: متحدہ کسی نہ کسی قومیت سے برسرپیکار رہتی ہ

[MENTION=20177]Skeptic[/MENTION], [MENTION=6261]aasimnaveed[/MENTION], @gazoomartain, [MENTION=10153]Farooq Khan[/MENTION] london, [MENTION=13246]zaman[/MENTION], [MENTION=7753]ALI ARYAN[/MENTION], @GeoG, [MENTION=12797]behzadji[/MENTION], [MENTION=12159]dhanak[/MENTION], [MENTION=9174]Ajnabi27[/MENTION] [MENTION=12116]fayskhan[/MENTION]

I can see a vital shift in Mqm's over all attitude towards other linguistic entities... although they changed their name long back but there was no participation of any other person in the party other then muhajir's ... and workers tolerance level was also no where towards others then muhajirs but as i said there is some change as of now ... So we should not be prisoners of past ... MQM is the not the party of people who actually migrated but their children by large who born n bought up here in pakistan and if they are trying which i can say they are leaving alone the intensity of the effort isn't it unfair on our behalf that we are not letting them rectify their mistakes and not allowing them to come in the main stream by just tagging them as terrorist or some linguistic entity... they are well organised as a party where duties are well spread ... division of power is some what on the lower levels as compair to other parties though AH's word is final but still he is well connected to the people and supporters of the party ... if you say its just MQM's fault that it locked horns with other raises then i don't agree... and i think they should be allowed to be as vital and vibrant as other national parties in Pakistan.
 

Bombaybuz

Minister (2k+ posts)
Re: متحدہ کسی نہ کسی قومیت سے برسرپیکار رہتی ہ

[MENTION=20177]Skeptic[/MENTION], [MENTION=6261]aasimnaveed[/MENTION], @gazoomartain, [MENTION=10153]Farooq Khan[/MENTION] london, [MENTION=13246]zaman[/MENTION], [MENTION=7753]ALI ARYAN[/MENTION], @GeoG, [MENTION=12797]behzadji[/MENTION], [MENTION=12159]dhanak[/MENTION], [MENTION=9174]Ajnabi27[/MENTION] [MENTION=12116]fayskhan[/MENTION]

I can see a vital shift in Mqm's over all attitude towards other linguistic entities... although they changed their name long back but there was no participation of any other person in the party other then muhajir's ... and workers tolerance level was also no where towards others then muhajirs but as i said there is some change as of now ... So we should not be prisoners of past ... MQM is the not the party of people who actually migrated but their children by large who born n bought up here in pakistan and if they are trying which i can say they are leaving alone the intensity of the effort isn't it unfair on our behalf that we are not letting them rectify their mistakes and not allowing them to come in the main stream by just tagging them as terrorist or some linguistic entity... they are well organised as a party where duties are well spread ... division of power is some what on the lower levels as compair to other parties though AH's word is final but still he is well connected to the people and supporters of the party ... if you say its just MQM's fault that it locked horns with other raises then i don't agree... and i think they should be allowed to be as vital and vibrant as other national parties in Pakistan.
 

mehwish_ali

Chief Minister (5k+ posts)
Re: متحدہ کسی نہ کسی قومیت سے برسرپیکار رہتی ہ

بہت بڑے پیمانے پر لگایا جانے والا الزام کہ تمام سیاسی جماعتیں کراچی میں متحدہ کے خلاف ہیں، اس کا مطلب خود بخود یہ ہے کہ متحدہ غلط ہے۔
پہلا سوال: کراچی کی اکثریت متحدہ کو منتخب کرتی ہے، تو پھر باقی غلط ہو گئے؟

اگر یہ معترضین اپنے اسی "اکثریت" والے آرگومینٹ سے چمٹی رہتے ہیں، تو پھر تو انہیں مان لینا چاہیے کہ باقی پارٹیاں کراچی میں غلط ہیں کیونکہ اہلیان کراچی کی اکثریت ہر الیکشن میں ان باقی پارٹیوں کو جوتا مارتی ہوئی متحدہ کو منتخب کرتی ہے۔
یہاں پر یہ معترضین اپنے دو رخے رویے (ڈبل سٹینڈرڈز / منافقت) دکھاتے ہیں۔ انکے نزدیک اہلیان کراچی کی اس 80 فیصد اکثریت کے ووٹ کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ "باقی سب پارٹیوں" کا آرگومینٹ دینے والے "اہلیان کراچی کی اکثریت" کے اس ووٹ اور سپورٹ کو ڈکار مارے بغیر ہضم کر کے مکمل منافقت کا ثبوت دیتے ہیں۔

دوسرا سوال: دیگر صوبے پنجاب کے خلاف کیوں ہیں؟

کسی دو صوبوں میں ایسی شکایات اور نفرت نہیں پائی جاتی جیسی کہ صوبے پنجاب کے خلاف پائی جاتی ہیں۔ کیا اسی "اکثریت" والے اصول کو متحدہ کی طرح پنجاب پر لاگو کرتے ہوئے پنجاب کو قربانی کا بکرا بنا دیا جائے؟
کم از کم اہل پنجاب اس معاملے میں اس اصول کو نہیں مانیں گے۔ مگر افسوس کہ جب بات متحدہ کی آتی ہے تو سٹینڈرڈز بدل جاتے ہیں۔
کراچی میں متحدہ اور دیگر چھوٹی سیاسی پارٹیوں کے سیاسی مفادات کا ٹکراؤ

آئیے اب ایک ایک کر کے ان چھوٹے گروہوں کی کراچی میں سیاست کا مختصر تجزیہ کرتے ہیں۔ یہ سب گروہ پہلے سے موجود تھے، مگر متحدہ نے بعد میں پیدا ہو کر تیزی سے ترقی کی اور انکے سیاسی مفادات کو زبردست کاری ضرب لگائی۔ اس سیاسی ضرب کا وار یہ ابھی تک سہلا رہے ہیں اور اس لیے متحدہ سے انتہائی پرخاش رکھتے ہیں۔
1۔ جماعت اسلامی

جماعت اسلامی کے کیس میں وجوہات بہت واضح ہیں کہ جماعت اسلامی کیوں متحدہ کی اتنی دشمن ہے۔

  1. 80 کی دھائی سے قبل کراچی کے الیکشنز میں بہت سی سیٹیں جماعت اسلامی کو ملتی تھیں۔ مگر ایم کیو ایم نے پیدا ہو کر سب سے زیادہ جماعت اسلامی کے ووٹ بینک کو متاثر کیا اور وہ کراچی میں ایسی ذلیل و خوار ہوئی کہ پھر اسے کراچی حیدر آباد میں الیکشنز میں ایک بھی سیٹ نہیں مل پائی۔
  2. اور پھر دوسرا بڑا اہم مسئلہ یہ ہے کہ ایم کیو ایم مکمل طور پر لیفٹ کی جماعت ہے جبکہ جماعت اسلامی مکمل طور پر رائیٹ کی اور طالبان اور دیگر تکفیری گروہوں کی حمایت کرتی ہے، جبکہ متحدہ سے بڑھ کر طالبان اور ان دیگر تکفیری گروہوں کے خلاف کوئی اور جماعت احتجاج کرتی ہے اور نہ مخالفت۔ چنانچہ نظریاتی طور پر ان دونوں پارٹیوں میں بعد المشرقین پایا جاتا ہے۔
چنانچہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ جماعت اسلامی انکے اتنے مخالف کیوں ہے۔
2۔ سنی تحریک

سنی تحریک کا مسئلہ بھی یہ ہے کہ کراچی انکا گڑھ تھا اور یہیں سے انہیں سیٹیں ملتی تھیں۔ مگر ایم کیو ایم کے آنے سے انکا سارا ووٹر جا کر ایم کیو ایم میں مل گیا، اور نتیجتا انہیں کراچی اور حیدرآباد سے پچھلے کئی الیکشنز میں ایک بھی سیٹ نہیں ملی۔ یہ بھی متحدہ کو اپنے ووٹ بینک پر ڈاکا مارنے والے سمجھتے ہیں۔
3۔ پیپلز پارٹی اور دیگر سندھی قوم پرست تنظیمیں

تیسری جماعت جسے کراچی سے الیکشنز میں سیٹیں ملتی تھیں، وہ پیپلز پارٹی تھی۔ پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک میں کراچی شہر کا "لبرل" طبقہ بھی شامل تھا۔ مگر ایم کیو ایم نے وجود پاتے ہی اس لبرل طبقے کو اپنے اندر کھینچ لیا اور آج کراچی میں سوائے لیاری وغیرہ کے بلوچ علاقوں کے، کہیں اور پیپلز پارٹی کو سیٹ نہیں مل پاتی۔ یہی حال حیدرآباد کا ہے۔ ایم کیو ایم سندھ میں دوسری بڑی سیاسی جماعت بن کر پیپلز پارٹی کو صوبائی حکومت میں للکارنے کی تیاریاں کر رہی ہے اور صوبہ سندھ میں بہت مقبولیت پا رہی ہے۔ یہ چیز پیپلز پارٹی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے کہ انکے گڑھ میں کوئی اور جماعت مضبوط ہو جائے۔
پیپلز پارٹی کراچی میں لیاری کے بلوچ مکرانیوں کی مکمل سپورٹ کرتی ہے اور اس لیے لیاری میں رحمان ڈکیت اور دیگر بڑے بڑے مجرموں و مافیاز کی کھلے عام سیاسی سپورٹ کرتی چلی آئی ہے اور انہیں جرائم کرنے کا پورا موقع فراہم کیا ہے۔ اس بات پر متحدہ کا پیپلز پارٹی سے سخت اختلاف رہا ہے۔
اور سندھ کی دیگر قوم پرست جماعتیں فقط متحدہ کے ہی نہیں، بلکہ وہ ان سب لوگوں کے خلاف ہیں جو سندھ آ کر بس گئے ہیں۔ چاہے یہ پشتون ہوں یا پنجابی، وہ ان سے اتنی ہی نفرت کرتے ہیں جتنی کہ مہاجروں سے۔
4۔ اے این پی

غیر قانونی طور پر کراچی میں آنے والے افغانیوں کی آمد کے بعد اے این پی مکمل طور پر جرائم پیشہ افراد کا گروہ بن کر رہ گیا ہے۔
اے ای پی اور اسکے سپورٹرز سے مہاجروں کو شکایات کیوں ہیں؟
اسکی ایک بڑی وجہ ان لوگوں کا کئی دھائیوں سے کراچی جیسے شہر میں اپنے رسوم کے نام پر سہراب گوٹھ جیسا "علاقہ غیر" بنا کر بیٹھ جانا ہے، جو کہ پاکستانی قانون کے لیے "نو گو ایریا" ہے، پولیس جاتے ہوئے ڈرتی ہے، انتہائی مہلک جان لیوا غیر قانونی اسلحہ کا کھلے عام یہاں کاروبار ہوتا ہے اور راکٹ لانچرز تک بکتے ہیں۔ ڈرگز کی پوری کی پوری مافیا یہاں پر بیٹھی ہوئی ہے۔ اسی اسلحے کی بنیاد پر انہوں نے زمینوں پر زبردستی قبضے کرنے شروع کر دیے اور کسی مہاجر کو انکا اسلحہ دیکھ لینے کے بعد ہمت نہ ہوتی تھی کہ اپنی زمین کو ان سے خالی کروا سکے۔ اور پولیس انکی مدد کیوں کرتی کہ کیونکہ پولیس تو غیر مقامی لوگوں پر مشتمل تھی۔ مہاجروں کے ہاتھوں میں اپنی قسمت کی باگ دوڑ نہیں تھی بلکہ دوسرے لوگ انکی قسمت کے مالک بنے بیٹھے تھے۔
یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے ایک قوم کو تو پاکستان کے قانون کی پابندی کروائی جائے، ان سے شہر کے کوڑے صفائی اور ترقی کے نام پر ٹیکسز لیے جائیں، ان سے پانی و بجلی کے بل بھروائے جائیں۔۔۔ مگر دوسری طرف اسی شہر میں ایک قوم خود کو پاکستانی قانون سے بالاتر قرار دے دے اور اسلحہ، ڈرگز، سمگلنگ جیسے غیر قانونی کام کھلے عام کرنا شروع کر دیے، جو آج تک شہر کے ترقیاتی کاموں کے نام پر ایک پیسہ ٹیکس نہ دے، جو آج تک پانی و بجلی کے بل کی مد میں ایک پیسہ نہ دے بلکہ بجلی کے کنڈے ڈالتی ہو، اور اسکی بجلی و پانی کے بل بھی دوسری قوم کو بھرنے پڑیں۔۔۔۔۔
یہ انتہائی شدید ناانصافی ہے اور جلد یا بدیر شکایات کا پیدا ہونا ناگزیر تھا۔ اے این پی ان تمام غیر قانونی سرگرمیوں اور کاروبار کی سپورٹر ہے کیونکہ اسکا پورا ووٹ بینک ہی ان علاقوں میں ہے۔ یہ کراچی میں ان جرائم پیشہ افراد کا سیاسی ونگ بنے ہوئے ہیں۔
مہاجر غریبوں کے پاس تو پولیس کا چارج تھا اور نہ اسلحے کے نام پر کوئی پستول۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ جب سندھ کے وزیر اعلی غوث علی شاہ کے دور میں انہوں نے سہراب گوٹھ ام الفتن کے فساد کو پہچانتے ہوئے اسلحے و ڈرگز ڈیلرز کے خلاف کاروائی کرنا چاہی تو جواب میں ان جرائم پیشہ افراد نے 300 اردو بولنے والے معصوم مہاجروں کو قصبہ کالونی اور علی گڑھ کالونی میں گولیوں سے چھید ڈالا۔ یعنی اب مہاجروں کی یہ آبادیاں پہاڑ میں بنے ان جرائم پیشہ لوگوں کے مورچوں کے ہاتھوں یرغمال ہیں اور انکے غیر قانونی اسلحے اور ڈرگز اور دیگر کاروبار کے خلاف جب بھی کوئی ایکشن لیا گیا تو یہ فورا کراچی میں لسانی کلنگز شروع کر دیں گے۔
قصبہ کالونی اور علی گڑھ کالونی میں یہ سب کچھ ظلم ہوا مگر مہاجروں کو انصاف کیا، اسکی بھنک تک نہیں مل سکی۔ حتی کہ اس قتل عام پر جو جیوڈیشنل کمیشن بنا، اسکی رپورٹ مکمل ہو جانے کے باوجود آجتک شائع نہیں کی گئی۔ یہ وہ وقت تھا جب مہاجروں کے پاس اسلحے کے نام پر ایک پستول تک نہیں تھا۔
غور سے دیکھئیے اُس وقت کے وزیر اعلی سندھ غوث علی شاہ کا انٹرویو جہاں وہ بتلا رہے ہیں کہ سہراب گوٹھ کیسا اژدھا بن کر اہلیان کراچی کے گلے میں پھندا باندھ کر بیٹھ گیا ہے اور انکی گواہی کہ ان جرائم پیشہ افراد کے خلاف کاروائی کا انتقام لیتے ہوئے انہوں نے قصبہ کالونی اور علی گڑھ کالونی میں 300 معصوم اردو سپیکنگ مہاجروں کو بھون ڈالا۔


5۔ اہل پنجاب سے شکوے شکایات

مہاجروں کے شکوے کا آغاز ہوا 1951 میں جب پہلی مرتبہ دو قومی نظریے کی موت ہوئی اور ہندوستان سے مسلمان مہاجرین کی آمد پر پابندی لگا دی گئی۔ یہاں مسلمان خون تقسیم ہوا (Division of Muslim Blood)۔ ماں باپ انڈیا میں ہے تو بیٹی داماد پاکستان میں۔ بہنیں بھائیوں سے بچھڑ گئیں اور خاندان بٹ کر رہ گئے۔
پھر مشرقی پاکستان کا المیہ پیش آیا اور بیہاری اردو سپیکنگ مہاجرین نے پاکستان سے انتہائی وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہزاروں جانوں کی قربانیاں پیش کیں۔ مگر حکومت کی باگ دوڑ رکھنے والوں نے ان بیہاری اردو سپیکنگ پاکستانیوں کو بنگلہ دیش کی کیمپوں میں سڑنے اور مکتی باہنی کے ہاتھوں قتل و برباد ہونے کے لیے اکیلا چھوڑ دیا۔ ایک دفعہ پھر کراچی میں خاندان والے ایک دوسرے سے بچھڑے کہ آدھے خاندان والے کراچی میں موجود ہیں جبکہ آدھے خاندان والے بنگلہ دیش کے کیمپوں میں پڑے سڑ رہے ہیں۔ یہ دو قومی نظریہ کی دوسری موت تھی۔
پنجاب میں ہزاروں لاکھوں لوگوں نے ان محصورین پاکستان کا درد محسوس کیا اور انہیں واپس ملک پاکستان لانا چاہا۔ ان میں ایک نام پنجاب کے سابق وزیر اعلی غلام حیدر وائیں مرحوم کا بھی ہے۔
مگر افسوس کہ اہلیان پنجاب کی اکثریت پھر بھی ان محصورین پاکستان کی واپسی کے خلاف رہی اور صوبائی سطح پر کوئی حکومت انہیں واپس لانے کے لیے تیار نہ ہوئی۔
ان محصورین پاکستان کی تعداد صرف دو ڈھائی لاکھ تھی اور کیا پورا پاکستان مل کر انکا بوجھ نہیں اٹھا سکتا تھا، اور کیا پاکستان انکا نہیں تھا؟
ایک طرف تو یہ تماشا، اور دوسری طرف تماشا یہ کہ کراچی کے متعلق یہی لوگ کہتے نہیں تھکتے کہ کراچی "سب کا" ہے، اور دو ڈھائی لاکھ کیا بلکہ چالیس پچاس لاکھ لوگ آ کر یہاں آباد ہوئے اور اس وقت ان زمینی حقائق کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا کہ ان چالیس پچاس لاکھ افراد کی آمد سے کراچی شہر میں کیا کیا مسائل پیدا ہوں گے اور کیسے یہ شہر اتنی بڑی اضافی آبادی کا بوجھ اٹھائے گا۔
اہلیان کراچی پڑھے لکھے باشعور لوگ ہیں۔ یہ ڈبل سٹینڈرڈز دکھانے کے بعد آپ انہیں بے وقوف نہیں بنا سکتے۔ نتیجہ یہ کہ شکایات کا پیدا ہونا ایک فطری عمل تھا۔
پھر دوسرا مسئلہ یہ ہوا کہ پاکستان کی مرکزی حکومت کی باگ دوڑ پنجاب کے جاگیرداروں کے ہاتھوں میں چلی گئی اور صوبائی حکومت سندھ کے وڈیروں کے ہاتھوں میں۔ یہ کرپٹ لوگ تھے۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت کے ہر ہر مرکزی اور صوبائی محکمے میں اعلی افسران کی تقریاں پنجاب یا سندھ سے ہوتیں اور وہ آ کر پھر آگے اپنے علاقے کے لوگوں کو ہی چھوٹی آسامیوں پر سفارش پر بھرتی کرتے، چاہیے یہ لوگ انگھوٹھا چھاپ ہی کیوں نہ ہوتے۔ ان انگوٹھا چھاپوں کے مقابلے میں پڑھا لکھا مہاجر ان محکموں میں یہ سب ناانصافی ہوتا دیکھتا رہا کہ میرٹ کا قتل کرتے ہوئے کیسے اسے اسکے حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔
اسکی ایک مثال کراچی میں پولیس کا محکمہ ہے، کہ جہاں 80 فیصد سے زائد بھرتیاں غیر مقامی لوگوں کی ہوئیں اور انکی اکثریت کا تعلق پنجاب سے تھا۔
پولیس وہ محکمہ ہے جس سے عوام سب سے زیادہ نفرت کرتی ہے۔ یہ وہ قانونی لٹیرے ہیں جن کی کرپشن کی وجہ سے ان سے چور ڈاکوؤں سے بھی زیادہ نفرت کی جاتی ہے۔ پھر یہی غیر مقامی پولیس والے 1992 تا 1999 تک مہاجروں کے خلاف آپریشن میں ملوث تھے اور شعیب سڈل اور جنرل نصیر اللہ بابر اور رانا مقبول جیسے بدنام زمانہ ماورائے عدالت قتل کرنے والے افسران کا تعلق بھی دوسرے صوبوں سے تھا۔
آپ پشاور کی پولیس میں 80 فیصد پنجابی بھرتی کر دیں، یا پھر پنجاب کی پولیس میں 80 فیصد کرپٹ مہاجر بھرتی کر دیں۔ کسی آپریشن کی بھی ضرورت نہیں اور صرف ایک دو سال میں عوام میں انکے خلاف نفرت عروج پر ہو گی۔ یہ ایک بہت بڑی سیاسی غلطی تھی کہ کسی علاقے میں غیر مقامی فوج یا غیر مقامی پولیس کی مدد سے آپریشن کرتے ہوئے ماورائے عدالت قتل کیے جائیں۔
اور یاد رکھئیے، یہ وہی پولیس والے ہیں کہ جو کئی دھائیوں سے سہراب گوٹھ جیسے ام الفتن، اسکے غیر قانونی اسلحے، اسکے ڈرگز کے کاروبار، اسکے اسلحہ کے زور پر قبضہ مافیا کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرتے ہیں۔ ایم کیو ایم کی ریلی پر سہراب گوٹھ سے فائرنگ ہو، یا قصبہ کالونی و علیگڑھ کالونی ہو، یا پھر پکا قلعہ کا سانحہ ہو، یہ پولیس کسی بھی ایسے معاملے میں اردو سپیکنگ مہاجرون کا دفاع نہیں کرتی۔ اور پھر ان سب سانحات کے بعد مجبور ہو کر مہاجر بھی اسلحہ اٹھا لیتے ہیں تو پھر فورا انکے خلاف آپریشن کلین اپ شروع ہو جاتا ہے (اور صرف اور صرف مہاجروں کے خلاف ہوتا ہے جبکہ سہراب گوٹھ کا نو گو ایریا، اپنے اسلحے و ڈرگز کے ساتھ برقرار رہتا ہے)۔
پاکستانی کرپٹ سیاسی جماعتوں کا منفی پہلو: چھوٹے گروہ آپس میں مل کر حکومت گرانے میں لگ جاتے ہیں

پاکستان کی کرپٹ سیاسی جماعتیں اصولوں کی سیاست نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ دیکھیں گے کہ اپوزیشن کی جماعتیں بھائ بھائی اور بہن بن کر متحد ہو جاتے ہیں اور مل کر حکومتی دھڑے کی ٹانگ کھینچنے میں لگ جاتے ہیں۔ مگر جب اگلی دفعہ انہی اپوزیش گروہوں میں سے کسی کی حکومت بنتی ہے تو یہ بھائی بہن ایک دوسرے کو بھول کر ایک دوسرے کے ٹانگ کھینچتے نظر آتے ہیں۔
یہ نہیں کہ ان اپوزیشن کے گروہوں میں آپس میں اختلافات نہیں ہیں۔ بلکہ ان مختلف اپوزیشن گروہوں میں آپس میں بھی کتے بلی کا بیر ہے، مگر یہ صرف اور صرف اُس وقت سامنے آتا ہے جب ان میں سے کسی ایک کو حکومت ملتی ہے۔ مثلا سندھی قوم پرست جماعتیں نہ صرف مہاجروں کو کراچی پر باہر سے آ کر قبضہ کرنے والا سمجھتے ہیں، بلکہ وہ اہل پنجاب سے بھی یہی نفرت رکھتے ہیں اور پشتونوں کو بھی باہر سے آ کر انکے علاقے کراچی پر قابض ہونے والا سمجھتے ہیں اور انکے اتنے ہی خلاف ہیں جتنے کہ مہاجروں کے۔
مثال: عمران خان اور نواز شریف کا پرویز مشرف کے خلاف متحد ہو کر ٹانگ کھینچنا

۔1۔ عبدالستار ایدھی گواہی دیتے ہیں کہ جب بینظیر کی حکومت دوسری مرتبہ قائم ہوئی تو عمران خان، اور حمید گل اور دیگر فوجی افسران وغیرہ (جو مسلم لیگ (نواز شریف) کو پیپلز پارٹی کے مقابلے میں سپورٹ کرتے تھے) انکے پاس آئے اور انہیں بینظیر کی حکومت گرانے کی سازش میں شریک ہونے کے لیے دباؤ ڈالا۔ یہ دباؤ اس حد تک تھا کہ عبدالستار ایدھی کے مطابق انکی جان کو اتنا خطرہ پیدا ہوا کہ وہ وقتی طور پر ملک پاکستان چھوڑ کر باہر چلے گئے (پڑھئیے پورا آرٹیکل بمع ثبوت)
۔2۔ پھر نواز شریف کی حکومت قائم ہوتی ہے اور اس مرتبہ عمران خان دوسری پارٹیوں کے ساتھ مل کر نواز شریف کے خلاف مہم چلاتے نظر آتے ہیں۔
اور نواز شریف کو عمران خان سے اتنی نفرت ہوتی ہے کہ وہ خاص طور پر امریکہ جاسوس بھیجتے ہیں۔ اور یہ جاسوس ہی وہ شخص تھا جس نے عمران خان اور سیتا وائٹ کے تعلقات اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیٹی کی کہانی کی تفصیلات طشت از بام کیں۔
پھر عمران خان کی نواز شریف حکومت کے خلاف نفرت اتنی بڑھتی ہے کہ وہ ہر حد کو عبور کر جاتے ہیں اور ہر قانونی غیر قانونی ہتھکنڈہ استعمال کر کے نواز شریف کی حکومت گرانا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں حد سے گرتے ہوئے وہ فوجی حکومت تک سے مل جاتے ہیں اور اس کو سپورٹ کرتے ہیں تاکہ نواز شریف کی جمہوری حکومت کا خاتمہ ہو سکے۔
۔3۔ مگر پھر جب مشرف حکومت کی جانب سے عمران خان کو وزیر اعظم بننے کی پیشکش نہیں ہوتی تو ہمیں یہ عمران خان پھر سے دیگر اُن اُن پارٹیوں سے ملتے نظر آتے ہیں جن پر یہ پہلے لعنت بھیجتے تھے۔ اس میں پیپلز پارٹی بھی شامل ہے، مگر اس سے بڑھ کر وہ نواز شریف بھی شامل ہیں کہ جنہوں نے خاص طور پر جاسوس بھیج کر انکے اور سیتا وائٹ کے ناجائز تعلقات کی تفصیلات کو منظر عام پر لانے کا انتظام کیا تھا۔
کہتے ہیں وقت پڑنے پر گدھے کو بھی باپ بنانا پڑتا ہے۔ پھر قوم نے دیکھا کہ مشرف حکومت کی مخالفت میں یہ دو گدھے ماضی میں اتنی دشمنی ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے گلے ملتے ہوئے ایک دوسرے کو اپنا بھائی بنا رہے تھے۔ اور عمران خان اُس جاسوس کو بھول گیا اور نواز شریف عمران خان کی فوجی حکومت کی حمایت کو بھول گیا اور دونوں بھائی بھائی بن گئے۔
مگر یہ بھائی پن دیرپا نہیں۔ صوبہ پنجاب میں نواز شریف کی حکومت ہے، اور اسی علاقے میں عمران خان کا بھی ووٹ بینک ہے۔ لہذا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ بھائی بھائی زیادہ عرصے ساتھ نہیں چل سکے اور عمران خان نے بڑھ چڑھ کر نواز لیگ کی ٹانگ کھینچنے کے لیے اسکے خلاف الزامات لگانا شروع کر دیے ہیں۔ آگے آگے دیکھئیے ہوتا ہے کیا۔
اے این پی اسلحہ مافیا اور لارڈ نذیرکی لیاری کے جرائم پیشہ افراد سے ہاتھ ملا کر متحدہ کے خلاف سازشیں

اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال کراچی میں ہر جرم پیشہ گروہ اکھٹا ہو کر متحدہ کے خلاف سازشوں میں مصروف ہو جانا ہے۔ چاہے یہ اے این پی کا اسلحہ، قبضہ، ڈرگ مافیا گروپ ہو، یا لارڈ نذیر (نواز شریف کے پٹھو) جیسے لوگ ہوں، یا پھر پیپلز پارٹی کے پٹھو لیاری کے جرائم پیشہ افراد۔ پڑھئیے جنگ اخبار کی یہ خبر۔
8-8-2010_41442_1.gif
aHR0cDovL3d3dy5wYWtpc3RhbmlzY2FuZGFscy5jb20vcGFraXN0YW5pc2NhbmRhbHMuY29tL3Bvc3RzL3VzZXJmaWxlcy8wNyUyODElMjkuZ2lm.jpg
کیا آپ کو علم ہے کہ:

  1. یہ رحمان بلوچ کون ہے؟ جی ہاں، یہ رحمان بلوچ وہی ہے جسے قوم "رحمان ڈکیت" کے نام سے جانتی ہے۔
    یہ وہی رحمان بلوچ ہے جس نے اپنے کیرئر کا آغاز اپنی سگی ماں کے قتل سے کیا۔
    1100690228-1.gif
  2. اور یہ پیپلز امن کمیٹی شہر کراچی کے علاقے لیاری کی بدنام ترین جرائم پیشہ افراد کا گینگ ہے۔ انکو ماضی میں ہمیشہ پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل رہی۔ مگر پھر انکی بدمعاشیاں اس حد تک بڑھ گئیں کہ پیپلز پارٹی کی اپنی حکومت کو رحمان ڈکیت کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے اسے مروانا پڑا۔
رحمان ڈکیت اور اس امن کمیٹی پر پورا آرٹیکل یہاں پر پڑھیں۔
عمران خان اور جماعت اسلامی کا حقیقی کے قاتل دہشتگردوں سے جوڑ توڑ

حقیقی والے وہی ریاستی قاتل دہشتگرد تھے جن کی پشت پر پھر نواز شریف نے اپنا ہاتھ رکھ دیا اور نواز شریف کی ایما پر ان حقیقی کے قاتل دہشتگردوں نے ہزاروں معصوم مہاجروں کا خون کروایا۔ انہی حکومتی سرپرستی میں انہوں نے کراچی کے کچھ علاقوں میں اپنا ایسا کنٹرول حاصل کر لیا کہ چڑیا بھی وہاں پر نہیں مار سکتی تھی۔ ریاستی سرپرستی میں یہ نو گو ایریاز سالہا سال تک قائم رہے اور ان نو گو ایریاز میں متحدہ کے رکن الیکشنز جیت جانے کے باوجود نہیں جا سکتے تھے۔

اور اب عمران خان کی ناانصافی و منافقت ملاحظہ فرمائیے کہ جب ان حقیقی کے قاتلوں اور دہشتگردوں کو عدالت میں گھسیٹنے کی بجائے انکی عدالتوں سے رہائی پر خوش ہیں اور انہیں اسلام آباد بلا کر طالبان کی طرح "ہمارے بھائی" کہتے ہوئے گلے سے لگا رہے ہیں۔

مثلا یہ خبریں پڑھئیے:

  1. دی نیوز اخبار کی خبر عمران خان کئی مہینوں سے حقیقی والوں سے ملاقات کر رہا ہے
  2. ڈیلی ٹائمز کی رپورٹ (بمع تجزیہ)
  3. اور دی نیوز کی ایک اور خبر (جماعت اسلامی بھی اس منافقت میں عمران کی شریک کار ہے)
اور یہ ہے عمران خان کی حقیقی کے ریاستی قاتل دہشتگردوں کے ساتھ میٹنگ کی تصویر
ایسا نہیں ہے کہ عمران خان کے دل میں حقیقی کے قاتل دہشتگردوں کے لیے بہت پیار امڈ رہا ہے۔ نہیں، بلکہ عمران خان سازشی کردار ہے جو بس وقتی طور پر ان قاتل دہشتگردوں کو استعمال کر کے کراچی میں متحدہ کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ عمران خان کے اس سازشی کردار کو آپ بہتر طور پر سمجھ سکیں گے اگر آپ یہ آرٹیکل بھی ساتھ میں پڑھیں۔
اے این پی کا تکفیری گروہ طالبان اور اسلحے، ڈرگز ڈیلرز کے ساتھ اتحاد

اے این پی کی سندھ کی قیادت اپنے مفادات کی خاطر اسلحے کی ڈیلرز، ڈرگز ڈیلرز اور قبضہ مافیاز وغیرہ سے اتحاد کیے بیٹھی ہے کہ سہراب گوٹھ میں بسنے والے یہ جرائم پیشہ لوگ ہی اسکا ووٹ بینک ہے۔ تو بجائے ان جرائم پیشہ افراد سے پیچھا چھڑانے کے، این این پی انہیں اپنے پروں میں سموئے بیٹھی ہے اور ہر بہانے سے انکا دفاع کرتی ہے اور انکے خلاف کسی بھی آپریشن کو فورا لسانی فسادات بنا دیتی ہے۔
اسی طرح اے این پی کا کراچی میں مفاد اس میں وابستہ ہے کہ کراچی میں ایم کیو ایم کی حکومت کسی بھی قانونی یا غیر قانونی طریقے سے کمزور ہو جائے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ افادیت آجکل طالبان کی ہے۔ یہ طالبان متحدہ کے کھلے دشمن ہیں کیونکہ متحدہ واحد جماعت ہے جو انکے فتنے کے خلاف سب سے بڑھ چڑھ کر احتجاج کرتی ہے۔
چنانچہ کراچی کے پہاڑوں میں ان طالبان اور انکے تکفیری بھائی بند سپاہ صحابہ وغیرہ نے مورچے بنائے ہوئے ہیں اور یہاں سے یہ نیچے موجود مہاجر آبادیوں کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں اور جب انکا جی چاہتا ہے یہ ان پر فائرنگ کھول دیتے ہیں۔
بہت منافق ہے اے این پی۔
آپ نے آج تک اے این پی کو کراچی میں طالبان کی موجودگی پر احتجاج کرتے اور انکے خلاف ایکشن کی بات کرتے نہیں دیکھا ہو گا۔ بلکہ اسکے بالکل برعکس وہ مکمل طور پر کراچی میں طالبان کی موجودگی کا انکار کرتے رہتے ہیں۔
مگر حقیقت بات پھر بھی کسی نہ کسی طرح کھل کر خود انکے منہ سے بھی باہر آ ہی جاتی ہے۔ مثلا دیکھئیے ذیل میں شاہی سید کا انٹرویو جہاں وہ خود اعتراف کر رہا ہے کہ کراچی کی پہاڑیوں پر موجود گروہوں پر اے این پی کا کوئی کنٹرول نہیں۔ اور صرف تربیت یافتہ لوگ (دہشتگرد؟؟؟) ہی پہاڑوں پر چڑھ سکتے ہیں۔
اور یہ دیکھئیے ایک اور ویڈیو جہاں آپ کو اورنگی کی پہاڑیوں پر تکفیری گروہ کے جھنڈے نظر آ جائیں گے جہاں سے نیچے موجود مہاجر آبادی پر فائرنگ ہو رہی ہوتی ہے۔
آج یہ لوگ متحدہ پر ہنستے ہیں جب متحدہ کہتی ہے کہ کراچی میں طالبان اپنے پنجے گاڑھ رہے ہیں۔
مگر قوم یاد رکھے کہ جب کہا جاتا تھا کہ طالبان فاٹا اور سوات میں اپنے پنجے گاڑھ رہے ہیں تو یہ وہی لوگ ہیں جو اُس وقت بھی ہنستے تھے۔ مگر پھر قوم نے دیکھا کہ طالبان نے فاٹا اور سوات پر قبضہ کر کے ہزاروں معصوموں کو ذبح کر ڈالا۔
نتیجہ

اگرچہ آپ کو آج یہ اپوزیشن جماعتیں کراچی میں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے نظر آ رہی ہیں۔ مگر انکے سازشی کرداروں اور ان میں موجود جرائم پیشہ افراد سے محتاط رہئیے۔
ایم کیو ایم کا مفاد اس میں ہے کہ کراچی سٹیبل رہے۔ مشرف دور میں کراچی سٹیبل رہا اور اسی دور میں متحدہ نے سب سے زیادہ ترقی کی۔
مگر یہ مخالف پارٹیاں چاہتی ہیں کہ کراچی ڈی سٹیبل رہے، کیونکہ کراچی میں جتنی بدامنی پھیلے گی، متحدہ کا اتنا ہی نقصان ہو گا اور انہیں اتنا ہی موقع ملے گا کہ متحدہ پر حملے کرتے ہوئے اسکی ٹانگ کھینچ سکیں۔
 

zourikhan

Councller (250+ posts)
Re: متحدہ کسی نہ کسی قومیت سے برسرپیکار رہتی ہ

whether You people accept or not MQM is the most organize party of Pakistan. you can love it or hate it but can't ignore it...!
ppp n pmln r biggest party of the country but it has been proved no one could get such a attention. In number game MQM having a 4th number but in hype creation .........! After having all allegation ( Bhatta khoori, deshat gerdi, bori band laash) its continuously expanding across the country. Its a one n only political party who's vote bank has increased in every election. In 1988 she got 13 in 90 got 15 in 93 did boycott in 97 got 17 in 2002 got 21 and in 2008 got 25 seats in national election. Even on this channel you people just talk about it most of you(99%) use abusive language about it and some of you (1%) do give favor. Its fact, I know very well after this post you ll start on me , in this post i didn't support MQM just put a fact in front of You.
Whether you people accept or not..................!
 

FaisalKh

Chief Minister (5k+ posts)
Re: متحدہ کسی نہ کسی قومیت سے برسرپیکار رہتی ہ

[MENTION=20177]Skeptic[/MENTION], [MENTION=6261]aasimnaveed[/MENTION], @gazoomartain, [MENTION=10153]Farooq Khan[/MENTION] london, [MENTION=13246]zaman[/MENTION], [MENTION=7753]ALI ARYAN[/MENTION], @GeoG, [MENTION=12797]behzadji[/MENTION], [MENTION=12159]dhanak[/MENTION], [MENTION=9174]Ajnabi27[/MENTION] [MENTION=12116]fayskhan[/MENTION]

I can see a vital shift in Mqm's over all attitude towards other linguistic entities... although they changed their name long back but there was no participation of any other person in the party other then muhajir's ... and workers tolerance level was also no where towards others then muhajirs but as i said there is some change as of now ... So we should not be prisoners of past ... MQM is the not the party of people who actually migrated but their children by large who born n bought up here in pakistan and if they are trying which i can say they are leaving alone the intensity of the effort isn't it unfair on our behalf that we are not letting them rectify their mistakes and not allowing them to come in the main stream by just tagging them as terrorist or some linguistic entity... they are well organised as a party where duties are well spread ... division of power is some what on the lower levels as compair to other parties though AH's word is final but still he is well connected to the people and supporters of the party ... if you say its just MQM's fault that it locked horns with other raises then i don't agree... and i think they should be allowed to be as vital and vibrant as other national parties in Pakistan.

I mentioned in my previous post that i never thought for a second that mqm was muhajir qaumi movement long back now if muhajir feel proud to call them as muhajir then we cant do nothing about it... i dont like mqm but also appreciate the work of mustafa kamal for karachi though he is such an ignorant person not knowing how to behave in public... we dont hate mqm or muhajir they are our brothers but we just hate their dealing with other parties specially pushtoons... now i dont know the reality only Allah (SWT) knows best.... my point is who ever commits crime should be dealt with law regardless of muhahir, mqm, anp, ppp, pti etc... now it will be very unwise if i dont mention the brutality of mqm and their crimes which we read in many newspaper at different period of time... and i do believe that everybody has the right to rectify his mistakes and be part of the society... but their should be a full stop somewhere....
 

GeoG

Chief Minister (5k+ posts)
Re: متحدہ کسی نہ کسی قومیت سے برسرپیکار رہتی &#

According to your criterion, your have given a FRENCH REPLY.

If my criteria is your standard
You should have bricked by South Africans long time ago for weak replies....
 

zaman

MPA (400+ posts)
Re: متحدہ کسی نہ کسی قومیت سے برسرپیکار رہتی ہ

بہت بڑے پیمانے پر لگایا جانے والا الزام کہ تمام سیاسی جماعتیں کراچی میں متحدہ کے خلاف ہیں، اس کا مطلب خود بخود یہ ہے کہ متحدہ غلط ہے۔


پہلا سوال: کراچی کی اکثریت متحدہ کو منتخب کرتی ہے، تو پھر باقی غلط ہو گئے؟

اگر یہ معترضین اپنے اسی "اکثریت" والے آرگومینٹ سے چمٹی رہتے ہیں، تو پھر تو انہیں مان لینا چاہیے کہ باقی پارٹیاں کراچی میں غلط ہیں کیونکہ اہلیان کراچی کی اکثریت ہر الیکشن میں ان باقی پارٹیوں کو جوتا مارتی ہوئی متحدہ کو منتخب کرتی ہے۔
یہاں پر یہ معترضین اپنے دو رخے رویے (ڈبل سٹینڈرڈز / منافقت) دکھاتے ہیں۔ انکے نزدیک اہلیان کراچی کی اس 80 فیصد اکثریت کے ووٹ کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ "باقی سب پارٹیوں" کا آرگومینٹ دینے والے "اہلیان کراچی کی اکثریت" کے اس ووٹ اور سپورٹ کو ڈکار مارے بغیر ہضم کر کے مکمل منافقت کا ثبوت دیتے ہیں۔

دوسرا سوال: دیگر صوبے پنجاب کے خلاف کیوں ہیں؟

کسی دو صوبوں میں ایسی شکایات اور نفرت نہیں پائی جاتی جیسی کہ صوبے پنجاب کے خلاف پائی جاتی ہیں۔ کیا اسی "اکثریت" والے اصول کو متحدہ کی طرح پنجاب پر لاگو کرتے ہوئے پنجاب کو قربانی کا بکرا بنا دیا جائے؟
کم از کم اہل پنجاب اس معاملے میں اس اصول کو نہیں مانیں گے۔ مگر افسوس کہ جب بات متحدہ کی آتی ہے تو سٹینڈرڈز بدل جاتے ہیں۔
کراچی میں متحدہ اور دیگر چھوٹی سیاسی پارٹیوں کے سیاسی مفادات کا ٹکراؤ

آئیے اب ایک ایک کر کے ان چھوٹے گروہوں کی کراچی میں سیاست کا مختصر تجزیہ کرتے ہیں۔ یہ سب گروہ پہلے سے موجود تھے، مگر متحدہ نے بعد میں پیدا ہو کر تیزی سے ترقی کی اور انکے سیاسی مفادات کو زبردست کاری ضرب لگائی۔ اس سیاسی ضرب کا وار یہ ابھی تک سہلا رہے ہیں اور اس لیے متحدہ سے انتہائی پرخاش رکھتے ہیں۔
1۔ جماعت اسلامی

جماعت اسلامی کے کیس میں وجوہات بہت واضح ہیں کہ جماعت اسلامی کیوں متحدہ کی اتنی دشمن ہے۔


  1. 80 کی دھائی سے قبل کراچی کے الیکشنز میں بہت سی سیٹیں جماعت اسلامی کو ملتی تھیں۔ مگر ایم کیو ایم نے پیدا ہو کر سب سے زیادہ جماعت اسلامی کے ووٹ بینک کو متاثر کیا اور وہ کراچی میں ایسی ذلیل و خوار ہوئی کہ پھر اسے کراچی حیدر آباد میں الیکشنز میں ایک بھی سیٹ نہیں مل پائی۔
  2. اور پھر دوسرا بڑا اہم مسئلہ یہ ہے کہ ایم کیو ایم مکمل طور پر لیفٹ کی جماعت ہے جبکہ جماعت اسلامی مکمل طور پر رائیٹ کی اور طالبان اور دیگر تکفیری گروہوں کی حمایت کرتی ہے، جبکہ متحدہ سے بڑھ کر طالبان اور ان دیگر تکفیری گروہوں کے خلاف کوئی اور جماعت احتجاج کرتی ہے اور نہ مخالفت۔ چنانچہ نظریاتی طور پر ان دونوں پارٹیوں میں بعد المشرقین پایا جاتا ہے۔
چنانچہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ جماعت اسلامی انکے اتنے مخالف کیوں ہے۔

2۔ سنی تحریک

سنی تحریک کا مسئلہ بھی یہ ہے کہ کراچی انکا گڑھ تھا اور یہیں سے انہیں سیٹیں ملتی تھیں۔ مگر ایم کیو ایم کے آنے سے انکا سارا ووٹر جا کر ایم کیو ایم میں مل گیا، اور نتیجتا انہیں کراچی اور حیدرآباد سے پچھلے کئی الیکشنز میں ایک بھی سیٹ نہیں ملی۔ یہ بھی متحدہ کو اپنے ووٹ بینک پر ڈاکا مارنے والے سمجھتے ہیں۔
3۔ پیپلز پارٹی اور دیگر سندھی قوم پرست تنظیمیں

تیسری جماعت جسے کراچی سے الیکشنز میں سیٹیں ملتی تھیں، وہ پیپلز پارٹی تھی۔ پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک میں کراچی شہر کا "لبرل" طبقہ بھی شامل تھا۔ مگر ایم کیو ایم نے وجود پاتے ہی اس لبرل طبقے کو اپنے اندر کھینچ لیا اور آج کراچی میں سوائے لیاری وغیرہ کے بلوچ علاقوں کے، کہیں اور پیپلز پارٹی کو سیٹ نہیں مل پاتی۔ یہی حال حیدرآباد کا ہے۔ ایم کیو ایم سندھ میں دوسری بڑی سیاسی جماعت بن کر پیپلز پارٹی کو صوبائی حکومت میں للکارنے کی تیاریاں کر رہی ہے اور صوبہ سندھ میں بہت مقبولیت پا رہی ہے۔ یہ چیز پیپلز پارٹی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے کہ انکے گڑھ میں کوئی اور جماعت مضبوط ہو جائے۔
پیپلز پارٹی کراچی میں لیاری کے بلوچ مکرانیوں کی مکمل سپورٹ کرتی ہے اور اس لیے لیاری میں رحمان ڈکیت اور دیگر بڑے بڑے مجرموں و مافیاز کی کھلے عام سیاسی سپورٹ کرتی چلی آئی ہے اور انہیں جرائم کرنے کا پورا موقع فراہم کیا ہے۔ اس بات پر متحدہ کا پیپلز پارٹی سے سخت اختلاف رہا ہے۔
اور سندھ کی دیگر قوم پرست جماعتیں فقط متحدہ کے ہی نہیں، بلکہ وہ ان سب لوگوں کے خلاف ہیں جو سندھ آ کر بس گئے ہیں۔ چاہے یہ پشتون ہوں یا پنجابی، وہ ان سے اتنی ہی نفرت کرتے ہیں جتنی کہ مہاجروں سے۔
4۔ اے این پی

غیر قانونی طور پر کراچی میں آنے والے افغانیوں کی آمد کے بعد اے این پی مکمل طور پر جرائم پیشہ افراد کا گروہ بن کر رہ گیا ہے۔
اے ای پی اور اسکے سپورٹرز سے مہاجروں کو شکایات کیوں ہیں؟
اسکی ایک بڑی وجہ ان لوگوں کا کئی دھائیوں سے کراچی جیسے شہر میں اپنے رسوم کے نام پر سہراب گوٹھ جیسا "علاقہ غیر" بنا کر بیٹھ جانا ہے، جو کہ پاکستانی قانون کے لیے "نو گو ایریا" ہے، پولیس جاتے ہوئے ڈرتی ہے، انتہائی مہلک جان لیوا غیر قانونی اسلحہ کا کھلے عام یہاں کاروبار ہوتا ہے اور راکٹ لانچرز تک بکتے ہیں۔ ڈرگز کی پوری کی پوری مافیا یہاں پر بیٹھی ہوئی ہے۔ اسی اسلحے کی بنیاد پر انہوں نے زمینوں پر زبردستی قبضے کرنے شروع کر دیے اور کسی مہاجر کو انکا اسلحہ دیکھ لینے کے بعد ہمت نہ ہوتی تھی کہ اپنی زمین کو ان سے خالی کروا سکے۔ اور پولیس انکی مدد کیوں کرتی کہ کیونکہ پولیس تو غیر مقامی لوگوں پر مشتمل تھی۔ مہاجروں کے ہاتھوں میں اپنی قسمت کی باگ دوڑ نہیں تھی بلکہ دوسرے لوگ انکی قسمت کے مالک بنے بیٹھے تھے۔
یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے ایک قوم کو تو پاکستان کے قانون کی پابندی کروائی جائے، ان سے شہر کے کوڑے صفائی اور ترقی کے نام پر ٹیکسز لیے جائیں، ان سے پانی و بجلی کے بل بھروائے جائیں۔۔۔ مگر دوسری طرف اسی شہر میں ایک قوم خود کو پاکستانی قانون سے بالاتر قرار دے دے اور اسلحہ، ڈرگز، سمگلنگ جیسے غیر قانونی کام کھلے عام کرنا شروع کر دیے، جو آج تک شہر کے ترقیاتی کاموں کے نام پر ایک پیسہ ٹیکس نہ دے، جو آج تک پانی و بجلی کے بل کی مد میں ایک پیسہ نہ دے بلکہ بجلی کے کنڈے ڈالتی ہو، اور اسکی بجلی و پانی کے بل بھی دوسری قوم کو بھرنے پڑیں۔۔۔۔۔
یہ انتہائی شدید ناانصافی ہے اور جلد یا بدیر شکایات کا پیدا ہونا ناگزیر تھا۔ اے این پی ان تمام غیر قانونی سرگرمیوں اور کاروبار کی سپورٹر ہے کیونکہ اسکا پورا ووٹ بینک ہی ان علاقوں میں ہے۔ یہ کراچی میں ان جرائم پیشہ افراد کا سیاسی ونگ بنے ہوئے ہیں۔
مہاجر غریبوں کے پاس تو پولیس کا چارج تھا اور نہ اسلحے کے نام پر کوئی پستول۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ جب سندھ کے وزیر اعلی غوث علی شاہ کے دور میں انہوں نے سہراب گوٹھ ام الفتن کے فساد کو پہچانتے ہوئے اسلحے و ڈرگز ڈیلرز کے خلاف کاروائی کرنا چاہی تو جواب میں ان جرائم پیشہ افراد نے 300 اردو بولنے والے معصوم مہاجروں کو قصبہ کالونی اور علی گڑھ کالونی میں گولیوں سے چھید ڈالا۔ یعنی اب مہاجروں کی یہ آبادیاں پہاڑ میں بنے ان جرائم پیشہ لوگوں کے مورچوں کے ہاتھوں یرغمال ہیں اور انکے غیر قانونی اسلحے اور ڈرگز اور دیگر کاروبار کے خلاف جب بھی کوئی ایکشن لیا گیا تو یہ فورا کراچی میں لسانی کلنگز شروع کر دیں گے۔
قصبہ کالونی اور علی گڑھ کالونی میں یہ سب کچھ ظلم ہوا مگر مہاجروں کو انصاف کیا، اسکی بھنک تک نہیں مل سکی۔ حتی کہ اس قتل عام پر جو جیوڈیشنل کمیشن بنا، اسکی رپورٹ مکمل ہو جانے کے باوجود آجتک شائع نہیں کی گئی۔ یہ وہ وقت تھا جب مہاجروں کے پاس اسلحے کے نام پر ایک پستول تک نہیں تھا۔
غور سے دیکھئیے اُس وقت کے وزیر اعلی سندھ غوث علی شاہ کا انٹرویو جہاں وہ بتلا رہے ہیں کہ سہراب گوٹھ کیسا اژدھا بن کر اہلیان کراچی کے گلے میں پھندا باندھ کر بیٹھ گیا ہے اور انکی گواہی کہ ان جرائم پیشہ افراد کے خلاف کاروائی کا انتقام لیتے ہوئے انہوں نے قصبہ کالونی اور علی گڑھ کالونی میں 300 معصوم اردو سپیکنگ مہاجروں کو بھون ڈالا۔





5۔ اہل پنجاب سے شکوے شکایات

مہاجروں کے شکوے کا آغاز ہوا 1951 میں جب پہلی مرتبہ دو قومی نظریے کی موت ہوئی اور ہندوستان سے مسلمان مہاجرین کی آمد پر پابندی لگا دی گئی۔ یہاں مسلمان خون تقسیم ہوا (Division of Muslim Blood)۔ ماں باپ انڈیا میں ہے تو بیٹی داماد پاکستان میں۔ بہنیں بھائیوں سے بچھڑ گئیں اور خاندان بٹ کر رہ گئے۔
پھر مشرقی پاکستان کا المیہ پیش آیا اور بیہاری اردو سپیکنگ مہاجرین نے پاکستان سے انتہائی وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہزاروں جانوں کی قربانیاں پیش کیں۔ مگر حکومت کی باگ دوڑ رکھنے والوں نے ان بیہاری اردو سپیکنگ پاکستانیوں کو بنگلہ دیش کی کیمپوں میں سڑنے اور مکتی باہنی کے ہاتھوں قتل و برباد ہونے کے لیے اکیلا چھوڑ دیا۔ ایک دفعہ پھر کراچی میں خاندان والے ایک دوسرے سے بچھڑے کہ آدھے خاندان والے کراچی میں موجود ہیں جبکہ آدھے خاندان والے بنگلہ دیش کے کیمپوں میں پڑے سڑ رہے ہیں۔ یہ دو قومی نظریہ کی دوسری موت تھی۔
پنجاب میں ہزاروں لاکھوں لوگوں نے ان محصورین پاکستان کا درد محسوس کیا اور انہیں واپس ملک پاکستان لانا چاہا۔ ان میں ایک نام پنجاب کے سابق وزیر اعلی غلام حیدر وائیں مرحوم کا بھی ہے۔
مگر افسوس کہ اہلیان پنجاب کی اکثریت پھر بھی ان محصورین پاکستان کی واپسی کے خلاف رہی اور صوبائی سطح پر کوئی حکومت انہیں واپس لانے کے لیے تیار نہ ہوئی۔
ان محصورین پاکستان کی تعداد صرف دو ڈھائی لاکھ تھی اور کیا پورا پاکستان مل کر انکا بوجھ نہیں اٹھا سکتا تھا، اور کیا پاکستان انکا نہیں تھا؟
ایک طرف تو یہ تماشا، اور دوسری طرف تماشا یہ کہ کراچی کے متعلق یہی لوگ کہتے نہیں تھکتے کہ کراچی "سب کا" ہے، اور دو ڈھائی لاکھ کیا بلکہ چالیس پچاس لاکھ لوگ آ کر یہاں آباد ہوئے اور اس وقت ان زمینی حقائق کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا کہ ان چالیس پچاس لاکھ افراد کی آمد سے کراچی شہر میں کیا کیا مسائل پیدا ہوں گے اور کیسے یہ شہر اتنی بڑی اضافی آبادی کا بوجھ اٹھائے گا۔
اہلیان کراچی پڑھے لکھے باشعور لوگ ہیں۔ یہ ڈبل سٹینڈرڈز دکھانے کے بعد آپ انہیں بے وقوف نہیں بنا سکتے۔ نتیجہ یہ کہ شکایات کا پیدا ہونا ایک فطری عمل تھا۔
پھر دوسرا مسئلہ یہ ہوا کہ پاکستان کی مرکزی حکومت کی باگ دوڑ پنجاب کے جاگیرداروں کے ہاتھوں میں چلی گئی اور صوبائی حکومت سندھ کے وڈیروں کے ہاتھوں میں۔ یہ کرپٹ لوگ تھے۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت کے ہر ہر مرکزی اور صوبائی محکمے میں اعلی افسران کی تقریاں پنجاب یا سندھ سے ہوتیں اور وہ آ کر پھر آگے اپنے علاقے کے لوگوں کو ہی چھوٹی آسامیوں پر سفارش پر بھرتی کرتے، چاہیے یہ لوگ انگھوٹھا چھاپ ہی کیوں نہ ہوتے۔ ان انگوٹھا چھاپوں کے مقابلے میں پڑھا لکھا مہاجر ان محکموں میں یہ سب ناانصافی ہوتا دیکھتا رہا کہ میرٹ کا قتل کرتے ہوئے کیسے اسے اسکے حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔
اسکی ایک مثال کراچی میں پولیس کا محکمہ ہے، کہ جہاں 80 فیصد سے زائد بھرتیاں غیر مقامی لوگوں کی ہوئیں اور انکی اکثریت کا تعلق پنجاب سے تھا۔
پولیس وہ محکمہ ہے جس سے عوام سب سے زیادہ نفرت کرتی ہے۔ یہ وہ قانونی لٹیرے ہیں جن کی کرپشن کی وجہ سے ان سے چور ڈاکوؤں سے بھی زیادہ نفرت کی جاتی ہے۔ پھر یہی غیر مقامی پولیس والے 1992 تا 1999 تک مہاجروں کے خلاف آپریشن میں ملوث تھے اور شعیب سڈل اور جنرل نصیر اللہ بابر اور رانا مقبول جیسے بدنام زمانہ ماورائے عدالت قتل کرنے والے افسران کا تعلق بھی دوسرے صوبوں سے تھا۔
آپ پشاور کی پولیس میں 80 فیصد پنجابی بھرتی کر دیں، یا پھر پنجاب کی پولیس میں 80 فیصد کرپٹ مہاجر بھرتی کر دیں۔ کسی آپریشن کی بھی ضرورت نہیں اور صرف ایک دو سال میں عوام میں انکے خلاف نفرت عروج پر ہو گی۔ یہ ایک بہت بڑی سیاسی غلطی تھی کہ کسی علاقے میں غیر مقامی فوج یا غیر مقامی پولیس کی مدد سے آپریشن کرتے ہوئے ماورائے عدالت قتل کیے جائیں۔
اور یاد رکھئیے، یہ وہی پولیس والے ہیں کہ جو کئی دھائیوں سے سہراب گوٹھ جیسے ام الفتن، اسکے غیر قانونی اسلحے، اسکے ڈرگز کے کاروبار، اسکے اسلحہ کے زور پر قبضہ مافیا کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرتے ہیں۔ ایم کیو ایم کی ریلی پر سہراب گوٹھ سے فائرنگ ہو، یا قصبہ کالونی و علیگڑھ کالونی ہو، یا پھر پکا قلعہ کا سانحہ ہو، یہ پولیس کسی بھی ایسے معاملے میں اردو سپیکنگ مہاجرون کا دفاع نہیں کرتی۔ اور پھر ان سب سانحات کے بعد مجبور ہو کر مہاجر بھی اسلحہ اٹھا لیتے ہیں تو پھر فورا انکے خلاف آپریشن کلین اپ شروع ہو جاتا ہے (اور صرف اور صرف مہاجروں کے خلاف ہوتا ہے جبکہ سہراب گوٹھ کا نو گو ایریا، اپنے اسلحے و ڈرگز کے ساتھ برقرار رہتا ہے)۔
پاکستانی کرپٹ سیاسی جماعتوں کا منفی پہلو: چھوٹے گروہ آپس میں مل کر حکومت گرانے میں لگ جاتے ہیں

پاکستان کی کرپٹ سیاسی جماعتیں اصولوں کی سیاست نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ دیکھیں گے کہ اپوزیشن کی جماعتیں بھائ بھائی اور بہن بن کر متحد ہو جاتے ہیں اور مل کر حکومتی دھڑے کی ٹانگ کھینچنے میں لگ جاتے ہیں۔ مگر جب اگلی دفعہ انہی اپوزیش گروہوں میں سے کسی کی حکومت بنتی ہے تو یہ بھائی بہن ایک دوسرے کو بھول کر ایک دوسرے کے ٹانگ کھینچتے نظر آتے ہیں۔
یہ نہیں کہ ان اپوزیشن کے گروہوں میں آپس میں اختلافات نہیں ہیں۔ بلکہ ان مختلف اپوزیشن گروہوں میں آپس میں بھی کتے بلی کا بیر ہے، مگر یہ صرف اور صرف اُس وقت سامنے آتا ہے جب ان میں سے کسی ایک کو حکومت ملتی ہے۔ مثلا سندھی قوم پرست جماعتیں نہ صرف مہاجروں کو کراچی پر باہر سے آ کر قبضہ کرنے والا سمجھتے ہیں، بلکہ وہ اہل پنجاب سے بھی یہی نفرت رکھتے ہیں اور پشتونوں کو بھی باہر سے آ کر انکے علاقے کراچی پر قابض ہونے والا سمجھتے ہیں اور انکے اتنے ہی خلاف ہیں جتنے کہ مہاجروں کے۔
مثال: عمران خان اور نواز شریف کا پرویز مشرف کے خلاف متحد ہو کر ٹانگ کھینچنا

۔1۔ عبدالستار ایدھی گواہی دیتے ہیں کہ جب بینظیر کی حکومت دوسری مرتبہ قائم ہوئی تو عمران خان، اور حمید گل اور دیگر فوجی افسران وغیرہ (جو مسلم لیگ (نواز شریف) کو پیپلز پارٹی کے مقابلے میں سپورٹ کرتے تھے) انکے پاس آئے اور انہیں بینظیر کی حکومت گرانے کی سازش میں شریک ہونے کے لیے دباؤ ڈالا۔ یہ دباؤ اس حد تک تھا کہ عبدالستار ایدھی کے مطابق انکی جان کو اتنا خطرہ پیدا ہوا کہ وہ وقتی طور پر ملک پاکستان چھوڑ کر باہر چلے گئے (پڑھئیے پورا آرٹیکل بمع ثبوت)
۔2۔ پھر نواز شریف کی حکومت قائم ہوتی ہے اور اس مرتبہ عمران خان دوسری پارٹیوں کے ساتھ مل کر نواز شریف کے خلاف مہم چلاتے نظر آتے ہیں۔
اور نواز شریف کو عمران خان سے اتنی نفرت ہوتی ہے کہ وہ خاص طور پر امریکہ جاسوس بھیجتے ہیں۔ اور یہ جاسوس ہی وہ شخص تھا جس نے عمران خان اور سیتا وائٹ کے تعلقات اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیٹی کی کہانی کی تفصیلات طشت از بام کیں۔
پھر عمران خان کی نواز شریف حکومت کے خلاف نفرت اتنی بڑھتی ہے کہ وہ ہر حد کو عبور کر جاتے ہیں اور ہر قانونی غیر قانونی ہتھکنڈہ استعمال کر کے نواز شریف کی حکومت گرانا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں حد سے گرتے ہوئے وہ فوجی حکومت تک سے مل جاتے ہیں اور اس کو سپورٹ کرتے ہیں تاکہ نواز شریف کی جمہوری حکومت کا خاتمہ ہو سکے۔
۔3۔ مگر پھر جب مشرف حکومت کی جانب سے عمران خان کو وزیر اعظم بننے کی پیشکش نہیں ہوتی تو ہمیں یہ عمران خان پھر سے دیگر اُن اُن پارٹیوں سے ملتے نظر آتے ہیں جن پر یہ پہلے لعنت بھیجتے تھے۔ اس میں پیپلز پارٹی بھی شامل ہے، مگر اس سے بڑھ کر وہ نواز شریف بھی شامل ہیں کہ جنہوں نے خاص طور پر جاسوس بھیج کر انکے اور سیتا وائٹ کے ناجائز تعلقات کی تفصیلات کو منظر عام پر لانے کا انتظام کیا تھا۔
کہتے ہیں وقت پڑنے پر گدھے کو بھی باپ بنانا پڑتا ہے۔ پھر قوم نے دیکھا کہ مشرف حکومت کی مخالفت میں یہ دو گدھے ماضی میں اتنی دشمنی ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے گلے ملتے ہوئے ایک دوسرے کو اپنا بھائی بنا رہے تھے۔ اور عمران خان اُس جاسوس کو بھول گیا اور نواز شریف عمران خان کی فوجی حکومت کی حمایت کو بھول گیا اور دونوں بھائی بھائی بن گئے۔
مگر یہ بھائی پن دیرپا نہیں۔ صوبہ پنجاب میں نواز شریف کی حکومت ہے، اور اسی علاقے میں عمران خان کا بھی ووٹ بینک ہے۔ لہذا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ بھائی بھائی زیادہ عرصے ساتھ نہیں چل سکے اور عمران خان نے بڑھ چڑھ کر نواز لیگ کی ٹانگ کھینچنے کے لیے اسکے خلاف الزامات لگانا شروع کر دیے ہیں۔ آگے آگے دیکھئیے ہوتا ہے کیا۔
اے این پی اسلحہ مافیا اور لارڈ نذیرکی لیاری کے جرائم پیشہ افراد سے ہاتھ ملا کر متحدہ کے خلاف سازشیں

اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال کراچی میں ہر جرم پیشہ گروہ اکھٹا ہو کر متحدہ کے خلاف سازشوں میں مصروف ہو جانا ہے۔ چاہے یہ اے این پی کا اسلحہ، قبضہ، ڈرگ مافیا گروپ ہو، یا لارڈ نذیر (نواز شریف کے پٹھو) جیسے لوگ ہوں، یا پھر پیپلز پارٹی کے پٹھو لیاری کے جرائم پیشہ افراد۔ پڑھئیے جنگ اخبار کی یہ خبر۔

8-8-2010_41442_1.gif


aHR0cDovL3d3dy5wYWtpc3RhbmlzY2FuZGFscy5jb20vcGFraXN0YW5pc2NhbmRhbHMuY29tL3Bvc3RzL3VzZXJmaWxlcy8wNyUyODElMjkuZ2lm.jpg

کیا آپ کو علم ہے کہ:


  1. یہ رحمان بلوچ کون ہے؟ جی ہاں، یہ رحمان بلوچ وہی ہے جسے قوم "رحمان ڈکیت" کے نام سے جانتی ہے۔

  1. یہ وہی رحمان بلوچ ہے جس نے اپنے کیرئر کا آغاز اپنی سگی ماں کے قتل سے کیا۔

    1100690228-1.gif


    [*]اور یہ پیپلز امن کمیٹی شہر کراچی کے علاقے لیاری کی بدنام ترین جرائم پیشہ افراد کا گینگ ہے۔ انکو ماضی میں ہمیشہ پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل رہی۔ مگر پھر انکی بدمعاشیاں اس حد تک بڑھ گئیں کہ پیپلز پارٹی کی اپنی حکومت کو رحمان ڈکیت کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے اسے مروانا پڑا۔
رحمان ڈکیت اور اس امن کمیٹی پر پورا آرٹیکل یہاں پر پڑھیں۔

عمران خان اور جماعت اسلامی کا حقیقی کے قاتل دہشتگردوں سے جوڑ توڑ



حقیقی والے وہی ریاستی قاتل دہشتگرد تھے جن کی پشت پر پھر نواز شریف نے اپنا ہاتھ رکھ دیا اور نواز شریف کی ایما پر ان حقیقی کے قاتل دہشتگردوں نے ہزاروں معصوم مہاجروں کا خون کروایا۔ انہی حکومتی سرپرستی میں انہوں نے کراچی کے کچھ علاقوں میں اپنا ایسا کنٹرول حاصل کر لیا کہ چڑیا بھی وہاں پر نہیں مار سکتی تھی۔ ریاستی سرپرستی میں یہ نو گو ایریاز سالہا سال تک قائم رہے اور ان نو گو ایریاز میں متحدہ کے رکن الیکشنز جیت جانے کے باوجود نہیں جا سکتے تھے۔



اور اب عمران خان کی ناانصافی و منافقت ملاحظہ فرمائیے کہ جب ان حقیقی کے قاتلوں اور دہشتگردوں کو عدالت میں گھسیٹنے کی بجائے انکی عدالتوں سے رہائی پر خوش ہیں اور انہیں اسلام آباد بلا کر طالبان کی طرح "ہمارے بھائی" کہتے ہوئے گلے سے لگا رہے ہیں۔



مثلا یہ خبریں پڑھئیے:



  1. دی نیوز اخبار کی خبر عمران خان کئی مہینوں سے حقیقی والوں سے ملاقات کر رہا ہے
  2. ڈیلی ٹائمز کی رپورٹ (بمع تجزیہ)
  3. اور دی نیوز کی ایک اور خبر (جماعت اسلامی بھی اس منافقت میں عمران کی شریک کار ہے)
اور یہ ہے عمران خان کی حقیقی کے ریاستی قاتل دہشتگردوں کے ساتھ میٹنگ کی تصویر






ایسا نہیں ہے کہ عمران خان کے دل میں حقیقی کے قاتل دہشتگردوں کے لیے بہت پیار امڈ رہا ہے۔ نہیں، بلکہ عمران خان سازشی کردار ہے جو بس وقتی طور پر ان قاتل دہشتگردوں کو استعمال کر کے کراچی میں متحدہ کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ عمران خان کے اس سازشی کردار کو آپ بہتر طور پر سمجھ سکیں گے اگر آپ یہ آرٹیکل بھی ساتھ میں پڑھیں۔
اے این پی کا تکفیری گروہ طالبان اور اسلحے، ڈرگز ڈیلرز کے ساتھ اتحاد



اے این پی کی سندھ کی قیادت اپنے مفادات کی خاطر اسلحے کی ڈیلرز، ڈرگز ڈیلرز اور قبضہ مافیاز وغیرہ سے اتحاد کیے بیٹھی ہے کہ سہراب گوٹھ میں بسنے والے یہ جرائم پیشہ لوگ ہی اسکا ووٹ بینک ہے۔ تو بجائے ان جرائم پیشہ افراد سے پیچھا چھڑانے کے، این این پی انہیں اپنے پروں میں سموئے بیٹھی ہے اور ہر بہانے سے انکا دفاع کرتی ہے اور انکے خلاف کسی بھی آپریشن کو فورا لسانی فسادات بنا دیتی ہے۔
اسی طرح اے این پی کا کراچی میں مفاد اس میں وابستہ ہے کہ کراچی میں ایم کیو ایم کی حکومت کسی بھی قانونی یا غیر قانونی طریقے سے کمزور ہو جائے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ افادیت آجکل طالبان کی ہے۔ یہ طالبان متحدہ کے کھلے دشمن ہیں کیونکہ متحدہ واحد جماعت ہے جو انکے فتنے کے خلاف سب سے بڑھ چڑھ کر احتجاج کرتی ہے۔
چنانچہ کراچی کے پہاڑوں میں ان طالبان اور انکے تکفیری بھائی بند سپاہ صحابہ وغیرہ نے مورچے بنائے ہوئے ہیں اور یہاں سے یہ نیچے موجود مہاجر آبادیوں کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں اور جب انکا جی چاہتا ہے یہ ان پر فائرنگ کھول دیتے ہیں۔
بہت منافق ہے اے این پی۔
آپ نے آج تک اے این پی کو کراچی میں طالبان کی موجودگی پر احتجاج کرتے اور انکے خلاف ایکشن کی بات کرتے نہیں دیکھا ہو گا۔ بلکہ اسکے بالکل برعکس وہ مکمل طور پر کراچی میں طالبان کی موجودگی کا انکار کرتے رہتے ہیں۔
مگر حقیقت بات پھر بھی کسی نہ کسی طرح کھل کر خود انکے منہ سے بھی باہر آ ہی جاتی ہے۔ مثلا دیکھئیے ذیل میں شاہی سید کا انٹرویو جہاں وہ خود اعتراف کر رہا ہے کہ کراچی کی پہاڑیوں پر موجود گروہوں پر اے این پی کا کوئی کنٹرول نہیں۔ اور صرف تربیت یافتہ لوگ (دہشتگرد؟؟؟) ہی پہاڑوں پر چڑھ سکتے ہیں۔
اور یہ دیکھئیے ایک اور ویڈیو جہاں آپ کو اورنگی کی پہاڑیوں پر تکفیری گروہ کے جھنڈے نظر آ جائیں گے جہاں سے نیچے موجود مہاجر آبادی پر فائرنگ ہو رہی ہوتی ہے۔
آج یہ لوگ متحدہ پر ہنستے ہیں جب متحدہ کہتی ہے کہ کراچی میں طالبان اپنے پنجے گاڑھ رہے ہیں۔
مگر قوم یاد رکھے کہ جب کہا جاتا تھا کہ طالبان فاٹا اور سوات میں اپنے پنجے گاڑھ رہے ہیں تو یہ وہی لوگ ہیں جو اُس وقت بھی ہنستے تھے۔ مگر پھر قوم نے دیکھا کہ طالبان نے فاٹا اور سوات پر قبضہ کر کے ہزاروں معصوموں کو ذبح کر ڈالا۔
نتیجہ



اگرچہ آپ کو آج یہ اپوزیشن جماعتیں کراچی میں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے نظر آ رہی ہیں۔ مگر انکے سازشی کرداروں اور ان میں موجود جرائم پیشہ افراد سے محتاط رہئیے۔
ایم کیو ایم کا مفاد اس میں ہے کہ کراچی سٹیبل رہے۔ مشرف دور میں کراچی سٹیبل رہا اور اسی دور میں متحدہ نے سب سے زیادہ ترقی کی۔
مگر یہ مخالف پارٹیاں چاہتی ہیں کہ کراچی ڈی سٹیبل رہے، کیونکہ کراچی میں جتنی بدامنی پھیلے گی، متحدہ کا اتنا ہی نقصان ہو گا اور انہیں اتنا ہی موقع ملے گا کہ متحدہ پر حملے کرتے ہوئے اسکی ٹانگ کھینچ سکیں۔



یہ بی بی توگھر سے فالتو نظر آتی ہے- موڈریٹر صاھب تھریڈ پر الفاظ کی پابندی لگائو -کتنی لمبی تھریڈ ہو -ساری جگہ اس بی بی نے ہی لے لی - کون اتنے لمبے بھاشن پڑھے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ]​

 
Last edited:

Skeptic

Siasat.pk - Blogger
Re: متحدہ کسی نہ کسی قومیت سے برسرپیکار رہتی ہ



ارے بھایِ یہ بی بی نہیں ہے یہ داستان امیر حمزہ ایم کیو ایم کے میڈیا سنٹر سے نشر ہو رہی ہے اور ان لوگوں کو خالص اسی کام کے لیے رکھا گیا ہےبہت معذرت ان کے ساتھ مجھے بھی اس کام کے لیے کہا گیاجب میں زمانہ جہالت مہیں کراچی یونیورسٹی میں apmso کا رکن تھا


یہ بی بی توگھر سے فالتو نظر آتی ہے- موڈریٹر صاھب تھریڈ پر الفاظ کی پابندی لگائو -کتنی لمبی تھریڈ ہو -ساری جگہ اس بی بی نے ہی لے لی - کون اتنے لمبے بھاشن پڑھے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ]
 
Last edited: