اس سے پہلے بھی اسے شیر سے ڈھیر ہونے میں وقت نہیں لگا تھا مگر وہ اپنی خصلت سے مجبور تھا، اور بھول بیٹھا تھا کہ بک بک کرنے سے چورن بیچا تو جاسکتا ہے پر تھوڑے ہی وقت کے لیئے۔
وہ اپنے پنڈ کا نام روشن کرنے کے لیئے پنڈسے لندن تک پہنچ گیا مگر کتابوں کی کالک اسکی انگلیوں پر تو لگی پرد ماغ میں گھس نہ سکی ، کیونکہ کسی بھی جگہ گھسنے کے لیئے دروازہ یاکھڑکی د رکار ہوتی ہے، اب بنددماغ میں کوئی چیز کیا گھسے گی۔۔
اسی لیئے جب وہ لندن سے پنڈ لوٹا تو اسکے پاس وہاں دوستوں کے ساتھ پی گئ کافیوں کے قصوں کے سوا کچھ نہ تھا،۔۔
اورآتے ہی اس نے آج کل کے مشہور زمانہ مجرم ومفرور ، جو کسی زمانے میں تھا بہت مغرور، ۔۔کے قصےجھاڑنا شرو ع کردیے، کہ کیسے وہ پلیٹ میں بوٹیاں ڈ الا کرتا تھا۔۔وغیرہ۔۔پھر اسے کسی اس سے بھی بڑے سمجھدار نے سمجھایا کہ یہ تم کن چکروں میں ہو، مشہوری چاہیئے تو کسی ابھرتے ہوئے انقلابی کے قصے چھاپو۔۔ یہ بوٹیوں والا تو روٹیوں سمیت غائب ہونے والا ہے اورچند د ن کا مہمان ہے۔۔
جانے کیسے اس کے کند ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی اور اس نے اس زمانے کے مشہور زمانہ اناڑی جوبعد میں ثابت ہوا کھلاڑی کے قصیدے نما قصے چھاپنا شرو کیئے۔۔یہاں تک کہ ایک بار تو اپنے لڑکے کا ذکر بھی لے آیا کہ وہ بھی ان کا فین ہے ،۔۔۔خیر۔
پھر جب وقت کے ساتھ اسکا چورن بے ذائقہ ہونے لگا۔۔ تو یہ بے چین ہوگیا۔۔ اسے کچھ نیا کرنا تھا۔۔ورنہ اس کے ابھرتے ٹنڈکے ساتھ اسکا ابھرتا دن بلکہ مستقبل بھی تاریک ہوجاتا۔۔
اسی بے چینی کےعالم میں ایک رات یہ لیہ کی طرف نکل پڑا، اور لیہ کی اس مشہور زمانہ ٹوٹی سڑک پر اس بھیا کو بہت دور کی سوجھی۔کہ۔۔ کیوں ناں اب اس اناڑی استاد پر اپنی تان سیدھی کروں۔
اس نے تان تو سیدھی کی مگر اپنا کان کہیں بھول آیا جس پر کچھ عرصہ قبل رکھ کر کسی نے چماٹ مارا تھا اور یہ دو چار ماہ کے لیئے بین ہوگیا تھا۔۔بین تو ہٹ گیا مگر گندی عا دت نہیں ہٹی۔
آجکل سنا ہے اس نے پھر سے پر پرزے نکالنے شروع کردیئے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جلد یا بدیر تھپڑ بس آیا ہی آیا ۔۔ مگر اس بار کان پر ہی لگے گا اس کی گارنٹی نہیں۔