بیچارے لڈن جعفری

Status
Not open for further replies.

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
بلاشبہ لڈن جعفری کی شہرت اب چاردانگ عالم میں ہے کیونکہ وہ اب ایک دیومالائی کردار بن چکے ہیں یا بنائے جاچکے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جو کچھ انکے بارے میں ضمیر اختر نقوی بتاچکے ہیں خود بیچارے لڈن جعفری کی روح کو بھی معلوم نہ تھا اور انکے ورثاء کو بھی خبر نہ تھی ۔۔۔ اور جب خبر عام ہوئی تو بہت دیر ہوچکی تھی یوں لڈن جعفری کو سوشل میڈیا پہ مذاق کا نشانہ بنانے کے ویسے تو بنیادی طور پہ ذمہ دار ضمیر اختر نقوی ہیں کہ جنہوں نے اس عجیب و غریب داستان کو بنایا اور اور بے مثال فنکاری سے کام لیا ،یعنی ایسی فنکاری کہ جس میں پر سے کوّا بنانے کے لیے خود کوّے کی ‌ضرورت بھی نہیں رہتی ۔ مگراس صورتحال کے لئے دوسرے درجے میں خود ان کے ورثاء بھی خاصی حد تک ذمہ دار ہیں کہ جنہوں نے فوری طور پہ نقوی صاحب کے ہاتھوں لڈن جعفری کے اس طرح آناً فاناً درجات کی بلندی کا نوٹس کیوں نہ لیا اور اب جب کہ انکی داستان کی گونج اوج ثریا تک جاپہنچی ہے تو وہ حسب توفیق جھینپ رہے ہیں اور بوکھلا کر اس کی تردید کرتے سنے جارہے ہیں ۔اس طرح تو نقوی صاحب کہیں کے نہ رہیں گے ۔۔ مطلب یہ کہ خانوادہء لڈن جعفری اس دیومالائی کہانی کی جو تردید اور وضاحت وہ اب کررہا ہے وہ پہلے ہی کیوں نہ کردی اور اک جھوٹی بات کا سچا بتنگڑ بننے سے بروقت کیوں نہیں روکا ۔۔۔ اب وہ یہ شکوہ کیوں کررہے ہیں کہ اس طرح کی باتوں سے انکے مرحوم رشتہ دار جناب لڈن جعفری صاحب کا مذاق اُڑ رہا ہے جسے بند کیا جائے۔

اور جہاں تک ضمیر اختر نقوی صاحب کا تعلق ہے تو ایک لڈن جعفری ہی کیا انکی پشت پہ تو نجانے کتنی مشکوک بلکہ مضحکہ خیز نت نئی و من گھڑت داستانوں کی گٹھڑی لدی ہے، جس میں سے ہر ایک نادر و لاجواب ہے اور کسی بھی سطح کی عقل رکھنے والے کو اٹا اٹ حیرت زدہ کردینے کے لیے کافی ہے ۔ اب اسی نیپال والے قصے کو لیجیے اور ذرا سوچیے کہ اگر آج کے دور میں واقعی ایسا واقعہ رونما ہوگیا ہوتا تو کیا یہ واقعہ تمام عالم ِ کفر کے مقابل اسلام کی حقانیت کا ایسا عملی ثبوت نہ بن گیا ہوتا کہ اس سے کفر کی لنکا تو آنا فاناً ہی نہ ڈھے جاتی اور سی این این اور بی بی سی و فاکس نیوز کی سانسیں نہ چڑھ جاتیں ۔۔۔ چونکہ جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے دنیا کا ہر ہر مقام اب فوری طور پہ قابل رسائی ہے اس لئے کسی بھی معاملے کا کھوج لگانا مشکل نہیں رہا ۔

تو پھر کیا دنیا کے نقشے پہ اک چھینٹ برابرنیپال کرہء ارض سے باہر ہے اور کیا مریخ یا پلوٹو پہ واقع ہے کہ یہ پتا نہ لگایا جاسکے کہ آخر نیپال میں کب اور کس مقام پہ یہ ‘عظیم وقوعہ ‘ پیش آیا اور کن کن افراد کو یوں دوبارہ زندگی مل گئی اور اور انکی دیگر تفصیلات کیا ہیں ۔۔۔ اور آخر ایسا کیا ہوا کہ وہ سابق مردے زندگی ملتے ہی چاند کے سفر پہ روانہ ہوگئے یا کسی جنگل میں جاچھپے ۔ ویسے بھی کسی مردے کو زندہ کرنے کا معجزہ تو اللہ رب العزت نے اپنی منشائے خاص سے صرف اور صرف حضرت عیسٰی علیہ السلام کو ودیعت کیا تھا اور اللہ نے کبھی کسی نبی کا معجزہ کسی دوسرے نبی کو بھی نہیں دیا ناکہ غیر نبی یا غیر صحابہ کو ۔۔ویسے بھی جو رتبہ سیدالمرسلین کا ہے وہ کسی رسول کا نہیں‌اور جو رتبہ رسولوں اور انبیاء کا ہے وہ کسی غیر از نبی کا ہرگز نہیں ۔ اور اسی طرح جو رتبہ کسی صحابی کا ہے وہ غیر از صحابہ کسی کا نہیں علیٰ ھذا القیاس ۔

یہی نقوی صاحب ایک ویڈیو کلپ میں بڑے تیقن سے یہ بھی فرماتے نظر آتے ہیں کہ اگر مردے پہ خلوص اور دل سے سورہء فاتحہ پڑھ کر پھونکی جائے تو وہ زندہ کیا جاسکتا ہے ۔ تو سوال یہ ہے کہ پھر اللہ کے بعد کائنات کی سب سے بڑی ہستی یعنی نبیء پاک نے غزوات کے شہداء اور اپنے فوت ہونے والے اہلخانہ کو اس طرح زندہ کیوں نہیں کردیا کیونکہ انہیں تو اپنے ان رفقاء اور اہلخانہ سے جو محبت تھی وہ بے مثل تھی ،اور اگر اس طرح مردے زندہ کیے جاسکتے ہوں تو پھر کہاں کا نظم کائنات اور پھر یہ مشیت ایزدی کس چیز کا نام ہے؟ ۔۔۔ چونکہ ہرزمانے میں اللہ کے نیکوکار بندے موجود رہے ہیں چنانچہ پھر تو یہ معمول بن جانا چاہیے تھا کہ انکی وساطت سے ہر متؤفی کے اہلخانہ تو اپنے مردوں کو فٹافٹ زندہ کرواتے رہتے اور یوں معاملہ قبر میں منکر نکیروں کی حاضری تک تو پہنچتا ہی نہیں ۔

سبھی اکابرین زندہ ہوتے اور بعد کے رکابرین کو پیدا ہونے اور رکابیاں سنبھالنے کے لیئے جگہ ہی نہ بچتی ۔۔۔ اوروں کو چھوڑیئے خود قبلہ نقوی صاحب نے ایسے معجزاتی عمل سے اپنے پیارے ملک الموت سے کیوں نہ چھڑالئے ۔۔۔

یہاں موصوف کے ایک اور مزیدار بلکہ دھماکے دار انکشاف کی بات بھی کیے لیتے ہیں کہ جو قائداعظم محمد علی جناح کے نام میں لفظ جناح کے حوالے سےہے اور قبلہ نقوی صاحب کے ذہن کی زرخیزی کی حتمی دلیل ہے کیونکہ اس میں قؤت تخیل کی ایسی کمال بلند پروازی دیکھنے کو ملتی ہے کہ بیچاری تاریخ کے پرخچے ہی اڑ جاتے ہیں ۔ موصوف نے فرمایا ہے کہ قائداعظم کے نام میں لفظ جناح دراصل ذوالجناح ہے جو کہ حضرت امام حسین کے گھوڑے کا نام تھا اور چونکہ قائداعظم کی ماں کی اولادیں شروع ہی میں انتقال کرجاتی تھیں اس لیے یہ منت مانی کہ اب کے اگر لڑکا پیدا ہوا تومیں اسکے نام میں ذوالجناح شامل کروں گی۔یوں نقوی صاحب کے انکشاف کی رو سے ہمارے قائد کا اصل نام محمد علی ذوالجناح تھا لیکن کثرت استعمال سے ذوالجناح کا لفظ محض جناح رہ گیا۔۔۔ اب اس مضحکہ خیز انکشاف کی حقیقت سے کون ایسا شخص واقف نہیں کہ جس نے قائد کی کوئی بھی سوانح پڑھ رکھی ہے اور جس میں یہ صاف صاف مرقوم ہے کہ قائداعظم کا لنکنز ان میں داخلہ جس نام سے ہوا تھا اس میں محمدعلی کے آگے گجراتی روایات کے مطابق انکا سرنیم بھی لگا ہوا تھا، یعنی جینڑا بھائی اور انہیں بیرسٹری کی جو ڈگری 30 مارچ 1895 کو دی گئی تھی اس پہ یہی نام موجود تھا مگر قائد نے اس ڈگری کو یہ کہہ کر واپس کردیا تھا کہ انہیں اپنے نام کے اگلے حصے میں میں تبدیلی کرنی ہے جس پہ لنکنز ان کی طرف سے انہیں 15 یوم میں اپنے تبدیل شدہ نام سے آگاہ کرنے کی اجازت دی گئی تھی ۔ قائد نے اس دوران عربی و فارسی کے کئی علماء اور اہل علم سے رابطہ کرکے ایسا لفظ تجویز کرنے کو کہا کہ جو لفظ جینڑا سے کچھ قریب ہو اور جس کے معانی بھی مناسب ہوں‌اور بالآخر نہیں ایک عربی لفظ جناح مل ہی گیا جس کا مطلب تھا بازو اور یوں 30 مارچ 1895 کو انہیں اس نام سے ڈگری عطا کردی گئی۔

دیکھیے اس نام کی بابت یہ سب تفصیل بتاتے ہوئے مجھے کتنی تاریخ بیان کرنی پڑی ہے لیکن یہ جو ضمیر اختر صاحب ہیں انکے ساتھ ایسا کوئی بکھیڑا نہیں کوئی کھکھیڑ نہیں ۔۔آسانی سے گھر میں کھڑے کھڑے تاریخ بناتے ہیں اورمسند پہ بیٹھے بیٹھے وباء کی مانند آگے پھیلاتے ہیں‌ ،اسی خاص ہنر کے باعث انہوں نے فرانسیسی فاتح نپولین کا وہ سلام بھی گھڑ لیا ہے کہ جو تاریخ کی کسی کتاب میں موجود ہی نہیں ہےاور جو میر قطعی لکھنوی رنگ میں ہے بلکہ میرانیس کا چربہ معلوم ہوتا ہے اور اس سے نپولین قیصرباغ ‌کے پچھواڑے کا مکین معلوم ہوتا ہے ۔آپ خود ہی بتائیے کہ جب کوئی گیانی ایسےتاریخ سوز انکشافات کرنے پہ کمر باندھ لے تو پھر اس پہ کسی بھی عقیدے اور کسی بھی مسلک کا محقق غش کیوں نہ کھائے ؟۔

ویسے بھی ضمیر اختر نقوی کے وجد آفریں تاریخی حوالے مذہب و مسلک سے آگے بڑھ کر عقل و شعور کی سب حدود پھلانگ چکے ہیں۔یوں ایسے بدہضمی انگیز انکشافات پہ سو لفظی کہانیوں والا مبشر زیدی سر دھنے تو دھنے ، مگر یہ خاکسار سیدعارف مصطفیٰ اپنا سر کیوں نہ پیٹے۔۔ ہم نے اس سلسلے میں محقق دوراں عقیل عباس جعفری سے رجوع کیا تھا کہ تحقیق و تفتیش انکا خاص میدان ہے اور کوئی فرد ذرا بھی کوئی غلط تاریخی حوالہ دیدے یا مشتبہ سی بات کردے تو وہ اس کے دعوؤں اور انکشاف کا پوسٹ مارٹم کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے ، مگر ان کی جانب سے تو مکمل سکوت ہے ۔۔ ایسا سکوت کہ جو یا تو سکتے و صدمے سے ممکن ہے یا پھر معنی خیز خیال خاطر احباب کا آئینہ دار ہے ۔ جو بھی ہو ، ہم کو تو اب چونکہ ضمیر اختر نقوی نے مسلسل زندہ رہنے کا نسخہ تھمادیا ہے تو اب ہمارے اہلخانہ پس ماندگان میں شامل ہونے کا قطعی نہ سوچیں بلکہ پڑھنے پھونکنے کے لیئے ایکدم چوکس ہوجائیں ورنہ جان لیں کہ نیپال بھی کوئی زیادہ دور تو نہیں ہے۔


 

Syaed

MPA (400+ posts)
بلاشبہ لڈن جعفری کی شہرت اب چاردانگ عالم میں ہے کیونکہ وہ اب ایک دیومالائی کردار بن چکے ہیں یا بنائے جاچکے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جو کچھ انکے بارے میں ضمیر اختر نقوی بتاچکے ہیں خود بیچارے لڈن جعفری کی روح کو بھی معلوم نہ تھا اور انکے ورثاء کو بھی خبر نہ تھی ۔۔۔ اور جب خبر عام ہوئی تو بہت دیر ہوچکی تھی یوں لڈن جعفری کو سوشل میڈیا پہ مذاق کا نشانہ بنانے کے ویسے تو بنیادی طور پہ ذمہ دار ضمیر اختر نقوی ہیں کہ جنہوں نے اس عجیب و غریب داستان کو بنایا اور اور بے مثال فنکاری سے کام لیا ،یعنی ایسی فنکاری کہ جس میں پر سے کوّا بنانے کے لیے خود کوّے کی ‌ضرورت بھی نہیں رہتی ۔ مگراس صورتحال کے لئے دوسرے درجے میں خود ان کے ورثاء بھی خاصی حد تک ذمہ دار ہیں کہ جنہوں نے فوری طور پہ نقوی صاحب کے ہاتھوں لڈن جعفری کے اس طرح آناً فاناً درجات کی بلندی کا نوٹس کیوں نہ لیا اور اب جب کہ انکی داستان کی گونج اوج ثریا تک جاپہنچی ہے تو وہ حسب توفیق جھینپ رہے ہیں اور بوکھلا کر اس کی تردید کرتے سنے جارہے ہیں ۔اس طرح تو نقوی صاحب کہیں کے نہ رہیں گے ۔۔ مطلب یہ کہ خانوادہء لڈن جعفری اس دیومالائی کہانی کی جو تردید اور وضاحت وہ اب کررہا ہے وہ پہلے ہی کیوں نہ کردی اور اک جھوٹی بات کا سچا بتنگڑ بننے سے بروقت کیوں نہیں روکا ۔۔۔ اب وہ یہ شکوہ کیوں کررہے ہیں کہ اس طرح کی باتوں سے انکے مرحوم رشتہ دار جناب لڈن جعفری صاحب کا مذاق اُڑ رہا ہے جسے بند کیا جائے۔

اور جہاں تک ضمیر اختر نقوی صاحب کا تعلق ہے تو ایک لڈن جعفری ہی کیا انکی پشت پہ تو نجانے کتنی مشکوک بلکہ مضحکہ خیز نت نئی و من گھڑت داستانوں کی گٹھڑی لدی ہے، جس میں سے ہر ایک نادر و لاجواب ہے اور کسی بھی سطح کی عقل رکھنے والے کو اٹا اٹ حیرت زدہ کردینے کے لیے کافی ہے ۔ اب اسی نیپال والے قصے کو لیجیے اور ذرا سوچیے کہ اگر آج کے دور میں واقعی ایسا واقعہ رونما ہوگیا ہوتا تو کیا یہ واقعہ تمام عالم ِ کفر کے مقابل اسلام کی حقانیت کا ایسا عملی ثبوت نہ بن گیا ہوتا کہ اس سے کفر کی لنکا تو آنا فاناً ہی نہ ڈھے جاتی اور سی این این اور بی بی سی و فاکس نیوز کی سانسیں نہ چڑھ جاتیں ۔۔۔ چونکہ جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے دنیا کا ہر ہر مقام اب فوری طور پہ قابل رسائی ہے اس لئے کسی بھی معاملے کا کھوج لگانا مشکل نہیں رہا ۔

تو پھر کیا دنیا کے نقشے پہ اک چھینٹ برابرنیپال کرہء ارض سے باہر ہے اور کیا مریخ یا پلوٹو پہ واقع ہے کہ یہ پتا نہ لگایا جاسکے کہ آخر نیپال میں کب اور کس مقام پہ یہ ‘عظیم وقوعہ ‘ پیش آیا اور کن کن افراد کو یوں دوبارہ زندگی مل گئی اور اور انکی دیگر تفصیلات کیا ہیں ۔۔۔ اور آخر ایسا کیا ہوا کہ وہ سابق مردے زندگی ملتے ہی چاند کے سفر پہ روانہ ہوگئے یا کسی جنگل میں جاچھپے ۔ ویسے بھی کسی مردے کو زندہ کرنے کا معجزہ تو اللہ رب العزت نے اپنی منشائے خاص سے صرف اور صرف حضرت عیسٰی علیہ السلام کو ودیعت کیا تھا اور اللہ نے کبھی کسی نبی کا معجزہ کسی دوسرے نبی کو بھی نہیں دیا ناکہ غیر نبی یا غیر صحابہ کو ۔۔ویسے بھی جو رتبہ سیدالمرسلین کا ہے وہ کسی رسول کا نہیں‌اور جو رتبہ رسولوں اور انبیاء کا ہے وہ کسی غیر از نبی کا ہرگز نہیں ۔ اور اسی طرح جو رتبہ کسی صحابی کا ہے وہ غیر از صحابہ کسی کا نہیں علیٰ ھذا القیاس ۔

یہی نقوی صاحب ایک ویڈیو کلپ میں بڑے تیقن سے یہ بھی فرماتے نظر آتے ہیں کہ اگر مردے پہ خلوص اور دل سے سورہء فاتحہ پڑھ کر پھونکی جائے تو وہ زندہ کیا جاسکتا ہے ۔ تو سوال یہ ہے کہ پھر اللہ کے بعد کائنات کی سب سے بڑی ہستی یعنی نبیء پاک نے غزوات کے شہداء اور اپنے فوت ہونے والے اہلخانہ کو اس طرح زندہ کیوں نہیں کردیا کیونکہ انہیں تو اپنے ان رفقاء اور اہلخانہ سے جو محبت تھی وہ بے مثل تھی ،اور اگر اس طرح مردے زندہ کیے جاسکتے ہوں تو پھر کہاں کا نظم کائنات اور پھر یہ مشیت ایزدی کس چیز کا نام ہے؟ ۔۔۔ چونکہ ہرزمانے میں اللہ کے نیکوکار بندے موجود رہے ہیں چنانچہ پھر تو یہ معمول بن جانا چاہیے تھا کہ انکی وساطت سے ہر متؤفی کے اہلخانہ تو اپنے مردوں کو فٹافٹ زندہ کرواتے رہتے اور یوں معاملہ قبر میں منکر نکیروں کی حاضری تک تو پہنچتا ہی نہیں ۔

سبھی اکابرین زندہ ہوتے اور بعد کے رکابرین کو پیدا ہونے اور رکابیاں سنبھالنے کے لیئے جگہ ہی نہ بچتی ۔۔۔ اوروں کو چھوڑیئے خود قبلہ نقوی صاحب نے ایسے معجزاتی عمل سے اپنے پیارے ملک الموت سے کیوں نہ چھڑالئے ۔۔۔

یہاں موصوف کے ایک اور مزیدار بلکہ دھماکے دار انکشاف کی بات بھی کیے لیتے ہیں کہ جو قائداعظم محمد علی جناح کے نام میں لفظ جناح کے حوالے سےہے اور قبلہ نقوی صاحب کے ذہن کی زرخیزی کی حتمی دلیل ہے کیونکہ اس میں قؤت تخیل کی ایسی کمال بلند پروازی دیکھنے کو ملتی ہے کہ بیچاری تاریخ کے پرخچے ہی اڑ جاتے ہیں ۔ موصوف نے فرمایا ہے کہ قائداعظم کے نام میں لفظ جناح دراصل ذوالجناح ہے جو کہ حضرت امام حسین کے گھوڑے کا نام تھا اور چونکہ قائداعظم کی ماں کی اولادیں شروع ہی میں انتقال کرجاتی تھیں اس لیے یہ منت مانی کہ اب کے اگر لڑکا پیدا ہوا تومیں اسکے نام میں ذوالجناح شامل کروں گی۔یوں نقوی صاحب کے انکشاف کی رو سے ہمارے قائد کا اصل نام محمد علی ذوالجناح تھا لیکن کثرت استعمال سے ذوالجناح کا لفظ محض جناح رہ گیا۔۔۔ اب اس مضحکہ خیز انکشاف کی حقیقت سے کون ایسا شخص واقف نہیں کہ جس نے قائد کی کوئی بھی سوانح پڑھ رکھی ہے اور جس میں یہ صاف صاف مرقوم ہے کہ قائداعظم کا لنکنز ان میں داخلہ جس نام سے ہوا تھا اس میں محمدعلی کے آگے گجراتی روایات کے مطابق انکا سرنیم بھی لگا ہوا تھا، یعنی جینڑا بھائی اور انہیں بیرسٹری کی جو ڈگری 30 مارچ 1895 کو دی گئی تھی اس پہ یہی نام موجود تھا مگر قائد نے اس ڈگری کو یہ کہہ کر واپس کردیا تھا کہ انہیں اپنے نام کے اگلے حصے میں میں تبدیلی کرنی ہے جس پہ لنکنز ان کی طرف سے انہیں 15 یوم میں اپنے تبدیل شدہ نام سے آگاہ کرنے کی اجازت دی گئی تھی ۔ قائد نے اس دوران عربی و فارسی کے کئی علماء اور اہل علم سے رابطہ کرکے ایسا لفظ تجویز کرنے کو کہا کہ جو لفظ جینڑا سے کچھ قریب ہو اور جس کے معانی بھی مناسب ہوں‌اور بالآخر نہیں ایک عربی لفظ جناح مل ہی گیا جس کا مطلب تھا بازو اور یوں 30 مارچ 1895 کو انہیں اس نام سے ڈگری عطا کردی گئی۔

دیکھیے اس نام کی بابت یہ سب تفصیل بتاتے ہوئے مجھے کتنی تاریخ بیان کرنی پڑی ہے لیکن یہ جو ضمیر اختر صاحب ہیں انکے ساتھ ایسا کوئی بکھیڑا نہیں کوئی کھکھیڑ نہیں ۔۔آسانی سے گھر میں کھڑے کھڑے تاریخ بناتے ہیں اورمسند پہ بیٹھے بیٹھے وباء کی مانند آگے پھیلاتے ہیں‌ ،اسی خاص ہنر کے باعث انہوں نے فرانسیسی فاتح نپولین کا وہ سلام بھی گھڑ لیا ہے کہ جو تاریخ کی کسی کتاب میں موجود ہی نہیں ہےاور جو میر قطعی لکھنوی رنگ میں ہے بلکہ میرانیس کا چربہ معلوم ہوتا ہے اور اس سے نپولین قیصرباغ ‌کے پچھواڑے کا مکین معلوم ہوتا ہے ۔آپ خود ہی بتائیے کہ جب کوئی گیانی ایسےتاریخ سوز انکشافات کرنے پہ کمر باندھ لے تو پھر اس پہ کسی بھی عقیدے اور کسی بھی مسلک کا محقق غش کیوں نہ کھائے ؟۔

ویسے بھی ضمیر اختر نقوی کے وجد آفریں تاریخی حوالے مذہب و مسلک سے آگے بڑھ کر عقل و شعور کی سب حدود پھلانگ چکے ہیں۔یوں ایسے بدہضمی انگیز انکشافات پہ سو لفظی کہانیوں والا مبشر زیدی سر دھنے تو دھنے ، مگر یہ خاکسار سیدعارف مصطفیٰ اپنا سر کیوں نہ پیٹے۔۔ ہم نے اس سلسلے میں محقق دوراں عقیل عباس جعفری سے رجوع کیا تھا کہ تحقیق و تفتیش انکا خاص میدان ہے اور کوئی فرد ذرا بھی کوئی غلط تاریخی حوالہ دیدے یا مشتبہ سی بات کردے تو وہ اس کے دعوؤں اور انکشاف کا پوسٹ مارٹم کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے ، مگر ان کی جانب سے تو مکمل سکوت ہے ۔۔ ایسا سکوت کہ جو یا تو سکتے و صدمے سے ممکن ہے یا پھر معنی خیز خیال خاطر احباب کا آئینہ دار ہے ۔ جو بھی ہو ، ہم کو تو اب چونکہ ضمیر اختر نقوی نے مسلسل زندہ رہنے کا نسخہ تھمادیا ہے تو اب ہمارے اہلخانہ پس ماندگان میں شامل ہونے کا قطعی نہ سوچیں بلکہ پڑھنے پھونکنے کے لیئے ایکدم چوکس ہوجائیں ورنہ جان لیں کہ نیپال بھی کوئی زیادہ دور تو نہیں ہے۔



عارف صاحب یہ صرف ضمیر اختر کا ہی خاصہ نہیں بلکہ معذرت کے ساتھ تھوڑی سی کمی بیشی کے ساتھ تمام زاکرین کا بھی المیہ ہے(ابھی آپ دیکھیں گے کہ اسی تھریڈ پہ ہی کچھ زاکر کیسے کیسے القابات سے نوازیں گے آپ کو بھی اور مجھے بھی) کہ وہ ایسی مافوق الفطرت کہانیاں بیان کرتے ہیں جن پہ ان کے اپنے گھر والے بھی یقین نہیں کرتے مگر کوئی میرے آپ کے جیسا “گستاخ” سوال کرنے کی جسارت کرے تو بیٹھے بیٹھے یزید،شمر اور اللہ جانے کون کون سے القاب دے دیتے ہیں۔
ہر زاکر ایسی حرکتیں کرتا ہے۔محسن نقوی جو زاکر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک معروف شاعر بھی تھے،امام زمانہ کے ساتھ ایک شخص کی ملاقات کے بعد اس کا انٹرویو تک چھاپ کے لے آئے اور مجلس میں وہی کتاب لہرا کے لوگوں کی واہ واہ لی اسی طرح ناصر عباس گالیاں دے کر اور بدزبانی کرکے ایک نئی طرح ایجاد کرگیا جس پہ عمل آج کل بڑے زوروشور سے ہورہی ہے۔
میرے ضلع ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے محسن نقوی کے ایک دور کے رشتہ دار زاکر سے ایک بار کسی نے پوچھا تھا کہ آپ کے بارے میں معروف ہے کہ آپ زنجیرزنی کے بہت زیادہ فضائل بیان کرتے ہیں مگر خود یا آپ کے متعلقین ہر جلوس میں چشمہ لگا کے صرف سینے پہ ہلکا ہلکا ہاتھ مارتے ہیں ان زاکر صاحب نے جواب دیا کہ ہمارے پاس وقت کی کمی ہوتی ہے اس وجہ سے نہیں کرپاتے۔یہی “وقت کی کمی” “ کم و بیش تمام زاکرین کے ہاں پائی جاتی ہے۔واقعہ سناکے لوگوں کے سینے چھلنی کروادیتے ہیں(بلکہ پیٹھ) مگر خود “وقت کی کمی” کی وجہ سے محض واہ واہ اور پیسے بٹور کے رخصت ہوجاتے ہیں۔نہ سننے والے تحقیق کرتے ہیں نہ ہی داد و تحسین میں کمی آتی ہے۔
ضمیر اختر مرحوم نے جب یہ نیپال اور تبت والی اور گھوڑے کے سموں کو سجدے والی کہانیاں بیان کیں تو فیس بک پہ مجھ سے بھی رہا نہ گیا اور میں نے کہا کہ یہ شرک اور نصیریت کی طرف لے کے جارہے ہیں پوری عوام اہل تشیع کو۔اس بات پہ کوئی سو ڈیڑھ سو لوگ خدا جانے کہا ں کہاں سے نکل کے آتے مجھے گالیاں دیتے،صحابہ کو برا بھلا کہتے اور ایک دوسرے کی پیٹھ تھاپ دیتے کہ واہ مولا تمہیں آباد رکھے۔اب آپ بھی اسی قسم کے ردعمل کے لیے تیار رہنا کیونکہ گھوڑے سے لے کر تابوتوں تک ہر چیز کے لیے زاکرین اور بانیان کروڑوں روپے کماتے ہیں سو یہ چیزیں ہاتھ سے کوئی میرے آپ کے لیے تھوڑی جانے دے گا؟
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
ویسے بھی کسی مردے کو زندہ کرنے کا معجزہ تو اللہ رب العزت نے اپنی منشائے خاص سے صرف اور صرف حضرت عیسٰی علیہ السلام کو ودیعت کیا تھا اور اللہ نے کبھی کسی نبی کا معجزہ کسی دوسرے نبی کو بھی نہیں دیا ناکہ غیر نبی یا غیر صحابہ کو ۔۔
ان قیاسوں پر کون نہ واری جائے
???
. . . . . . .
لخ لعنت
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
ET-qB8HXkAIBKxW
 

Citizen X

President (40k+ posts)
hqdefault.jpg

حُسن دی کلاشنکوف

لواطت کے باعث ہلاکت کا شکار ہونے والا ڈاکٹر
آخری ایام میں جس کے ڈیلے باہر نکل آئے تھے

R.I.H
Rest in Hell


جماعت دیو بند کے حلالہ سنٹر کی افتتاحی تقریب


طارق جمیل کاما سوترا کی تبلیغ کرتے ہوئے

فاعل اور مفعول لواطت میں کون کون سے آسن اختیار کریں
What has the topic of the thread got to do with this? Pointing fingers at others does not absolve you of your crimes.

According to your logic, the motorway rapists should now be set free if they are able to point fingers at someone else who according to them is a bigger rapist than them?
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
What has the topic of the thread got to do with this? Pointing fingers at others does not absolve you of your crimes.

According to your logic, the motorway rapists should now be set free if they are able to point fingers at someone else who according to them is a bigger rapist than them?
مومنوں" کے پاس ہزار سالہ تجربہ ہے"
مسلمان کو اس معاملے میں ان سے مقابلہ کی کوشش میں اپنی عاقبت خراب نہیں کرنی چاہے
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
مومنوں" کے پاس ہزار سالہ تجربہ ہے"
مسلمان کو اس معاملے میں ان سے مقابلہ کی کوشش میں اپنی عاقبت خراب نہیں کرنی چاہے
مرحوم شحصیت کے بارے میں اول فول بکنا آپ کا شیوا ہے
ہم علمی اختلاف بھی کریں تو بدنام ہو جاتے ہیں
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
مرحوم شحصیت کے بارے میں اول فول بکنا آپ کا شیوا ہے
ہم علمی اختلاف بھی کریں تو بدنام ہو جاتے ہیں
:تصحیح
مرحوم شحصیت کے بارے میں اول فول بکنا آپ کا شیوا ہے
ہم علمی اختلاف بھی کریں تو بدنام ہو جاتے ہیں​
 

Syaed

MPA (400+ posts)

مرحوم شحصیت کے بارے میں اول فول بکنا آپ کا شیوا ہے
ہم علمی اختلاف بھی کریں تو بدنام ہو جاتے ہیں
اور حضرات شیخین و امہات المومنین چونکہ زندہ ہیں اس لیے ان کے بارے کچھ بھی کہنا آپ کے لیے جائز ہے مگر ضمیر اختر مرچکے ہیں اس لیے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔
واہ ری علمی اختلاف
!
 

Syaed

MPA (400+ posts)
میری تمام ایڈمنسٹریٹرز سے گذارش ہے کہ جو جو اکاؤنٹ توہین صحابہ پہ رپورٹ کیے گئے وہی دوسرے ناموں سے اہانت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔مجھے یا کسی اور کو بلاوجہ گالی گلوچ کا نشانہ بنائیں تو برداشت کرلیں گے مگر حضرات صحابہ کرام کی تو ہین ایک ایسے ملک اور معاشرے میں ناقابل برداشت ہونی چاہیے جہاں اہل تسنن کی واضح اکثریت صحابہ کا احترام کرتی ہو۔امید ہے آپ لوگ اہانت کا نوٹس لے کے قرار واقعی حل نکالیں گے۔
 
Status
Not open for further replies.