بے شک قابل مذمت ہے آج پیش آنے والا ساہیوال کا واقعہ ۔ ماننا پڑے گا کہ یہ پولیس گردی ہے دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ دہشت گردی ہے ۔ اختیارات کا ناجائز استعمال ، لاقانونیت ، ناانصافی ہے۔ لیکن یہ میرے ملک میں پیش آنے والا اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ۔ تاریخ کے زیادہ اوراق نہ بھی پلٹیں تو ماضی قریب میں ہی ایسے درجنوں واقعات پیش آ چکے ہیں ۔ جن میں پولیس کی جانب سے بیگناہ شہریوں کو نشانہ بنایا گیا ۔
وہ شاہزیب قتل کیس ہو ، نقیب اللہ کا جعلی مقابلہ ہو یا ماڈل ٹاون میں میڈیا کی موجودگی اور کیمرے کی آنکھ کے سامنے خواتین کے منہ اور سینے چھلتی کرتی گولیاں ہوں ۔ یہ فہرست بہت طویل ہے ۔ ایسے واقعات کے بعد انصاف کے لیے آواز بھی بلند ہوئی ۔ لیکن آج تک ان کیسیز کو انجام تک پہنچتے نہیں دیکھا گیا ۔ نہ ہی مظلوموں کو انصاف ملا ۔ بلکہ ہم نے دیکھا کہ حکومتوں کی جانب سے پولیس کی وردی میں ملبوس ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کی جاتی رہی ۔ کیسیز کو کمزور کیا گیا ۔ گواہان کو ڈرایا ، دھمکایا گیا ۔ اور یوں ایسے کیسیز کی فائلیں نئی فائلوں کے بوجھ تلے دبتی چلی گئیں ۔ اگر آج ہماری پولیس شتر بے مہار ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے ؟
اگر آج کے اس جدید اور قدرے پڑھے لکھے دور میں بھی ایک پولیس والے کے ضمیر کی قیمت فقط 10 روپے کی پرچی ہے تو ایسا کیوں ہے ؟ اگر آج بھی پولیس دوست کی بجائے دشمن ہے تو ایسا کیوں ہے ؟ اگر آج بھی ہر برائی کے ٹھکانے کی محافظ یہ پولیس ہے تو ایسا کیوں ہے ؟ اگر آج بھی پولیس غریب کے لیے جلاد اور دولت مند کے لیے غلام ہے تو ایسا کیوں ہے ؟ اگر آج بھی ہماری پولیس عوام دوست اور پروفیشنل نہیں تو ایسا کیوں ہے ؟ اور اس جیسے درجنوں سوال ہیں جو میرے سمیت ہر شہری کے دماغ میں ایک بحری لہر کی مانند ٹھاٹھیں مار رہے ہیں ۔ اور جواب سے بھی ہر ایک بخبوبی واقف ہے ۔ لیکن ہم بحثیت قوم منافق ہیں ۔ تب تک سب اچھا ہے جب تک میرے گناہ پر پردہ پڑا ہوا ہے ۔
آج ہر ایک حکومت سے استعفے کا مطالبہ کر رہا ہے ۔ ہر ایک وزیراعظم عمران خان کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کو دوڑ رہا ہے ۔ میں پوچھتا ہوں تب کہاں تھے جب یہ سب بگاڑ پیدا ہو رہا تھا ۔۔ یا جان بوجھ کر پیدا کیا جا رہا تھا ۔ لعنت ہو اس کمینے ، خاندانی ڈاکو رانا ثنااللہ پر کہ آج وہ بھی انصاف کا سب سے بڑا علم بردار بنا بیٹھا ہے ۔ جس کے اپنے ہاتھ کئی بے گناہوں کے خون سے رنگے ہیں ۔ یہ مسلئہ صرف پولیس کا نہیں ۔۔ بلکہ میرے دیس کے ہر ادارے کا یہی حال ہے ۔ ہر طرف یہی زاوال اور پستی کا سماں ہے ۔۔۔
پیرس ، لندن ، برلن بنا دینے کے دعوے داروں نے صحت ، تعلیم ، پولیس ، انصاف ہر ایک ادارے کو چالیس سال کی محنت سے تباہ کیا اور یہ قوم ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ قوم میٹرو ۔۔ اورنج ۔۔ لیپ ٹاپ جیسے لولی پاپ پر پھولے نہ سماتی تھی ۔۔ بھائیو !!!!!. ہم شریک جرم ہیں رہی بات آج کے اس سانحہ کی تو واقعے کے بعد فوری طور پر جو اقدامات کیے جا سکتے تھے وہ حکومت نے. چوبیس نہیں ۔۔۔ بلکہ 12 گھنٹوں کے اندر کر کے دکھائے ۔ اتنے قلیل وقت میں اس سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتا تھا ۔ اس کے بعد معاملہ انصاف کا ہے کہ ہم امید کرتے ہیں حکومت مظلوموں کو انصاف دے گی ۔ اور مجرموں کو مثالی سزا دے گی ۔ " یہ بھی شکر کا مقام ہے کہ حکومت ملوث اہلکاروں کی وکیل نہ بن بیٹھی اور انکی پشت پناہی نہ کی " ورنہ ماضی سے تو سب ہی واقف ہیں ۔۔ اگر کوئی آنکھیں نہ موند لے تو ۔۔۔ اللہ پاکستان کو صحیح معنوں میں پاکستان بنائے ۔ آمین از ۔۔۔۔۔۔۔ لاوا خان.