لاڑکانہ: اب ہر گھر سے بھٹو نہیں ایڈز کا مریض نکلتاہے

Tabdeeli Razakar.

MPA (400+ posts)
PS-11لاڑکانہ میں جمعرات کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کو ہونے والی غیر معمولی شکست کو مورّخ کس کے نام لکھے گا؟ یہ شکست بھٹو کے فلسفے کو ہوئی‘ یا پھر بھٹو کے لبادے میں چھپے زرداریوں کو ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ بھی ہو‘ حکمرانوں کی بے حسی ‘ ناانصافی اور نااہلی کا مارا ہوا غربت زدہ لاڑکانہ جس کا نام سن کر اب بھٹوز سے زیادہ ایڈز کے مریضوں کا خیال آتا ہے۔ اب سیاسی شعور اور سماجی بیداری کی راہ پر چل پڑا ہے۔ تو کیا واقعی ہم یہ سمجھ لیں کہ لاڑکانہ کے سندھی۔ بھٹوز کے سحر سے آزاد ہو رہے ہیں یا پھر بھٹو کے لبادے میں سیاست کرتے زرداریوں کی کرپشن‘ بددیانتی اور دس سال سے سندھ میں مچائی‘ مسلسل لوٹ مار سے بیزار ہو کر علاقے میں موجود دوسری سیاسی قوتوں کو اپنے خواب بیچ رہے ہیں۔ اس بار بھٹوز کی بے وفائی سے دلبرداشتہ لاڑکانہ کے غریب شہر نے اپنے خواب گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے پلیٹ فارم سے پی ٹی آئی کے امیدوار معظم علی عباسی کو بیچے ہیں۔
معظم عباسی نے 31535ووٹ لے کر پاکستان پیپلز پارٹی کے جمیل احمد سومرو کو شکست دی۔ جمیل سومرو نے 26011ووٹ حاصل کئے۔ پیپلز پارٹی کے لئے یہ شکست ایسے ہی ہے جیسے کوئی آ کر آپ کو آپ کے گھر سے بے دخل کر دے۔ لاڑکانہ پیپلز پارٹی کا گڑھ ہے اور بھٹو خاندان کی لاڑکانہ میں جڑیں ڈھائی سو سال پرانی ہیں۔ بھٹو خاندان کم و بیش ڈھائی سو سال سے ہی اس علاقے پر کسی نہ کسی صورت حکمرانی کرتا رہا۔ یہ پاکستان کا واحد سیاسی خاندان ہے جس میں پاکستان پر بطور وزیر اعظم اور صدر حکمرانی کرنے والے افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بھٹو کے نام پر ووٹ لے کر زرداری بھی پانچ سال ملک کے صدر رہے۔
دہائیاں ہونے کو آئیں ہیں کہ بھٹو کا نام یہاں کے باسیوں کے جسموں میں لہو کی طرح رواں دواں رہا ہے۔ غربت کے مارے‘ بنیادی سہولتوں سے محروم بھٹو کا نعرہ مستانہ لگا کر دیوانہ وار رقص کرتے رہے ہیں۔ کوئی عشق تھا جو انہیں بے چین کیے رکھتا‘ کوئی نشہ تھا کہ بھوکے پیٹوں بھی دل بھرا رہتا۔ بس جئے بھٹو کے نعرے پر جینے ہی میں مزا تھا۔ شخصیت پرستی کی آخری حدوں کو چھوتی ہوئی سیاسی وابستگی جو وابستگی نہیں عشق تھا۔ اور اس عشق نے ہر بار ووٹ کی پرچی پر تیر کو نگاہ میں رکھا۔ یہ تیر تو بس دل کے آر پار ہی اتر چکا تھا۔ جئے بھٹو کے نعرے لگتے رہے۔
اور ذوالفقار علی بھٹو ‘ بے نظیر بھٹو پھر آصف زرداری ۔ بلاول زرداری کو بھی بھٹو کا لاحقہ ساتھ لگانا پڑا کیونکہ عاشق تو صرف بھٹو کے تھے۔ محبوب تو ایک تھا۔ سو بلاول بھٹو زرداری بھی ان کی آنکھ کا تارا بن گیا اور کیوں نہ ہوتا شہید بی بی کا سپوت جو ٹھہرا۔ خستہ حال گھروں کے مکین‘ جن کی زندگیاں بدحالی ‘ غربت اور کسمپرسی کے صحرائوں میں آبلہ پا رینگ رہی تھیں۔ انہوں نے ووٹ نہیں اپنے خواب اپنی زندگیاں دے کر بھٹوز کے نام اقتدار کیے رکھا۔ پہلے اصلی بھٹو اور پھرزرداری بھٹو اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ۔ اثاثے جائیدادیں۔ فیکٹریاں بنک بیلنس ‘ سوئس اکائونٹس بے نامی جائیدادیں‘ بے نامی اکائونٹس کے انبار لگتے رہے۔ ملک اور بیرون ملک اربوں کھربوں کی جائیدادیں بنتی رہیں۔ لیکن لاڑکانہ والوں کے حصے میں بھٹوز سے عشق کا یہ سفر ‘ زیاںکاری‘ رائیگانی‘ غربت‘ رنج اور افلاس کا سفر رہا اوراس کا نقطہ عروج یہ ہے کہ بھٹو کے لاڑکانہ کو دنیا اب ایڈز زدہ مریضوں کے حوالے سے جانتی ہے۔ سندھ میں کراچی کے بعد لاڑکانہ میں سب سے زیادہ HIVوائرس کے کیریئراور ایڈز کے مریض ہیں۔ اب گھر سے بھٹو نہیں ایڈز کا مریض نکلتا ہے اور زوال کا یہ سفر غالباً2003ء سے شروع جب لاڑکانہ میں ایڈز کے مریضوں کی تشخیص ہوئی۔ اس کے بعد 2016ء میں ایڈز کا وائرس نزلے زکام کی طرح پھیلا لیکن اس خبر کو دبا لیا گیا۔ اس کے سدباب کے لئے بھی کچھ نہ کیا۔2019
ء میں تیسری بار ایڈز کے وائرس نے تباہی مچائی۔ لاڑکانہ اور رتو ڈیرو کے چھوٹے سے علاقے میں ہزاروں افراد میں اس وائرس کی تشخیص ہوئی۔ سینکڑوں معصوم بچے ایڈز کے مریض بن گئے۔ بھٹو کے نام پر ووٹ لے کر اقتدار کے مزے لوٹنے والے زرداری نے سندھ کے محکمہ صحت کی حالت اتنی ابتر کر دی کہ سینکڑوں مریض بچوں کے لئے علاج کے لئے اینٹی وائرس دوا صوبے میں موجود نہ تھی۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے لاڑکانہ کو گریڈ 2ایمرجنسی علاقہ قرار دیا۔ایک وقت تھا کہ لاڑکانہ بھٹوز کے نام سے جانا جاتا تھا۔
امریکن مؤرخ اور پروفیسر سٹینلے والپرٹ (Stanley Wolpert)نے اپنی کتاب زلفی بھٹو آف پاکستان لکھی تو اندرون سندھ کے دورے کیے خصوصاً لاڑکانہ اور گردونواح کی گوٹھوں بستیوں کا بھٹو کے ساتھ عشق نے اسے سحرائز کر دیا۔ اس کتاب کے پہلے باب کے پہلے پیراگراف میں سٹینلے لکھتا ہے۔ میں جہاں جاتا لوگ جئے بھٹو کے نعرے لگاتے جس کا مطلب ہے Bhutto lives onبھٹو زندہ ہے‘‘ لیکن افسوس بھٹو کے نام سے عشق کرنے والوں کو اس عشق سوائے رائیگانی کے اور کچھ نہ ملا۔سٹینلے والپرٹ زندہ ہوتا تو اس عشق کے زوال کا منظر دیکھ کر حیران رہ جاتا۔ 10سال سے مسلسل حکمران جماعت پیپلز پارٹی نے بدترین حکمرانی کے ریکارڈ قائم کئے ہیں۔ کرپشن بے حسی اور بدترین مفاد پرستی کی پالیسوں نے پارٹی کو سکیڑ کر سندھ تک محدود کر دیا ہے اور یہ گھمنڈ اور فخر و غرور کہ سندھ پیپلز پارٹی کا مضبوط قلعہ ہے‘ ماضی کا قصہ تو ہو سکتا ہے لمحہ موجود کی حقیقت نہیں، لاڑکانہ والوں نے بالآخر بھٹو سے اپنے طویل عشق کو خیر باد کہہ دیا۔ جب پلیٹ میں روٹی نہ ہو ۔روزگار نہ ہو۔
بیماری میں دوا نہ ہو‘ کتے کے کاٹے کی ویکسین تک دستیاب نہ ہو‘ مائوں کی گودیوں میں کھیلتے بچے ایڈز کے مریض بن جائیں ۔ سندھ کے میر حسن ایڑیاں رگڑرگڑ کر ماں کی گودمیں مر رہے ہوں اور سامنے والا اطمینان سے اس منظر کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر رہا ہو۔ تو ایسی بے حسی اور بدحالی میں عشق بھی مر جاتا ہے ۔ خواہ وہ عشق بھٹو ہی کا کیوں نہ ہو۔ PS-11لاڑکانہ کا غیر معمولی نتیجہ تو صرف زوال کی شروعات ہیں۔ نعرہ ہر گھر سے بھٹو نکلے گا اب ماضی کا قصہ ہے۔لاڑکانہ کے ہر گھر سے اب بھٹو نہیں ایڈز کا مریض نکلتا ہے۔!!


https://www.roznama92news.com/20-10-2019-لاے


01qWemI.jpg
 
Last edited:

ranaji

President (40k+ posts)
PS-11لاڑکانہ میں جمعرات کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کو ہونے والی غیر معمولی شکست کو مورّخ کس کے نام لکھے گا؟ یہ شکست بھٹو کے فلسفے کو ہوئی‘ یا پھر بھٹو کے لبادے میں چھپے زرداریوں کو ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ بھی ہو‘ حکمرانوں کی بے حسی ‘ ناانصافی اور نااہلی کا مارا ہوا غربت زدہ لاڑکانہ جس کا نام سن کر اب بھٹوز سے زیادہ ایڈز کے مریضوں کا خیال آتا ہے۔ اب سیاسی شعور اور سماجی بیداری کی راہ پر چل پڑا ہے۔ تو کیا واقعی ہم یہ سمجھ لیں کہ لاڑکانہ کے سندھی۔ بھٹوز کے سحر سے آزاد ہو رہے ہیں یا پھر بھٹو کے لبادے میں سیاست کرتے زرداریوں کی کرپشن‘ بددیانتی اور دس سال سے سندھ میں مچائی‘ مسلسل لوٹ مار سے بیزار ہو کر علاقے میں موجود دوسری سیاسی قوتوں کو اپنے خواب بیچ رہے ہیں۔ اس بار بھٹوز کی بے وفائی سے دلبرداشتہ لاڑکانہ کے غریب شہر نے اپنے خواب گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے پلیٹ فارم سے پی ٹی آئی کے امیدوار معظم علی عباسی کو بیچے ہیں۔ معظم عباسی نے 31535ووٹ لے کر پاکستان پیپلز پارٹی کے جمیل احمد سومرو کو شکست دی۔ جمیل سومرو نے 26011ووٹ حاصل کئے۔ پیپلز پارٹی کے لئے یہ شکست ایسے ہی ہے جیسے کوئی آ کر آپ کو آپ کے گھر سے بے دخل کر دے۔ لاڑکانہ پیپلز پارٹی کا گڑھ ہے اور بھٹو خاندان کی لاڑکانہ میں جڑیں ڈھائی سو سال پرانی ہیں۔ بھٹو خاندان کم و بیش ڈھائی سو سال سے ہی اس علاقے پر کسی نہ کسی صورت حکمرانی کرتا رہا۔ یہ پاکستان کا واحد سیاسی خاندان ہے جس میں پاکستان پر بطور وزیر اعظم اور صدر حکمرانی کرنے والے افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بھٹو کے نام پر ووٹ لے کر زرداری بھی پانچ سال ملک کے صدر رہے۔ دہائیاں ہونے کو آئیں ہیں کہ بھٹو کا نام یہاں کے باسیوں کے جسموں میں لہو کی طرح رواں دواں رہا ہے۔ غربت کے مارے‘ بنیادی سہولتوں سے محروم بھٹو کا نعرہ مستانہ لگا کر دیوانہ وار رقص کرتے رہے ہیں۔ کوئی عشق تھا جو انہیں بے چین کیے رکھتا‘ کوئی نشہ تھا کہ بھوکے پیٹوں بھی دل بھرا رہتا۔ بس جئے بھٹو کے نعرے پر جینے ہی میں مزا تھا۔ شخصیت پرستی کی آخری حدوں کو چھوتی ہوئی سیاسی وابستگی جو وابستگی نہیں عشق تھا۔ اور اس عشق نے ہر بار ووٹ کی پرچی پر تیر کو نگاہ میں رکھا۔ یہ تیر تو بس دل کے آر پار ہی اتر چکا تھا۔ جئے بھٹو کے نعرے لگتے رہے۔ اور ذوالفقار علی بھٹو ‘ بے نظیر بھٹو پھر آصف زرداری ۔ بلاول زرداری کو بھی بھٹو کا لاحقہ ساتھ لگانا پڑا کیونکہ عاشق تو صرف بھٹو کے تھے۔ محبوب تو ایک تھا۔ سو بلاول بھٹو زرداری بھی ان کی آنکھ کا تارا بن گیا اور کیوں نہ ہوتا شہید بی بی کا سپوت جو ٹھہرا۔ خستہ حال گھروں کے مکین‘ جن کی زندگیاں بدحالی ‘ غربت اور کسمپرسی کے صحرائوں میں آبلہ پا رینگ رہی تھیں۔ انہوں نے ووٹ نہیں اپنے خواب اپنی زندگیاں دے کر بھٹوز کے نام اقتدار کیے رکھا۔ پہلے اصلی بھٹو اور پھرزرداری بھٹو اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ۔ اثاثے جائیدادیں۔ فیکٹریاں بنک بیلنس ‘ سوئس اکائونٹس بے نامی جائیدادیں‘ بے نامی اکائونٹس کے انبار لگتے رہے۔ ملک اور بیرون ملک اربوں کھربوں کی جائیدادیں بنتی رہیں۔ لیکن لاڑکانہ والوں کے حصے میں بھٹوز سے عشق کا یہ سفر ‘ زیاںکاری‘ رائیگانی‘ غربت‘ رنج اور افلاس کا سفر رہا اوراس کا نقطہ عروج یہ ہے کہ بھٹو کے لاڑکانہ کو دنیا اب ایڈز زدہ مریضوں کے حوالے سے جانتی ہے۔ سندھ میں کراچی کے بعد لاڑکانہ میں سب سے زیادہ HIVوائرس کے کیریئراور ایڈز کے مریض ہیں۔ اب گھر سے بھٹو نہیں ایڈز کا مریض نکلتا ہے اور زوال کا یہ سفر غالباً2003ء سے شروع جب لاڑکانہ میں ایڈز کے مریضوں کی تشخیص ہوئی۔ اس کے بعد 2016ء میں ایڈز کا وائرس نزلے زکام کی طرح پھیلا لیکن اس خبر کو دبا لیا گیا۔ اس کے سدباب کے لئے بھی کچھ نہ کیا۔2019ء میں تیسری بار ایڈز کے وائرس نے تباہی مچائی۔ لاڑکانہ اور رتو ڈیرو کے چھوٹے سے علاقے میں ہزاروں افراد میں اس وائرس کی تشخیص ہوئی۔ سینکڑوں معصوم بچے ایڈز کے مریض بن گئے۔ بھٹو کے نام پر ووٹ لے کر اقتدار کے مزے لوٹنے والے زرداری نے سندھ کے محکمہ صحت کی حالت اتنی ابتر کر دی کہ سینکڑوں مریض بچوں کے لئے علاج کے لئے اینٹی وائرس دوا صوبے میں موجود نہ تھی۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے لاڑکانہ کو گریڈ 2ایمرجنسی علاقہ قرار دیا۔ایک وقت تھا کہ لاڑکانہ بھٹوز کے نام سے جانا جاتا تھا۔ امریکن مؤرخ اور پروفیسر سٹینلے والپرٹ (Stanley Wolpert)نے اپنی کتاب زلفی بھٹو آف پاکستان لکھی تو اندرون سندھ کے دورے کیے خصوصاً لاڑکانہ اور گردونواح کی گوٹھوں بستیوں کا بھٹو کے ساتھ عشق نے اسے سحرائز کر دیا۔ اس کتاب کے پہلے باب کے پہلے پیراگراف میں سٹینلے لکھتا ہے۔ میں جہاں جاتا لوگ جئے بھٹو کے نعرے لگاتے جس کا مطلب ہے Bhutto lives onبھٹو زندہ ہے‘‘ لیکن افسوس بھٹو کے نام سے عشق کرنے والوں کو اس عشق سوائے رائیگانی کے اور کچھ نہ ملا۔سٹینلے والپرٹ زندہ ہوتا تو اس عشق کے زوال کا منظر دیکھ کر حیران رہ جاتا۔ 10سال سے مسلسل حکمران جماعت پیپلز پارٹی نے بدترین حکمرانی کے ریکارڈ قائم کئے ہیں۔ کرپشن بے حسی اور بدترین مفاد پرستی کی پالیسوں نے پارٹی کو سکیڑ کر سندھ تک محدود کر دیا ہے اور یہ گھمنڈ اور فخر و غرور کہ سندھ پیپلز پارٹی کا مضبوط قلعہ ہے‘ ماضی کا قصہ تو ہو سکتا ہے لمحہ موجود کی حقیقت نہیں، لاڑکانہ والوں نے بالآخر بھٹو سے اپنے طویل عشق کو خیر باد کہہ دیا۔ جب پلیٹ میں روٹی نہ ہو ۔روزگار نہ ہو۔ بیماری میں دوا نہ ہو‘ کتے کے کاٹے کی ویکسین تک دستیاب نہ ہو‘ مائوں کی گودیوں میں کھیلتے بچے ایڈز کے مریض بن جائیں ۔ سندھ کے میر حسن ایڑیاں رگڑرگڑ کر ماں کی گودمیں مر رہے ہوں اور سامنے والا اطمینان سے اس منظر کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر رہا ہو۔ تو ایسی بے حسی اور بدحالی میں عشق بھی مر جاتا ہے ۔ خواہ وہ عشق بھٹو ہی کا کیوں نہ ہو۔ PS-11لاڑکانہ کا غیر معمولی نتیجہ تو صرف زوال کی شروعات ہیں۔ نعرہ ہر گھر سے بھٹو نکلے گا اب ماضی کا قصہ ہے۔لاڑکانہ کے ہر گھر سے اب بھٹو نہیں ایڈز کا مریض نکلتا ہے۔!!

https://www.roznama92news.com/20-10-2019-لاے
بلو کھسری نے اپنی یہ ایچ آئی وئ ہر جگہ پھیلا دی ہے
 

Diesel

Chief Minister (5k+ posts)
ye criminals gang ha.. sab bakwas fraud ha.. ghareeb awam ko bhutto sher n islam ke nam par loota ja raha ha. ab waqt agaya ha ke in madar-chudoo ko inke badtareen anjam se dochar kia jai
 

HimSar

Minister (2k+ posts)
The zardaris have held Sindh for ransom, for far too long. Their torture needs to end now, warna sindh main sirf Bhutto aur kuttay reh jayain gay.
 
PS-11لاڑکانہ میں جمعرات کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کو ہونے والی غیر معمولی شکست کو مورّخ کس کے نام لکھے گا؟ یہ شکست بھٹو کے فلسفے کو ہوئی‘ یا پھر بھٹو کے لبادے میں چھپے زرداریوں کو ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ بھی ہو‘ حکمرانوں کی بے حسی ‘ ناانصافی اور نااہلی کا مارا ہوا غربت زدہ لاڑکانہ جس کا نام سن کر اب بھٹوز سے زیادہ ایڈز کے مریضوں کا خیال آتا ہے۔ اب سیاسی شعور اور سماجی بیداری کی راہ پر چل پڑا ہے۔ تو کیا واقعی ہم یہ سمجھ لیں کہ لاڑکانہ کے سندھی۔ بھٹوز کے سحر سے آزاد ہو رہے ہیں یا پھر بھٹو کے لبادے میں سیاست کرتے زرداریوں کی کرپشن‘ بددیانتی اور دس سال سے سندھ میں مچائی‘ مسلسل لوٹ مار سے بیزار ہو کر علاقے میں موجود دوسری سیاسی قوتوں کو اپنے خواب بیچ رہے ہیں۔ اس بار بھٹوز کی بے وفائی سے دلبرداشتہ لاڑکانہ کے غریب شہر نے اپنے خواب گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے پلیٹ فارم سے پی ٹی آئی کے امیدوار معظم علی عباسی کو بیچے ہیں۔
معظم عباسی نے 31535ووٹ لے کر پاکستان پیپلز پارٹی کے جمیل احمد سومرو کو شکست دی۔ جمیل سومرو نے 26011ووٹ حاصل کئے۔ پیپلز پارٹی کے لئے یہ شکست ایسے ہی ہے جیسے کوئی آ کر آپ کو آپ کے گھر سے بے دخل کر دے۔ لاڑکانہ پیپلز پارٹی کا گڑھ ہے اور بھٹو خاندان کی لاڑکانہ میں جڑیں ڈھائی سو سال پرانی ہیں۔ بھٹو خاندان کم و بیش ڈھائی سو سال سے ہی اس علاقے پر کسی نہ کسی صورت حکمرانی کرتا رہا۔ یہ پاکستان کا واحد سیاسی خاندان ہے جس میں پاکستان پر بطور وزیر اعظم اور صدر حکمرانی کرنے والے افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بھٹو کے نام پر ووٹ لے کر زرداری بھی پانچ سال ملک کے صدر رہے۔
دہائیاں ہونے کو آئیں ہیں کہ بھٹو کا نام یہاں کے باسیوں کے جسموں میں لہو کی طرح رواں دواں رہا ہے۔ غربت کے مارے‘ بنیادی سہولتوں سے محروم بھٹو کا نعرہ مستانہ لگا کر دیوانہ وار رقص کرتے رہے ہیں۔ کوئی عشق تھا جو انہیں بے چین کیے رکھتا‘ کوئی نشہ تھا کہ بھوکے پیٹوں بھی دل بھرا رہتا۔ بس جئے بھٹو کے نعرے پر جینے ہی میں مزا تھا۔ شخصیت پرستی کی آخری حدوں کو چھوتی ہوئی سیاسی وابستگی جو وابستگی نہیں عشق تھا۔ اور اس عشق نے ہر بار ووٹ کی پرچی پر تیر کو نگاہ میں رکھا۔ یہ تیر تو بس دل کے آر پار ہی اتر چکا تھا۔ جئے بھٹو کے نعرے لگتے رہے۔
اور ذوالفقار علی بھٹو ‘ بے نظیر بھٹو پھر آصف زرداری ۔ بلاول زرداری کو بھی بھٹو کا لاحقہ ساتھ لگانا پڑا کیونکہ عاشق تو صرف بھٹو کے تھے۔ محبوب تو ایک تھا۔ سو بلاول بھٹو زرداری بھی ان کی آنکھ کا تارا بن گیا اور کیوں نہ ہوتا شہید بی بی کا سپوت جو ٹھہرا۔ خستہ حال گھروں کے مکین‘ جن کی زندگیاں بدحالی ‘ غربت اور کسمپرسی کے صحرائوں میں آبلہ پا رینگ رہی تھیں۔ انہوں نے ووٹ نہیں اپنے خواب اپنی زندگیاں دے کر بھٹوز کے نام اقتدار کیے رکھا۔ پہلے اصلی بھٹو اور پھرزرداری بھٹو اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ۔ اثاثے جائیدادیں۔ فیکٹریاں بنک بیلنس ‘ سوئس اکائونٹس بے نامی جائیدادیں‘ بے نامی اکائونٹس کے انبار لگتے رہے۔ ملک اور بیرون ملک اربوں کھربوں کی جائیدادیں بنتی رہیں۔ لیکن لاڑکانہ والوں کے حصے میں بھٹوز سے عشق کا یہ سفر ‘ زیاںکاری‘ رائیگانی‘ غربت‘ رنج اور افلاس کا سفر رہا اوراس کا نقطہ عروج یہ ہے کہ بھٹو کے لاڑکانہ کو دنیا اب ایڈز زدہ مریضوں کے حوالے سے جانتی ہے۔ سندھ میں کراچی کے بعد لاڑکانہ میں سب سے زیادہ HIVوائرس کے کیریئراور ایڈز کے مریض ہیں۔ اب گھر سے بھٹو نہیں ایڈز کا مریض نکلتا ہے اور زوال کا یہ سفر غالباً2003ء سے شروع جب لاڑکانہ میں ایڈز کے مریضوں کی تشخیص ہوئی۔ اس کے بعد 2016ء میں ایڈز کا وائرس نزلے زکام کی طرح پھیلا لیکن اس خبر کو دبا لیا گیا۔ اس کے سدباب کے لئے بھی کچھ نہ کیا۔2019
ء میں تیسری بار ایڈز کے وائرس نے تباہی مچائی۔ لاڑکانہ اور رتو ڈیرو کے چھوٹے سے علاقے میں ہزاروں افراد میں اس وائرس کی تشخیص ہوئی۔ سینکڑوں معصوم بچے ایڈز کے مریض بن گئے۔ بھٹو کے نام پر ووٹ لے کر اقتدار کے مزے لوٹنے والے زرداری نے سندھ کے محکمہ صحت کی حالت اتنی ابتر کر دی کہ سینکڑوں مریض بچوں کے لئے علاج کے لئے اینٹی وائرس دوا صوبے میں موجود نہ تھی۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے لاڑکانہ کو گریڈ 2ایمرجنسی علاقہ قرار دیا۔ایک وقت تھا کہ لاڑکانہ بھٹوز کے نام سے جانا جاتا تھا۔
امریکن مؤرخ اور پروفیسر سٹینلے والپرٹ (Stanley Wolpert)نے اپنی کتاب زلفی بھٹو آف پاکستان لکھی تو اندرون سندھ کے دورے کیے خصوصاً لاڑکانہ اور گردونواح کی گوٹھوں بستیوں کا بھٹو کے ساتھ عشق نے اسے سحرائز کر دیا۔ اس کتاب کے پہلے باب کے پہلے پیراگراف میں سٹینلے لکھتا ہے۔ میں جہاں جاتا لوگ جئے بھٹو کے نعرے لگاتے جس کا مطلب ہے Bhutto lives onبھٹو زندہ ہے‘‘ لیکن افسوس بھٹو کے نام سے عشق کرنے والوں کو اس عشق سوائے رائیگانی کے اور کچھ نہ ملا۔سٹینلے والپرٹ زندہ ہوتا تو اس عشق کے زوال کا منظر دیکھ کر حیران رہ جاتا۔ 10سال سے مسلسل حکمران جماعت پیپلز پارٹی نے بدترین حکمرانی کے ریکارڈ قائم کئے ہیں۔ کرپشن بے حسی اور بدترین مفاد پرستی کی پالیسوں نے پارٹی کو سکیڑ کر سندھ تک محدود کر دیا ہے اور یہ گھمنڈ اور فخر و غرور کہ سندھ پیپلز پارٹی کا مضبوط قلعہ ہے‘ ماضی کا قصہ تو ہو سکتا ہے لمحہ موجود کی حقیقت نہیں، لاڑکانہ والوں نے بالآخر بھٹو سے اپنے طویل عشق کو خیر باد کہہ دیا۔ جب پلیٹ میں روٹی نہ ہو ۔روزگار نہ ہو۔
بیماری میں دوا نہ ہو‘ کتے کے کاٹے کی ویکسین تک دستیاب نہ ہو‘ مائوں کی گودیوں میں کھیلتے بچے ایڈز کے مریض بن جائیں ۔ سندھ کے میر حسن ایڑیاں رگڑرگڑ کر ماں کی گودمیں مر رہے ہوں اور سامنے والا اطمینان سے اس منظر کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر رہا ہو۔ تو ایسی بے حسی اور بدحالی میں عشق بھی مر جاتا ہے ۔ خواہ وہ عشق بھٹو ہی کا کیوں نہ ہو۔ PS-11لاڑکانہ کا غیر معمولی نتیجہ تو صرف زوال کی شروعات ہیں۔ نعرہ ہر گھر سے بھٹو نکلے گا اب ماضی کا قصہ ہے۔لاڑکانہ کے ہر گھر سے اب بھٹو نہیں ایڈز کا مریض نکلتا ہے۔!!


https://www.roznama92news.com/20-10-2019-لاے


01qWemI.jpg
بھٹو مرے نہ مرے لیکن کوگ مر رہے ہیں