حضرت علی علیہ سلام نے جب مالک اشتر رض کو مصر کے اطراف کے علاقے کا گورنر بنایا تو انہیں ایک خط لکھا جس میں حکومت قائم کرنے کے لئے بنیادی اور ضروری امور کی تعلیم دی. ذیل میں ان کی قضاوت یعنی جج بنانے سے متعلق ہدایات کو بیان کیا جا رہا ہے . آج کے دور میں بھی ان اصولوں کو اپنانے کی اشد ضرورت ہے
اس کے بعد لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے ان افراد کا انتخاب کرنا جو رعایا میں تمہارے نزدیک سب سے زیادہ بہتر ہوں۔اس اعتبار سے کہ نہ معاملات میں تنگی کا شکار ہوتے ہوں اور نہ جھگڑا کرنے والوں پر غصہ کرتے ہوں۔نہ غلطی پر اڑ جاتے ہوں اور حق کے واضح ہو جانے کے بعد اس کی طرف پلٹ کرآنے میں تکلف کرتے ہوں اورنہ ان کا نفس لالچ کی طرف جھکتا ہو اورنہ معاملات کی تحقیق میں ادنیٰ فہم پر اکتفا کرکے مکمل تحقیق نہ کرتے ہوں۔شبہات میں توقف کرنے والے ہوں اور دلیلوں کو سب سے زیادہ اختیار کرنے والے ہوں۔فریقین کی بحثوں سے اکتا نہ جاتے ہوں اور معاملات کی چھان بین میں پوری قوت برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوں اور حکم کے واضح ہو جانے کے بعد نہایت وضاحت سے فیصلہ کر دیتے ہوں۔نہ کسی کی تعریف سے مغرور ہوتے ہوں اور نہ کسی کے ابھارنے پر اونچے ہو جاتے ہوں۔ایسے افراد یقینا کم ہیں۔لیکن ہیں ۔
پھر اس کے بعد تم خودبھی ان کے فیصلوں کی نگرانی کرتے رہنا اور ان کے عطا یا میں اتنی وسعت پیدا کر دینا کہ ان کی ضرورت ختم ہو جائے اور پھر لوگوں کے محتاج نہ رہ جائیں انہیں اپنے پاس ایسا مرتبہ اورمقام عطا کرنا جس کی تمہارے خواص بھی طمع نہ کرتے ہوں کہ اس طرح وہ لوگوں کے ضرر پہنچانے سے محفوظ ہو جائیںگے۔مگراس معاملہ پر بھی گہری نگاہ رکھنا کہ یہ دین بہت دنوں اشرار کے ہاتھوں میں قیدی رہ چکا ہے جہاں خواہشات کی بنیاد پر کام ہوتا تھا اور مقصد صرف دنیا طلبی تھا۔
نہج البلاغہ : مکتوب 53
اس کے بعد لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے ان افراد کا انتخاب کرنا جو رعایا میں تمہارے نزدیک سب سے زیادہ بہتر ہوں۔اس اعتبار سے کہ نہ معاملات میں تنگی کا شکار ہوتے ہوں اور نہ جھگڑا کرنے والوں پر غصہ کرتے ہوں۔نہ غلطی پر اڑ جاتے ہوں اور حق کے واضح ہو جانے کے بعد اس کی طرف پلٹ کرآنے میں تکلف کرتے ہوں اورنہ ان کا نفس لالچ کی طرف جھکتا ہو اورنہ معاملات کی تحقیق میں ادنیٰ فہم پر اکتفا کرکے مکمل تحقیق نہ کرتے ہوں۔شبہات میں توقف کرنے والے ہوں اور دلیلوں کو سب سے زیادہ اختیار کرنے والے ہوں۔فریقین کی بحثوں سے اکتا نہ جاتے ہوں اور معاملات کی چھان بین میں پوری قوت برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوں اور حکم کے واضح ہو جانے کے بعد نہایت وضاحت سے فیصلہ کر دیتے ہوں۔نہ کسی کی تعریف سے مغرور ہوتے ہوں اور نہ کسی کے ابھارنے پر اونچے ہو جاتے ہوں۔ایسے افراد یقینا کم ہیں۔لیکن ہیں ۔
پھر اس کے بعد تم خودبھی ان کے فیصلوں کی نگرانی کرتے رہنا اور ان کے عطا یا میں اتنی وسعت پیدا کر دینا کہ ان کی ضرورت ختم ہو جائے اور پھر لوگوں کے محتاج نہ رہ جائیں انہیں اپنے پاس ایسا مرتبہ اورمقام عطا کرنا جس کی تمہارے خواص بھی طمع نہ کرتے ہوں کہ اس طرح وہ لوگوں کے ضرر پہنچانے سے محفوظ ہو جائیںگے۔مگراس معاملہ پر بھی گہری نگاہ رکھنا کہ یہ دین بہت دنوں اشرار کے ہاتھوں میں قیدی رہ چکا ہے جہاں خواہشات کی بنیاد پر کام ہوتا تھا اور مقصد صرف دنیا طلبی تھا۔
نہج البلاغہ : مکتوب 53