وہ کہانی تو سن رکھی ہے جب ایک شہر کا بادشاہ مرگیا تو تمام شہر بادشاہ بننے کیلئے دست و گریبان ہوگیا پھر ایک سیانے نے کہا کے کل صبح جو شخص سب سے پہلے شہر میں داخل ہوگا اسے بادشاہ چن لیا جاے
یہ اسی طرح کا سیانا تھا جب ایک بندہ بغیر کان کے لہو لہاں ہسپتال پنہچا تو ڈاکٹرز کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ قصور کتے کا نہیں یہ کسی سیانے نے پین دی ہے
خیر ایک پٹھان فقیر نشے کی قلت کے سبب سب سے پہلے بیدار ہو کر شہر میں داخل ہوتا ہے اور بادشاہ بن جاتا ہے اسے ڈیٹول سے نہلا کر بادشاہ کے لباس پہنا دیئے جاتے ہیں تھوڑے ہی عرصے میں وہ شہر مقبوضہ ہوگیا۔ مگر فقیر کے گوڈے کو ٹھنڈ؟
اس نے اپنی گدڑی دوبارہ پہنی کشکول اٹھایا اور دے سخیا پکارتا ہوا واپس دھندے پر چلا گیا
یہی حال ہنجاب کے وزیراعلی گونگلو بزدار کا ہے
اسے تجربہ نہیں تھا تو سب سے بڑے صوبے میں لگایا کیوں تھا؟
تجربہ کاروں کی پہلے باری اسی لئے ہوتی ہے کہ ان کے پاس تجربہ ہوتا ہے جس کا کوی نعم البدل نہیں
پھر اس گونگلو نے اپنے حلقے میں کیا کلا گاڑا تھا جو پورا صوبہ اس کے حوالے کردیا گیا؟
مجھے ذاتی طور پر اس سے کوی پرخاش نہیں ضرور یہ ایک اچھا اور شریف النفس بندہ ہوگا کرپشن بھی نہیں کرتا ہوگا حالانکہ پاکستان میں بغیرکرپشن کے اب صرف وہی لوگ رہ گئے ہیں جنہیں اس ملک میں کمانا ہی نہیں پڑتا وہ باہر سے پیسہ لاکر اپنے گھر اور فیکٹریاں چلا رہے ہیں بزدار نے بھی سیاست کی ہے تو بغیر پیسے کے نہیں کی دو تین کروڑ تو الیکشن کا خرچہ فی کس ہوجاتا ہے، لہذا یہ اتنا بھی سیدھا پدرا نہیں ہے
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ بندہ وزارت اعلی کی دوڑ میں شامل کس نے کروایا کیونکہ دو تین بندوے جو نامزد ہوتے ہیں ان کا نام اتنا غیر معروف نہیں ہوتا ان کو لوگ جانتے ہوتے ہیں ان کی پالیسیز کا بھی علم ہوتا ہے اور کام کرنے کے انداز کا بھی ، مگر بزدار کی دفعہ تو کسی کو کچھ علم نہیں تھا کہ اس کا نام آخر کیوں ؟
تمام کے تمام تین سو اکہتر ممبران تو وزیراعلی نامزد نہیں ہوتے؟؟؟
اس سوال کا جواب ڈھونڈھنے کیلئے شائد بنی گالہ جانا پڑے گا کہ قصور گونگلو کا ہے یا اس کا جس کی سفارش پر اسے مصیبت میں ڈال دیا گیا؟؟
یہ اسی طرح کا سیانا تھا جب ایک بندہ بغیر کان کے لہو لہاں ہسپتال پنہچا تو ڈاکٹرز کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ قصور کتے کا نہیں یہ کسی سیانے نے پین دی ہے
خیر ایک پٹھان فقیر نشے کی قلت کے سبب سب سے پہلے بیدار ہو کر شہر میں داخل ہوتا ہے اور بادشاہ بن جاتا ہے اسے ڈیٹول سے نہلا کر بادشاہ کے لباس پہنا دیئے جاتے ہیں تھوڑے ہی عرصے میں وہ شہر مقبوضہ ہوگیا۔ مگر فقیر کے گوڈے کو ٹھنڈ؟
اس نے اپنی گدڑی دوبارہ پہنی کشکول اٹھایا اور دے سخیا پکارتا ہوا واپس دھندے پر چلا گیا
یہی حال ہنجاب کے وزیراعلی گونگلو بزدار کا ہے
اسے تجربہ نہیں تھا تو سب سے بڑے صوبے میں لگایا کیوں تھا؟
تجربہ کاروں کی پہلے باری اسی لئے ہوتی ہے کہ ان کے پاس تجربہ ہوتا ہے جس کا کوی نعم البدل نہیں
پھر اس گونگلو نے اپنے حلقے میں کیا کلا گاڑا تھا جو پورا صوبہ اس کے حوالے کردیا گیا؟
مجھے ذاتی طور پر اس سے کوی پرخاش نہیں ضرور یہ ایک اچھا اور شریف النفس بندہ ہوگا کرپشن بھی نہیں کرتا ہوگا حالانکہ پاکستان میں بغیرکرپشن کے اب صرف وہی لوگ رہ گئے ہیں جنہیں اس ملک میں کمانا ہی نہیں پڑتا وہ باہر سے پیسہ لاکر اپنے گھر اور فیکٹریاں چلا رہے ہیں بزدار نے بھی سیاست کی ہے تو بغیر پیسے کے نہیں کی دو تین کروڑ تو الیکشن کا خرچہ فی کس ہوجاتا ہے، لہذا یہ اتنا بھی سیدھا پدرا نہیں ہے
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ بندہ وزارت اعلی کی دوڑ میں شامل کس نے کروایا کیونکہ دو تین بندوے جو نامزد ہوتے ہیں ان کا نام اتنا غیر معروف نہیں ہوتا ان کو لوگ جانتے ہوتے ہیں ان کی پالیسیز کا بھی علم ہوتا ہے اور کام کرنے کے انداز کا بھی ، مگر بزدار کی دفعہ تو کسی کو کچھ علم نہیں تھا کہ اس کا نام آخر کیوں ؟
تمام کے تمام تین سو اکہتر ممبران تو وزیراعلی نامزد نہیں ہوتے؟؟؟
اس سوال کا جواب ڈھونڈھنے کیلئے شائد بنی گالہ جانا پڑے گا کہ قصور گونگلو کا ہے یا اس کا جس کی سفارش پر اسے مصیبت میں ڈال دیا گیا؟؟