قاضی فائز ءیسی کیس کا فیصلہ ظاہر
کل سپریم کورٹ میں جس طریقہ سے سرکاری وکیل کو بے عزت کیا گیا
تمام جج حضرات فروغ نسیم کو دھمکاتے ہیں
رہے
ججوں کے سوالات انتہائی احمقانہ اور قاضی فائز عیسی کو بچانے کی نیت سے کیے گئے
اور 10 ججز کے بینچ نے کہا
- جج کئ مرضی ہے کہ اپنی پراپرٹی ڈیکلیر کرے یا نہ کرے
- آپ نے جج کی جائداد پتہ کرنے کی جرات کیسے کی.
- کیس بدنیتی پر مبنی ہے
- جج اپنی جائداد بتانے کا پابند نہیں
- سرکاری وکیل نے انڈین سپریم کورٹ کے کیس کا حوالہ دیا, جس میں الزام لگنے پر جج نے استعفا دے دیا. جس پر جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ یہ پاکستان ہے, ہندوستان نہیں
کیا اس کیس سے ججوں کو وہ مقام دیا جا رہا ہے, جو نہ کسی تعلیم یافتہ قوم میں رائج ہے, اور ہمارے مذہب میں جو کہ نبی کریم کی سنت اور خلفا راشدین کے طرز عمل کا غماز ہونا چاہیے ,سپریم کورٹ کے ججوں کا طرز عمل افسوسناک ہے
2013،12 میں قانون نہیں تھا لیکن چوری ،ٹیکس چھپانا آور آمدن کے مقابلہ میں ذیادہ اثاثے رکھا تو جب سے مہذب دنیا وجود میں ائ ہے ایک جرم ہی تصور ہوتا ہے حضرت عمر سے ایک عام آدمی دو چادروں کے بارے میں پوچھ سکتے ہیں جو بیک وقت قاضی، خلیفہ، کماندر اور حکمران ہے تو فائز عیسی کی کیا حیثیت ہے لگتا ہے کہ عدالت اپنے ججوں کا احتساب کروانا نہیں چاھتے یہ ججز صرف اپنی برادری کو بچانے کی فکر میں ہیں
باہر جائیدادیں نکلی تھیں تو اس بار دلال ججوں کو ڈالوروں میں پیمنٹ ہوئی ہے
ہمارا جسٹس سسٹم کرپشن کا بے تاج بادشاہ ! کب حقیقی ایوان انصاف بناۓ جاۓ
گۓ؟
ججوں نے تھان لیا ہے کہ چور قاضی فائز عیسی کو ٹیکس کی مد میں لے آ کر مقدمے کو نبٹایا جائے ۔حالانکہ امدنی سے زائد اثاثے اور منی ٹریل کے جرم میں جسٹس قاضی نااہل
ہوتے ہیں
خدا کے لئے عدلیہ کی اکاؤنٹ بلٹی کے لیے ٹیم تشکیل دی جائیں جو کہ عوامی شکایات پر رشوت خور ججوں کو جیل بھیج سکیں
جج کو بتایا جاے کہ چوری چوری ہوتی ہے چاہے آج کی ہو یا بیس سال پرانی
دو نمبر جج ھیں ان بغیرت ججوں کوسب پتا ھے صرف حق اور سچ کا فیصلا نہیں کرتے
.ان ججوں نے قوم کو برباد کر دیا ہے
افسوس کہ پاکستان میں جتنے بھی چور ڈاکو ہے وہ اپنے صفائی دینے کے بجائے الٹا دوسروں پر سوال کرتاہے
جناب اگر دس چور کتے ایک شریف آدمی کو پڑ جایں تو کیا ہوتا ہے اگر پاکستان کا سب سے بڑا ادارہ اپنا احتساب کر سکتا ہے سیاست دانوں کا احتساب ہو سکتا ہے تو کیا یہ جج دودھ کے دھلے ہیں کہ ان سے کوی پوچھ نہیں سکتا ان کو پتہ ہے کہ اگر ایک گیا تو پھر سب کی باری آے گی جب اس کیس میں ایک دفعہ شوکاز نوٹس ہو گیا پھر یہ جج اس کو سن نہیں سکتے ان سب کے بیوی بچے باہر رہتے ہیں یہ سب پر بھونکتے ہیں اگر ان دلالوں کے بارے میں کوی بات کرے تو توہین عدالت لگ جاتی ہے ابھی ایک وکیل باقی ہے جو ان کی اوقات بتاے گا
ان ججوں نے پورے پاکستان کو یرغمال بنا رکھا ہے
اگر قاضی پر تلوار چلی تو باقی جج بھی رگڑے جائیں گے ایک پکڑا جائے گا تو بہت سے اور بھی پکڑ میں آئیں گے.
اس لئے جج برادری اپنا تحفظ کر رہی ہے
پاکستان میں انصاف مانگنا۔چھلنی میں پانی لانے کے مترادف ہے ۔
کل سپریم کورٹ میں جس طریقہ سے سرکاری وکیل کو بے عزت کیا گیا
تمام جج حضرات فروغ نسیم کو دھمکاتے ہیں
رہے
ججوں کے سوالات انتہائی احمقانہ اور قاضی فائز عیسی کو بچانے کی نیت سے کیے گئے
اور 10 ججز کے بینچ نے کہا
- جج کئ مرضی ہے کہ اپنی پراپرٹی ڈیکلیر کرے یا نہ کرے
- آپ نے جج کی جائداد پتہ کرنے کی جرات کیسے کی.
- کیس بدنیتی پر مبنی ہے
- جج اپنی جائداد بتانے کا پابند نہیں
- سرکاری وکیل نے انڈین سپریم کورٹ کے کیس کا حوالہ دیا, جس میں الزام لگنے پر جج نے استعفا دے دیا. جس پر جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ یہ پاکستان ہے, ہندوستان نہیں
کیا اس کیس سے ججوں کو وہ مقام دیا جا رہا ہے, جو نہ کسی تعلیم یافتہ قوم میں رائج ہے, اور ہمارے مذہب میں جو کہ نبی کریم کی سنت اور خلفا راشدین کے طرز عمل کا غماز ہونا چاہیے ,سپریم کورٹ کے ججوں کا طرز عمل افسوسناک ہے
2013،12 میں قانون نہیں تھا لیکن چوری ،ٹیکس چھپانا آور آمدن کے مقابلہ میں ذیادہ اثاثے رکھا تو جب سے مہذب دنیا وجود میں ائ ہے ایک جرم ہی تصور ہوتا ہے حضرت عمر سے ایک عام آدمی دو چادروں کے بارے میں پوچھ سکتے ہیں جو بیک وقت قاضی، خلیفہ، کماندر اور حکمران ہے تو فائز عیسی کی کیا حیثیت ہے لگتا ہے کہ عدالت اپنے ججوں کا احتساب کروانا نہیں چاھتے یہ ججز صرف اپنی برادری کو بچانے کی فکر میں ہیں
باہر جائیدادیں نکلی تھیں تو اس بار دلال ججوں کو ڈالوروں میں پیمنٹ ہوئی ہے
ہمارا جسٹس سسٹم کرپشن کا بے تاج بادشاہ ! کب حقیقی ایوان انصاف بناۓ جاۓ
گۓ؟
ججوں نے تھان لیا ہے کہ چور قاضی فائز عیسی کو ٹیکس کی مد میں لے آ کر مقدمے کو نبٹایا جائے ۔حالانکہ امدنی سے زائد اثاثے اور منی ٹریل کے جرم میں جسٹس قاضی نااہل
ہوتے ہیں
خدا کے لئے عدلیہ کی اکاؤنٹ بلٹی کے لیے ٹیم تشکیل دی جائیں جو کہ عوامی شکایات پر رشوت خور ججوں کو جیل بھیج سکیں
جج کو بتایا جاے کہ چوری چوری ہوتی ہے چاہے آج کی ہو یا بیس سال پرانی
دو نمبر جج ھیں ان بغیرت ججوں کوسب پتا ھے صرف حق اور سچ کا فیصلا نہیں کرتے
.ان ججوں نے قوم کو برباد کر دیا ہے
افسوس کہ پاکستان میں جتنے بھی چور ڈاکو ہے وہ اپنے صفائی دینے کے بجائے الٹا دوسروں پر سوال کرتاہے
جناب اگر دس چور کتے ایک شریف آدمی کو پڑ جایں تو کیا ہوتا ہے اگر پاکستان کا سب سے بڑا ادارہ اپنا احتساب کر سکتا ہے سیاست دانوں کا احتساب ہو سکتا ہے تو کیا یہ جج دودھ کے دھلے ہیں کہ ان سے کوی پوچھ نہیں سکتا ان کو پتہ ہے کہ اگر ایک گیا تو پھر سب کی باری آے گی جب اس کیس میں ایک دفعہ شوکاز نوٹس ہو گیا پھر یہ جج اس کو سن نہیں سکتے ان سب کے بیوی بچے باہر رہتے ہیں یہ سب پر بھونکتے ہیں اگر ان دلالوں کے بارے میں کوی بات کرے تو توہین عدالت لگ جاتی ہے ابھی ایک وکیل باقی ہے جو ان کی اوقات بتاے گا
ان ججوں نے پورے پاکستان کو یرغمال بنا رکھا ہے
اگر قاضی پر تلوار چلی تو باقی جج بھی رگڑے جائیں گے ایک پکڑا جائے گا تو بہت سے اور بھی پکڑ میں آئیں گے.
اس لئے جج برادری اپنا تحفظ کر رہی ہے
پاکستان میں انصاف مانگنا۔چھلنی میں پانی لانے کے مترادف ہے ۔