غصے میں عقل جاتی رہتی ہے

ARSHAD2011

Minister (2k+ posts)
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جنگل کا حکمران چیتا، غصے میں آگیا۔ اُس نے تہیہ کر لیا کہ وہ اپنے مخالفوں کو سبق سکھا کر رہے گا۔ چیتے نے اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر کہا بوڑھا شیر اب میرے ہاتھ آئے تو چھٹی کا دودھ یاد دلائوں گا بلکہ تگنی کا ناچ نچائوں گا۔

اِس جنگل کا سابق بادشاہ بوڑھا شیر بہت چالاک ہے، وہ جنگل سے دور ایک محفوظ گھاٹی میں پناہ لئے ہوئے ہے۔ چیتے اور اُس کی فورس کا وہاں تک پہنچنا اور شیر کو قابو میں لانا مشکل ہے۔ شیر کو محفوظ گھاٹی میں بھیجنے کی غلطی بھی خود چیتے اور اُس کی وفادار کابینہ ہی سے ہوئی۔ یہ اب اپنے فیصلے پر پچھتاتے ہیں کہ ایسا کیا ہی کیوں؟ بوڑھا شیر جان بوجھ کر ایسے بیانات دیتا ہے کہ چیتے کو غصہ آئے اور وہ بھڑک اُٹھے کیونکہ غصے میں عقل جاتی رہتی ہے۔ بوڑھا شیر تجربہ کار ہے، پرانا کھلاڑی ہے، اُسے سیاست میں شاہ مات ہو گئی مگر وہ اگلی بازی سوچ سمجھ کر لگا رہا ہے، بساط پر اپنے پیادے آگے بڑھا رہا ہے۔ حیران کن یہ بات ہے کہ اُس نے بساط بچھتے ہی توپوں کا منہ کھول دیا ہے حالانکہ اصولاً تو پہلے پیادوں کی چھوٹی موٹی لڑائیاں ہونی چاہئیں۔ ہاتھی، گھوڑے اور توپیں تو لڑائی کے دوسرے مرحلے میں آزمائی جاتی ہیں لیکن شیر کو کوئی آس یا اُمید ہے یا پھر اُس کی حکمت عملی اِس لئے جارحانہ ہے کہ مخالفوں کو سنبھلنے کا موقع نہ ملے۔ اُس نے کھیل شروع ہوتے ہی توپوں کا منہ کھول کر براہِ راست طاقت کے مراکز پر گولے پھینکنا شروع کر دیے۔ شیر کی حکمت عملی کا نتیجہ یہ نکلا کہ چیتا غصے میں آ گیا اور وہ چیتا فورس کے ایک اجتماع میں بھڑک اُٹھا۔ شیر اِسے کامیابی سمجھتا ہے۔

شیر اور اُس کے اتحادیوں کے اوپر تلے گوجرانوالہ اور کراچی میں کامیاب جلسے ہو چکے، 11پارٹی اتحاد کے کارکنوں نے زور لگایا، اُن جلسوں کو ناکام کہنا سراسر زیادتی ہوگی مگر یہ جلسے 10اپریل 1986کے بےنظیر کے جلسے اور جلوس جیسا بھونچال بھی نہ تھے۔ افراط و تفریط سے ہٹ کر یہ کہنے دیجئے کہ یہ جلسے کارکنوں کے بھرپور اجتماعات تھے مگر اِس میں ٹوٹی جوتی اور پھٹے کپڑوں والا کشتگانِ خاک کا نمائندہ کم ہی نظر آیا۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ پہلے پہلے جلسے جلوس ہیں، ابھی ٹیمپو بن رہا ہے، آنے والے دنوں میں عام لوگ بھی اِن جلسے جلوسوں میں دلچسپی لینا شروع کر دیں گے اور اگلے مرحلے میں جلسے جلوس اور زیادہ بھرپور ہو جائیں گے۔

چیتا حکومت نے غصے میں آ کر کیپٹن صفدر کو کراچی میں ہی گرفتار کر لیا ہے۔ سب سے آخری حربہ مریم کی گرفتاری ہو سکتا ہے، اُس کے بعد حکومت کیا کر سکتی ہے؟ کیونکہ اُس کے علاوہ کوئی حربہ بچے گا ہی نہیں مگر حکومت کا جمہوری تشخص بری طرح پامال ہوگا، جیل میں بیٹھی مریم شیرنی بن جائے گی اور محفوظ پناہ گاہ میں بیٹھا بوڑھا شیر مزید گرم بیانات دے کر چیتا حکومت کو اور غصہ دلائے گا، غصہ کسی اور کو نہیں، غصہ کرنے والے شخص کو سب سے پہلے نقصان پہنچاتا ہے۔

شیر بابا اور چیتا بابا دونوں ہم عمر اور 70سال سے اوپر کے بڑے بوڑھے ہیں۔ توقع یہ تھی کہ بڑے بوڑھے نہ اشتعال دلاتے ہیں، نہ اشتعال میں آتے ہیں مگر شیر بابا جان بوجھ کر اشتعال دلا رہا ہے اور چیتا بابا اشتعال میں آ رہا ہے۔ اصل میں شیر بابا نے ساری عمر میدانِ سیاست میں گزاری، اُسے دکھ ہے کہ کھیل کے میدان کا ایک نیا کھلاڑی، اسے سیاست میں کیسے ہرا گیا۔ شیر بابا کا خیال ہے کہ ریفری نے بےایمانی کی ورنہ سیاست میں چیتا اُسے ہرا نہیں سکتا تھا۔ تضادستان کی قسمت میں اِس نئی جنگ کو دیکھنا بھی لکھا ہے ہم کچھ بھی کر لیں۔ پنجاب میں اگلی جنگ شیر اور چیتے کے درمیان ہوگی۔ شیر کو علم ہے کہ اِس جنگ تک اُس نے اپنا ٹیمپو اتنا اٹھا کر رکھنا ہے کہ اس کا ووٹ بینک نہ صرف قائم رہے بلکہ پہلے سے بڑھے۔

چیتے اور شیر کی کہانی میں شیر چیتے کو غصہ دلا کر کیا فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے؟ اندازہ یہ ہے کہ غصے میں انسان غلطی پر غلطی کرتا ہے، شیر کی حکمت عملی یہ لگتی ہے اِس قدر جارحانہ گولہ باری کی جائے کہ حکومت اور ریاست میں جو اتحاد نظر آ رہا ہے وہ بکھر جائے۔ تاہم اس گولہ باری کا فوری نتیجہ تو یہ ہے کہ حکومت اور ریاست مزید اکٹھے ہو کر اپنے دفاع کو اور زیادہ مضبوط کررہے ہیں جبکہ بوڑھا شیر مسلسل گولے برسارہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح کوئی گولہ اس صفحے کو اُڑا دے جس پر سب اکٹھے ہیں، دیکھیں کس کی حکمت عملی کامیاب ہوتی ہے؟

چیتے کے لئے بہتر تو یہی ہوتا کہ وہ غصے کو تھوکتا، ہوش و خردسے کام لیتا، ڈیلیوری پر توجہ دیتا، مہنگائی، بیروزگاری اور افراطِ زر کو قابو میں لانے کے لئے پالیسیاں لاتا، سرکاری ملازموں کی حالت زار کا خیال کرتا یا کچھ ایسا کرتا کہ سب قائل ہوتے مگر چیتا غصہ ہو رہا ہے، پیچ و تاب کھا رہا ہے، شیر یہی تو چاہتا ہے کہ فضا میں سیاسی کشیدگی ہو، حکومت کی توجہ گورننس سے ہٹ جائے۔

جنگل کی عقل مند لومڑیاں اور پریشان گلہریاں ایک دوسرے سے پوچھ رہی ہیں جلسوں کے بعد کیا؟ دسمبر، جنوری میں ایسا کیا ہونے والا ہے جس کا بوڑھا شیر اور مریم شیرنی اظہار کر رہے ہیں؟ بظاہر کوئی حکومت جلسے جلوسوں سے نہیں جاتی اگر جونیجو اور جنرل ضیاء الحق 10اپریل 1986کے بےنظیر بھونچال کو برداشت کرکے قائم رہ گئے تھے تو پھر پی ڈی ایم کے جلسوں سے بھی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔ البتہ اپوزیشن جماعتوں کی ریلی خطرناک اقدام ہوگا۔ اگر واقعی اپوزیشن ایک بڑی ریلی اسلام آباد کی طرف لے کر آنے میں کامیاب ہوگئی تو اِس سے سارا نظامِ حکومت معطل ہو جائے گا اور اگر اِس ہجوم میں جارحانہ انداز ہوا تو شاید اِس سے جانی و مالی نقصانات بھی ہوں۔ ہمارے ہاں تو چند ہزار کی ریلی حکومت اور ریاست کی چولیں ہلا دیتی ہے اگر واقعی کوئی بڑی ریلی دارالحکومت آگئی تو اُس کا توڑ کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ جنگل کے جانور اِس طرح کا ڈیڈ لاک نہیں چاہتے، چرند پرند کو معلوم ہے کہ ایسی صورت میں ریاست کی معیشت بالکل بیٹھ جاتی ہے۔ ایسا پہلے بھی ہوا ہے اور اگر اِس بار ہوا تو ہمارا بولو رام ہو جائے گا۔ چیتا ایماندار ہے مگر غصے والا ہے، ناتجربہ کار ہے۔ ریاست کو دیکھنا یہ ہوگا کہ سیاسی تصادم اور وہ بھی پنجاب کی سیاسی اور ریاستی قوتوں کے درمیان، نیک شگون ثابت نہیں ہوگا۔

شیر اور چیتے کی لڑائی میں بظاہر چیتے کا لشکر بھاری ہے، فی الحال اسے ہاتھیوں، گھوڑوں اور پیادوں کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ دوسری طرف شیر کا انحصار پیادوں یا پھر ایسی شہ پر ہے جس کا مرکز ابھی ظاہر نہیں ہوا۔ جو لوگ بوڑھے شیر کو جانتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ آخری لڑائی میں آخری وار تب ہی کرتا ہے جب اُس نے پورا حساب کتاب لگا لیا ہوتا ہے۔ وہ چیتے کی طرح غصے میں ردِعمل نہیں دیتا بلکہ اپنے غصے کا اظہار صرف اُس وقت کرتا ہے جب اُس کی ٹائمنگ ٹھیک ہو۔ شطرنج کے سارے مبصرین دم سادھے بیٹھے ہیں کہ بوڑھے شیر کے پاس وہ خفیہ کارڈ کونسا ہے جس کی بنیاد پر وہ برسرپیکار ہے۔ وہ اِس وقت نہیں لڑا جب اقتدار سے نکالا گیا، تب بھی نہیں لڑا جب نااہل ہوا، اُس وقت بھی نہیں لڑا جب قید ہوا۔ اب آخر اُس کو کس کی شہ ملی ہے یا کونسا کارڈ ہاتھ آیا ہے کہ وہ پھر سے شیر ہو گیا ہے؟

 
Last edited by a moderator:

ahameed

Chief Minister (5k+ posts)
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جنگل کا حکمران چیتا، غصے میں آگیا۔ اُس نے تہیہ کر لیا کہ وہ اپنے مخالفوں کو سبق سکھا کر رہے گا۔ چیتے نے اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر کہا بوڑھا شیر اب میرے ہاتھ آئے تو چھٹی کا دودھ یاد دلائوں گا بلکہ تگنی کا ناچ نچائوں گا۔

اِس جنگل کا سابق بادشاہ بوڑھا شیر بہت چالاک ہے، وہ جنگل سے دور ایک محفوظ گھاٹی میں پناہ لئے ہوئے ہے۔ چیتے اور اُس کی فورس کا وہاں تک پہنچنا اور شیر کو قابو میں لانا مشکل ہے۔ شیر کو محفوظ گھاٹی میں بھیجنے کی غلطی بھی خود چیتے اور اُس کی وفادار کابینہ ہی سے ہوئی۔ یہ اب اپنے فیصلے پر پچھتاتے ہیں کہ ایسا کیا ہی کیوں؟ بوڑھا شیر جان بوجھ کر ایسے بیانات دیتا ہے کہ چیتے کو غصہ آئے اور وہ بھڑک اُٹھے کیونکہ غصے میں عقل جاتی رہتی ہے۔ بوڑھا شیر تجربہ کار ہے، پرانا کھلاڑی ہے، اُسے سیاست میں شاہ مات ہو گئی مگر وہ اگلی بازی سوچ سمجھ کر لگا رہا ہے، بساط پر اپنے پیادے آگے بڑھا رہا ہے۔ حیران کن یہ بات ہے کہ اُس نے بساط بچھتے ہی توپوں کا منہ کھول دیا ہے حالانکہ اصولاً تو پہلے پیادوں کی چھوٹی موٹی لڑائیاں ہونی چاہئیں۔ ہاتھی، گھوڑے اور توپیں تو لڑائی کے دوسرے مرحلے میں آزمائی جاتی ہیں لیکن شیر کو کوئی آس یا اُمید ہے یا پھر اُس کی حکمت عملی اِس لئے جارحانہ ہے کہ مخالفوں کو سنبھلنے کا موقع نہ ملے۔ اُس نے کھیل شروع ہوتے ہی توپوں کا منہ کھول کر براہِ راست طاقت کے مراکز پر گولے پھینکنا شروع کر دیے۔ شیر کی حکمت عملی کا نتیجہ یہ نکلا کہ چیتا غصے میں آ گیا اور وہ چیتا فورس کے ایک اجتماع میں بھڑک اُٹھا۔ شیر اِسے کامیابی سمجھتا ہے۔

شیر اور اُس کے اتحادیوں کے اوپر تلے گوجرانوالہ اور کراچی میں کامیاب جلسے ہو چکے، 11پارٹی اتحاد کے کارکنوں نے زور لگایا، اُن جلسوں کو ناکام کہنا سراسر زیادتی ہوگی مگر یہ جلسے 10اپریل 1986کے بےنظیر کے جلسے اور جلوس جیسا بھونچال بھی نہ تھے۔ افراط و تفریط سے ہٹ کر یہ کہنے دیجئے کہ یہ جلسے کارکنوں کے بھرپور اجتماعات تھے مگر اِس میں ٹوٹی جوتی اور پھٹے کپڑوں والا کشتگانِ خاک کا نمائندہ کم ہی نظر آیا۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ پہلے پہلے جلسے جلوس ہیں، ابھی ٹیمپو بن رہا ہے، آنے والے دنوں میں عام لوگ بھی اِن جلسے جلوسوں میں دلچسپی لینا شروع کر دیں گے اور اگلے مرحلے میں جلسے جلوس اور زیادہ بھرپور ہو جائیں گے۔

چیتا حکومت نے غصے میں آ کر کیپٹن صفدر کو کراچی میں ہی گرفتار کر لیا ہے۔ سب سے آخری حربہ مریم کی گرفتاری ہو سکتا ہے، اُس کے بعد حکومت کیا کر سکتی ہے؟ کیونکہ اُس کے علاوہ کوئی حربہ بچے گا ہی نہیں مگر حکومت کا جمہوری تشخص بری طرح پامال ہوگا، جیل میں بیٹھی مریم شیرنی بن جائے گی اور محفوظ پناہ گاہ میں بیٹھا بوڑھا شیر مزید گرم بیانات دے کر چیتا حکومت کو اور غصہ دلائے گا، غصہ کسی اور کو نہیں، غصہ کرنے والے شخص کو سب سے پہلے نقصان پہنچاتا ہے۔

شیر بابا اور چیتا بابا دونوں ہم عمر اور 70سال سے اوپر کے بڑے بوڑھے ہیں۔ توقع یہ تھی کہ بڑے بوڑھے نہ اشتعال دلاتے ہیں، نہ اشتعال میں آتے ہیں مگر شیر بابا جان بوجھ کر اشتعال دلا رہا ہے اور چیتا بابا اشتعال میں آ رہا ہے۔ اصل میں شیر بابا نے ساری عمر میدانِ سیاست میں گزاری، اُسے دکھ ہے کہ کھیل کے میدان کا ایک نیا کھلاڑی، اسے سیاست میں کیسے ہرا گیا۔ شیر بابا کا خیال ہے کہ ریفری نے بےایمانی کی ورنہ سیاست میں چیتا اُسے ہرا نہیں سکتا تھا۔ تضادستان کی قسمت میں اِس نئی جنگ کو دیکھنا بھی لکھا ہے ہم کچھ بھی کر لیں۔ پنجاب میں اگلی جنگ شیر اور چیتے کے درمیان ہوگی۔ شیر کو علم ہے کہ اِس جنگ تک اُس نے اپنا ٹیمپو اتنا اٹھا کر رکھنا ہے کہ اس کا ووٹ بینک نہ صرف قائم رہے بلکہ پہلے سے بڑھے۔

چیتے اور شیر کی کہانی میں شیر چیتے کو غصہ دلا کر کیا فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے؟ اندازہ یہ ہے کہ غصے میں انسان غلطی پر غلطی کرتا ہے، شیر کی حکمت عملی یہ لگتی ہے اِس قدر جارحانہ گولہ باری کی جائے کہ حکومت اور ریاست میں جو اتحاد نظر آ رہا ہے وہ بکھر جائے۔ تاہم اس گولہ باری کا فوری نتیجہ تو یہ ہے کہ حکومت اور ریاست مزید اکٹھے ہو کر اپنے دفاع کو اور زیادہ مضبوط کررہے ہیں جبکہ بوڑھا شیر مسلسل گولے برسارہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح کوئی گولہ اس صفحے کو اُڑا دے جس پر سب اکٹھے ہیں، دیکھیں کس کی حکمت عملی کامیاب ہوتی ہے؟

چیتے کے لئے بہتر تو یہی ہوتا کہ وہ غصے کو تھوکتا، ہوش و خردسے کام لیتا، ڈیلیوری پر توجہ دیتا، مہنگائی، بیروزگاری اور افراطِ زر کو قابو میں لانے کے لئے پالیسیاں لاتا، سرکاری ملازموں کی حالت زار کا خیال کرتا یا کچھ ایسا کرتا کہ سب قائل ہوتے مگر چیتا غصہ ہو رہا ہے، پیچ و تاب کھا رہا ہے، شیر یہی تو چاہتا ہے کہ فضا میں سیاسی کشیدگی ہو، حکومت کی توجہ گورننس سے ہٹ جائے۔

جنگل کی عقل مند لومڑیاں اور پریشان گلہریاں ایک دوسرے سے پوچھ رہی ہیں جلسوں کے بعد کیا؟ دسمبر، جنوری میں ایسا کیا ہونے والا ہے جس کا بوڑھا شیر اور مریم شیرنی اظہار کر رہے ہیں؟ بظاہر کوئی حکومت جلسے جلوسوں سے نہیں جاتی اگر جونیجو اور جنرل ضیاء الحق 10اپریل 1986کے بےنظیر بھونچال کو برداشت کرکے قائم رہ گئے تھے تو پھر پی ڈی ایم کے جلسوں سے بھی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔ البتہ اپوزیشن جماعتوں کی ریلی خطرناک اقدام ہوگا۔ اگر واقعی اپوزیشن ایک بڑی ریلی اسلام آباد کی طرف لے کر آنے میں کامیاب ہوگئی تو اِس سے سارا نظامِ حکومت معطل ہو جائے گا اور اگر اِس ہجوم میں جارحانہ انداز ہوا تو شاید اِس سے جانی و مالی نقصانات بھی ہوں۔ ہمارے ہاں تو چند ہزار کی ریلی حکومت اور ریاست کی چولیں ہلا دیتی ہے اگر واقعی کوئی بڑی ریلی دارالحکومت آگئی تو اُس کا توڑ کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ جنگل کے جانور اِس طرح کا ڈیڈ لاک نہیں چاہتے، چرند پرند کو معلوم ہے کہ ایسی صورت میں ریاست کی معیشت بالکل بیٹھ جاتی ہے۔ ایسا پہلے بھی ہوا ہے اور اگر اِس بار ہوا تو ہمارا بولو رام ہو جائے گا۔ چیتا ایماندار ہے مگر غصے والا ہے، ناتجربہ کار ہے۔ ریاست کو دیکھنا یہ ہوگا کہ سیاسی تصادم اور وہ بھی پنجاب کی سیاسی اور ریاستی قوتوں کے درمیان، نیک شگون ثابت نہیں ہوگا۔

شیر اور چیتے کی لڑائی میں بظاہر چیتے کا لشکر بھاری ہے، فی الحال اسے ہاتھیوں، گھوڑوں اور پیادوں کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ دوسری طرف شیر کا انحصار پیادوں یا پھر ایسی شہ پر ہے جس کا مرکز ابھی ظاہر نہیں ہوا۔ جو لوگ بوڑھے شیر کو جانتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ آخری لڑائی میں آخری وار تب ہی کرتا ہے جب اُس نے پورا حساب کتاب لگا لیا ہوتا ہے۔ وہ چیتے کی طرح غصے میں ردِعمل نہیں دیتا بلکہ اپنے غصے کا اظہار صرف اُس وقت کرتا ہے جب اُس کی ٹائمنگ ٹھیک ہو۔ شطرنج کے سارے مبصرین دم سادھے بیٹھے ہیں کہ بوڑھے شیر کے پاس وہ خفیہ کارڈ کونسا ہے جس کی بنیاد پر وہ برسرپیکار ہے۔ وہ اِس وقت نہیں لڑا جب اقتدار سے نکالا گیا، تب بھی نہیں لڑا جب نااہل ہوا، اُس وقت بھی نہیں لڑا جب قید ہوا۔ اب آخر اُس کو کس کی شہ ملی ہے یا کونسا کارڈ ہاتھ آیا ہے کہ وہ پھر سے شیر ہو گیا ہے؟

کیا آس شیر کے پاس بھی اربوں روپے کی جائیداد کی منی ٹریل نہیں تھی جو دور پناہ لینآ پڑی؟؟؟

اور کیا اس شیر نے بھی بیماری کا فراڈ کر کے پناہ لی تھی؟؟؟
 

ahameed

Chief Minister (5k+ posts)
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جنگل کا حکمران چیتا، غصے میں آگیا۔ اُس نے تہیہ کر لیا کہ وہ اپنے مخالفوں کو سبق سکھا کر رہے گا۔ چیتے نے اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر کہا بوڑھا شیر اب میرے ہاتھ آئے تو چھٹی کا دودھ یاد دلائوں گا بلکہ تگنی کا ناچ نچائوں گا۔

اِس جنگل کا سابق بادشاہ بوڑھا شیر بہت چالاک ہے، وہ جنگل سے دور ایک محفوظ گھاٹی میں پناہ لئے ہوئے ہے۔ چیتے اور اُس کی فورس کا وہاں تک پہنچنا اور شیر کو قابو میں لانا مشکل ہے۔ شیر کو محفوظ گھاٹی میں بھیجنے کی غلطی بھی خود چیتے اور اُس کی وفادار کابینہ ہی سے ہوئی۔ یہ اب اپنے فیصلے پر پچھتاتے ہیں کہ ایسا کیا ہی کیوں؟ بوڑھا شیر جان بوجھ کر ایسے بیانات دیتا ہے کہ چیتے کو غصہ آئے اور وہ بھڑک اُٹھے کیونکہ غصے میں عقل جاتی رہتی ہے۔ بوڑھا شیر تجربہ کار ہے، پرانا کھلاڑی ہے، اُسے سیاست میں شاہ مات ہو گئی مگر وہ اگلی بازی سوچ سمجھ کر لگا رہا ہے، بساط پر اپنے پیادے آگے بڑھا رہا ہے۔ حیران کن یہ بات ہے کہ اُس نے بساط بچھتے ہی توپوں کا منہ کھول دیا ہے حالانکہ اصولاً تو پہلے پیادوں کی چھوٹی موٹی لڑائیاں ہونی چاہئیں۔ ہاتھی، گھوڑے اور توپیں تو لڑائی کے دوسرے مرحلے میں آزمائی جاتی ہیں لیکن شیر کو کوئی آس یا اُمید ہے یا پھر اُس کی حکمت عملی اِس لئے جارحانہ ہے کہ مخالفوں کو سنبھلنے کا موقع نہ ملے۔ اُس نے کھیل شروع ہوتے ہی توپوں کا منہ کھول کر براہِ راست طاقت کے مراکز پر گولے پھینکنا شروع کر دیے۔ شیر کی حکمت عملی کا نتیجہ یہ نکلا کہ چیتا غصے میں آ گیا اور وہ چیتا فورس کے ایک اجتماع میں بھڑک اُٹھا۔ شیر اِسے کامیابی سمجھتا ہے۔

شیر اور اُس کے اتحادیوں کے اوپر تلے گوجرانوالہ اور کراچی میں کامیاب جلسے ہو چکے، 11پارٹی اتحاد کے کارکنوں نے زور لگایا، اُن جلسوں کو ناکام کہنا سراسر زیادتی ہوگی مگر یہ جلسے 10اپریل 1986کے بےنظیر کے جلسے اور جلوس جیسا بھونچال بھی نہ تھے۔ افراط و تفریط سے ہٹ کر یہ کہنے دیجئے کہ یہ جلسے کارکنوں کے بھرپور اجتماعات تھے مگر اِس میں ٹوٹی جوتی اور پھٹے کپڑوں والا کشتگانِ خاک کا نمائندہ کم ہی نظر آیا۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ پہلے پہلے جلسے جلوس ہیں، ابھی ٹیمپو بن رہا ہے، آنے والے دنوں میں عام لوگ بھی اِن جلسے جلوسوں میں دلچسپی لینا شروع کر دیں گے اور اگلے مرحلے میں جلسے جلوس اور زیادہ بھرپور ہو جائیں گے۔

چیتا حکومت نے غصے میں آ کر کیپٹن صفدر کو کراچی میں ہی گرفتار کر لیا ہے۔ سب سے آخری حربہ مریم کی گرفتاری ہو سکتا ہے، اُس کے بعد حکومت کیا کر سکتی ہے؟ کیونکہ اُس کے علاوہ کوئی حربہ بچے گا ہی نہیں مگر حکومت کا جمہوری تشخص بری طرح پامال ہوگا، جیل میں بیٹھی مریم شیرنی بن جائے گی اور محفوظ پناہ گاہ میں بیٹھا بوڑھا شیر مزید گرم بیانات دے کر چیتا حکومت کو اور غصہ دلائے گا، غصہ کسی اور کو نہیں، غصہ کرنے والے شخص کو سب سے پہلے نقصان پہنچاتا ہے۔

شیر بابا اور چیتا بابا دونوں ہم عمر اور 70سال سے اوپر کے بڑے بوڑھے ہیں۔ توقع یہ تھی کہ بڑے بوڑھے نہ اشتعال دلاتے ہیں، نہ اشتعال میں آتے ہیں مگر شیر بابا جان بوجھ کر اشتعال دلا رہا ہے اور چیتا بابا اشتعال میں آ رہا ہے۔ اصل میں شیر بابا نے ساری عمر میدانِ سیاست میں گزاری، اُسے دکھ ہے کہ کھیل کے میدان کا ایک نیا کھلاڑی، اسے سیاست میں کیسے ہرا گیا۔ شیر بابا کا خیال ہے کہ ریفری نے بےایمانی کی ورنہ سیاست میں چیتا اُسے ہرا نہیں سکتا تھا۔ تضادستان کی قسمت میں اِس نئی جنگ کو دیکھنا بھی لکھا ہے ہم کچھ بھی کر لیں۔ پنجاب میں اگلی جنگ شیر اور چیتے کے درمیان ہوگی۔ شیر کو علم ہے کہ اِس جنگ تک اُس نے اپنا ٹیمپو اتنا اٹھا کر رکھنا ہے کہ اس کا ووٹ بینک نہ صرف قائم رہے بلکہ پہلے سے بڑھے۔

چیتے اور شیر کی کہانی میں شیر چیتے کو غصہ دلا کر کیا فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے؟ اندازہ یہ ہے کہ غصے میں انسان غلطی پر غلطی کرتا ہے، شیر کی حکمت عملی یہ لگتی ہے اِس قدر جارحانہ گولہ باری کی جائے کہ حکومت اور ریاست میں جو اتحاد نظر آ رہا ہے وہ بکھر جائے۔ تاہم اس گولہ باری کا فوری نتیجہ تو یہ ہے کہ حکومت اور ریاست مزید اکٹھے ہو کر اپنے دفاع کو اور زیادہ مضبوط کررہے ہیں جبکہ بوڑھا شیر مسلسل گولے برسارہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح کوئی گولہ اس صفحے کو اُڑا دے جس پر سب اکٹھے ہیں، دیکھیں کس کی حکمت عملی کامیاب ہوتی ہے؟

چیتے کے لئے بہتر تو یہی ہوتا کہ وہ غصے کو تھوکتا، ہوش و خردسے کام لیتا، ڈیلیوری پر توجہ دیتا، مہنگائی، بیروزگاری اور افراطِ زر کو قابو میں لانے کے لئے پالیسیاں لاتا، سرکاری ملازموں کی حالت زار کا خیال کرتا یا کچھ ایسا کرتا کہ سب قائل ہوتے مگر چیتا غصہ ہو رہا ہے، پیچ و تاب کھا رہا ہے، شیر یہی تو چاہتا ہے کہ فضا میں سیاسی کشیدگی ہو، حکومت کی توجہ گورننس سے ہٹ جائے۔

جنگل کی عقل مند لومڑیاں اور پریشان گلہریاں ایک دوسرے سے پوچھ رہی ہیں جلسوں کے بعد کیا؟ دسمبر، جنوری میں ایسا کیا ہونے والا ہے جس کا بوڑھا شیر اور مریم شیرنی اظہار کر رہے ہیں؟ بظاہر کوئی حکومت جلسے جلوسوں سے نہیں جاتی اگر جونیجو اور جنرل ضیاء الحق 10اپریل 1986کے بےنظیر بھونچال کو برداشت کرکے قائم رہ گئے تھے تو پھر پی ڈی ایم کے جلسوں سے بھی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔ البتہ اپوزیشن جماعتوں کی ریلی خطرناک اقدام ہوگا۔ اگر واقعی اپوزیشن ایک بڑی ریلی اسلام آباد کی طرف لے کر آنے میں کامیاب ہوگئی تو اِس سے سارا نظامِ حکومت معطل ہو جائے گا اور اگر اِس ہجوم میں جارحانہ انداز ہوا تو شاید اِس سے جانی و مالی نقصانات بھی ہوں۔ ہمارے ہاں تو چند ہزار کی ریلی حکومت اور ریاست کی چولیں ہلا دیتی ہے اگر واقعی کوئی بڑی ریلی دارالحکومت آگئی تو اُس کا توڑ کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ جنگل کے جانور اِس طرح کا ڈیڈ لاک نہیں چاہتے، چرند پرند کو معلوم ہے کہ ایسی صورت میں ریاست کی معیشت بالکل بیٹھ جاتی ہے۔ ایسا پہلے بھی ہوا ہے اور اگر اِس بار ہوا تو ہمارا بولو رام ہو جائے گا۔ چیتا ایماندار ہے مگر غصے والا ہے، ناتجربہ کار ہے۔ ریاست کو دیکھنا یہ ہوگا کہ سیاسی تصادم اور وہ بھی پنجاب کی سیاسی اور ریاستی قوتوں کے درمیان، نیک شگون ثابت نہیں ہوگا۔

شیر اور چیتے کی لڑائی میں بظاہر چیتے کا لشکر بھاری ہے، فی الحال اسے ہاتھیوں، گھوڑوں اور پیادوں کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ دوسری طرف شیر کا انحصار پیادوں یا پھر ایسی شہ پر ہے جس کا مرکز ابھی ظاہر نہیں ہوا۔ جو لوگ بوڑھے شیر کو جانتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ آخری لڑائی میں آخری وار تب ہی کرتا ہے جب اُس نے پورا حساب کتاب لگا لیا ہوتا ہے۔ وہ چیتے کی طرح غصے میں ردِعمل نہیں دیتا بلکہ اپنے غصے کا اظہار صرف اُس وقت کرتا ہے جب اُس کی ٹائمنگ ٹھیک ہو۔ شطرنج کے سارے مبصرین دم سادھے بیٹھے ہیں کہ بوڑھے شیر کے پاس وہ خفیہ کارڈ کونسا ہے جس کی بنیاد پر وہ برسرپیکار ہے۔ وہ اِس وقت نہیں لڑا جب اقتدار سے نکالا گیا، تب بھی نہیں لڑا جب نااہل ہوا، اُس وقت بھی نہیں لڑا جب قید ہوا۔ اب آخر اُس کو کس کی شہ ملی ہے یا کونسا کارڈ ہاتھ آیا ہے کہ وہ پھر سے شیر ہو گیا ہے؟

ویسے یہ بندہ کون ھے جو سفید جھوٹ بول رہے ہیں جناب کہ کھیل شروع ہوتے ہی۔۔۔۔۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ِحملے اہن آر او کی امید ختم ہونے کے بعد شروع ہوئے ہیں ۔۔۔۔


کیا میاں صاحب کو جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کے پانامہ لیکس اور 2018 کے الیکشن میں ملوث ہونے کا چار مہینے پہلے باجوہ کی ایکسٹینشن اور دو ہفتے پہلے زبیر صاحب کی ملاقات کے بعد پتہ چلا کہ جس میں این آر او دینے سے انکار ہوا تھا؟؟؟

اگر اس سوال کا جواب ڈھونڈ لیں گے تو آپ کی زندگی آسان ہو جائے گی ۔۔۔۔
 

khalilqureshi

Senator (1k+ posts)
Brother start writing for children. Writing on these topic is not your "Bus ka roug". There is at least one benefit if you write for children, you will make money. Spend your precious time for some monitory benefit.
 

Syaed

MPA (400+ posts)
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جنگل کا حکمران چیتا، غصے میں آگیا۔ اُس نے تہیہ کر لیا کہ وہ اپنے مخالفوں کو سبق سکھا کر رہے گا۔ چیتے نے اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر کہا بوڑھا شیر اب میرے ہاتھ آئے تو چھٹی کا دودھ یاد دلائوں گا بلکہ تگنی کا ناچ نچائوں گا۔

اِس جنگل کا سابق بادشاہ بوڑھا شیر بہت چالاک ہے، وہ جنگل سے دور ایک محفوظ گھاٹی میں پناہ لئے ہوئے ہے۔ چیتے اور اُس کی فورس کا وہاں تک پہنچنا اور شیر کو قابو میں لانا مشکل ہے۔ شیر کو محفوظ گھاٹی میں بھیجنے کی غلطی بھی خود چیتے اور اُس کی وفادار کابینہ ہی سے ہوئی۔ یہ اب اپنے فیصلے پر پچھتاتے ہیں کہ ایسا کیا ہی کیوں؟ بوڑھا شیر جان بوجھ کر ایسے بیانات دیتا ہے کہ چیتے کو غصہ آئے اور وہ بھڑک اُٹھے کیونکہ غصے میں عقل جاتی رہتی ہے۔ بوڑھا شیر تجربہ کار ہے، پرانا کھلاڑی ہے، اُسے سیاست میں شاہ مات ہو گئی مگر وہ اگلی بازی سوچ سمجھ کر لگا رہا ہے، بساط پر اپنے پیادے آگے بڑھا رہا ہے۔ حیران کن یہ بات ہے کہ اُس نے بساط بچھتے ہی توپوں کا منہ کھول دیا ہے حالانکہ اصولاً تو پہلے پیادوں کی چھوٹی موٹی لڑائیاں ہونی چاہئیں۔ ہاتھی، گھوڑے اور توپیں تو لڑائی کے دوسرے مرحلے میں آزمائی جاتی ہیں لیکن شیر کو کوئی آس یا اُمید ہے یا پھر اُس کی حکمت عملی اِس لئے جارحانہ ہے کہ مخالفوں کو سنبھلنے کا موقع نہ ملے۔ اُس نے کھیل شروع ہوتے ہی توپوں کا منہ کھول کر براہِ راست طاقت کے مراکز پر گولے پھینکنا شروع کر دیے۔ شیر کی حکمت عملی کا نتیجہ یہ نکلا کہ چیتا غصے میں آ گیا اور وہ چیتا فورس کے ایک اجتماع میں بھڑک اُٹھا۔ شیر اِسے کامیابی سمجھتا ہے۔

شیر اور اُس کے اتحادیوں کے اوپر تلے گوجرانوالہ اور کراچی میں کامیاب جلسے ہو چکے، 11پارٹی اتحاد کے کارکنوں نے زور لگایا، اُن جلسوں کو ناکام کہنا سراسر زیادتی ہوگی مگر یہ جلسے 10اپریل 1986کے بےنظیر کے جلسے اور جلوس جیسا بھونچال بھی نہ تھے۔ افراط و تفریط سے ہٹ کر یہ کہنے دیجئے کہ یہ جلسے کارکنوں کے بھرپور اجتماعات تھے مگر اِس میں ٹوٹی جوتی اور پھٹے کپڑوں والا کشتگانِ خاک کا نمائندہ کم ہی نظر آیا۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ پہلے پہلے جلسے جلوس ہیں، ابھی ٹیمپو بن رہا ہے، آنے والے دنوں میں عام لوگ بھی اِن جلسے جلوسوں میں دلچسپی لینا شروع کر دیں گے اور اگلے مرحلے میں جلسے جلوس اور زیادہ بھرپور ہو جائیں گے۔

چیتا حکومت نے غصے میں آ کر کیپٹن صفدر کو کراچی میں ہی گرفتار کر لیا ہے۔ سب سے آخری حربہ مریم کی گرفتاری ہو سکتا ہے، اُس کے بعد حکومت کیا کر سکتی ہے؟ کیونکہ اُس کے علاوہ کوئی حربہ بچے گا ہی نہیں مگر حکومت کا جمہوری تشخص بری طرح پامال ہوگا، جیل میں بیٹھی مریم شیرنی بن جائے گی اور محفوظ پناہ گاہ میں بیٹھا بوڑھا شیر مزید گرم بیانات دے کر چیتا حکومت کو اور غصہ دلائے گا، غصہ کسی اور کو نہیں، غصہ کرنے والے شخص کو سب سے پہلے نقصان پہنچاتا ہے۔

شیر بابا اور چیتا بابا دونوں ہم عمر اور 70سال سے اوپر کے بڑے بوڑھے ہیں۔ توقع یہ تھی کہ بڑے بوڑھے نہ اشتعال دلاتے ہیں، نہ اشتعال میں آتے ہیں مگر شیر بابا جان بوجھ کر اشتعال دلا رہا ہے اور چیتا بابا اشتعال میں آ رہا ہے۔ اصل میں شیر بابا نے ساری عمر میدانِ سیاست میں گزاری، اُسے دکھ ہے کہ کھیل کے میدان کا ایک نیا کھلاڑی، اسے سیاست میں کیسے ہرا گیا۔ شیر بابا کا خیال ہے کہ ریفری نے بےایمانی کی ورنہ سیاست میں چیتا اُسے ہرا نہیں سکتا تھا۔ تضادستان کی قسمت میں اِس نئی جنگ کو دیکھنا بھی لکھا ہے ہم کچھ بھی کر لیں۔ پنجاب میں اگلی جنگ شیر اور چیتے کے درمیان ہوگی۔ شیر کو علم ہے کہ اِس جنگ تک اُس نے اپنا ٹیمپو اتنا اٹھا کر رکھنا ہے کہ اس کا ووٹ بینک نہ صرف قائم رہے بلکہ پہلے سے بڑھے۔

چیتے اور شیر کی کہانی میں شیر چیتے کو غصہ دلا کر کیا فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے؟ اندازہ یہ ہے کہ غصے میں انسان غلطی پر غلطی کرتا ہے، شیر کی حکمت عملی یہ لگتی ہے اِس قدر جارحانہ گولہ باری کی جائے کہ حکومت اور ریاست میں جو اتحاد نظر آ رہا ہے وہ بکھر جائے۔ تاہم اس گولہ باری کا فوری نتیجہ تو یہ ہے کہ حکومت اور ریاست مزید اکٹھے ہو کر اپنے دفاع کو اور زیادہ مضبوط کررہے ہیں جبکہ بوڑھا شیر مسلسل گولے برسارہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح کوئی گولہ اس صفحے کو اُڑا دے جس پر سب اکٹھے ہیں، دیکھیں کس کی حکمت عملی کامیاب ہوتی ہے؟

چیتے کے لئے بہتر تو یہی ہوتا کہ وہ غصے کو تھوکتا، ہوش و خردسے کام لیتا، ڈیلیوری پر توجہ دیتا، مہنگائی، بیروزگاری اور افراطِ زر کو قابو میں لانے کے لئے پالیسیاں لاتا، سرکاری ملازموں کی حالت زار کا خیال کرتا یا کچھ ایسا کرتا کہ سب قائل ہوتے مگر چیتا غصہ ہو رہا ہے، پیچ و تاب کھا رہا ہے، شیر یہی تو چاہتا ہے کہ فضا میں سیاسی کشیدگی ہو، حکومت کی توجہ گورننس سے ہٹ جائے۔

جنگل کی عقل مند لومڑیاں اور پریشان گلہریاں ایک دوسرے سے پوچھ رہی ہیں جلسوں کے بعد کیا؟ دسمبر، جنوری میں ایسا کیا ہونے والا ہے جس کا بوڑھا شیر اور مریم شیرنی اظہار کر رہے ہیں؟ بظاہر کوئی حکومت جلسے جلوسوں سے نہیں جاتی اگر جونیجو اور جنرل ضیاء الحق 10اپریل 1986کے بےنظیر بھونچال کو برداشت کرکے قائم رہ گئے تھے تو پھر پی ڈی ایم کے جلسوں سے بھی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔ البتہ اپوزیشن جماعتوں کی ریلی خطرناک اقدام ہوگا۔ اگر واقعی اپوزیشن ایک بڑی ریلی اسلام آباد کی طرف لے کر آنے میں کامیاب ہوگئی تو اِس سے سارا نظامِ حکومت معطل ہو جائے گا اور اگر اِس ہجوم میں جارحانہ انداز ہوا تو شاید اِس سے جانی و مالی نقصانات بھی ہوں۔ ہمارے ہاں تو چند ہزار کی ریلی حکومت اور ریاست کی چولیں ہلا دیتی ہے اگر واقعی کوئی بڑی ریلی دارالحکومت آگئی تو اُس کا توڑ کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ جنگل کے جانور اِس طرح کا ڈیڈ لاک نہیں چاہتے، چرند پرند کو معلوم ہے کہ ایسی صورت میں ریاست کی معیشت بالکل بیٹھ جاتی ہے۔ ایسا پہلے بھی ہوا ہے اور اگر اِس بار ہوا تو ہمارا بولو رام ہو جائے گا۔ چیتا ایماندار ہے مگر غصے والا ہے، ناتجربہ کار ہے۔ ریاست کو دیکھنا یہ ہوگا کہ سیاسی تصادم اور وہ بھی پنجاب کی سیاسی اور ریاستی قوتوں کے درمیان، نیک شگون ثابت نہیں ہوگا۔

شیر اور چیتے کی لڑائی میں بظاہر چیتے کا لشکر بھاری ہے، فی الحال اسے ہاتھیوں، گھوڑوں اور پیادوں کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ دوسری طرف شیر کا انحصار پیادوں یا پھر ایسی شہ پر ہے جس کا مرکز ابھی ظاہر نہیں ہوا۔ جو لوگ بوڑھے شیر کو جانتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ آخری لڑائی میں آخری وار تب ہی کرتا ہے جب اُس نے پورا حساب کتاب لگا لیا ہوتا ہے۔ وہ چیتے کی طرح غصے میں ردِعمل نہیں دیتا بلکہ اپنے غصے کا اظہار صرف اُس وقت کرتا ہے جب اُس کی ٹائمنگ ٹھیک ہو۔ شطرنج کے سارے مبصرین دم سادھے بیٹھے ہیں کہ بوڑھے شیر کے پاس وہ خفیہ کارڈ کونسا ہے جس کی بنیاد پر وہ برسرپیکار ہے۔ وہ اِس وقت نہیں لڑا جب اقتدار سے نکالا گیا، تب بھی نہیں لڑا جب نااہل ہوا، اُس وقت بھی نہیں لڑا جب قید ہوا۔ اب آخر اُس کو کس کی شہ ملی ہے یا کونسا کارڈ ہاتھ آیا ہے کہ وہ پھر سے شیر ہو گیا ہے؟


ایک دفعہ کا زکر ہے کہ ایک حاملہ گدھی کے جسم والا ایک لفافی کالم لکھنا شروع کر دیتا ہے۔اب ایک ایسی جسامت والا شخص کتنی سیاسی بصیرت والا ہوسکتا ہے یہ ہر کوئی اندازہ لگا سکتا ہے۔کبھی وہ کہتا ہے کہ جلسے بس ٹھیک ہی تھے اور کبھی وہ کہتا ہے کہ کامیاب تھے؟بندہ پوچھے کہ جس مریم نواز کو گھر سے بھاگنے کی جلدی ہو اور اقتدار تک پہنچنے کی بھی جلدی ہو کیا وہ درست فیصلے کرسکتی ہے؟مگر کھانے پینے کا شوق اس آوٹ پٹانگ جسم والے لفافی سے اسی طرح کی غلط حرکتیں کرواتا ہے۔کبھی یہ تو ہین آمیز اور بے ہودہ کالم لکھ کے کوشش کی کہ حکومت غصے میں آکے مجھے اٹھالے مگر حکومت نے اس گدھے کو بالکل ہی اگنور کردیا جس پہ اس نے وہی چھپے ہوئے کالم دوبارہ چھاپے اور کور اتنا توہین آمیز بنایا کہ شاید برطانیہ جیسے ملک میں بھی اسے نہ چھاپا جاتا مگر وہاں انہوں نے شور ڈال دیا کہ ہماری کتاب زبردستی اٹھاکی گئی ہے مگر بعد میں پتہ چلا کہ کتاب تو سرے سے بھیجی ہی نہیں گئی تھی سو اٹھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔اب ایسے بندے سے آپ اسی طرح کے کالم کی ہی توقع رکھ سکتے ہیں۔اس کو میں یہی کہتا ہوں کہ موٹے گدھے”کھلے میں ہگنا بند کرو موٹے”۔
 

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)

ابے اسی جنگل کے جنگلی ڈاگ! تو اپنی اوقات میں رہنا کب سیکھے گا ؟؟؟
تین یا دو نہیں....... بلکہ صرف ایک پانجے کی مار ہے تو
پیؤ دے جنگل دیاں ساریاں کانیہاں لخنا پلھ جائیں گا
 

MADdoo

Minister (2k+ posts)
kis jahil ne bola k us kagaz k shair k pass koi card aia ha.

uski body language bta rae ha us k pas bkwas karne k ilawa kuch ni. kisi harami journalist ne uski us media talk ka koi analysis ni kia jis me wo "back engineering" ki batain kar ra tha.
In that video uski body language clear bta rae thee wo is time fully pagal ho chuka ha., frustration akheer p hai, jhootay claims kar ra hai. minatain kar ra.
Uski halat us old uncle jesi thee jis ne sri zindagi kuch dhang ka kaam na kia ho, lakin jab 70 ka ho jae to saray khandan k achay kaamo ka credit us k pass hota ha.
 

Sonya Khan

Minister (2k+ posts)
Most probably Nawaz Sharif has been made to think by endian propagandists that they can help him if he spews venom against Pak Army ...... Little did Nawaz Sharif know that endians are a nation of scammers who will scam anything and everyone.......
Nawaz Sharif has actually dug his own and whole Sharif clan grave ..... Rather ..... he is busy digging the grave of Bhuttos too ..... :)
 

Eyeaan

Chief Minister (5k+ posts)
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جنگل کا حکمران چیتا، غصے میں آگیا۔ اُس نے تہیہ کر لیا کہ وہ اپنے مخالفوں کو سبق سکھا کر رہے گا۔ چیتے نے اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر کہا بوڑھا شیر اب میرے ہاتھ آئے تو چھٹی کا دودھ یاد دلائوں گا بلکہ تگنی کا ناچ نچائوں گا۔

اِس جنگل کا سابق بادشاہ بوڑھا شیر بہت چالاک ہے، وہ جنگل سے دور ایک محفوظ گھاٹی میں پناہ لئے ہوئے ہے۔ چیتے اور اُس کی فورس کا وہاں تک پہنچنا اور شیر کو قابو میں لانا مشکل ہے۔ شیر کو محفوظ گھاٹی میں بھیجنے کی غلطی بھی خود چیتے اور اُس کی وفادار کابینہ ہی سے ہوئی۔ یہ اب اپنے فیصلے پر پچھتاتے ہیں کہ ایسا کیا ہی کیوں؟ بوڑھا شیر جان بوجھ کر ایسے بیانات دیتا ہے کہ چیتے کو غصہ آئے اور وہ بھڑک اُٹھے کیونکہ غصے میں عقل جاتی رہتی ہے۔ بوڑھا شیر تجربہ کار ہے، پرانا کھلاڑی ہے، اُسے سیاست میں شاہ مات ہو گئی مگر وہ اگلی بازی سوچ سمجھ کر لگا رہا ہے، بساط پر اپنے پیادے آگے بڑھا رہا ہے۔ حیران کن یہ بات ہے کہ اُس نے بساط بچھتے ہی توپوں کا منہ کھول دیا ہے حالانکہ اصولاً تو پہلے پیادوں کی چھوٹی موٹی لڑائیاں ہونی چاہئیں۔ ہاتھی، گھوڑے اور توپیں تو لڑائی کے دوسرے مرحلے میں آزمائی جاتی ہیں لیکن شیر کو کوئی آس یا اُمید ہے یا پھر اُس کی حکمت عملی اِس لئے جارحانہ ہے کہ مخالفوں کو سنبھلنے کا موقع نہ ملے۔ اُس نے کھیل شروع ہوتے ہی توپوں کا منہ کھول کر براہِ راست طاقت کے مراکز پر گولے پھینکنا شروع کر دیے۔ شیر کی حکمت عملی کا نتیجہ یہ نکلا کہ چیتا غصے میں آ گیا اور وہ چیتا فورس کے ایک اجتماع میں بھڑک اُٹھا۔ شیر اِسے کامیابی سمجھتا ہے۔

شیر اور اُس کے اتحادیوں کے اوپر تلے گوجرانوالہ اور کراچی میں کامیاب جلسے ہو چکے، 11پارٹی اتحاد کے کارکنوں نے زور لگایا، اُن جلسوں کو ناکام کہنا سراسر زیادتی ہوگی مگر یہ جلسے 10اپریل 1986کے بےنظیر کے جلسے اور جلوس جیسا بھونچال بھی نہ تھے۔ افراط و تفریط سے ہٹ کر یہ کہنے دیجئے کہ یہ جلسے کارکنوں کے بھرپور اجتماعات تھے مگر اِس میں ٹوٹی جوتی اور پھٹے کپڑوں والا کشتگانِ خاک کا نمائندہ کم ہی نظر آیا۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ پہلے پہلے جلسے جلوس ہیں، ابھی ٹیمپو بن رہا ہے، آنے والے دنوں میں عام لوگ بھی اِن جلسے جلوسوں میں دلچسپی لینا شروع کر دیں گے اور اگلے مرحلے میں جلسے جلوس اور زیادہ بھرپور ہو جائیں گے۔

چیتا حکومت نے غصے میں آ کر کیپٹن صفدر کو کراچی میں ہی گرفتار کر لیا ہے۔ سب سے آخری حربہ مریم کی گرفتاری ہو سکتا ہے، اُس کے بعد حکومت کیا کر سکتی ہے؟ کیونکہ اُس کے علاوہ کوئی حربہ بچے گا ہی نہیں مگر حکومت کا جمہوری تشخص بری طرح پامال ہوگا، جیل میں بیٹھی مریم شیرنی بن جائے گی اور محفوظ پناہ گاہ میں بیٹھا بوڑھا شیر مزید گرم بیانات دے کر چیتا حکومت کو اور غصہ دلائے گا، غصہ کسی اور کو نہیں، غصہ کرنے والے شخص کو سب سے پہلے نقصان پہنچاتا ہے۔

شیر بابا اور چیتا بابا دونوں ہم عمر اور 70سال سے اوپر کے بڑے بوڑھے ہیں۔ توقع یہ تھی کہ بڑے بوڑھے نہ اشتعال دلاتے ہیں، نہ اشتعال میں آتے ہیں مگر شیر بابا جان بوجھ کر اشتعال دلا رہا ہے اور چیتا بابا اشتعال میں آ رہا ہے۔ اصل میں شیر بابا نے ساری عمر میدانِ سیاست میں گزاری، اُسے دکھ ہے کہ کھیل کے میدان کا ایک نیا کھلاڑی، اسے سیاست میں کیسے ہرا گیا۔ شیر بابا کا خیال ہے کہ ریفری نے بےایمانی کی ورنہ سیاست میں چیتا اُسے ہرا نہیں سکتا تھا۔ تضادستان کی قسمت میں اِس نئی جنگ کو دیکھنا بھی لکھا ہے ہم کچھ بھی کر لیں۔ پنجاب میں اگلی جنگ شیر اور چیتے کے درمیان ہوگی۔ شیر کو علم ہے کہ اِس جنگ تک اُس نے اپنا ٹیمپو اتنا اٹھا کر رکھنا ہے کہ اس کا ووٹ بینک نہ صرف قائم رہے بلکہ پہلے سے بڑھے۔

چیتے اور شیر کی کہانی میں شیر چیتے کو غصہ دلا کر کیا فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے؟ اندازہ یہ ہے کہ غصے میں انسان غلطی پر غلطی کرتا ہے، شیر کی حکمت عملی یہ لگتی ہے اِس قدر جارحانہ گولہ باری کی جائے کہ حکومت اور ریاست میں جو اتحاد نظر آ رہا ہے وہ بکھر جائے۔ تاہم اس گولہ باری کا فوری نتیجہ تو یہ ہے کہ حکومت اور ریاست مزید اکٹھے ہو کر اپنے دفاع کو اور زیادہ مضبوط کررہے ہیں جبکہ بوڑھا شیر مسلسل گولے برسارہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح کوئی گولہ اس صفحے کو اُڑا دے جس پر سب اکٹھے ہیں، دیکھیں کس کی حکمت عملی کامیاب ہوتی ہے؟

چیتے کے لئے بہتر تو یہی ہوتا کہ وہ غصے کو تھوکتا، ہوش و خردسے کام لیتا، ڈیلیوری پر توجہ دیتا، مہنگائی، بیروزگاری اور افراطِ زر کو قابو میں لانے کے لئے پالیسیاں لاتا، سرکاری ملازموں کی حالت زار کا خیال کرتا یا کچھ ایسا کرتا کہ سب قائل ہوتے مگر چیتا غصہ ہو رہا ہے، پیچ و تاب کھا رہا ہے، شیر یہی تو چاہتا ہے کہ فضا میں سیاسی کشیدگی ہو، حکومت کی توجہ گورننس سے ہٹ جائے۔

جنگل کی عقل مند لومڑیاں اور پریشان گلہریاں ایک دوسرے سے پوچھ رہی ہیں جلسوں کے بعد کیا؟ دسمبر، جنوری میں ایسا کیا ہونے والا ہے جس کا بوڑھا شیر اور مریم شیرنی اظہار کر رہے ہیں؟ بظاہر کوئی حکومت جلسے جلوسوں سے نہیں جاتی اگر جونیجو اور جنرل ضیاء الحق 10اپریل 1986کے بےنظیر بھونچال کو برداشت کرکے قائم رہ گئے تھے تو پھر پی ڈی ایم کے جلسوں سے بھی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔ البتہ اپوزیشن جماعتوں کی ریلی خطرناک اقدام ہوگا۔ اگر واقعی اپوزیشن ایک بڑی ریلی اسلام آباد کی طرف لے کر آنے میں کامیاب ہوگئی تو اِس سے سارا نظامِ حکومت معطل ہو جائے گا اور اگر اِس ہجوم میں جارحانہ انداز ہوا تو شاید اِس سے جانی و مالی نقصانات بھی ہوں۔ ہمارے ہاں تو چند ہزار کی ریلی حکومت اور ریاست کی چولیں ہلا دیتی ہے اگر واقعی کوئی بڑی ریلی دارالحکومت آگئی تو اُس کا توڑ کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ جنگل کے جانور اِس طرح کا ڈیڈ لاک نہیں چاہتے، چرند پرند کو معلوم ہے کہ ایسی صورت میں ریاست کی معیشت بالکل بیٹھ جاتی ہے۔ ایسا پہلے بھی ہوا ہے اور اگر اِس بار ہوا تو ہمارا بولو رام ہو جائے گا۔ چیتا ایماندار ہے مگر غصے والا ہے، ناتجربہ کار ہے۔ ریاست کو دیکھنا یہ ہوگا کہ سیاسی تصادم اور وہ بھی پنجاب کی سیاسی اور ریاستی قوتوں کے درمیان، نیک شگون ثابت نہیں ہوگا۔

شیر اور چیتے کی لڑائی میں بظاہر چیتے کا لشکر بھاری ہے، فی الحال اسے ہاتھیوں، گھوڑوں اور پیادوں کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ دوسری طرف شیر کا انحصار پیادوں یا پھر ایسی شہ پر ہے جس کا مرکز ابھی ظاہر نہیں ہوا۔ جو لوگ بوڑھے شیر کو جانتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ آخری لڑائی میں آخری وار تب ہی کرتا ہے جب اُس نے پورا حساب کتاب لگا لیا ہوتا ہے۔ وہ چیتے کی طرح غصے میں ردِعمل نہیں دیتا بلکہ اپنے غصے کا اظہار صرف اُس وقت کرتا ہے جب اُس کی ٹائمنگ ٹھیک ہو۔ شطرنج کے سارے مبصرین دم سادھے بیٹھے ہیں کہ بوڑھے شیر کے پاس وہ خفیہ کارڈ کونسا ہے جس کی بنیاد پر وہ برسرپیکار ہے۔ وہ اِس وقت نہیں لڑا جب اقتدار سے نکالا گیا، تب بھی نہیں لڑا جب نااہل ہوا، اُس وقت بھی نہیں لڑا جب قید ہوا۔ اب آخر اُس کو کس کی شہ ملی ہے یا کونسا کارڈ ہاتھ آیا ہے کہ وہ پھر سے شیر ہو گیا ہے؟

ٹی وی بیٹھ کر چند الووں نے بک بک کی کہ غصے میں بات کی ہے اور چند لوگ ان الووں کی بک بک دھرانے لگے ۔۔ خان پچیس سال سے سیاست میں ہے اور خوب جانتا ہے کہ کب کیا کہنا ہے ۔۔ الووں کی بک بک کی کچھ ضرورت مہیں اور نہ انکے مشورے یا تبصرے کا کچھ مطلب ہے۔ اور نہ انکا بولا سچ ، سچ ہے۔​
 

Husaink

Prime Minister (20k+ posts)
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جنگل کا حکمران چیتا، غصے میں آگیا۔ اُس نے تہیہ کر لیا کہ وہ اپنے مخالفوں کو سبق سکھا کر رہے گا۔ چیتے نے اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر کہا بوڑھا شیر اب میرے ہاتھ آئے تو چھٹی کا دودھ یاد دلائوں گا بلکہ تگنی کا ناچ نچائوں گا۔

اِس جنگل کا سابق بادشاہ بوڑھا شیر بہت چالاک ہے، وہ جنگل سے دور ایک محفوظ گھاٹی میں پناہ لئے ہوئے ہے۔ چیتے اور اُس کی فورس کا وہاں تک پہنچنا اور شیر کو قابو میں لانا مشکل ہے۔ شیر کو محفوظ گھاٹی میں بھیجنے کی غلطی بھی خود چیتے اور اُس کی وفادار کابینہ ہی سے ہوئی۔ یہ اب اپنے فیصلے پر پچھتاتے ہیں کہ ایسا کیا ہی کیوں؟ بوڑھا شیر جان بوجھ کر ایسے بیانات دیتا ہے کہ چیتے کو غصہ آئے اور وہ بھڑک اُٹھے کیونکہ غصے میں عقل جاتی رہتی ہے۔ بوڑھا شیر تجربہ کار ہے، پرانا کھلاڑی ہے، اُسے سیاست میں شاہ مات ہو گئی مگر وہ اگلی بازی سوچ سمجھ کر لگا رہا ہے، بساط پر اپنے پیادے آگے بڑھا رہا ہے۔ حیران کن یہ بات ہے کہ اُس نے بساط بچھتے ہی توپوں کا منہ کھول دیا ہے حالانکہ اصولاً تو پہلے پیادوں کی چھوٹی موٹی لڑائیاں ہونی چاہئیں۔ ہاتھی، گھوڑے اور توپیں تو لڑائی کے دوسرے مرحلے میں آزمائی جاتی ہیں لیکن شیر کو کوئی آس یا اُمید ہے یا پھر اُس کی حکمت عملی اِس لئے جارحانہ ہے کہ مخالفوں کو سنبھلنے کا موقع نہ ملے۔ اُس نے کھیل شروع ہوتے ہی توپوں کا منہ کھول کر براہِ راست طاقت کے مراکز پر گولے پھینکنا شروع کر دیے۔ شیر کی حکمت عملی کا نتیجہ یہ نکلا کہ چیتا غصے میں آ گیا اور وہ چیتا فورس کے ایک اجتماع میں بھڑک اُٹھا۔ شیر اِسے کامیابی سمجھتا ہے۔

شیر اور اُس کے اتحادیوں کے اوپر تلے گوجرانوالہ اور کراچی میں کامیاب جلسے ہو چکے، 11پارٹی اتحاد کے کارکنوں نے زور لگایا، اُن جلسوں کو ناکام کہنا سراسر زیادتی ہوگی مگر یہ جلسے 10اپریل 1986کے بےنظیر کے جلسے اور جلوس جیسا بھونچال بھی نہ تھے۔ افراط و تفریط سے ہٹ کر یہ کہنے دیجئے کہ یہ جلسے کارکنوں کے بھرپور اجتماعات تھے مگر اِس میں ٹوٹی جوتی اور پھٹے کپڑوں والا کشتگانِ خاک کا نمائندہ کم ہی نظر آیا۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ پہلے پہلے جلسے جلوس ہیں، ابھی ٹیمپو بن رہا ہے، آنے والے دنوں میں عام لوگ بھی اِن جلسے جلوسوں میں دلچسپی لینا شروع کر دیں گے اور اگلے مرحلے میں جلسے جلوس اور زیادہ بھرپور ہو جائیں گے۔

چیتا حکومت نے غصے میں آ کر کیپٹن صفدر کو کراچی میں ہی گرفتار کر لیا ہے۔ سب سے آخری حربہ مریم کی گرفتاری ہو سکتا ہے، اُس کے بعد حکومت کیا کر سکتی ہے؟ کیونکہ اُس کے علاوہ کوئی حربہ بچے گا ہی نہیں مگر حکومت کا جمہوری تشخص بری طرح پامال ہوگا، جیل میں بیٹھی مریم شیرنی بن جائے گی اور محفوظ پناہ گاہ میں بیٹھا بوڑھا شیر مزید گرم بیانات دے کر چیتا حکومت کو اور غصہ دلائے گا، غصہ کسی اور کو نہیں، غصہ کرنے والے شخص کو سب سے پہلے نقصان پہنچاتا ہے۔

شیر بابا اور چیتا بابا دونوں ہم عمر اور 70سال سے اوپر کے بڑے بوڑھے ہیں۔ توقع یہ تھی کہ بڑے بوڑھے نہ اشتعال دلاتے ہیں، نہ اشتعال میں آتے ہیں مگر شیر بابا جان بوجھ کر اشتعال دلا رہا ہے اور چیتا بابا اشتعال میں آ رہا ہے۔ اصل میں شیر بابا نے ساری عمر میدانِ سیاست میں گزاری، اُسے دکھ ہے کہ کھیل کے میدان کا ایک نیا کھلاڑی، اسے سیاست میں کیسے ہرا گیا۔ شیر بابا کا خیال ہے کہ ریفری نے بےایمانی کی ورنہ سیاست میں چیتا اُسے ہرا نہیں سکتا تھا۔ تضادستان کی قسمت میں اِس نئی جنگ کو دیکھنا بھی لکھا ہے ہم کچھ بھی کر لیں۔ پنجاب میں اگلی جنگ شیر اور چیتے کے درمیان ہوگی۔ شیر کو علم ہے کہ اِس جنگ تک اُس نے اپنا ٹیمپو اتنا اٹھا کر رکھنا ہے کہ اس کا ووٹ بینک نہ صرف قائم رہے بلکہ پہلے سے بڑھے۔

چیتے اور شیر کی کہانی میں شیر چیتے کو غصہ دلا کر کیا فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے؟ اندازہ یہ ہے کہ غصے میں انسان غلطی پر غلطی کرتا ہے، شیر کی حکمت عملی یہ لگتی ہے اِس قدر جارحانہ گولہ باری کی جائے کہ حکومت اور ریاست میں جو اتحاد نظر آ رہا ہے وہ بکھر جائے۔ تاہم اس گولہ باری کا فوری نتیجہ تو یہ ہے کہ حکومت اور ریاست مزید اکٹھے ہو کر اپنے دفاع کو اور زیادہ مضبوط کررہے ہیں جبکہ بوڑھا شیر مسلسل گولے برسارہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح کوئی گولہ اس صفحے کو اُڑا دے جس پر سب اکٹھے ہیں، دیکھیں کس کی حکمت عملی کامیاب ہوتی ہے؟

چیتے کے لئے بہتر تو یہی ہوتا کہ وہ غصے کو تھوکتا، ہوش و خردسے کام لیتا، ڈیلیوری پر توجہ دیتا، مہنگائی، بیروزگاری اور افراطِ زر کو قابو میں لانے کے لئے پالیسیاں لاتا، سرکاری ملازموں کی حالت زار کا خیال کرتا یا کچھ ایسا کرتا کہ سب قائل ہوتے مگر چیتا غصہ ہو رہا ہے، پیچ و تاب کھا رہا ہے، شیر یہی تو چاہتا ہے کہ فضا میں سیاسی کشیدگی ہو، حکومت کی توجہ گورننس سے ہٹ جائے۔

جنگل کی عقل مند لومڑیاں اور پریشان گلہریاں ایک دوسرے سے پوچھ رہی ہیں جلسوں کے بعد کیا؟ دسمبر، جنوری میں ایسا کیا ہونے والا ہے جس کا بوڑھا شیر اور مریم شیرنی اظہار کر رہے ہیں؟ بظاہر کوئی حکومت جلسے جلوسوں سے نہیں جاتی اگر جونیجو اور جنرل ضیاء الحق 10اپریل 1986کے بےنظیر بھونچال کو برداشت کرکے قائم رہ گئے تھے تو پھر پی ڈی ایم کے جلسوں سے بھی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔ البتہ اپوزیشن جماعتوں کی ریلی خطرناک اقدام ہوگا۔ اگر واقعی اپوزیشن ایک بڑی ریلی اسلام آباد کی طرف لے کر آنے میں کامیاب ہوگئی تو اِس سے سارا نظامِ حکومت معطل ہو جائے گا اور اگر اِس ہجوم میں جارحانہ انداز ہوا تو شاید اِس سے جانی و مالی نقصانات بھی ہوں۔ ہمارے ہاں تو چند ہزار کی ریلی حکومت اور ریاست کی چولیں ہلا دیتی ہے اگر واقعی کوئی بڑی ریلی دارالحکومت آگئی تو اُس کا توڑ کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ جنگل کے جانور اِس طرح کا ڈیڈ لاک نہیں چاہتے، چرند پرند کو معلوم ہے کہ ایسی صورت میں ریاست کی معیشت بالکل بیٹھ جاتی ہے۔ ایسا پہلے بھی ہوا ہے اور اگر اِس بار ہوا تو ہمارا بولو رام ہو جائے گا۔ چیتا ایماندار ہے مگر غصے والا ہے، ناتجربہ کار ہے۔ ریاست کو دیکھنا یہ ہوگا کہ سیاسی تصادم اور وہ بھی پنجاب کی سیاسی اور ریاستی قوتوں کے درمیان، نیک شگون ثابت نہیں ہوگا۔

شیر اور چیتے کی لڑائی میں بظاہر چیتے کا لشکر بھاری ہے، فی الحال اسے ہاتھیوں، گھوڑوں اور پیادوں کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ دوسری طرف شیر کا انحصار پیادوں یا پھر ایسی شہ پر ہے جس کا مرکز ابھی ظاہر نہیں ہوا۔ جو لوگ بوڑھے شیر کو جانتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ آخری لڑائی میں آخری وار تب ہی کرتا ہے جب اُس نے پورا حساب کتاب لگا لیا ہوتا ہے۔ وہ چیتے کی طرح غصے میں ردِعمل نہیں دیتا بلکہ اپنے غصے کا اظہار صرف اُس وقت کرتا ہے جب اُس کی ٹائمنگ ٹھیک ہو۔ شطرنج کے سارے مبصرین دم سادھے بیٹھے ہیں کہ بوڑھے شیر کے پاس وہ خفیہ کارڈ کونسا ہے جس کی بنیاد پر وہ برسرپیکار ہے۔ وہ اِس وقت نہیں لڑا جب اقتدار سے نکالا گیا، تب بھی نہیں لڑا جب نااہل ہوا، اُس وقت بھی نہیں لڑا جب قید ہوا۔ اب آخر اُس کو کس کی شہ ملی ہے یا کونسا کارڈ ہاتھ آیا ہے کہ وہ پھر سے شیر ہو گیا ہے؟

لگتا ہے یہ کالم اس نے غصے میں ہی لکھ مارا ہے اور اپنا سارا خبث باطن باہر نکا ل کر رکھ دیا ہے
 

rmunir

Minister (2k+ posts)
جنگل کا بادشاہ چیتا؟؟؟

لگتا ہے شیر غبن کرنے کی وجہ سے بیماری کا ڈرامہ کرکے لندن کے جنگلات کو سدھار گیا ہے۔ جو جب تک یہاں تھا بھیگی بلی بنا ہوا تھا، اپنے وطن اور اپنے گھر پہنچ کرکتے کی طرح شیر ہوگیا ہے۔ اور اپنے حرام کی کمائی سے بنائے ہوئے محلات میں بیٹھا چنگاڑ رہا ہے۔ اور اسکی یہ چنگاڑ ویڈیو لنگ سے پاکستان پہنچنے تک گیڈر بھبکی بن چکی ہوتی ہے۔ ہمیشہ سنتے آئے ہیں کہ جنگل کا بادشاہ شیر ہوتا ہے۔ مگر اس بھگوڑے شیر کا ایک مالشیا باندر یہاں بیٹھا اپنے مالک کی چاپلوسی کیلئے "جنگل کے بادشاہ شیر" کی کہانی میں سے شیر نکال کر چیتے کو بادشاہ کے طور لے آیا ہے۔ یعنی چاپلوسی میں سب کچھ جائز ہے۔
 
Last edited: