بھئی ہمیں تو پڑھایا اور بتایا گیا تھا کہ غازی علم الدین نے راجپال کو قتل کرنے کے بعد بڑی بہادری کے ساتھ عدالت میں اپنا جرم قبول کیا تھا ۔ پر یہ تو معاملہ ہی الٹ نکلا۔ علم الدین تو عدالت میں راجپال کے قتل سے ہی مکر گیا تھا۔۔ ملاحظہ کیجئے۔علم الدین کا 1929 میں عدالت میں دیا گیا حلف نامہ جس میں وہ اپنے جرم سے صاف مکر جاتا ہے۔
یہ تو اوقات ہے ان نام نہاد عاشقانِ رسول کی۔۔۔ دوسروں کو تو بڑے مزے سے قتل کردیتے ہیں، پر جب اپنی موت سامنے نظر آتی ہے تو سارا عشقِ رسول ہوا ہوجاتا ہے۔۔
اردو ترجمہ
ممتاز قادری بھی موت کو سامنے دیکھ کر صدارتی رحم کی بھیک مانگتا رہا۔ اب یہ خالد نامی قاتل ہے، ذرا اس کو بھی سزا ہولینے دیں، یہ بھی رحم رحم کی بھیک مانگتا نظر آئے گا۔۔۔