حامد میر نے اپنے حالیہ کالم میں دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان کے رونے کے دن شروع ہوگئے ہیں۔ اپنے کالم میں حامد میر نے نوازشریف کو "ہیرو" اور عمران خان کو "ولن" قرار دیا
حامد میر کا کہنا ہے کہ فلم آخری مراحل میں ہے۔ فلم کے آخری مراحل میں اتنے زیادہ سیاسی جھٹکے آئیں گے کہ آپ کی چیخیں بھی نکل سکتی ہیں لیکن آخر میں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ہیرو ولن اور ولن ہیرو بن جائے گا۔ ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کو یقین ہے کہ یہ فلم بہت سے سیاسی مغالطے ختم کر دے گی اور اس فلم کا اسکرپٹ رائٹر اصل ہیرو بن کر سامنے آئےگا لہٰذا ’’آگے کیا ہوگا، آگے کیا ہوگا‘‘ پوچھنا بند کیجئے۔ خاموشی سے فلم دیکھئے کیونکہ ’’دی اینڈ‘‘ بہت دردناک ہے اور انہیں رلائے گا، جو کہتے تھے ’’میں تمہیں بہت رُلائوں گا‘‘۔
نوازشریف سے متعلق حامد میر نے دعویٰ کیا کہ
یہ جانے والا تین دفعہ وزیراعظم بنا اور تیسری دفعہ واپس آنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس سزا یافتہ مجرم کا جہاز پر چڑھنا بھی حیران کن ہے اور اس کی واپسی بھی حیران کن ہو گی۔ واپسی سے پہلے اینٹی کلائمکس شروع ہو چکا ہوگا اور آپ کو ہر طرف بدنامیوں کا گرد و غبار نظر آئے
حامد میر نے لکھا کہ پاکستان کی سیاست ایکشن اور سسپنس سے بھرپور فلم کی طرح ہم سب کو حیران و پریشان کئے ہوئے ہے۔ کچھ پتا نہیں چلتا کہ اس فلم کا ہیرو کون ہے اور ولن کون۔ کبھی ہیرو کے جذباتی ڈائیلاگ سن کر ہمیں ریاستِ مدینہ یاد آتی ہے لیکن جیسے ہی ہیرو یوٹرن مارتا ہے تو وہ ولن بن جاتا ہے اور پبلک اسے بُرا بھلا کہنے لگتی ہے۔ اس فلم کے اکثر واقعات ناقابلِ یقین ہیں۔ ایک ولن کو لٹیروں کا سردار قرار دیکر گرفتار کیا جاتا ہے، عدالت اسے سزا بھی سنا دیتی ہے اور یہ ولن جیل میں قید ہو جاتا ہے۔ اچانک پتا چلتا ہے کہ ولن کسی پُراسرار بیماری کا شکار ہو گیا ہے۔ اسے اسپتال لایا جاتا ہے، ڈاکٹر کہتے ہیں وہ ولن کا علاج نہیں کر سکتے، اسے علاج کیلئے سات سمندر پار لے جائو۔ چند ہی لمحوں میں ماحول بدل جاتا ہے۔ سزا یافتہ ولن اپنے بھائی کے ساتھ بیرونِ ملک روانہ ہوکر ہیرو بن جاتا ہے اور جو تھوڑی دیر پہلے تک ہیرو تھا، وہ مخالفین کی نقلیں اتار اتار کر اپنی خفت مٹانے لگتا ہے۔
حامد میر نے دعویٰ کیا کہ یہ فلم اپنے اختتامی مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ بہت سے ناظرین خاموشی سے فلم کے ’’دی اینڈ‘‘ کا انتظار کرنے کے بجائے دائیں بائیں سے پوچھ رہے ہیں ’’اب آگے کیا ہوگا؟‘
حامد میر نے اپنے کالم میں عمران خان کیلئے یہ شعر پڑھا
ابتدائے عشق ہے، روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے، ہوتا ہے کیا
حامد میر کا مکمل کالم پڑھنے کیلئے اس لنک پر کلک کریں