عمران خان کا قومی قرضے پر کمیشن کا اعلان: نواز اور زرداری حکومتوں نے کتنا قرضہ لیا تھا؟

mhafeez

Chief Minister (5k+ posts)
وزیراعظم عمران خان نے بجٹ پیش کیے جانے کے بعد قوم سے اپنے خطاب میں اعلان کیا کہ وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے گذشتہ ادوارِ حکومت میں ملکی قرضوں میں 24 ہزار ارب روپے کے اضافے کی وجوہات جاننے کے لیے اعلیٰ اختیاراتی کمیشن بنائیں گے۔

ظاہر ہے کہ عمران خان کی نگرانی میں کام کرنے والا یہ کمیشن اُس وقت کی سیاسی قیادت، مثلاً کابینہ کے اراکین سے پوچھ سکتا ہے کہ ایسے کیا حالات تھے اتنے زیادہ قرضے لینے کی منظوری دی گئی۔

اب حفیظ شیخ (وزیرِ خزانہ 2010 تا 2013) سے عمران خان یہ سوال کابینہ کے اجلاس میں پوچھیں گے یا علیحدہ میں، یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر یہ کمیشن کن قرضوں کے بارے میں پوچھ گچھ کرے گا، یہ معاملہ قدرے دلچسپ ہے۔

اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں پاکستان کے قرضوں کی نوعیت کو سمجھنا پڑے گا۔

قرضوں کی کہانیاں

ملکی قرضے میں کیا کیا شامل ہوتا ہے؟

پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ جب کہا جاتا ہے کہ پاکستان پر اتنا قرضہ ہے تو اس میں عموماً حکومتی قرضے کے ساتھ ساتھ دیگر قرضے مثلاً نجی شعبے کا بیرونی قرضہ، حکومتی واجبات، پبلک سیکٹر کمپنیوں کے قرض وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں۔

ان میں کچھ ایسے بھی بیرونی قرضے ہوتے ہیں جو کہ حکومت نے ادا نہیں کرنے ہوتے بلکہ ان کا ذمہ دار نجی شعبہ ہوتا ہے مگر انھیں ملک کے کُل قرضوں میں اس لیے گِنا جاتا ہے کیونکہ پیسے تو آپ کے ملک سے ہی جانے ہیں۔

اب چلتے ہیں وزیراعظم عمران خان کے بیان کی جانب۔


_107358903_8e8bc2a7-e72c-4bcf-b370-597745348084.jpg

سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے قرضوں میں حکومتی قرضہ، نجی بیرونی قرضہ جات، اور دیگر کئی چیزیں شامل ہوتی

سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2007-08 کے اختتام سے مالی سال 2017-18 کے اختتام تک پاکستان کے کُل قرض میں 49 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا اور وہ 46.2 ارب ڈالر سے بڑھ کر 95.2 ارب ڈالر ہو گیا۔ بظاہر تو یہ سو فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہے۔

اس 49 ارب ڈالر میں سے پیپلزپارٹی کے دور میں یعنی 2008 سے 2013 کے درمیان 14.7 ارب ڈالر جبکہ گزشتہ دورِ حکومت یعنی مسلم لیگ ن کے دور میں 34.3 ارب ڈالر قرض لیا گیا۔

تحریکِ انصاف کی حکومت کے ابتدائی سات مہینوں میں پاکستان کا کل قرض 95.2 ارب سے بڑھ کر 105.8 ارب ڈالر ہو گیا ہے جو کہ 10.6 ارب ڈالر کے لگ بھگ اضافہ ہے۔

ان قرضوں میں حکومت کے ملکی بینکوں سے لیے گئے قرضے، نجی کمپنیوں کے بیرونی قرضے، پبلک سیکٹر کمپنیوں کے ضمانت اور بغیر ضمانت والے قرضے بھی شامل ہیں۔

مثالاً سعودی عرب اگر آج پاکستان کو اپنے زرِ مبادلہ کے ذخائر بہتر کرنے کے لیے تین یا چار ارب ڈالر دے، اور وہ قرضے کی مد میں نہ ہو، مگر پھر بھی وہ پاکستان کے واجبات میں گنا جائے گا۔

مگر اگر ہم باقی باتیں چھوڑ کر صرف دو چیزوں، یعنی حکومت کا بیرونی قرضہ اور آئی ایم ایف سے لیا گیا قرضہ گنیں، تو کہانی تھوڑی سی مختلف ہے۔

_107360019_revisedgraph.png

Economic Survey of Pakistan

اگر ہم صرف حکومت کا بیرونی قرضہ اور آئی ایم ایف سے لیا گیا قرضہ جمع کریں تو مالی سال 2007-2008 کے اختتام سے مالی سال 2017-18 کے اختتام تک یہ 41.8 ارب ڈالر سے بڑھ کر 70.2 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔

اگر 2008 سے 2013 تک پیپلز پارٹی کے دور کو دیکھا جائے تو اس دوران اس میں 6.3 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا جبکہ مسلم لیگ نواز کے دور میں یہ رقم 48.1 ارب ڈالر سے بڑھ کر 70.2 ارب ڈالر تک جا پہنچی جو کہ 22.1 ارب ڈالر کا اضافہ ہے۔

اگست 2018 میں تحریکِ انصاف کے برسرِاقتدار آنے کے بعد ابتدائی سات ماہ میں پاکستان کے حکومتی قرضوں میں چار ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔

قرضہ بڑھا تو دونوں طرح ہے، تو پھر فرق کیا پڑتا ہے؟

اس بحث میں پڑے بغیر کہ یہ اضافہ جائز تھا یا نہیں، یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ عمران خان اب کنٹینر پر نہیں، وزیرِاعظم ہاؤس میں بیٹھے ہیں اور ان کے بیانات سٹاک مارکیٹ سے لے کر ملک کی شرحِ نمو تک ہلا سکتے ہیں۔

اگر وزیراعظم کے بیان سے یہ تاثر آیے کہ گذشتہ دو حکومتوں نے 24 ہزار ارب روپے کے قرضے لیے ہیں تو یہ شاید درست نہیں ہو گا۔

ایک اور بات اہم ہے اور وہ یہ کہ پیپلز پارٹی کے دور میں پرائیویٹ سیکٹر نے بیرونِ ملک سے 1.26 ارب ڈالر قرضے لیے مگر نواز شریف کے دور میں پرائیویٹ سیکٹر نے بیرونِ ملک سے 6.05 ارب ڈالر کے قرضے لیے۔ پرائیویٹ سیکٹر کے قرضے لینے کو عموماً ایک مثبت اشارہ سمجھا جاتا ہے کہ معیشت میں تیزی آ رہی ہے اور نواز دور میں اس کی ایک وجہ شاید سی پیک سے منسلک سرمایہ کاری ہو سکتی ہے۔

کیا پچھلی حکومتوں نے بہت مہنگے قرضے لیے؟
حکومتی کمیشن بننے سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ پاکستان کی ماضی کی حکومتوں نے بدنیتی کے ساتھ پاکستان کے لیے بہت مہنگے قرضے لیے۔

اُس وقت قرض لینے کی کیا وجوہات تھیں یا کون سی مجبوریاں یا ضروریات تھیں جنھیں پورا کرنا تھا، یہ تو ایک طویل بحث ہے اور کمیشن بھی ممکنہ طور پر اس کا جائزہ لے گا تاہم فی الوقت اس بات کا جائزہ ضرور لیا جا سکتا ہے کہ حکومتی قرضوں پر سود کی شرح عالمی قیمتوں سے مطابقت رکھتی تھی یا نہیں۔

پاکستان کو کس شرح سود پر قرضے ملتے ہیں، اس کے تعین میں بہت سے عناصر کارفرما ہوتے ہیں، جیسا کہ عالمی سطح پر شرح سود اور قرضہ دینے والوں کے خیال میں پاکستان کی اُن قرضوں کی واپسی کی صلاحیت وغیرہ۔ مگر ذیل دیے گئے گراف سے ہم دو نتائج اخذ کر سکتے ہیں:

_107360017_027c0193-b8f8-46a6-a9d9-82d20d30cb15.png
  1. تاریخی تناظر میں پاکستان کو ملنے والے قرضوں کی اوسط شرحِ سود تقریباً اتنی ہی رہی جتنی یہ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے لیے تھی۔
  2. 2013 کے بعد سے رجحان دیکھیں تو پاکستان کو ملنے والے قرضوں پر شرحِ سود جنوبی ایشیا کے مقابلے میں زیادہ رہی۔
2008-2018 کے دوران پاکستان نے کتنا سود ادا کیا ہے؟
اس حوالے سے وزیرِاعظم عمران خان کی یہ بات بالکل بجا ہے کہ حکومت جتنا ٹیکس اکھٹا کرتی ہے، اس کا ایک بڑا حصہ سود کی ادائیگیوں میں لگ جاتا ہے۔

اگر کُل ادائیگیاں گنی جائیں تو پاکستان نے جون 2009 سے مارچ 2019 تک قرضے کی اصل رقم (یعنی پرنسپل) میں سے 37 ارب 211 ملین ڈالر ادا کیے ہیں اور اسی دوران 13 ارب 452 ملین ڈالر سود کی شکل میں دیے۔

یہاں ہم ادائیگیاں ڈالروں میں اس لیے گنتے ہیں کیونکہ یہ ڈالروں کی شکل میں ہی کی جاتی ہیں اور روپے کی قدر میں اضافے یا کمی سے ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

مگر اگر اسی دورانیے میں ہم صرف حکومتی قرضے، آئی ایم ایف، اور زرِمبادلہ کے واجبات کے حوالے سے پرنسپل ادائیگی اور سود کو دیکھیں (یعنی پبلک سکیٹر کمپنیوں کے قرضے یا نجی کمپنیوں کے بیرونی قرضہ جات وغیر وغیرہ جیسے چیزیں نکال دیں) تو اصل رقم 31 ارب 263 ملین ہے اور سود 11 ارب 372 ملین ہے۔

اب بات یہ ہے کہ جو واجب الادا ہے وہ تو دینا پڑے گا یعنی اس مسئلے سے نکلنے کا پاکستان کے پاس ایک ہی حل ہے کہ اپنی آمدنی اور ٹیکس کلیکشن بڑھائی جائے۔ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کے لائحہِ عمل پر تو سوال اٹھائے جا سکتے ہیں مگر سمت پر نہیں۔ یہ ان کی حکومت کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور انھوں نے اس بارے میں متعدد بیان بھی دیے ہیں۔

ماہرینِ معیشت میں ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ قرضہ کتنا ہے اس سے ملکوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اٹلی اور امریکہ جیسے کئی ممالک ہیں جن کے قرضوں مجموعی قومی پیداوار کے مقابلہ میں شرح کافی زیادہ ہوتی ہے۔

اصل بات ہوتی ہے کہ ملک کی معیشت کا انجن چلتا رہے اور اتنا کام کرتا رہے کہ قرضوں کی ادائیگی ہوتی رہے۔ لوگ کمائیں گے تو ٹیکس دیں گے نا۔ اب عمران خان کی حکومت ٹیکس جمع کرنے کے عمل میں تو بہتری لانے کی کوشش کر رہی ہے مگر معیشت کا انجن کس حد تک زور پکڑتا ہے، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔


BBC
 

imisa2

Senator (1k+ posts)
پچھلی دونوں حکومتیں نااہل تھیں۔ یہ حکومت ان سے بڑھ کر نااہل ہے۔ پچھلی حکومت نے بھی صنعتی پیداوار بڑھانے کے لئے کچھ نہیں کیا اور اس حکومت سے تو کسی بھی شعبے میں کچھ نہیں ہو رہا تو معیشت کا انجن کہاں زور پکڑے گا۔ ہمارے سیاستدان کرپٹ سخت نااہل اور ویژن لیس ہیں۔
 

mhafeez

Chief Minister (5k+ posts)
جب نون لیگ نے حکومت سنبھالی تو ملک دہشت گردی اور توانائی کے بدترین بحران سے دوچار تھا ، ملکی معیشت کا انجن چلانے کیلئے ان دونوں بحرانوں سے نمٹنا زندگی اور موت کا مسئلہ تھا قرض نہ لیتے تو کیا کرتے؟؟ جتنا قرض پچھلی دو حکومتوں نے لیا اس کا ایک تہائی اس حکومت نے صرف دس ماہ میں لے لیا ہے یہی صورتحال رہی تو جتنا قرض پچھلی دو حکومتوں نے لیا اتنا یہ حکومت پہلے تین سال میں لےلے گی

پچھلی حکومت نے ڈیویلوپمینٹ کی ، دہشت گردی ختم کی اس حکومت نے تو ایسا کچھ بھی نہیں کیا تو قرضہ کہاں خرچ ہورہا ہے؟؟
 

RajaRawal111

Prime Minister (20k+ posts)
جب نون لیگ نے حکومت سنبھالی تو ملک دہشت گردی اور توانائی کے بدترین بحران سے دوچار تھا ، ملکی معیشت کا انجن چلانے کیلئے ان دونوں بحرانوں سے نمٹنا زندگی اور موت کا مسئلہ تھا قرض نہ لیتے تو کیا کرتے؟؟ جتنا قرض پچھلی دو حکومتوں نے لیا اس کا ایک تہائی اس حکومت نے صرف دس ماہ میں لے لیا ہے یہی صورتحال رہی تو جتنا قرض پچھلی دو حکومتوں نے لیا اتنا یہ حکومت پہلے تین سال میں لےلے گی

پچھلی حکومت نے ڈیویلوپمینٹ کی ، دہشت گردی ختم کی اس حکومت نے تو ایسا کچھ بھی نہیں کیا تو قرضہ کہاں خرچ ہورہا ہے؟؟

کوئی ضرورت نہیں ہے یار ان مفلوج ذہنوں کو یہ باتیں بتانے کی - یہ ٹرک کی بتی پیچھے بھاگنے والی مخلوق ہے - ایک اور دے دی گی ہے ان کو
 

mhafeez

Chief Minister (5k+ posts)
پچھلی دونوں حکومتیں نااہل تھیں۔ یہ حکومت ان سے بڑھ کر نااہل ہے۔ پچھلی حکومت نے بھی صنعتی پیداوار بڑھانے کے لئے کچھ نہیں کیا اور اس حکومت سے تو کسی بھی شعبے میں کچھ نہیں ہو رہا تو معیشت کا انجن کہاں زور پکڑے گا۔ ہمارے سیاستدان کرپٹ سخت نااہل اور ویژن لیس ہیں۔

پچھلے دور حکومت میں لارج سکیل پیداوار تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھی ایوبی دور سے بھی زیادہ
 

imisa2

Senator (1k+ posts)
پچھلے دور حکومت میں لارج سکیل پیداوار تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھی ایوبی دور سے بھی زیادہ
ایک سوال ہے۔ پچھی حکومت کے دور میں کتنی فارن انویسٹمنٹ ہوئی اور کتنی نئی صنعتیں ملک میں لگیں؟
 

imisa2

Senator (1k+ posts)
پچھلے دور حکومت میں لارج سکیل پیداوار تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھی ایوبی دور سے بھی زیادہ
لیجیے یہ پانچ سال کا کچا چٹھا ہے

In 2017, Pakistan ranked 147 out of 190 countries on the World Bank's 'Ease of Doing Business Index', a metric that measures how conducive regulatory and infrastructure environments are to allowing private enterprise to flourish.

The challenges faced by industry have seen Pakistani exports drop from $25bn in 2013 to $22bn in 2017, according to central bank data, stretching Pakistan's foreign exchange reserves and putting further stress on the country's current account deficit.

"To put the external sector in a more sustainable footing it will be important to address constraints to exports' competitiveness, including an overvalued exchange rate, a weak investment environment and a trade policy that at times hurts rather than supports exports," says Enrique Blanco Armos, the World Bank's lead economist on Pakistan.

All of that means that there is a larger, familiar crisis on the horizon.
 

Munawarkhan

Chief Minister (5k+ posts)
جب نون لیگ نے حکومت سنبھالی تو ملک دہشت گردی اور توانائی کے بدترین بحران سے دوچار تھا ، ملکی معیشت کا انجن چلانے کیلئے ان دونوں بحرانوں سے نمٹنا زندگی اور موت کا مسئلہ تھا قرض نہ لیتے تو کیا کرتے؟؟ جتنا قرض پچھلی دو حکومتوں نے لیا اس کا ایک تہائی اس حکومت نے صرف دس ماہ میں لے لیا ہے یہی صورتحال رہی تو جتنا قرض پچھلی دو حکومتوں نے لیا اتنا یہ حکومت پہلے تین سال میں لےلے گی

پچھلی حکومت نے ڈیویلوپمینٹ کی ، دہشت گردی ختم کی اس حکومت نے تو ایسا کچھ بھی نہیں کیا تو قرضہ کہاں خرچ ہورہا ہے؟؟

Chalo man liya qarza 2013 main Pakistan ki zarorat tha.

But 2018 main qarzay ki kyon zarorat par gayee? Seedhi baat hai PMLN absolutely failed in their economic policies in 5 years and left the country in huge deficit.