عصر حاضر میں میڈیا کا کردار

Osama Altaf

MPA (400+ posts)

اسامہ الطاف ۔ جدہ
عصر حاضر میں میڈیا کا کردار

کائنات کے وجودسے عصر حاضر تک عوام الناس کو حالات کے ادراک اور روز مرہ کے مشاغل سے ہٹ کر باہر کی دنیا سے ربط کے مختلف طریقے رائج رہے۔ موجودہ دور میں کام میڈیا سر انجام دے رہا ہے،اور کیونکہ میڈیا عوام کے ذہنوں تک رسائی کا سہل طریقہ اور افکار کا رخ موڑنے کا آسان آلہ ہے اس لیے میڈدیا پر روز اول سے ہی عالمی طاقتوں کی خاص نظر رہی ہے۔
وطن عزیز میں آج سے 30 سال قبل تک عوام صرف ایک ہی میڈیا چینل 'پی ٹی وی' کو جانتی تھی،لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جب قومی چینل کو حکمرانوں کے ذاتی مفادات نے گھیر لیا اور 'پی ٹی وی 'اپنے صحافتی فرائض انجام دینے کے بجائے حکمرانوں کے غلط کو صحیح اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے میں مصروف ہو گیا تو نجی ٹی وی چینل سامنے آئے، نجی چینلز نے بہت جلد ہی عوام کے دلوں میں جگہ بنالی ،آزادی صحافت کے اصول کے مطابق میڈیا چینلز نے عوام کے سامنے حکومتی پالیسیوں کے پول کھول دیے،کرپشن کے کیسز بے نقاب ہوگئے اور کسی حدتک میڈیا نےغریب عوام کے مسائل ایوان ا*قتدار تک بھی پہنچائے۔لیکن ان کاموں پس پردہ :میڈیا چینلز کو عالمی طاقتوں نےاپنی خدمت کے لیے مسخر کردیا،اور پوری دنیا کا میڈیا مخصوص لابیوں کے لیے مختص ہوگیا۔

پاکستان کے مشہور صحافی اور سینیئر بیورو کریٹ اوریا مقبول جان میڈیا کے کردار پر جہت دلچسپ تبصرہ کرتے ہیں،"اوریا مقبول جان کے مطابق میڈیا ایک جھوٹ دھوکہ اور فریب ہے،اسکا استدلال وہ رسول اللہ ۖ کی حدیث (( دجال کی آمد سے پہلے کے چند سال دھوکہ کے سال ہوں گے)) سے کرتے ہیں۔اوریا صاحب اپنی تحقیق کی بنا پرمزید یہ کہتے ہیں کہ دنیا کا 97٪ میڈیا تین بڑی کمپنیوں کے ملکیت ہے،یہ کمپنیاں یہودی مفادات کی محافظ ہے" ۔یہ مسلمانوں کا المیہ ہے کہ ہم باوجود تنزلی اور برے حالات کے خود غرضی سے آزاد نہیں ہوسکے،ہماری ساری محنت ساری صلاحیتوں کا محور ،اپنی اور اپنے گھر والوں کی زندگی آسان بنانا ہوتا ہے،یہی وجہ کہ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں مسلمانوں کی بڑی تعداد ہونے کے باوجود دنیا میں سب سے زیادہ غربت کا شکار بھی مسلمان ہیں،اسکے برعکس باطل فرقے اور ادیان اپنی نسلوں کو اپنے باطل دین کی اشاعت اور کے لیے تیار کرتے ہیں ،اور پورے معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں،جس کی ایک مثال یہودیوں کا عالمی میڈیا پر قابض ہونا ہے۔

اوریا مقبول عالمی میڈیا کو خریدنے والی دوسری بڑی کمپنی کا ایجنڈا بیان کرتے ہیں: اس کمپنی کا ایجنڈا چار نکات پر مشتمل ہے،جس پر کمپنی کے زیر اثر چینلز کو عمل درآمد کرنا ضروری ہے

الیکٹرونیک اور تیز موسیقی کو عام کرنا، تاکہ لوگوں کی طبیعیت میں موسیقی اور رقص سماں جائے،اور تیز موسیقی کےاثر سے لوگ سوچنے سے قاصر رہے۔
کسی ملک میں کوئی عوامی رہنما سامنے آئے تو اس کےکردار کو مجروح کرنا اوراس کو دنیا کے سامنے مجرم بناکر پیش کرنا۔
عوام کے دلوں میں یہ بات بٹھادینا کہ دنیا میں جو کچھ ہورہا ہیں عالمی طاقتوں کی مرضی سے ہورہا ہے،اور ان کی رضا اور خوشی کے بغیر کچھ ہونا نا ممکن ہے۔اس نکتہ کا اثر عوام پر اس طرح ہوا کہ عوام میں مایوسی پھیل گئی،اور عوام کا یقین اللہ کی ذات کے بجائے امریکا پر ہوگیا حتی کہ بعض نادان تو یہ بھی کہ دیتے ہیں کہ" امریکا پوری دنیا کا بادشاہ ہے" یا "امریکا کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا" ان تاثرات سے جہاں عوام کےاللہ پر یقین میں کمی آتی ہے وہی عوام کو دین اور ملک کے لیے جدوجہد نہ کرنے کا بہانہ بھی مل جاتا ہے،کہ جب ہر چیز امریکا کی مرضی سے ہوتی ہے تو ہماری محنت کا کیا فائدہ
فحاشی کو اتنا عام کردینا کہ فحاشی عیب ہی محسوس نہ ہو



اگر ہم اپنی میڈیا پر صبح سے شام تک کے پروگرامز اور نشریات دیکھے تو ہمارے اکثر پروگرامز کا محور اوپر ذکر کیے گئے چار نکتوں کے گرد گھومتا نظرآ ئے گا،صبح کے مارننگ شوز میں تو موسیقی اور فحاشی دونوں ہی عنصر واضح ہوتے ہیں،اسکے علاوہ مارننگ شومی غیروں کی تہذیب کا پرچارکھلے عام کیا جاتا ہے۔شام کو مختلف ٹاک شوز میں ملک کے مسائل پر کفتگو ہوتی ہے،لیکن میڈیا پر ایسے "دانشوروں "کی کمی نہیں ہے جودہشتگردی سمیت ملک کے ہر مسئلہ کا ذمہ دار علما ،مدارس اور دیندار لوگوں کو ٹہراتے ہیں،کیونکہ مدارس کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے بے حیائی کے طوفان میں مذہبی اقدار کی حفاظت کی ،اور حقوق نسواں اور آزادی اظہار رائے جیسے کھوکھلے نعروں کے دھوکہ میں آنے سے انکار کردیا،اور کچھ نہیں تو کم از کم لبرلز کے چمپئن پرویز مشرف کی طرح چند ڈالروں کی خاطر ملک اور قوم کی اثاثے تو ضائع نہیں کیے۔
عالمی میڈیا کے مکروہ ایجنڈے کو واضح کرکے اوریا مقبول جان فرزندان اسلام سے درخواست کرتے ہیں کہ" میڈیا آج کے دور کا مؤثر ترین ہتھیار ہے،اور یہ ناممکن ہے کہ دشمن اپنا ہتھیار ہمیں تھما دے،اس لیے ہمیں اپنا ہتھیار خود بنانا ہوگا" ۔حقیقتا یہ امر انتہائی ضروری ہے کہ ہمیں عالمی سازشوں میں گھرے ہوئے اپنے دین اور وطن کو بچانے کے لیے خود آگے آنا ہوگا،ورنہ اگرہم اپنی چار دیواری کے گرنے کے خوف سے باہر نہ نکلنے تو ایک دن یہ چار دیواری ہمیں اپنی ہی نیچے دھنسا دیگی۔

نوٹ: وہ صحافی حضرات جو خلوص نیت سے ملک کی خدمت اور عوام میں سیاسی شعور بیدار کرنے کے لیے محنت کررہے ہیں ان کی خدمات قبل داد ہے،اور ان کی نیتوں پر شک کرنا درست نہیں،کیونکہ خود اوریا مقبول جان ایک صحافی ہے۔
[email protected]
 
Last edited by a moderator: