عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ رہنا چاہیے؟

Hunain Khalid

Chief Minister (5k+ posts)

209716_4261626_updates.JPG


وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد خان بزدار کے ساتھ میری تعیناتی سے پہلے مجھے میاں شہباز شریف کے دور میں بھی ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ اگست 2018 میں جب عثمان بزدار نے پنجاب کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے حلف اٹھایا تو میرے لیے پنجاب کے ایک ایسے وزیراعلیٰ کی جگہ جو 10 برس سے صوبہ پر حکومت کر رہا ہو، ایک اجنبی اور ناتجربہ کار شخصیت کا اس کے متبادل کے طور پر قبول کرنا ایک ناقابل یقین تصور تھا۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ میں شہباز شریف کا شیدائی تھا بلکہ گزرے دو انتخابات کے بعد صوبائی ایوان میں آنے والی شخصیات میں سے کسی دوسرے کو اس عہدے کے لیے اہل نہیں سمجھتا تھا۔

وزیراعلیٰ بزدار کے لیے ناصرف میڈیا بلکہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کا ان کی بطور صوبائی وزیراعلیٰ تعیناتی کے بارے میں مجموعی تاثرات اور ماحول سازگار نہ تھے اور ان کی اہلیت پر سوال اٹھائے جارہے تھے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ پنجاب کی حزب اختلاف سے زیادہ خود بزدار صاحب کی جماعت کے اہم رہنما ان کے خلاف بیانات دے رہے تھے۔ اور ایک ایسے وقت میں کہ جب پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی عمران خان کے اس فیصلے کے سے ناخوش تھے اور خود اپنے پیروں پر کلہاڑیاں چلانے میں مصروف تھے، عثمان بزدار نے وہ کام کرنا شروع کر دیا جس کے لیے انہیں خان صاحب نے ٹاسک دیا اور منتخب کیا تھا۔

میں بلا جھجک یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اپنے پورے سروس کیریئر کے دوران عثمان بزدار جیسا بے لوث اور شریف النفس صوبائی سربراہ نہیں دیکھا ۔ میڈیا انٹرویو ہوں یا صحافیوں کے سوالات، سیاسی اجتماعات ہوں یا پارٹی میٹنگز انہوں نے وزیراعلیٰ کے طور پر اپنے مستقبل کے بارے میں شکوک و شبہات اور رہنماووں کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات پر ان کا رد عمل ہمیشہ سادہ مگر پراعتماد ہوتا۔ میرے نزدیک اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عثمان بزدار اقتدار کے بھوکے نہیں اور نا ہی ان کے ذاتی مفادات ہیں۔ نا ہی وہ لالچی اور خود غرض انسان ہیں اور ناہی ان میں صحیح اورغلط طریقوں سے "مال بنانے" کی خواہش۔ لہذا وہ صوبے کی خدمت کرنے کے لیے ایک بہترین پوزیشن میں ہیں۔

صوبے کے لیے ان کی بے لوث خدمت اور آنے والے برسوں کیلئے اٹھائے جانے والے صوبائی ترقی کے اقدامات کا میں خود شاہد ہوں۔ اب سوال یہ ہے کہ عثمان بزدار کو صوبائی سربراہ کے عہدے سے ہٹانا کیوں درست قدم نہیں ہوگا ؟ تو اس سوال کے جواب میں ناقابل تردید دلائل دیے جا سکتے ہیں۔
پہلے نمبر پر یہ کہ اپنے صرف ایک سالہ دور میں صوبائی حکومت نے ان کی سرباراہی میں ہسپتالوں میں 9000 بستر وں کے اضافے کے علاوہ 72 لاکھ خاندانوں میں مفت طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے صحت کارڈ تقسیم کیے۔ ان کی حکومت نے 12 ماہ کے قلیل عرصے میں صوبے بھر کے 40 ضلعی اور تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتالوں کی تعمیر نو پر قابل ستائش انداز میں کام کیا۔ یہی نہیں بلکہ جدید طبی سہولیات سے آراستہ بڑے منصوبے مکمل کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ ان منصوبوں میں صوبے کے پسماندہ اضلاع میں 9 بڑے اسپتال تعمیر کیے جارہے ہیں جن میں لیہ ، راجن پور، بہاول پور، میانوالی اور اٹک میں 200 بستروں پر مشتمل صرف ماں اور بچوں کے مخصوص اسپتال بھی شامل ہیں ۔
عثمان بزدار کو پنجاب کے پسماندہ علاقوں کے تعلیمی مسائل کا بخوبی اندازہ ہے لہذا انہوں نے اس بات کو یقینی بنانےکے لیے صوبے کے ہر ضلعے میں کم از کم ایک یونیورسٹی بنانے کے لیے 8 نئی اعلی تعلیمی درسگاہوں کے قیام کا اعلان کیا۔


ان میں سے دو یونیورسٹیوں میں تعلیمی عمل شروع ہو چکا ہے جبکہ باقی یونیورسٹیوں اور انسٹیٹیوٹ کی تکمیل پر کام تیزی سے جاری ہے۔ اس کے ساتھ ہی صوبے بھر میں 43 نئے کالج تعمیر کرنے کے منصوبے پر کام جاری ہے۔ اس کے علاوہ پسماندہ طبقے کے لیے تعلیمی سہولیات کی با آسانی فراہمی کے لیے دوپہر کے اسکول، ماڈل اسکول اور موجودہ اسکول کی عمارتوں میں اضافی کلاس روم بھی تعمیر کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جارہے ہیں ۔


پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار متعدد صنعتی علاقوں کو خصوسی اقتصافی رون کا درجہ دیا گیا ہے اور ان اسپیشل اکنامک زونز کے بننے سے ایک اندازے کے مطابق 250،000 سے زائد لوگوں کو ملازمت کے مواقع ملیں گے۔ پچھلی حکومتوں نے 3 جبکہ عثمان بزدار کے دور میں 10 اسپیشل اکنامک زونز پر کام جاری ہے، ان میں نجی زونز بھی شامل ہیں۔ جو نہ صرف اپنی نوعیت کا پہلا اقدام ہے بلکہ پورے صوبے کے لیے گیم چینجر ثابت ہو گا۔ وزیراعلیٰ کے 9 ارب روپے کے آسان قرضوں کی اسکیم سے نئے کاروبار شروع کرنے والے نوجوان اور باہنر لڑکے لڑکیوں کے ساتھ موجودہ چھوٹے کاروباری افراد کو اپنے کاروبار کو ترقی دینے کا موقع ملے گا جس سے 5 لاکھ سے زیادہ ملازمتیں پیدا ہونگی۔

یہ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے دور حکومت میں نئے اور موجودہ بڑے صنعتوں اور تعلیمی اداروں کی بحالی کی چند مثالیں ہیں جبکہ ابھی بہت کچھ سامنے آنا باقی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے سیاسی میدان کے وسیم اکرم پلس اب اپنی پوری فارم میں کام کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ ان کی موجودہ کارکردگی اور منصوبہ بندی کو سامنے رکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ بالکل اسی طرح نہایت ذمہ داری سے کام کررہے ہیں جیسے ان کی تعیناتی کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے امید لگائی ہوگی ۔

میں عثمان بزدار کو قریب سے دیکھنے کے بعد بلا مبالغہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ لوگ جو عثمان بزدار کو منتخب کرنا ایک ناقص فیصلہ سمجھتے ہیں ، انہیں یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ نہ صرف بہترین انتخاب تھے بلکہ اب ان کو تبدیل کرنا پی ٹی آئی کا بدترین فیصلہ ہوگا۔ بزدار صاحب نے ایک سال میں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں بھرپور کردار اداکیاہے ۔ ایک ایسا کردار جو اس صوبے کی ترقی کے لیے وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ اپنی پارٹی اور حزب اختلاف کی شدید مخالفت کا مقابلہ کرنے کے ساتھ بیوروکریسی اور سیاسی رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے انہوں نے اب تک جتنا کام کیا ہے وہ قابل ستائش ہے ۔ وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے بعد سے آزادی سے کام کرنے کے لیے مشکل ترین حالات کے باوجود عثمان بزدار اپنی ترجیحات پر ناصرف قائم رہے بلکہ اس پر عمل پیرا رہنے میں بھی کامیاب رہے ہیں ۔ آخر میں میں یہی کہوں گا کہ ایک ایسے وقت جب صوبہ پنجاب کے انتظامی اور ترقیاتی امور کامیابی سے آگے بڑھنا شروع ہو گئے ہیں ، صوبے کی حکومت میں کسی بھی غیر ضروری اور بے وقت تبدیلی سے گورننس ماڈل پر انتہائی منفی اثر مرتب ہوں گے ۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ۔۔۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد خان بزدار اب ایک برینڈ بن رہے ہیں ۔

میرا وزیر اعظم عمران خان کو پرخلوص مشورہ ہے کہ خان صاحب، اپنے وسیم اکرم پلس کو کام کرنے دیں۔

نوٹ: لکھاری پنجاب میں مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں اور ان کی خواہش پر نام شائع نہیں کیا جا رہا۔

Source
 

RealPeople

Minister (2k+ posts)

209716_4261626_updates.JPG


وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد خان بزدار کے ساتھ میری تعیناتی سے پہلے مجھے میاں شہباز شریف کے دور میں بھی ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ اگست 2018 میں جب عثمان بزدار نے پنجاب کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے حلف اٹھایا تو میرے لیے پنجاب کے ایک ایسے وزیراعلیٰ کی جگہ جو 10 برس سے صوبہ پر حکومت کر رہا ہو، ایک اجنبی اور ناتجربہ کار شخصیت کا اس کے متبادل کے طور پر قبول کرنا ایک ناقابل یقین تصور تھا۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ میں شہباز شریف کا شیدائی تھا بلکہ گزرے دو انتخابات کے بعد صوبائی ایوان میں آنے والی شخصیات میں سے کسی دوسرے کو اس عہدے کے لیے اہل نہیں سمجھتا تھا۔

وزیراعلیٰ بزدار کے لیے ناصرف میڈیا بلکہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کا ان کی بطور صوبائی وزیراعلیٰ تعیناتی کے بارے میں مجموعی تاثرات اور ماحول سازگار نہ تھے اور ان کی اہلیت پر سوال اٹھائے جارہے تھے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ پنجاب کی حزب اختلاف سے زیادہ خود بزدار صاحب کی جماعت کے اہم رہنما ان کے خلاف بیانات دے رہے تھے۔ اور ایک ایسے وقت میں کہ جب پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی عمران خان کے اس فیصلے کے سے ناخوش تھے اور خود اپنے پیروں پر کلہاڑیاں چلانے میں مصروف تھے، عثمان بزدار نے وہ کام کرنا شروع کر دیا جس کے لیے انہیں خان صاحب نے ٹاسک دیا اور منتخب کیا تھا۔

میں بلا جھجک یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اپنے پورے سروس کیریئر کے دوران عثمان بزدار جیسا بے لوث اور شریف النفس صوبائی سربراہ نہیں دیکھا ۔ میڈیا انٹرویو ہوں یا صحافیوں کے سوالات، سیاسی اجتماعات ہوں یا پارٹی میٹنگز انہوں نے وزیراعلیٰ کے طور پر اپنے مستقبل کے بارے میں شکوک و شبہات اور رہنماووں کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات پر ان کا رد عمل ہمیشہ سادہ مگر پراعتماد ہوتا۔ میرے نزدیک اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عثمان بزدار اقتدار کے بھوکے نہیں اور نا ہی ان کے ذاتی مفادات ہیں۔ نا ہی وہ لالچی اور خود غرض انسان ہیں اور ناہی ان میں صحیح اورغلط طریقوں سے "مال بنانے" کی خواہش۔ لہذا وہ صوبے کی خدمت کرنے کے لیے ایک بہترین پوزیشن میں ہیں۔

صوبے کے لیے ان کی بے لوث خدمت اور آنے والے برسوں کیلئے اٹھائے جانے والے صوبائی ترقی کے اقدامات کا میں خود شاہد ہوں۔ اب سوال یہ ہے کہ عثمان بزدار کو صوبائی سربراہ کے عہدے سے ہٹانا کیوں درست قدم نہیں ہوگا ؟ تو اس سوال کے جواب میں ناقابل تردید دلائل دیے جا سکتے ہیں۔

پہلے نمبر پر یہ کہ اپنے صرف ایک سالہ دور میں صوبائی حکومت نے ان کی سرباراہی میں ہسپتالوں میں 9000 بستر وں کے اضافے کے علاوہ 72 لاکھ خاندانوں میں مفت طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے صحت کارڈ تقسیم کیے۔ ان کی حکومت نے 12 ماہ کے قلیل عرصے میں صوبے بھر کے 40 ضلعی اور تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتالوں کی تعمیر نو پر قابل ستائش انداز میں کام کیا۔ یہی نہیں بلکہ جدید طبی سہولیات سے آراستہ بڑے منصوبے مکمل کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ ان منصوبوں میں صوبے کے پسماندہ اضلاع میں 9 بڑے اسپتال تعمیر کیے جارہے ہیں جن میں لیہ ، راجن پور، بہاول پور، میانوالی اور اٹک میں 200 بستروں پر مشتمل صرف ماں اور بچوں کے مخصوص اسپتال بھی شامل ہیں ۔
عثمان بزدار کو پنجاب کے پسماندہ علاقوں کے تعلیمی مسائل کا بخوبی اندازہ ہے لہذا انہوں نے اس بات کو یقینی بنانےکے لیے صوبے کے ہر ضلعے میں کم از کم ایک یونیورسٹی بنانے کے لیے 8 نئی اعلی تعلیمی درسگاہوں کے قیام کا اعلان کیا۔


ان میں سے دو یونیورسٹیوں میں تعلیمی عمل شروع ہو چکا ہے جبکہ باقی یونیورسٹیوں اور انسٹیٹیوٹ کی تکمیل پر کام تیزی سے جاری ہے۔ اس کے ساتھ ہی صوبے بھر میں 43 نئے کالج تعمیر کرنے کے منصوبے پر کام جاری ہے۔ اس کے علاوہ پسماندہ طبقے کے لیے تعلیمی سہولیات کی با آسانی فراہمی کے لیے دوپہر کے اسکول، ماڈل اسکول اور موجودہ اسکول کی عمارتوں میں اضافی کلاس روم بھی تعمیر کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جارہے ہیں ۔


پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار متعدد صنعتی علاقوں کو خصوسی اقتصافی رون کا درجہ دیا گیا ہے اور ان اسپیشل اکنامک زونز کے بننے سے ایک اندازے کے مطابق 250،000 سے زائد لوگوں کو ملازمت کے مواقع ملیں گے۔ پچھلی حکومتوں نے 3 جبکہ عثمان بزدار کے دور میں 10 اسپیشل اکنامک زونز پر کام جاری ہے، ان میں نجی زونز بھی شامل ہیں۔ جو نہ صرف اپنی نوعیت کا پہلا اقدام ہے بلکہ پورے صوبے کے لیے گیم چینجر ثابت ہو گا۔ وزیراعلیٰ کے 9 ارب روپے کے آسان قرضوں کی اسکیم سے نئے کاروبار شروع کرنے والے نوجوان اور باہنر لڑکے لڑکیوں کے ساتھ موجودہ چھوٹے کاروباری افراد کو اپنے کاروبار کو ترقی دینے کا موقع ملے گا جس سے 5 لاکھ سے زیادہ ملازمتیں پیدا ہونگی۔

یہ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے دور حکومت میں نئے اور موجودہ بڑے صنعتوں اور تعلیمی اداروں کی بحالی کی چند مثالیں ہیں جبکہ ابھی بہت کچھ سامنے آنا باقی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے سیاسی میدان کے وسیم اکرم پلس اب اپنی پوری فارم میں کام کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ ان کی موجودہ کارکردگی اور منصوبہ بندی کو سامنے رکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ بالکل اسی طرح نہایت ذمہ داری سے کام کررہے ہیں جیسے ان کی تعیناتی کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے امید لگائی ہوگی ۔

میں عثمان بزدار کو قریب سے دیکھنے کے بعد بلا مبالغہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ لوگ جو عثمان بزدار کو منتخب کرنا ایک ناقص فیصلہ سمجھتے ہیں ، انہیں یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ نہ صرف بہترین انتخاب تھے بلکہ اب ان کو تبدیل کرنا پی ٹی آئی کا بدترین فیصلہ ہوگا۔ بزدار صاحب نے ایک سال میں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں بھرپور کردار اداکیاہے ۔ ایک ایسا کردار جو اس صوبے کی ترقی کے لیے وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ اپنی پارٹی اور حزب اختلاف کی شدید مخالفت کا مقابلہ کرنے کے ساتھ بیوروکریسی اور سیاسی رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے انہوں نے اب تک جتنا کام کیا ہے وہ قابل ستائش ہے ۔ وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے بعد سے آزادی سے کام کرنے کے لیے مشکل ترین حالات کے باوجود عثمان بزدار اپنی ترجیحات پر ناصرف قائم رہے بلکہ اس پر عمل پیرا رہنے میں بھی کامیاب رہے ہیں ۔ آخر میں میں یہی کہوں گا کہ ایک ایسے وقت جب صوبہ پنجاب کے انتظامی اور ترقیاتی امور کامیابی سے آگے بڑھنا شروع ہو گئے ہیں ، صوبے کی حکومت میں کسی بھی غیر ضروری اور بے وقت تبدیلی سے گورننس ماڈل پر انتہائی منفی اثر مرتب ہوں گے ۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ۔۔۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد خان بزدار اب ایک برینڈ بن رہے ہیں ۔

میرا وزیر اعظم عمران خان کو پرخلوص مشورہ ہے کہ خان صاحب، اپنے وسیم اکرم پلس کو کام کرنے دیں۔

نوٹ: لکھاری پنجاب میں مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں اور ان کی خواہش پر نام شائع نہیں کیا جا رہا۔


Source

Fair piece of writing. open minded. appreciate defending an honest man who is trying do his best
 

hello

Chief Minister (5k+ posts)
ہر لیڈر کی لیڈ کرنے کا انداز اس کی عکاسی کرتا ہے میاں برادران کا انداز بھی اپنا تھا کہ لوگوں کے ذہنوں پر ایک چھاپ رکھو کام دس فی صد کرو لیکن لوگوں کو دیکھاو کہ بس ہر طرح لہریں بھریں ہیں یعنی سو100 فی صد کام نظر آنا چاہیے یعنی ایک چھوٹی سی مثال ہے لاہور کے لکچھمی چوک میں ہر سال بارش ہوتی اور پانی کھڑا ہو جاتا میاں صاحب جب بھی حکومت میں ہوتے ہر سال بوٹ پھنتے اور وہاں پانی میں آ کر کھڑے ہو جاتے لاہور کا پانی نکالنے کے منصوبے پر اربوں روپے کا اعلان کر دیتے لوگ تالیاں مارتے پانی میں تیرتے گھر چلے جاتے کوئی نہ پوچھتا سر آپ پچھلے 35 سال سے اقتدار میں ہیں ہر سال پانی کے منصوبوں کا اعلان کرتے ہیں لیکن پانی پھر بھی کھڑا ہوجاتا ہے لوگ ان کے اقتدار کو دیکھ کر اس چیز کے عادی ہوچکے ہیں صبح جب اخبار اٹھائیں دونوں بھائیوں کی تصویریں ہوں ٹی وی لگائیں ان ہی کی باتیں ہوں بس میاں دے نعرے وجن گے پانی چاہے وہاں ہی کھڑا رہے کوئی بات نہیں
 

Digital_Pakistani

Chief Minister (5k+ posts)
Despite difficulties and opposition Usman Buzdar has proven successful CM.

وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے بعد سے آزادی سے کام کرنے کے لیے مشکل ترین حالات کے باوجود
عثمان بزدار اپنی ترجیحات پر قائم رہے ۔

یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد خان بزدار کا نام ، صوبے کے اہم ترین اور باصلاحیت وزیراعلیٰ کے طور پر لیا جانے والا ایک بڑا نام بننے کے مراحل تیزی سے طے کر رہا ہے۔
 

Awan S

Chief Minister (5k+ posts)
ہر لیڈر کی لیڈ کرنے کا انداز اس کی عکاسی کرتا ہے میاں برادران کا انداز بھی اپنا تھا کہ لوگوں کے ذہنوں پر ایک چھاپ رکھو کام دس فی صد کرو لیکن لوگوں کو دیکھاو کہ بس ہر طرح لہریں بھریں ہیں یعنی سو100 فی صد کام نظر آنا چاہیے یعنی ایک چھوٹی سی مثال ہے لاہور کے لکچھمی چوک میں ہر سال بارش ہوتی اور پانی کھڑا ہو جاتا میاں صاحب جب بھی حکومت میں ہوتے ہر سال بوٹ پھنتے اور وہاں پانی میں آ کر کھڑے ہو جاتے لاہور کا پانی نکالنے کے منصوبے پر اربوں روپے کا اعلان کر دیتے لوگ تالیاں مارتے پانی میں تیرتے گھر چلے جاتے کوئی نہ پوچھتا سر آپ پچھلے 35 سال سے اقتدار میں ہیں ہر سال پانی کے منصوبوں کا اعلان کرتے ہیں لیکن پانی پھر بھی کھڑا ہوجاتا ہے لوگ ان کے اقتدار کو دیکھ کر اس چیز کے عادی ہوچکے ہیں صبح جب اخبار اٹھائیں دونوں بھائیوں کی تصویریں ہوں ٹی وی لگائیں ان ہی کی باتیں ہوں بس میاں دے نعرے وجن گے پانی چاہے وہاں ہی کھڑا رہے کوئی بات نہیں
لاہوری سال میں دو بار چند فٹ پانی میں کھڑے ہو سکتے ہیں مگر نکاسی آب کے کئی سو اربوں کا منصوبہ تحریک انصاف کو ہضم نہ ہوتا بحرحال لوگوں کی نظر میں بھی لاہور کے عوام کے لئے ٹرانسپورٹ کا نظام لانا ضروری تھا جس کے لئے دو سو ارب کا ٹرین منصوبہ لانا ضروری تھا ایک کروڑ پچیس لاکھ کے لوگوں کے لئے آپ دیکھنا یہ منصوبہ کتنا کامیاب ہوتا ہے بہرحال پہلے سال میں نون لیگ کے آٹھ ارب ڈالر کے قرض کے مقابلے میں سولہ ارب ڈالر قرض لینے والی تحریک انصاف لاہور تو کیا ملک کے کسی حصے کو کوئی منصوبہ دینے میں ناکام ہے اگر نون لیگ نے نکاسی آب کا منصوبہ نہیں کیا تو تحریک انصاف کر لے مگر میں شرط لگاتا ہوں وہ نہیں کریں گے نہ ان میں کرنے کی اہلیت ہے - انصافی حکومت نے اب ایماندار بزدار سے اختیارات لے کر کچھ چودھری سرور اور کچھ بیو رو کریسی کو دے دئے ہیں اب وہ بے اختیار برائے نام وزیر اعلی ہے
 

Saboo

Prime Minister (20k+ posts)
اسکا ارٹیکل کا لکھاری کوئی اجرت کا ٹٹو صحافی بھی ہو سکتا ہے؟
جاوید چودھری یا عرفان صدیقی جیسا؟
 

Ali Sha

Senator (1k+ posts)
Yaar is se mere driver zyada qabil hai, khuda ke liye koi dhang ka bnda CM lagao. Him and Shah Farman are a disgrace to be holding such an august office
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
ایک سال میں صرف پنجاب میں اگر ڈینگی کو ہی دیکھ لیا جائے، تو 37,200 تھے پچھلے سال جو کہ اب 124,751 ہو چکے ہیں۔ پنجاب کے ترقیاتی منصوبے، جن سے لاہور کے علاوہ علاقوں میں ترقی آنی تھی، سب بند پڑے ہیں، اور آدھے میں بند پڑے ہیں۔ یعنی کہ اب جو پیسہ لگا ہوا تھا، اس کا بھی نقصان ہو رہا ہے۔ مثلاً گجرات کے علاقہ شہباز پور میں ایک پل بن رہا تھا جو کہ نوّے فیصد مکمّل تھا۔ اس حکومت نے مزید پیسہ دینے سے انکار کیا جسکی وجہ سے اس سال مون سون کی بارشوں میں اس پل کو شدید نقصان پہنچا۔ اسی طرح دریائے جہلم پر منڈی بہاوالدین پر ایک پل بنانے کا منصوبہ تھا جس سے اس علاقے میں سفر انتہائی آسان ہوجاتا، لیکن یہ حکومت اس پر بھی پیسے دبا کر بیٹھ گئی ہے۔
لاہور میں اس وقت کھڑے پانی سے زیادہ پینے کے صاف پانی کا مسئلہ ہے۔
جن اکنامک زونز کی یہ باتیں کر رہے ہیں وہ اگلے دس سال نہیں چل سکیں گی۔ وجہ ان کی لوکیشن اور بنیادی سہولتوں کی کمی ہے۔

دراصل ہر حکومت کو اپنے پلان میں کم مدّت، درمیانی مدّت اور طویل مدّت کی ترجیحات کو متوازن طور لے کر چلنا چاہیئے۔ یہ جتنے کام کر رہے ہیں، وہ بہت طویل المدّت ہیں، جبکہ اس وقت انکو ایسے اقدام بھی کرنے کی اشہد ضرورت ہے جس سے عوام کو فوری ریلیف فراہم ہو۔
 
Last edited:

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
اسکا ارٹیکل کا لکھاری کوئی اجرت کا ٹٹو صحافی بھی ہو سکتا ہے؟
جاوید چودھری یا عرفان صدیقی جیسا؟
انھیں اجرت کا ٹٹّو نہیں، مخلص لکھاری کہتے ہیں۔ جسکا کھاتے ہیں، اسی کے گن گاتے ہیں
 

Saboo

Prime Minister (20k+ posts)
املا کی غلطی درست کریں: پاکستان کا نہیں کھاتے، پاکستان کو کھاتے ہیں
پاکستان کا بھی کھاتے ہیں اور پاکستان کو بھی
اب اس میں کیا ..... ?