شیر والا بابا

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
نوٹ: اس کہانی کے سب کردار، واقعات اور مقامات فرضی ہیں۔ کسی قسم کی مطابقت اتفاقیہ ہے اور اس کے لیے کوئی بھی ذمہ دار نہیں ہے۔

نیز اس کو صرف کہانی کے طور پر پڑھیں۔ مطابقت اور نتیجہ نکالنےکی کوشش ہر گز نہ کریں۔



آدمی جنگل میں جارہا تھا۔ ایک جگہ اس نے دیکھا کہ ایک شیر درخت کے تنے سے بندھا ہوا ہے۔ اس آدمی کو شیر پر بڑا ترس آیا۔ وہ آدمی شیر کی خونخوار عادت تو جانتا تھا لیکن نیک فطرت تھا۔ اس کے ذہن کی رحم دلی والی رگ پھڑکی۔ اس نے سوچا کہ شیر ایک خونخوار جانور ہے۔ چہ خوب کیا معلوم میں اس پر رحم کھائوں اور یہ بھی عقل کا استعمال کرے اور شاید مجھے کچھ نہ کہے۔ پیروںمیں سر رکھ کے سِیس نوائے اور میرا دوست بن جائے۔ جب میں اس دوست کو لے کر انسانی آبادی سے گزروں گا۔ لوگوں میں میری واہ واہ ہوجائے گی۔ مارے خوف کے لوگ گھروں کو بھاگ
جائیں گے۔ میں شیر کے سر پر ہاتھ پھیروں گا۔ یہ میرے ہاتھ چاٹے گا۔ مجھ سے اُلفت کرے گا۔ محبت کرے گا۔ میں شیر والا بابا مشہور ہوجائوں گا۔ جب شیر میرے ہمراہ ہوگا۔ کوئی دشمن مجھے زک، گزند یا نقصان نہیں پہنچائے گا۔ ڈاکو میرے قریب نہیں آئیں گے۔ رات کو شیر کو گھر کے صحن میں کھلا چھوڑ دوں گا۔ لوگ گھر اور مویشیوں کی رکھوالی کے لیے کتے پالتے ہیں۔ میرے گھر کی رکھوالی شیر کرے گا۔ پھر کس میں جرأت پیدا ہو گی کہ وہ میرے گھر کی دیوار پھلانگ کے چوری کرنے آئے گا؟ شیر جب چور کی تکا بوٹی کردے گا،تو لوگوں میں اتنا خوف پیدا ہوجائے گا کہ
میرے گھر کا کوئی رُخ بھی نہیں کرے گا۔ کوئی چور غلطی سے آگیا تو ظاہر ہے وہ میرے دوست شیر کا نشانہ بن جائے گا۔ اس طرح پھر کسی چور، ڈاکو کی جرأت نہ ہوگی کہ وہ میرے گھر کا رُخ کرے۔ میں جب شیر والا بابا مشہور ہوجائوں گا،تو رات کو جب سب گائوں والے گھروں میں سوجائیں گے۔ میں شیر کے ہمراہ گائوں کے اطراف میں چکر لگایا کروں گا۔ جہاں کوئی مشکوک شخص نظر آیا وہ میرے دوست شیر کی خوراک بن جائے گا یا بھاگ جائے گا۔ اس طرح میرا سارا گائوں چوروں ڈاکوئوں، اٹھائی گیروں سے محفوظ ہوجائے گا۔ گائوں کے بہت سے لوگوں نے جانور پال
رکھے ہیں۔ کسی کے پاس بکریاں ہیں، کسی کے پاس گائیں ہیں ،تو کسی کے پاس بھینسیں۔ میں اِن سب سے اعلانیہ کہہ دوں گا کہ میاں میرا شیر دوست تمھارے جانوروں کی رکھوالی کرتا ہے۔ تم پر لازم ہے کہ اس کی خوراک کا اہتمام کرو۔ ہفتے میں ایک دو جانور شیر کی شِکم سیری یعنی پیٹ پوجا کے لیے دیا کرو۔ وہ نہ مانے ،تو میں کچھ دنوں کے لیے شیر کو جنگل میں چھوڑ آئوں گا۔ جب چوروں کو معلوم ہوگا کہ گائوں میں شیر نہیں ہے، تو وہ دھاوا بول دیں گے۔ جانور چوری ہونا شروع ہوجائیں گے۔ اس طرح زِچ ہو کر لوگ میرا مطالبہ مان لیں گے کہ ہم ہر ہفتے میں دو جانور دینے
کو تیار ہیں۔ اس طرح ہر ہفتے میرے گھر میں دو جانور ذبح ہوا کریں گے۔ بہترین گوشت علیٰحدہ کرکے میں پکا کر کھا لیا کروں گا۔ باقی شیر کو ڈال دیا کروں گا۔ اس طرح آئے دن میرے گھر گوشت پکا کرے گا۔ میری بیوی بھی خوش ہوگی۔ بچے بھی نہال ہو جائیں گے۔ آہا-بڑا مزہ آئے گا۔ وہ آگے بڑھا اور شیر کو آزاد کردیا۔ شیر بھوکا تھا۔ وہ آزاد ہوا،تو اس آدمی سے کہنے لگا۔ میرے محسن میں بھوکا ہوں۔ دنیا کا دستور ہے۔ احسان کا بدلہ برائی سے دیتے ہیں۔ میں بھی مجبور ہوں اب تجھے کھائوں گا اور اپنی بھوک مٹائوں گا۔ چل تیارہوجا کہ میں تمھاری تکا بوٹی کرکے ضیافت اُڑائوں۔ اس آدمی نے یہ سنا ،تو بہت سٹپٹایا۔ آدمی عقل مند تھا۔ اس نے شیر سے کہا بھائی شیر! مجھے بعد میں کرنا ڈھیر۔جنگل کے جانوروں سے رائے یعنی ووٹ حق دہی لے لیتے ہیں۔ اگر تمھارے ووٹ زیادہ ہوجائیں،تو مجھے کھا لینا اور میرے ووٹ زیادہ ہوجائیں، تو مجھے چھوڑ دینا۔
شیر بولا۔ ٹھیک ہے۔ آئو جانوروں سے رائے لیتے ہیں۔ وہ دونوں چل پڑے۔ جنگل میں ایک گائے گھاس کھارہی تھی۔ شیر کو دیکھا،تو وہ بھاگنے لگی۔ شیر بولا۔ بُوا بھاگو مت۔ ہماری کہانی سُن کے ووٹ دو۔ ہم تمھیں کچھ نہیں کہیں گے۔ گائے رُک گئی۔ بولی شیر بھتیجے۔ تم نے مجھے بُوا کہا ہے۔ اب میں اپنے ووٹ کا درست استعمال کروں گی۔ بولو۔ کیا مسئلہ ہے؟
شیر بولا۔ میں جنگل میں بندھا ہوا تھا۔ اس آدمی نے میرے ساتھ نیکی کا برتائو کیا۔ مجھے آزاد کردیا۔ مجھے بھوک لگی ہوئی ہے۔ میں نے اسے کہا کہ اس دنیا میں نیکی کا بدلہ برائی سے دیا جاتا ہے۔ میں تجھے کھانا چاہتا ہوں۔ بُوا گائے تم بتائو۔ دنیا میں اچھائی کا بدلہ اچھائی سے ملتا ہے یا برائی سے!
گائے بولی۔ بھتیجے۔ اس دنیا میں اچھائی کا بدلہ برائی ہے۔ مجھے دیکھو۔ انسان دودھ پیتے ہیں۔ میرے بیٹے جب بچھڑے سے بیل بن جاتے ہیں،تو انسان ان سے خوب کام لیتے ہیں۔ پھر ہمیں ذبح کرکے کھا جاتے ہیں۔ اس دنیا میں اچھائی کا بدلہ برائی ہے۔ تم اسے کھا جائو۔ میرا ووٹ تمھارے حق میں ہے۔ اس طرح گائے کا ووٹ شیر کے حق میں کاسٹ ہوگیا۔
وہ دونوںکسی اور ووٹر کی تلاش میں آگے بڑھے۔ جنگل میں اُن کو ایک لنگڑا بیمار گدھا نظر آیا۔ شیر نے گدھے سے کہا۔ گدھے میاں یہ بتائو۔ اس دنیا میں اچھائی کا بدلہ برائی ہے یا نیکی؟ گدھا بولا۔ شیر ماموں۔ اس دنیا میں اچھائی کا بدلہ برائی ہے۔ مجھے دیکھ لو۔ میں دنیا والوں کے لیے نشانِ عبرت ہوں۔ انسان تمام عمر مجھ سے کام لیتا ہے۔ میری استطاعت سے زیادہ بوجھ لاد دیتا ہے۔ ڈنڈے مارتا ہے۔ میری پیٹھ اور رانیں زخمی ہوجاتی ہیں۔ جب میں لنگڑا اور لاغر ہوجاتا ہوں۔ مجھے جنگل میں بے یارو مدد گار چھوڑ دیا جاتا ہے۔ روکھی سوکھی گھاس پر گزارہ کرتا ہوں۔ اس دنیا میں اچھائی کا بدلہ برائی ہے۔ میرا مشورہ ہے اس انسان کو فوراً کھا جائو۔ یہ بڑا ظالم ہے۔ تاخیر نہ کرو۔ ورنہ کسی سیاست سے یہ تمھیں پھر چِت کردے گا۔
گدھے کا ووٹ بھی شیر کے حق میں کاسٹ ہوگیا۔ شیر نے اس آدمی سے کہا۔ دو ووٹ میرے حق میں کاسٹ ہوچکے ہیں۔ اب تم زمین پر لیٹ جائو تاکہ میں آرام سے تمھیں کھا سکوں۔
وہ آدمی بولا۔ شیر میاں۔ دس ووٹ کاسٹ کرائے جائیں۔ اگر چھ ووٹ تمھارے حق میں ہوں اور چار میرے حق میں تو میں اپوزیشن جماعت بن جائوں گا۔ تم مجھے کھا لینا۔ اگر چھ ووٹ میرے حق میں کاسٹ ہوگئے اور چارتمھارے حق میں ہوئے،تو تم ہار گئے۔ اگر دونوں کو دس جانوروں کے ووٹ مساوی ملے یعنی پانچ پانچ ووٹ۔ تو الیکشن نئے سرے سے ہوگا۔
شیر بولا۔ ٹھیک ہے۔ وہ دونوں ایک بار پھر آگے بڑھے۔ درخت کی ایک ڈال پر بندر جھولا جھول رہا تھا۔ بندریا قریب بیٹھی اپنے خاوند کی اچھل کود دیکھ رہی تھی۔ شیر نے کہا۔ اوئے۔ ککوری نسل۔ اچھل کود بند کر اور ہماری بات غور سے سن۔ بندر نے اچھل کود بند کردی۔
یہ بتا بھورے خاں۔ اس دنیا میں نیکی کا بدلہ اچھائی ہے یا برائی؟
بندر دور اندیش تھا۔ وہ سمجھ گیا۔ معاملہ اس انسانی حق کی نجات کا ہے۔ وہ فوراً بولا۔ دنیا میں جتنے بھی انسان ہیں۔ سب ہمارے دشمن ہیں۔ پچھلے مہینے یہاں چند شکاری آئے۔ میری بیوی اور میں نے ناریل توڑ کر اُن کی طرف پھینکے تاکہ ناریل کھائیں اور ناریل کا پانی پی کر پیاس بجھائیں۔ انھوں نے ہماری نیکی کا بدلہ یہ دیا کہ ہمارے بچوں کو اُٹھا کر لے گئے۔ یہ انسان ہمارے بچوں کو چڑیا گھر میں بند کردیتے ہیں یا پھر اُن کو بازاروں میں نچاتے ہیں۔ جب سے ہمارے بچے اغوا ہوئے ہیں۔ میری زوجہ اُن کے غم میں اچھل کود بھول گئی ہے۔ جنگل کے بادشاہ فوراً میرے سامنے

اس انسان کی تِکا بوٹی کرڈالو۔ میرا ووٹ آپ کے حق میں ہے۔ یہ سن کر شیر بہت خوش ہوا۔ اس نے اپنے محسن سے کہا۔ سُن لیا تم نے۔ بندر نے کیا کہا ہے؟ چلو چوتھا ووٹر ڈھونڈتے ہیں۔ وہ آگے بڑھے۔ انھیں جنگل میں ایک ہرنی نظر آئی۔ شیر کو دیکھ کر ہرنی بھاگنے لگی،تو شیر نے حکم دیا۔ رُک جائو۔ میں جنگل کا بادشاہ تمھیں کچھ نہیں کہوں گا۔ صرف یہ بتا دو کہ اس دنیا میں نیکی کا بدلہ اچھائی ہے یا برائی؟
ہرنی بولی۔ یہ پرسوں کی بات ہے۔ چند شکاری جنگل میں آئے۔ میرے سرتاج کو گولی ماری۔ ذبح کیا اور ساتھ لے گئے۔ وہ ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے اس کے ذائقے دار گوشت کے تِکے بناکے کھائیں گے۔ کھال کے خوبصورت جوتے بنائیں گے۔ یہ انسان بڑے ظالم ہیں۔ جنگل کے بادشاہ اس دنیا میںنیکی کا بدلہ برائی ہے۔ آخر میں نے اِنسانوں کا کیا بگاڑا ہے۔ جو انھوں نے مجھے جوانی میں بیوہ کردیا۔ میں تو کہتی ہوں۔ یہ انسان جو تمھارے ساتھ کھڑا ہے اسے فوراً ہڑپ کرو۔ شیر نے جب یہ سنا،تو وہ بہت خوش ہوا۔ چار ووٹ اس کے حق میں کاسٹ ہوچکے تھے۔ دو ووٹ پر اس نے الیکشن جیتنا تھا۔ وہ آگے بڑھے۔ ایک ڈال پر انھیں طوطا نظر آیا۔ شیر نے طوطے سے کہا۔ طوطے میاں۔ یہ بتائو۔ اس دنیا میں نیکی کا بدلہ اچھائی ہے یا بُرائی؟
طوطا بولا۔ یہ دنیا بڑی ظالم ہے۔ اچھے اچھوں کو بغیر قصور کے قیدی بنا لیتی ہے۔ میری بیگم کو قدرت نے کئی بیٹے بیٹیاں عطا کیں۔ ظالم اِنسانوں کے بیٹے آتے ہیں اور درخت میں بنے سوراخ سے میرے بچوں کو نکال لے جاتے ہیں اور تمام عمر کے لیے پنجروں میں قید کردیتے ہیں۔ آخر ہم نے ان کا کیا بگاڑاہے؟ جنگل کے بے تاج بادشاہ یہ جو اِنسان تمھارے ساتھ کھڑا ہے اسے فوراً معدے کا قیدی بنائو۔ اس کے چکر میں آگئے ،تو شہر میں جو سرکس دکھائی جاتی ہے۔وہاں پہنچ جائو گے اور روز ہنٹر کھائو گے۔ دیر مت کرو۔ میرے تایا۔ جو دیر سے آیا۔ اس نے زیادہ کھایا

طوطے کا پانچواں ووٹ شیر میاں کے حق میں کاسٹ ہوا،تو وہ پھولے نہیں سمایا۔ اب ایک اور ووٹ اسے ملنا باقی تھا۔ شیر نے اپنے محسن سے کہا۔ آگے بڑھو۔ چھٹا ووٹر ڈھونڈتے ہیں۔ بس یوں سمجھو۔ تمھاری موت کا وقت قریب آچکا ہے۔ میں چاہتا ،تو تجھے اسی وقت ہڑپ کر جاتا۔ تمھارے کہنے پر یہ الیکشن ہوا ہے۔ پانچ ووٹ میرے حق میں کاسٹ ہوچکے ہیں۔ اب تو وہ آدمی بہت گھبرایا اور سوچنے لگا۔ گوشت کی لالچ نے مجھے پھنسا دیا۔ پھر اس نے شیر سے کہا۔ مجھ سے دوستی کرلو۔ تم بھی عیش کرو گے اور میں بھی عیش کروں گا۔ تمھاری دوستی سے مجھے گائوں والے
ہفتے میں دو بکریاں دیں گے۔ ہم پیٹ بھر کے گوشت کھایا کریں گے۔ پھر اس نے وہ ساری کہانی شیر کو سنادی جو دل میں سوچ رکھی تھی۔ شیر بولا۔ تم مجھے چکمہ دینے کی کوشش نہ کرو۔ میں کیا جنگل کے سارے جانور تم جیسے اِنسانوں کی چالاکیوں سے تنگ ہیں۔ تم اب کوئی نئی چال چل کے مجھے پھنسانے کے چکر میں ہو؟ دوستی کرنی تھی،تو شروع میں کرتے۔ الیکشن مہم میں خوار کرکے اب جب تم الیکشن ہارنے والے ہو تو نئی چالبازی پر اُتر آئے ہو۔ آگے بڑھو۔ چھٹا ووٹر ڈھونڈتے ہیں۔ اس آخری ووٹ پر تمھاری زندگی کا دارومدار ہے۔ ہاں اگلے پانچ ووٹ تمھارے حق میں کاسٹ ہوئے، تو الیکشننئے سِرے سے ہوگا۔ ہمت سے کام لو۔ تمھارا جسم کیوں کانپ رہا ہے؟ شیر اپنے محسن کی ڈھارس بندھاتے ہوئے بولا۔ اس کے ساتھ ہی وہ چھٹے ووٹر کی تلاش میں آگے بڑھ گئے۔ وہ چندہی قدم چلے تھے کہ بی لومڑی سے اُن کا سامنا ہوگیا۔ شیر نے لومڑی سے کہا۔ بی لومڑی یہ بتائو۔ دنیا میں اچھائی کا بدلہ برائی ہے یا اچھائی؟
لومڑی شیر کا سوال سُن کر کسی سوچ میں گم ہوگئی! شیر بولا۔ جواب دو۔ بی لومڑی اور یہ بھی بتائو کہ تم اتنا عرصہ کہاں غائب رہی ہو؟
لومڑی بولی۔ عالی جاہ! میں نے جب گریجوایشن تک تعلیم حاصل کرلی،تو اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا چلی گئی تھی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے کل ہی اپنے ملک پہنچی ہوں۔
واہ۔ تم بہتر فیصلہ کر پائو گی کیوں کہ تم تعلیم یافتہ ہو نا۔ شیر بولا۔
دماغی طور پر میں کچھ تھکی ہوئی ہوں۔ عالم پناہ آپ کا سوال غور سے نہیں سُنا۔ براہِ مہربانی اپنا سوال دہرائیں، لومڑی بولی۔
شیر بولا۔ بی لومڑی! سوال یہ ہے کہ اس دنیا میں اچھائی کا بدلہ برائی ہے یا اچھائی؟
لومڑی بولی۔ اس سوال کا جواب میں اس وقت تک دینے سے قاصر ہوں جب تک اچھائی، برائی کا بہ چشمِ خود معاینہ نہ کرلوں۔
شیر بولا۔ پچھلے دن میں نے کافی پرانا اور باسی گوشت کھا لیا تھا۔ جو میری سرشت کے خلاف تھا۔ گوشت کھا کے میں بے ہوش ہوگیا۔ شکاری آئے اور انھوں نے مجھے درخت سے باندھ دیا۔ وہ ٹرک لینے چلے گئے تاکہ مجھے پنجرے میں ڈال کر شہر لے جائیں اور سرکس والوں کے حوالے کردیں۔
ان کے اس ارادے کا آپ کو کیسے علم ہوا؟ لومڑی نے سوال کیا!
شیر بولا۔ شکاری مجھے باندھ کے باتیں کرتے ہوئے چلے گئے۔ ایک چیونٹی نے اُن کی گفتگو سُن لی اور میرے کانوں میں اُن کے اِرادوں کی بھنک ڈال دی۔ میں بہت پریشان تھا کہ مضبوط رسیوں سے کیسے چھٹکارا حاصل کروں؟ اتنے میں یہ آدمی آیا اور مجھے آزاد کردیا۔ یوں میری پریشانی کا خاتمہ ہوگیا۔ اس نے میرے ساتھ نیکی کی۔ مجھے بھوک لگ رہی تھی۔ میں نے اسے کہا کہ میں
تمھاری اس نیکی کا بدلہ بُرائی سے دوں گا۔ یہ دنیا کا دستور ہے۔ میں تجھے کھائوں گا اور بھوک مٹائوں گا۔ بھوک سے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے۔ اس نے مشورہ دیا کہ دس جانوروں کی رائے لے لیتے ہیں۔ اگر دس میں سے چھ نے تمھارے حق میں فیصلہ دے دیا،تو تم مجھے کھا جانا۔ پانچ جانوروں نے میرے حق میں فیصلہ دیا ہے کہ اس دنیا میں اچھائی کا بدلہ برائی ہے۔ اب یہ چھٹا ووٹ تم اگر میرے حق میں دو گی ،تو سمجھو۔ میں الیکشن جیت گیا۔ میں ابھی اسے کھالوں گا۔
لومڑی بولی۔ عالم پناہ! آپ واپس چلیں۔ اس درخت کے ساتھ یہ آدمی آپ کو اسی طرح باندھے گا۔ جس طرح آپ بندھے ہوئے تھے۔ پھر یہ آپ کو میرے سامنے کھولے گا۔ میں اپنی آنکھوں سے اس نیکی کا نظارہ دیکھوں گی۔ پھر فیصلہ کروں گی۔
شیر بولا۔ بصدق شوق۔ چلیے!
شیر، اس کا محسن اور لومڑی اس درخت کے پاس پہنچے۔ شیراپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہوا اور درخت سے ٹیک لگالی۔ لومڑی نے اس آدمی سے کہا۔ عالم پناہ کو اُسی طرح باندھوجس طرح یہ بندھے ہوئے تھے۔ رسیاں نیچے پڑی ہوئی تھیں۔ اس آدمی نے بڑی مضبوطی کے ساتھ شیر کو درخت سے باندھ دیا۔ پھر وہ پیچھے ہٹ گیا اور لومڑی کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔ عالم پناہ اسی طرح بندھے ہوئے تھے۔ آپ نے دیکھ لیا۔ اب اجازت ہو،توآپ کو کھول کے دکھائوں!
لومڑی بولی۔ اب عالم پناہ کو اسی حال میں رہنے دو۔ تم تو جانتے ہو۔ اس دنیا میں نیکی کا بدلہ برائی ہے۔ اب اگر تم نے عالم پناہ کو کھولا تو یہ تمھیں کچا چبا جائیں گے۔ جائو اپنا کام کرو۔ لومڑی نے شیر کے محسن سے کہا۔ وہ سامنے دیکھو۔ دھول اُڑ رہی ہے۔ لگتا ہے۔ شکاری آرہے ہیں۔ میاں اب کھسک لو۔ میں کل ہی تو آکسفورڈ یونیورسٹی امریکا سے تعلیم حاصل کرکے لوٹی ہوں۔ سیاسی تعلیم جس میں امریکا دنیا بھر میں عروج پر ہے۔ لومڑی وہاں سے کھِسک گئی۔ شیر کو باندھنے والا بھی ایک طرف کو روانہ ہوگیا۔شیر نے دیکھا۔ شکاریوں کا ٹرک دھول اُڑاتا ہوا اس کی طرف آرہا ہے۔ وہ سمجھ گیا۔ چھٹے ووٹر نے دھوکے سے اُسے ہرایا ہے۔

http://urdudigest.pk/chata-voter/
 

sarbakaf

Siasat.pk - Blogger
the-lion-dog.jpg
 

staray khaatir

Minister (2k+ posts)
Oxford University America?
yaar ye kis aalim faazil nay likha hai?
Es Kahaani main Gadhay ko bilkul side line ker k Gadhay ke tamaam mehnat pay paani phair dia gia hai.