شکر ادا کرنے کا نفع اور ثواب شکر کرنے والے کیلئے ہی ہے

Amal

Chief Minister (5k+ posts)

بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے


وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِأَ نْفُسِھِمْ یَمْھَدُوْنَ
الروم:۴۴
’’ اور نیک کام کرنے والے اپنی ہی آرام گاہ سنوار رہے ہیں۔ ‘‘



إِِنْ تَکْفُرُوْا فَإِِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنْکُمْ وَلَا یَرْضَی لِعِبَادِہٖ الْکُفْرَ وَإِِنْ تَشْکُرُوْا یَرْضَہُ
الزمر:۷
اگر تم ناشکری کرو تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ تم سب سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کی ناشکری سے خوش نہیں ہوتا اور اگر تم شکر کرو تو وہ اس کی وجہ سے تم سے خوش ہوگا



أَنِ اشْکُرْ لِلّٰہِ وَمَنْ یَّشْکُرْ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ وَمَنْ کَفَرَ فَإِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ
لقمان: ۱۲
’’ اور ہر شکر کرنے والا اپنے ہی نفع کے لیے شکر کرتا ہے اور جو بھی ناشکری کرے وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ بے نیاز اور تعریفوں والا ہے۔ ‘‘
معلوم ہوا کہ شکریہ ادا کرنے کا نفع اور ثواب اسی پر واپس لوٹ آتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا



إِعْمَلُوْا اٰلَ دَاوٗدَ شُکْرًا
سبا: ۱۳
’’ اے آل داود! اس کے شکریہ میں نیک عمل کرو۔ ‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ نے دین اور دنیوی نعمتوں سے تمہیں نوازا، لہٰذا شکریہ ادا کرنے کی صورت یہ ہے کہ تم نیک اعمال بجا لاؤ۔ گویا نماز، روزہ اور ہر قسم کی عبادت جب شکر کے قائم مقام کردی جائے تو خود ہی شکر بن جاتی ہیں۔


شکر اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری سے مکمل ہوتا ہے

قرآن و سنت اس بات پردلیل ہیں کہ بدنی عمل سے شکریہ ادا کرنا زبانی عمل پر اقرار کرنے کے علاوہ ہے۔ چنانچہ فعلی شکر ارکان (اعضاء) کا عمل اور قولی شکر زبان کا عمل ہے۔ یعنی اپنے اچھےعمل اور اچھی بات کے زریعے اللہ کا شکر ادا کرتے رہو ۔


وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیْدَنَّکُمْ
ابراہیم : ۷
’’ اگر تم میرا شکر کرو گے تو البتہ ضرور میں تمہیں زیادہ دوں گا۔ ‘‘
یعنی میری نعمتوں کا اگر شکر کرو گے تو تم پر اپنا فضل اور بڑھا دوں گا۔
اس کے مطابق شکر کی حقیقت، منعم کے لیے نعمت کا اعتراف کرنا اور صرف اس کی فرمانبرداری کرنا ہے۔


وَأَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ

الضحیٰ:۱۱
’’ اور اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کرتا رہ۔


اللہ تعالیٰ شکر سے راضی ہوتے ہیں اور اپنے مومن بندوں کے لیے اسے پسند فرماتے ہیں۔


رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مَنْ لاَّ یَشْکُرِ النَّاسَ لَا یَشْکُرِ اللّٰہَ ۔

صحیح سنن الترمذي، رقم : ۱۹۵۲۔
’’ جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرتا۔ ‘‘


شکر اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری سے مکمل ہوتا ہے چنانچہ جس نے اس کی فرمانبرداری نہ کی، وہ ناشکرا ہے۔ شکر کا فائدہ نعمتوں کو اطاعت میں صرف کرنا ہے، وگرنہ یہ کفران نعمت ہے۔
نعمتوں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور مخلوق واسطہ اور اسباب کا کام دیتی ہے چنانچہ حقیقی منعم اللہ تعالیٰ ہی ہے اسی کے لیے حمد اور شکر ہے۔ حمد، اس کے جلال کے متعلق اور شکر، اس کے انعام و احسانات کے متعلق ہے لیکن اس نے لوگوں کا شکریہ ادا کرنے کی اجازت بخشی ہے کیونکہ اس میں محبت و الفت کی تاثیر پنہاں ہے۔


نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
أَلتَّحَدُّثُ بِنِعْمَۃِ اللّٰہِ شُکْرٌ، وَتَرْکُھَا کُفْرٌ وَمَنْ لَا یَشْکُرُ الْقَلِیْلَ لَا یَشْکُرُ الْکَثِیْرَ، وَمَنْ لَا یَشْکُرُ النَّاسَ لَا یَشْکُرُ اللّٰہَ، وَالْجَمَاعَۃُ بَرَکَۃٌ وَالْفُرْقَۃُ عَذَابٌ۔
صحیح الجامع الصغیر، رقم : ۳۰۱۴۔
اللہ کی نعمت بیان کرنا شکر اور ترک کرنا ناشکری ہے۔جو تھوڑے پر شکر نہیں کرتا وہ زیادہ پر بھی شکر ادا نہیں کرسکتا ۔اور جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرسکتا وہ اللہ کا شکر بھی نہیں کرسکتا اور ایک جماعت باعث برکت ہے اور گروہ بندی باعث عذاب ہے۔


رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی مذکورہ بات پر دلیل ہے
عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ اَمْرَہٗ کُلَّہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لِأَحَدٍ إِلاَّ لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْہٗ سَرَّآئُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہٗ وَإِنْ أَصَابَتْہٗ ضَرَّآئُ صَبَرَ، فَکَانَ خَیْرًا لَّہ۔
مسلم رقم : ۷۵۰۰۔
مومن کا عجب حال ہے، اس کا ثواب کہیں نہیں گیا، یہ بات صرف مومن کو ہی حاصل ہے، اگر اس کو خوشی حاصل ہوئی تو شکر کرتا ہے تو اس میں بھی ثواب ہے اور اگر نقصان پہنچا تو صبر کرتا ہے اس میں بھی اس کے لیے ثواب ہے۔


اللہ تعالی نے اپنے پہلے نبی نوح (علیہ السلام) کا وصف اس طرح بیان کیا
إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا
الإسراء: 3
بے شک وہ بہت شکر گزار بندہ تھا۔


اور اپنے خلیل ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا
شَاكِرًا لِأَنْعُمِهِ اجْتَبَاهُ وَهَدَاهُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ
النحل: 121
وہ اللہ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے،اللہ نے انہیں منتخب کر لیا اور سیدھی راہ دکھا دی ۔


اور موسی (علیہ السلام) کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا
وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ أَنْجَاكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَيُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ وَفِي ذَلِكُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ oوَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ
إبراهيم: 6، 7
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ تم اپنے اوپر اللہ کی نعمت یاد کرو، جب اس نے تمھیں فرعون کی آل سے نجات دی، جو تمھیں برا عذاب دیتے تھے اور تمھارے بیٹے بری طرح ذبح کرتے اور تمھاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے اور اس میں تمھارے رب کی طرف سے بہت بڑی آزمائش تھی۔ اور جب تمھارے رب نے صاف اعلان کر دیا کہ بے شک اگر تم شکر کرو گے تو میں ضرور تمھیں زیادہ دوں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو بلاشبہ میرا عذاب یقینا بہت سخت ہے۔


اور سلیمان (علیہ السلام) اپنے اوپر اللہ تعالی کی خاص نعمتیں اور اللہ کی طرف سے تابع کردہ مخلوقات کو دیکھتے ہوئے فرمانے لگے
فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِنْ قَوْلِهَا وَقَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ
النمل: 19
تو سلیمان (علیہ السلام) اس کی بات سے ہنستے ہوئے مسکرائے اور کہا اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر کروں، جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پرکی ہے اور یہ کہ میں نیک عمل کروں، جسے تو پسند کرے اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما۔


ایک انسان کو رب ذوالجلال نے رحمتہ للعالمین اور امام الانبیاء والمرسلین خاتم الرسل بنا کر بھیجا اور ان کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف فرمادیئے، وہ خالق کا اپنے اوپر کی گئی نعمت کا شکریہ ادا کرنے کے لیے نماز میں اتنا لمبا قیام کرتے کہ آپ کے دونوں قدم مبارک میں ورم آجاتا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تو بہت لمبے قیام ، رکوع اور سجود کرتے ، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کیوں ایسا کرتے ہیں حالانکہ آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کردیے گئے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
یَا عَائِشَۃُ أَفَـلَا أَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًا؟
’’ اے عائشہ! کیا میں شکر گزار بندہ نہ ہوجاؤں؟

مسلم , الأعمال والاجتھاد في العبادۃ۔


اَلطَّاعِمُ الشَّاکِرُ بِمَنْزِلَۃِ الصَّائِمِ الصَّابِرِ۔
’’ کھانا کھا کر شکریہ ادا کرنے والے کا درجہ صبر کرنے والے روزہ دار کی طرح کا ہے۔ ‘‘

اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ، وَشُكْرِكَ، وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ

اسنادہ صحیح، سنن ابی داؤد:1522،سنن نسائی:کرنے 1302
اے اللہ! میری مدد کر، اپنے ذکر کرنے پر اپنا شکرادا کرنے پر اور اپنی بہترین عبادت کرنے پر




 
Last edited:

Mughal1

Chief Minister (5k+ posts)
mullah ke sab ke sab qurani tarjamen aur tafseeren intahee ghalat hen. is liye keh ye sab ke sab islam ko mazhab banaane ki koshish main kiye ge the, hukamraanu aur sarmaayadaarun ke imaan per.


بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِأَ نْفُسِھِمْ یَمْھَدُوْنَ
الروم:۴۴
’’ اور نیک کام کرنے والے اپنی ہی آرام گاہ سنوار رہے ہیں۔

Lafze SAALIHAA ka maani naiki nahin hai balkeh aise kaam kerna hai jin se insaaniyat ki nashwo numaa main azaafa ho. yani aise kaam jin se insaaniyat ki perwarish main behtari aaye. ya insaaniyat phhale phhoole.

matlab ye keh jab insaan insaaniyat ki behtari ke liye kaam karen ge to is main her aik insaan ki khud apni behtari hai. maashre main behtari se maashre ke her fard ka faaida hota hai.

issi tarah maashre main abtari se her shakhs ka nuqsaan hota hai. log naiki se muraad woh aqeede aur amaal lete hen jin main insaaniyat ki kuchh bhi bhalayee nahin hoti balkeh ulta nuqsaan hota hai. khud saakhta aqeede aur befaida balkeh nuqsaandeh amaal.

yahaan khudaa insaanu ko asal main ye bataa rahaa hai keh aise kaam karo jin se khud tumaari apni duniya aur aakhirat sanware. lihaaza jin amaal se log sirf aur sirf apne aakhirat sanwaarne ki koshish kerte hen, quraan main aise amaal ka kaheen bhi zikr nahin hai.

matlab saaf zahir hai keh quraan un kaamoon ka bataa rahaa hai jin se pehle insaanu ki duniya sanware keh unhi se un ki aakhirat bhi sanware gi. lihaaza khudaa ki baadshahat main khud ussi ka nizaam qaaim kerne ki koshish main apna sab kuchh lagaa do. issi main insaaniyat ke liye duniya aur aakhirat main bhalayee hai.



إِِنْ تَکْفُرُوْا فَإِِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنْکُمْ وَلَا یَرْضَی لِعِبَادِہٖ الْکُفْرَ وَإِِنْ تَشْکُرُوْا یَرْضَہُ
الزمر:۷
اگر تم ناشکری کرو تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ تم سب سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کی ناشکری سے خوش نہیں ہوتا اور اگر تم شکر کرو تو وہ اس کی وجہ سے تم سے خوش ہوگا


أَنِ اشْکُرْ لِلّٰہِ وَمَنْ یَّشْکُرْ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ وَمَنْ کَفَرَ فَإِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ
لقمان: ۱۲
’’ اور ہر شکر کرنے والا اپنے ہی نفع کے لیے شکر کرتا ہے اور جو بھی ناشکری کرے وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ بے نیاز اور تعریفوں والا ہے۔ ‘‘
معلوم ہوا کہ شکریہ ادا کرنے کا نفع اور ثواب اسی پر واپس لوٹ آتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا


إِعْمَلُوْا اٰلَ دَاوٗدَ شُکْرًا
سبا: ۱۳
’’ اے آل داود! اس کے شکریہ میں نیک عمل کرو۔ ‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ نے دین اور دنیوی نعمتوں سے تمہیں نوازا، لہٰذا شکریہ ادا کرنے کی صورت یہ ہے کہ تم نیک اعمال بجا لاؤ۔ گویا نماز، روزہ اور ہر قسم کی عبادت جب شکر کے قائم مقام کردی جائے تو خود ہی شکر بن جاتی ہیں۔


شکر اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری سے مکمل ہوتا ہے

قرآن و سنت اس بات پردلیل ہیں کہ بدنی عمل سے شکریہ ادا کرنا زبانی عمل پر اقرار کرنے کے علاوہ ہے۔ چنانچہ فعلی شکر ارکان (اعضاء) کا عمل اور قولی شکر زبان کا عمل ہے۔ یعنی اپنے اچھےعمل اور اچھی بات کے زریعے اللہ کا شکر ادا کرتے رہو ۔


وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیْدَنَّکُمْ
ابراہیم : ۷
’’ اگر تم میرا شکر کرو گے تو البتہ ضرور میں تمہیں زیادہ دوں گا۔ ‘‘
یعنی میری نعمتوں کا اگر شکر کرو گے تو تم پر اپنا فضل اور بڑھا دوں گا۔
اس کے مطابق شکر کی حقیقت، منعم کے لیے نعمت کا اعتراف کرنا اور صرف اس کی فرمانبرداری کرنا ہے۔


Lafze SHUKR ka maani bhi yahee hai keh jo kuchh khudaa ne insaanu ko diya hai woh us ko aise tareeeqe se us maqsad ke liye istemaal karen jisse khud un ko faaide haasil hun.

surah 113 al falaq main issi baat ko samjhaaya gayaa hai keh khudaa ne sab kuchh peda kiya hai magar ye baat khud insaanu ke apne ooper munhasir hai keh woh us ki peda ki gayee cheezun ko istemaal apni behtari ke liye kerte hen yaa aapas main fitna fasaad phelaane ke liye.

agar log khudaa ki peda ki gayee cheezun ko apne faaide ke liye istemaal karen ge to un ki apni behtari ho gi warna ulta nuqsaan ho ga.

ham insaan khudaa ki di hui cheezun se khud apne liye hathyaar banaate hen. un ko ham chahyen to aik doosre ko nuqsaan pohnchaane ke liye istemaal karen ham chahyen to un ko aik doosre ko faaida pohnchaane ke liye istemaal karen.

jo log khudaa ki hidaayat ke mutaabiq apni zindagi nahin guzaarte woh us ki di hui cheezun ko ghalat tareeqe se istemaal ker ke insaaniyat ko nuqsanaat pohnchaate hen aur jo us ki hidaayat ke mutaabiq un ko istemaal kerte hen woh un cheezun se insaaniyat ko faaide pohnchaate hen.

quraan ke ghalat tarjamen aur tafseeren quraan ke is paighaam ki tarjumaani nahin kerte balkeh ulta woh is paighaam ko lafzun ke hair phair main chhupaa dete hen. For a detailed explanation of things about the quran, deen of islam and pakistan see HERE, HERE, HERE, HERE and HERE.

issi liye behtar hai her woh shakhs jo quraan ko theek tarah se samajhna chahta hai aik to khud arbi zubaan seekhe aur doosra insaani zabaan ki ibtadaa aur develoment ko bhi samjhe. is liye ke aisa kiye baghair insaanu ke liye quraan ke asal context ko samajhna mumkin hi nahin hai. yahee wajah hai aur to aur khud musalmaan ummat sadiyun se gumrahi ke khadde main atki padi hai. woh bhi deegar jahil logoon ki tarah khudaa ki pooja paat main lagi hui hai bajaaye khudaa ke bataaye huwe kaam kerne ke.
 
Last edited: