شادی والدین کے ذمے فرض نہیں ہے

Majid Sheikh

MPA (400+ posts)
..شادی والدین کے ذمے فرض نہیں ہے..

پاکستانی معاشرے میں اپنی اولاد کی شادی کو والدین ایک ایسا فریضہ سمجھتے ہیں جنہیں انہوں نے ہر صورت ادا کرنا ہے ۔ کسی لڑکے کا غیر شادی شدہ زندگی گزارنا انتہائی معیوب سمجھتا جاتا ہے، ایسا شخص جس نے شادی نہ کی ہو، اسے معاشرے میں ایلین سمجھا جاتا ہے اور لڑکی کا تو بغیر شادی کے رہنا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ معاشرے کے اس رجحان کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں شادی کا اولین مقصد بچوں کی پیدائش اور ثانوی مقصد جنسی تسکین سمجھا جاتا ہے۔ اسی لئے لڑکا ہو یا لڑکی والدین نے ان کی شادی کا معاملہ اپنے ہاتھ میں لیا ہوتا ہے کہ بچے ہی تو پیدا کرنے ہیں چاہے جس کے ساتھ چاہے پیدا کرلئے جائیں۔ اس لئے بھیڑ بکریوں کی طرح اجنبی لڑکے کو اجنبی لڑکی کے ساتھ پوری زندگی گزارنے کیلئے باندھ دیا جاتا ہے۔ اوپر سے شادی کا بنیادی مقصد چونکہ بچوں کی پیدائش سمجھا جاتا ہے اس لئے شادی کے ایک آدھ ماہ بعد ہی گھر والے، رشتے دار اور اردگرد کے لوگ دلہا دلہن کو کھنگالنا شروع کردیتے ہیں کہ آیاکہ کسی بچے کے آثار نمودار ہوئے یا نہیں۔۔

میرا خیال ہے کہ اب ہمارے معاشرے کو یہ چلن بدلنا چاہیے، شادی کے بارے میں اس فرسودہ سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا کہ شادی محض بچے پیدا کرنے یا جنسی ضرورت پوری کرنے کا ذریعہ ہے۔ شادی صرف تب کرنی چاہیے جب اپنی سوچ، مزاج اور طبیعت کا فریق میسر آجائے اور اگر نہ آئے تو کوئی لازم نہیں کہ ہر حال میں شادی کو فرض ہی سمجھ لیا جائے۔ کیونکہ محض معاشرتی روایت سمجھ کر شادی کے نام پر دو لوگوں کو ایک ساتھ باندھ دینے سے صرف انہی دو لوگوں کی زندگی تباہ نہیں ہوتی، بلکہ ان کے پیدا ہونے والے بچے بھی اس مجبوری کے بندھن کے اثرات سے پوری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں اکثراس بات کو بڑے فخر سے بیان کیا جاتا ہے کہ ہمارا مشرقی فیملی سسٹم بڑا مضبوط ہے، مغربی فیملی سسٹم ٹوٹ پھوٹ گیا ہے بکھر گیا ہے جبکہ یہاں دیکھیں شادیاں کتنی کامیاب ہیں، لوگ پوری زندگی ایک دوسرے کے ساتھ گزار دیتے ہیں۔ اس دعوے کی حقیقت یہ ہے کہ یہ نام نہاد "کامیاب شادیاں" معاشرتی دباؤ تلے پنپنے والے زبردستی کے بندھن ہیں، عورت کے پاس کوئی راستہ نہیں ہوتا کہ وہ یہ بندھن توڑ کر کہاں جائے اور مرد کے پاس بھی شادی کے علاوہ جنسی ضرورت پوری کرنے کی کوئی اور آسان سبیل نہیں ہوتی، لہذا دونوں نظریہ ضرورت کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ بندھے رہتے ہیں، مگر ایسی جبر اور گھٹن سے بھرپور زندگی فرسٹریشن پیدا کرتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی عدم برداشت کی ایک بڑی وجہ ناکام اور نظریہ ضرورت کے تحت قائم کھوکھلا فیملی سسٹم بھی ہے۔ دو انسانوں کا، میاں بیوی کا عمر بھر کیلئے ساتھ رہنا بہت ہی نایاب واقعہ ہے، کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے کہ بھلے وہ ایک دوسرے سے پیار محبت عشق میں مبتلا ہوکر شادی کرلیں، مگر جب وہ ایک ساتھ رہنے لگیں تو کچھ عرصہ بعد ایک دوسرے سے اکتا جاتے ہیں، ایسے میں بہتر ہے کہ دونوں باہمی رضامندی سے اپنے راستے جدا کرلیں۔ شادی کوئی پتھر کی لکیر یا کوئی ایسا اٹوٹ بندھن نہیں ہوتا جس کو توڑنا کوئی بہت بڑا جرم یا غلط کام ہے جیسا کہ اسلام میں طلاق کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔۔طلاق کوئی ناپسندیدہ یا غلط عمل نہیں ہے، یہ محض قدیم زمانے کے لوگوں کی فرسودہ سوچ ہے جس کو ہم نے مذہبی دباؤ تلے آج بھی اپنے دماغوں پر مسلط کر رکھا ہے۔ اگر میاں بیوی محض مذہبی یا معاشرتی دباؤ کی وجہ سے ایک دوسرے کو جھیل رہے ہیں تو وہ دونوں نہ صرف خود پر بلکہ معاشرے پر بھی ظلم کررہے ہیں کیونکہ بہرحال ان کی فرسٹریشن معاشرے میں ہی کہیں نہ کہیں نکلنی ہوتی ہے۔

میری اس موضوع کو چھیڑنے کی وجہ عظمیٰ خان کیس ہے۔ عظمیٰ خان کیس میں آمنہ عثمان کا شوہر دوسری عورت کے پاس جاتا ہے، آمنہ عثمان اپنے شوہر کے ساتھ مصالحت کرنے یا اپنی راہیں جدا کرنے کی بجائے اس عورت پر چڑھ دوڑتی ہے۔ سیدھی سی بات ہے اگر آمنہ اور اس کا شوہر ایک دوسرے سے خوش نہیں ہیں تو زبردستی ایک دوسرے سے کیوں بندھے ہوئے ہیں، آرام سے الگ ہوجائیں۔ علمِ نفسیات اور بشریات بتاتا ہے کہ انسان تب تک کوئی تخلیقی کام نہیں کرسکتا جب تک وہ معاشی اور جنسی آسودگی نہ حاصل کرلے۔

کبھی سوچیں کیا وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے سے کوئی بڑا دماغ، کوئی بڑا سائنسدان، کوئی بڑا انجینئر، کوئی بڑا ادیب پیدا نہیں ہوتا۔ کیا وجہ ہے کہ ساری ایجادات اور دریافتیں مغربی معاشروں سے ہورہی ہیں۔ کیا وہاں کے انسان کسی الگ جینز کے بنے ہیں یا پھر ہمارے معاشرے کے لوگوں کا ڈی این اے ڈی فیکٹیو ہے۔۔؟ نہیں ایسا بالکل نہیں ہے، وہاں کے لوگوں نے اس چیز کو سمجھ لیا ہے کہ جب تک انسان کے پیٹ کے بھوک اور جنس کی بھوک نہ مٹائی جائے، وہ کوئی کارآمد کام نہیں کرسکتا۔ انہوں نے اپنی معیشت بہتر کی اور جنسی ضرورت کو شادی سے الگ کردیا۔ وہاں لڑکا لڑکی جب بالغ ہوتے ہیں وہ بغیر شادی کے اپنی جنسی ضرورت پوری کرتے ہیں اور کام میں لگ جاتے ہیں۔ یہاں ہمارے معاشرے میں کیا ہوتا ہے، بالغ ہونے پر لڑکے اورلڑکی کو پورے معاشرے میں جنسی گھٹن کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کئی سال بعد جا کر شادی ہوتی ہے تو بے دریغ آبادی اور مشترکہ خاندانی نظام کی وجہ سے گھٹ گھٹ کر چند منٹوں میں دم سادھ کر جنسی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ یوں ایک طرح سے پورا معاشرہ بلوغت سے لے کر بڑھاپے تک جنسی فرسٹریشن کا شکار رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے لوگوں کے ذہن پر ہر وقت عورت سوار رہتی ہے، کسی دفتر میں عورت کام کررہی ہو تو سب کی نظریں اسی کو گھورتی رہتی ہیں، مرد آپس میں اس کے بارے میں غلیظ اور ترسے ہوئے تبصرے کرتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے کا مرد اور عورت دونوں کی جنسی بھوک پوری نہیں ہوتی، جنسی بھوک روٹی کی بھوک کی طرح ہی ہوتی ہے، اگر کوئی پیٹ سے بھوکا ہو تو لازمی بات ہے اس کے ذہن پر کھانے کی فکر ہی سوار ہوگی، اسی طرح جنسی طور پر فرسٹریٹڈ مرد یا عورت کا ذہن بھی تب تک کوئی اور کام معقول طریقے سے نہیں کرسکتا جب تک وہ اپنی جنسی تسکین نہ کرلے۔۔

ہمارا معاشرہ اسی جنسی تشنگی کی وجہ سے تخلیقی میدان میں فارغ ہے اور مغرب ساری ترقیاں سمیٹ رہا ہے۔ اس لئے معاشرے کو اپنا چلن بدلنا ہوگا، شادی نہ تو کوئی فریضہ ہونی چاہیے نہ یہ والدین کی ذمہ داری ہونی چاہے، والدین کا اس بات سے کوئی لینا دینا نہیں کہ جس کو انہوں نے پیدا کیا ہے کہ وہ کس کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کرتا ہے، یہ اس کی اپنی چوائس ہونی چاہیے۔ سب سے اہم بات یہ کہ جنسی ضرورت کو شادی سے الگ کرنا ہوگا، جنسی ضرورت کی حقیقت کو سمجھنا ہوگا یہ ایک فطری ضرورت ہے اور اس کو ایک خاص وقت تک روکے رکھنا، اس پر بندھ باندھنا اور پابندیاں لگانا پورے معاشرے کو جنسی مریض بنانے کے مترادف ہے۔۔


 
Last edited:

Star Wars

MPA (400+ posts)
Trump belongs from brown race, was born in Chakwal, became president of Pakistan, is a devout Muslim. He has no relations with western society who plundered rich countries of the eastern world and carry on research with that plundered wealth.

Pakistanis should plunder the west and then carry out research activities. Is this enough?
 

sad_far

Politcal Worker (100+ posts)
Is behouda writer ko koi visa lagwa ker dikhaye key western world yeah kaam ker chuki hay or buri tarah nakam hoyee hay waha abhi bhi rap ho raha hay. Or rahi baat Office main aurat ka muqam wo Abhi west main tou sahi hiwa nahi, Usay abhi bhi sexual nazro ka samna hay "us kay sath kaam kernay walay goray" say.


More than half of women in London are ‘victims of sexual harassment on Tube, trains and buses’

read this article below.
https://www.standard.co.uk/news/tra...sment-on-tubes-trains-and-buses-a4338861.html
 

3rd_Umpire

Chief Minister (5k+ posts)
..شادی والدین کے ذمے فرض نہیں ہے..

پاکستانی معاشرے میں اپنی اولاد کی شادی کو والدین ایک ایسا فریضہ سمجھتے ہیں جنہیں انہوں نے ہر صورت ادا کرنا ہے ۔ کسی لڑکے کا غیر شادی شدہ زندگی گزارنا انتہائی معیوب سمجھتا جاتا ہے، ایسا شخص جس نے شادی نہ کی ہو، اسے معاشرے میں ایلین سمجھا جاتا ہے اور لڑکی کا تو بغیر شادی کے رہنا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ معاشرے کے اس رجحان کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں شادی کا اولین مقصد بچوں کی پیدائش اور ثانوی مقصد جنسی تسکین سمجھا جاتا ہے۔ اسی لئے لڑکا ہو یا لڑکی والدین نے ان کی شادی کا معاملہ اپنے ہاتھ میں لیا ہوتا ہے کہ بچے ہی تو پیدا کرنے ہیں چاہے جس کے ساتھ چاہے پیدا کرلئے جائیں۔ اس لئے بھیڑ بکریوں کی طرح اجنبی لڑکے کو اجنبی لڑکی کے ساتھ پوری زندگی گزارنے کیلئے باندھ دیا جاتا ہے۔ اوپر سے شادی کا بنیادی مقصد چونکہ بچوں کی پیدائش سمجھا جاتا ہے اس لئے شادی کے ایک آدھ ماہ بعد ہی گھر والے، رشتے دار اور اردگرد کے لوگ دلہا دلہن کو کھنگالنا شروع کردیتے ہیں کہ آیاکہ کسی بچے کے آثار نمودار ہوئے یا نہیں۔۔

میرا خیال ہے کہ اب ہمارے معاشرے کو یہ چلن بدلنا چاہیے، شادی کے بارے میں اس فرسودہ سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا کہ شادی محض بچے پیدا کرنے یا جنسی ضرورت پوری کرنے کا ذریعہ ہے۔ شادی صرف تب کرنی چاہیے جب اپنی سوچ، مزاج اور طبیعت کا فریق میسر آجائے اور اگر نہ آئے تو کوئی لازم نہیں کہ ہر حال میں شادی کو فرض ہی سمجھ لیا جائے۔ کیونکہ محض معاشرتی روایت سمجھ کر شادی کے نام پر دو لوگوں کو ایک ساتھ باندھ دینے سے صرف انہی دو لوگوں کی زندگی تباہ نہیں ہوتی، بلکہ ان کے پیدا ہونے والے بچے بھی اس مجبوری کے بندھن کے اثرات سے پوری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں اکثراس بات کو بڑے فخر سے بیان کیا جاتا ہے کہ ہمارا مشرقی فیملی سسٹم بڑا مضبوط ہے، مغربی فیملی سسٹم ٹوٹ پھوٹ گیا ہے بکھر گیا ہے جبکہ یہاں دیکھیں شادیاں کتنی کامیاب ہیں، لوگ پوری زندگی ایک دوسرے کے ساتھ گزار دیتے ہیں۔ اس دعوے کی حقیقت یہ ہے کہ یہ نام نہاد "کامیاب شادیاں" معاشرتی دباؤ تلے پنپنے والے زبردستی کے بندھن ہیں، عورت کے پاس کوئی راستہ نہیں ہوتا کہ وہ یہ بندھن توڑ کر کہاں جائے اور مرد کے پاس بھی شادی کے علاوہ جنسی ضرورت پوری کرنے کی کوئی اور آسان سبیل نہیں ہوتی، لہذا دونوں نظریہ ضرورت کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ بندھے رہتے ہیں، مگر ایسی جبر اور گھٹن سے بھرپور زندگی فرسٹریشن پیدا کرتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی عدم برداشت کی ایک بڑی وجہ ناکام اور نظریہ ضرورت کے تحت قائم کھوکھلا فیملی سسٹم بھی ہے۔ دو انسانوں کا، میاں بیوی کا عمر بھر کیلئے ساتھ رہنا بہت ہی نایاب واقعہ ہے، کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے کہ بھلے وہ ایک دوسرے سے پیار محبت عشق میں مبتلا ہوکر شادی کرلیں، مگر جب وہ ایک ساتھ رہنے لگیں تو کچھ عرصہ بعد ایک دوسرے سے اکتا جاتے ہیں، ایسے میں بہتر ہے کہ دونوں باہمی رضامندی سے اپنے راستے جدا کرلیں۔ شادی کوئی پتھر کی لکیر یا کوئی ایسا اٹوٹ بندھن نہیں ہوتا جس کو توڑنا کوئی بہت بڑا جرم یا غلط کام ہے جیسا کہ اسلام میں طلاق کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔۔طلاق کوئی ناپسندیدہ یا غلط عمل نہیں ہے، یہ محض قدیم زمانے کے لوگوں کی فرسودہ سوچ ہے جس کو ہم نے مذہبی دباؤ تلے آج بھی اپنے دماغوں پر مسلط کر رکھا ہے۔ اگر میاں بیوی محض مذہبی یا معاشرتی دباؤ کی وجہ سے ایک دوسرے کو جھیل رہے ہیں تو وہ دونوں نہ صرف خود پر بلکہ معاشرے پر بھی ظلم کررہے ہیں کیونکہ بہرحال ان کی فرسٹریشن معاشرے میں ہی کہیں نہ کہیں نکلنی ہوتی ہے۔

میری اس موضوع کو چھیڑنے کی وجہ عظمیٰ خان کیس ہے۔ عظمیٰ خان کیس میں آمنہ عثمان کا شوہر دوسری عورت کے پاس جاتا ہے، آمنہ عثمان اپنے شوہر کے ساتھ مصالحت کرنے یا اپنی راہیں جدا کرنے کی بجائے اس عورت پر چڑھ دوڑتی ہے۔ سیدھی سی بات ہے اگر آمنہ اور اس کا شوہر ایک دوسرے سے خوش نہیں ہیں تو زبردستی ایک دوسرے سے کیوں بندھے ہوئے ہیں، آرام سے الگ ہوجائیں۔ علمِ نفسیات اور بشریات بتاتا ہے کہ انسان تب تک کوئی تخلیقی کام نہیں کرسکتا جب تک وہ معاشی اور جنسی آسودگی نہ حاصل کرلے۔

کبھی سوچیں کیا وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے سے کوئی بڑا دماغ، کوئی بڑا سائنسدان، کوئی بڑا انجینئر، کوئی بڑا ادیب پیدا نہیں ہوتا۔ کیا وجہ ہے کہ ساری ایجادات اور دریافتیں مغربی معاشروں سے ہورہی ہیں۔ کیا وہاں کے انسان کسی الگ جینز کے بنے ہیں یا پھر ہمارے معاشرے کے لوگوں کا ڈی این اے ڈی فیکٹیو ہے۔۔؟ نہیں ایسا بالکل نہیں ہے، وہاں کے لوگوں نے اس چیز کو سمجھ لیا ہے کہ جب تک انسان کے پیٹ کے بھوک اور جنس کی بھوک نہ مٹائی جائے، وہ کوئی کارآمد کام نہیں کرسکتا۔ انہوں نے اپنی معیشت بہتر کی اور جنسی ضرورت کو شادی سے الگ کردیا۔ وہاں لڑکا لڑکی جب بالغ ہوتے ہیں وہ بغیر شادی کے اپنی جنسی ضرورت پوری کرتے ہیں اور کام میں لگ جاتے ہیں۔ یہاں ہمارے معاشرے میں کیا ہوتا ہے، بالغ ہونے پر لڑکے اورلڑکی کو پورے معاشرے میں جنسی گھٹن کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کئی سال بعد جا کر شادی ہوتی ہے تو بے دریغ آبادی اور مشترکہ خاندانی نظام کی وجہ سے گھٹ گھٹ کر چند منٹوں میں دم سادھ کر جنسی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ یوں ایک طرح سے پورا معاشرہ بلوغت سے لے کر بڑھاپے تک جنسی فرسٹریشن کا شکار رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے لوگوں کے ذہن پر ہر وقت عورت سوار رہتی ہے، کسی دفتر میں عورت کام کررہی ہو تو سب کی نظریں اسی کو گھورتی رہتی ہیں، مرد آپس میں اس کے بارے میں غلیظ اور ترسے ہوئے تبصرے کرتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے کا مرد اور عورت دونوں کی جنسی بھوک پوری نہیں ہوتی، جنسی بھوک روٹی کی بھوک کی طرح ہی ہوتی ہے، اگر کوئی پیٹ سے بھوکا ہو تو لازمی بات ہے اس کے ذہن پر کھانے کی فکر ہی سوار ہوگی، اسی طرح جنسی طور پر فرسٹریٹڈ مرد یا عورت کا ذہن بھی تب تک کوئی اور کام معقول طریقے سے نہیں کرسکتا جب تک وہ اپنی جنسی تسکین نہ کرلے۔۔

ہمارا معاشرہ اسی جنسی تشنگی کی وجہ سے تخلیقی میدان میں فارغ ہے اور مغرب ساری ترقیاں سمیٹ رہا ہے۔ اس لئے معاشرے کو اپنا چلن بدلنا ہوگا، شادی نہ تو کوئی فریضہ ہونی چاہیے نہ یہ والدین کی ذمہ داری ہونی چاہے، والدین کا اس بات سے کوئی لینا دینا نہیں کہ جس کو انہوں نے پیدا کیا ہے کہ وہ کس کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کرتا ہے، یہ اس کی اپنی چوائس ہونی چاہیے۔ سب سے اہم بات یہ کہ جنسی ضرورت کو شادی سے الگ کرنا ہوگا، جنسی ضرورت کی حقیقت کو سمجھنا ہوگا یہ ایک فطری ضرورت ہے اور اس کو ایک خاص وقت تک روکے رکھنا، اس پر بندھ باندھنا اور پابندیاں لگانا پورے معاشرے کو جنسی مریض بنانے کے مترادف ہے۔۔


Mr.Psychopath,,
You need some serious & long session of counseling with some renowned Psychiatrists,,