سیف الملوک کی پکار۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر:جانی۔
ناران کے بازار سے کوئی بیس منٹ کی جیپ ڈرائیو پر واقع قدرت کا اک انمول تحفہ جھیل سیف الملوک واقع ہے۔ ۔ کسی زمانے میں یہی فاصلہ شاید کئی گھنٹوں کا رہا ہوگا۔۔مگر حالیہ ادوار میں اس تک جانے والے رستے کو بنانے کی کوشش کی گئی۔۔ جس کی رفتار انتہائی سست معلوم ہوتی ہے۔۔
اس کے حسن پر کئی کہانیاں اور قصے لکھے گئے، اور کئی کتابوں میں اس کا ذکر بھی ہے۔۔اسلیئے میں اس طرف نہیں جاونگا۔۔ بلکہ اپنے حالیہ شمال کی سیر میں نوٹ کیئے گئے اس جھیل سے مُتعلق چند اہم نقاط کی طرف توجہ دلانا چاہونگا۔۔
اس جھیل تک جانے کے لیئے جیپ کے علاوہ اگر کسی گاڑی میں جانے کا سوچھیں تو وہ ٹینک ہی ہوگا۔۔کیونکہ گھوڑوں اور خچروں پر بیٹھ کر وہاں جانا جیسے موت کے کنویں میں سست روی سے سفر کرنا۔۔
جب آپ جیپ سے جھیل کے قریب پہنچیں تو پہلے دس منٹ تک آپکو قریبی جھونپڑی نما چائے کے ہوٹلوں کی چار پائی پر لیٹ کر گزارنا پڑتا ہے۔۔ کمبخت آنتوں کو جیسے کسی نے دانتوں میں چبالیا ہو، اور سر ۔۔اُف۔۔سر تو ایسے چکراتا ہے جیسے ابھی ابھی خلا سے کسی بے قابو اور آوارہ قسم کی کیپسول نما شے میں زمین پر دھڑام سے گرے ہوں۔۔
وجہ ہے اس تک پہنچنے والے رستے پر موجود انتہائی تکلیف دے قسم کے پتھر۔۔جو جیپ کو پندرہ بیس منٹ تک مسلسل ایسے جھٹکے دیتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔۔
اب جبکہ اتنا کام ہوچکا کہ ایک وقت میں دو جیپیں ایک دوسرے کو اوور ٹیک کرسکتی ہیں تو کیوں نہ۔۔اس رستے پر موجود خطرناک ڈھلوانوں کو مناسب انداز میں ہموارکرنے کے علاوہ اسے باقاعدہ سڑک میں تبدیل کردیا جائے۔۔
اگر کوئی یہ کہے کہ نہیں اس سے وہاں کا قدرتی حسن برباد ہوگا تو ٹرسٹ می ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔ جو وہاں کی حالت اب ہے، بندہ دیکھ کر افسوس کرتا ہے، کہ کس طرح جھونپڑ پٹی نما ناقص کھانوں کے ہوٹلوں کی بھرمار کردی گئی ہے اس جھیل کے کنارے۔ جیپ والوں نے کیا گند مچارکھا ہے ۔اور کس طرح جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگ گئے ہیں وہاں۔
اس بین الاقوامی شہرت آفتہ جھیل کے کنارے سے ساری غیر قانونی تجاوزات ختم کرکے۔ سرکار کی سرپرستی میں پرائیویٹ ہوٹل اور فوڈ انڈسٹری کی اسطرف آنے کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔۔ کیونکہ جو وہاں کا حال ہے، اس سے شاید دوچار لوگو ں کا فائدہ ہو مگر نہ تو سرکار کو وہ فائدہ پہنچتا ہے جو پہنچنا چاہیے اور نہ ایک بڑی آبادی کو۔
جب سڑک ہموار ہوجائے تو جیپ والوں کو بھی ایک طریقہ کار سے گزار کر خاص لائسنس دیئے جائیں، کرائے کی حد کے ساتھ۔
اس وقت وہ اس دس پندہ منٹ کے سفر کا دوسو فی کس کے آس پاس لے رہے ہیں، اور جیپ کو اتنا بھرتے ہیں کہ بیچ میں ہوا کے گزرنے کی بھی جگہ نہیں رہتی، مطلب ان دس پندرہ منٹ کے سفر کا وہ تقریبا دوہزار کے قریب بناتے ہیں، اور دن میں ان کے کئی چکر لگتے ہیں، ۔۔ باقی چلاتے بھی انتہائی لاپرواہی سے ہیں، ۔ اگر بات کرو تو کہتے ہیں ہمارا روز کا کام ہے۔۔ مگر جب
نیچھے لُڑھکتے ہیں تو اپنے ساتھ کئی قیمتی جانوں کا ضیا کرتے ہیں۔
اس جگہ اور اس طرح کے باقی قدرتی حسن سے مالا مال جگہوں کو ایک پراپر پلان کی ضرورت ہے، ۔وہ پلان جس سے نہ صرف ان جگہوں کے قدرتی حسن کو برباد ہونے سے بچایا جاسکے، بلکہ لوکل ٹوررسٹوں کے علاوہ بین الاقوامی ٹورسٹوں کے لیئے بھی پرکشش بنایا جاسکے۔۔اور جس سے یقینا سرکار کے علاوہ وہاں کے قریبی رہائشی بھی فائدہ اٹھاسکیں۔۔
آخر میں سب سے اہم، جس بات کو ہم نے اپنے سفر میں نوٹ کیا، وہ تھے وہاں کے بھیک مانگتے بچے، ان بچوں کے لیئے سرکار کو
بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، مگر فی الحال بس ایسا کچھ کردے کہ انہیں بھیک نہ مانگنا پڑے۔۔
جانیjani