سیاست میں مذہب کا استعمال

Zinda_Rood

Minister (2k+ posts)
مولانا فضل الرحمان نے گزشتہ روز تقریر کرتے ہوئے عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک کو شرعی جہاد اس "جہاد" سے پیچھے ہٹنے کو گناہِ کبیرہ قرار دے دیا۔ مولانا فضل الرحمان کے مدارس کے طلباء کیلئے فضل الرحمان کی ہر بات ایمان کا درجہ رکھتی ہے، لہذا وہ اس کو شرعی جہاد کے طور پر ہی لیں گے۔ مولانا فضل الرحمان کی تو خیر پوری سیاست ہی مذہب کے گرد گھومتی ہے۔ ذاتی طور پر میری رائے میں سیاست میں مذہب کو استعمال کرکے کم خواندہ لوگوں کے جذبات کا استحصال کرنا نہایت معیوب فعل ہے اور اس کی کسی بھی معاشرے میں اجازت نہیں ہونی چاہئے۔

مسئلہ مگر یہ ہے کہ پاکستان میں ہر سیاسی جماعت اور اس کے پیروکار صرف مخالف کے سیاست میں مذہب کے استعمال کو ہی غلط سمجھتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر خود بعینیہ وہی کام کرتے ہیں اور اس کو درست سمجھتے ہیں۔ اس وقت سیاست میں مذہب کا سب سے زیادہ استعمال عمران خان کررہے ہیں۔ عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو انہوں نے نواز شریف حکومت کے خلاف ختمِ نبوت کارڈ بھرپور طریقے سے استعمال کیا، مولویوں کی ختمِ نبوت کی ریلیوں میں جا جا کر خطاب کیا اور اس کا خمیازہ نواز حکومت کو بھگتنا پڑا، مذہبی جنونیوں کی طرف سے نواز شریف پر جوتے سے حملہ ہوا، خواجہ آصف کے منہ پر سیاہی پھینکی گئی اور احسن اقبال کو گولی ماری گئی۔ اب اگر مولوی فضل الرحمان کا کوئی چیلا چانٹا جہاد کرتے ہوئے عمران خان یا اس کی پارٹی کے کسی لیڈر پر جاکر پھٹ جائے تو کیا عمران خان یا تحریک انصاف کے لوگ اس عمل کو غلط قرار دینے کی پوزیشن میں ہوں گے۔۔

پاکستانی سیاست میں مذہب کا استعمال تقریباً ہر سیاسی جماعت نے کیا۔ بھٹو تو اس قدر آگے چلا گیا کہ اکثریت کو خوش کرنے کیلئے مسلم اور غیر مسلم کی تعریف کا ٹھیکہ بھی ریاست کے سپرد کردیا اور مسلمانوں کے ایک فرقے کو کاٹ کر غیر مسلم قرار دے دیا، حالانکہ وہ اقلیت خود کو پوری طرح مسلمان کہتی اور سمجھتی ہے۔ جب کوئی خود کو مسلمان کہے تو کسی دوسرے کو کیا حق ہے کہ اس کو غیر مسلم ڈکلیئر کردے۔۔ اس کےبعد ضیاء نے آکر پاکستانی سیاست میں مذہب کا وہ محلول گھول دیا جس کے اثرات گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ وہ تو خیر تھا بھی مذہبی آدمی، اس سے توقع بھی یہی تھی، مگر مسئلہ بھٹو اور عمران خان جیسے منافقین کا ہے جو ذاتی زندگی میں تو ویسٹرنائز اور سیکولر لوگ ہیں، مگر صرف لوگوں کو بیوقوف بنانے کیلئے مذہبی نوٹنکیاں شروع کردیتے ہیں۔ عمران خان نے تو حد ہی کردی ہے، ہاتھ میں تسبیح پکڑ لی ہے اور غلط تلفظ میں ہر وقت اسلامی شخصیات کا نام لے لے کر لوگوں کو بیوقوف بناتا رہتا ہے، جس شخص کو آج تک خاتم النبین کہنا نہ آیا، وہ ذاتی زندگی میں کتنا مذہبی ہوسکتا ہے، اس کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اس کو نماز پڑھنی بھی نہیں آتی ہوگی، یہ صرف دکھاوے کیلئے نوٹنکیاں کرتا ہے۔۔ حالانکہ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں، کوئی نماز پڑھے نہ پڑھے، عبادت کرے نہ کرے، کسی بھی مذہب عقیدے کو مانے یا بالکل نہ مانے یہ اس کا ذاتی اور پرائیویٹ معاملہ ہے، مگر عمران خان چونکہ مذہب کو پرائیویٹ سے پبلک ڈومین میں لے آیا ہے، اسلئے یہ اعتراض بالکل بجا ہے۔۔۔

میرے خیال میں پاکستانی قوم کو ایک اصولی موقف لینا ہوگا آیاکہ سیاست میں مذہب کا استعمال ہونا چاہئے یا نہیں ہونا چاہئے، اگر تو قوم اس بات پر متفق ہے کہ سیاست میں مذہب کا استعمال ہونا چاہئے تو پھر مولانا فضل الرحمان کو بھی پورا حق ہے کہ وہ سیاست میں جتنا چاہے مذہب کا استعمال کریں، کل کو وہ عمران خان کو شرعاً واجب القتل بھی قرار دے دے تب بھی کسی کے پاس اسے غلط کہنے کا جواز نہیں ہوگا۔۔
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
باقی بے سروپا باتیں ایک طرف لیکن آپ کے قادیانیوں کے بارے میں کمنٹ پڑھ کر بہت ہنسی آئی
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
سیکولر ریاستوں کی سیاست میں مذہب کا استعمال خوب ہوتا ہے. نو گیارہ کے بعد بش نے صلیبی جنگ کا آغاز کرنے کا اعلان. دنیا کی سب سے بڑی سیکولریہ میں مذہبی جماعت اقتدار کی دوسری مدت پوری کر رہی ہے

مذہب انسانیت کو ماننے والے انسانی حقوق کی پامالی کو بنیاد بنا کر کس بھی مطلوبہ ملک کے انسانوں کا قتل عام کرنے کے منصوبہ بنا لیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے
 
Last edited:

Zinda_Rood

Minister (2k+ posts)
باقی بے سروپا باتیں ایک طرف لیکن آپ کے قادیانیوں کے بارے میں کمنٹ پڑھ کر بہت ہنسی آئی

اتنی ہی ہنسی آئی جتنی مجھے آپ کی بے تکی باتیں پڑھ کر آتی ہے یا اس سے کچھ کم زیادہ۔۔??۔؟؟
 

Zinda_Rood

Minister (2k+ posts)
سیکولر ریاستوں کی سیاست میں مذہب کا استعمال خوب ہوتا ہے. نو گیارہ کے بعد بش نے صلیبی جنگ کا آغاز کرنے کا اعلان. دنیا کی سب سے بڑی سیکولریہ میں مذہبی جماعت اقتدار کی دوسری مدت پوری کر رہی ہے

مذہب انسانیت کو ماننے والے انسانی حقوق کی پامالی کو بنیاد بنا کر کس بھی مطلوبہ ملک کے انسانوں کا قتل عام کرنے کے منصوبہ بنا لیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے


حضرت صاحب۔۔ کبھی کبھی ماتم کرنے کا ناغہ بھی کرلیا کریں، ہمیشہ سیکولر ملکوں کو پکڑ کر روتے رہتے ہیں۔ وہ اپنے بل پر اپنی ہمت پر بنے ہیں جو بھی ہیں۔ آپ کے پلے کچھ ہوتا تو آپ بھی کچھ نہ کچھ بن جاتے پر آپ تو چودہ سو سال پرانے ناڑے سے لٹکے ہوئے ہیں۔بات پاکستان کی ہورہی ہے اور آپ سیکولر ریاستوں کی جان کو رو رہے ہیں۔
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
حضرت صاحب۔۔ کبھی کبھی ماتم کرنے کا ناغہ بھی کرلیا کریں، ہمیشہ سیکولر ملکوں کو پکڑ کر روتے رہتے ہیں۔ وہ اپنے بل پر اپنی ہمت پر بنے ہیں جو بھی ہیں۔ آپ کے پلے کچھ ہوتا تو آپ بھی کچھ نہ کچھ بن جاتے پر آپ تو چودہ سو سال پرانے ناڑے سے لٹکے ہوئے ہیں۔بات پاکستان کی ہورہی ہے اور آپ سیکولر ریاستوں کی جان کو رو رہے ہیں۔
اتفاق کی بات ہے جس دن آپ کا ناغہ نا ہو میرا بھی نہیں ہوتا

میں نے کب کہا وہ آپ کے بل بوتے اور ہمت پر ہیں آپ کے خود گبر سنگھ کے کالیا بن کر ان کے آتے پیچھے ممیاتے پھرتے ہیں

آپ بھی تو بات بات پر سیکولر ریاستوں کے گن گاتے وارد ہو جاتے ہیں. میں نے ان کی شان میں گستاخی کر دی تو برا لگا کیا​
 

ranaji

President (40k+ posts)
قادیانی فرقہ نہیں الگ مذہب اور الگ فیتھ ہے مسلمانوں دے مرتد ہوا ایک گروہ اور مذہب
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)

اتنی ہی ہنسی آئی جتنی مجھے آپ کی بے تکی باتیں پڑھ کر آتی ہے یا اس سے کچھ کم زیادہ۔۔??۔؟؟

آپ اکیلے نہیں
جتنے بھی لوگوں سے میں اختلاف رائے رکھتا ہوں سب میرے کمنٹس کو ہا ہا کرتے ہیں
اور یہ "ہا ہا " میری نقل میں کرتے ہیں آپ کی طرح
???
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
میرے خیال میں پاکستانی قوم کو ایک اصولی موقف لینا ہوگا آیاکہ سیاست میں مذہب کا استعمال ہونا چاہئے یا نہیں ہونا چاہئے، اگر تو قوم اس بات پر متفق ہے کہ سیاست میں مذہب کا استعمال ہونا چاہئے تو پھر مولانا فضل الرحمان کو بھی پورا حق ہے کہ وہ سیاست میں جتنا چاہے مذہب کا استعمال کریں، کل کو وہ عمران خان کو شرعاً واجب القتل بھی قرار دے دے تب بھی کسی کے پاس اسے غلط کہنے کا جواز نہیں ہوگا۔۔
پاکستانی قوم کا اصولی موقف بہت پہلے سے وضع کردیا گیا ہے کہ

جدا ہو دین سیاست سے، تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔


مسئلہ جس کو بنیاد بنا کر آپ پھر سے اپنے زریں خیالات کا اظہار کر رہے ہیں، وہ مسئلہ دین کا سیاست میں استعمال نہیں، بلکہ انتہا پسندی ہے۔ یہ دونوں اطراف پائی جاتی ہے۔ مسئلاً، مولانا فضل الرّحمان اگر عمران خان کو غدّارِ وطن قرار دے دیتے، تو کیا آئین اور قانون کی روشنی میں وہ واجب القتل کے فتوے سے کسی طرح کم خطرناک نتائج کا حامل ہوتا؟

میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ایسے مسائل پاکستان میں رہیں گے جب تک کہ ہم ایک مکمّل اور جامع قسم کا اسلامی نظام یہاں متعارف نہیں کرواتے، کیونک یہ مسائل سیاست میں دین کے استعمال سے نہیں، بلکہ دین کے غلط استعمال سے پیدا ہوتے ہیں۔ لوگ اس جال میں اپنی لاعلمی کی بدولت پھنستے ہیں، لہٰذا دین کی تعلیم کو پاکستان میں عام کرنے کی ضرورت ہے کہ کوئی انھیں انکی لاعلمی کی وجہ سے دین کے راستے سے نہ بھٹکائے۔

آخری بات یہ کہ دین صرف عبادات، شادی، ولادت،ختنہ اور نمازِ جنازہ کا نام نہیں۔ دینِ اسلام ایک ریاست کے نظام کو وضع کرتا ہے، معاشرتی قوانین کی رہنمائی کرتا ہے، اسی لیئے دین کو ایک ایسی ریاست میں جہاں کی اکثریت مسلمان ہو، سیاست سے کیسے دور رکھا جاسکتا ہے؟ یہ تو سراسر جمہوریت کی رُو کے برخلاف ہوگا۔
 

Zinda_Rood

Minister (2k+ posts)
پاکستانی قوم کا اصولی موقف بہت پہلے سے وضع کردیا گیا ہے کہ

جدا ہو دین سیاست سے، تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔


مسئلہ جس کو بنیاد بنا کر آپ پھر سے اپنے زریں خیالات کا اظہار کر رہے ہیں، وہ مسئلہ دین کا سیاست میں استعمال نہیں، بلکہ انتہا پسندی ہے۔ یہ دونوں اطراف پائی جاتی ہے۔ مسئلاً، مولانا فضل الرّحمان اگر عمران خان کو غدّارِ وطن قرار دے دیتے، تو کیا آئین اور قانون کی روشنی میں وہ واجب القتل کے فتوے سے کسی طرح کم خطرناک نتائج کا حامل ہوتا؟

میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ایسے مسائل پاکستان میں رہیں گے جب تک کہ ہم ایک مکمّل اور جامع قسم کا اسلامی نظام یہاں متعارف نہیں کرواتے، کیونک یہ مسائل سیاست میں دین کے استعمال سے نہیں، بلکہ دین کے غلط استعمال سے پیدا ہوتے ہیں۔ لوگ اس جال میں اپنی لاعلمی کی بدولت پھنستے ہیں، لہٰذا دین کی تعلیم کو پاکستان میں عام کرنے کی ضرورت ہے کہ کوئی انھیں انکی لاعلمی کی وجہ سے دین کے راستے سے نہ بھٹکائے۔

آخری بات یہ کہ دین صرف عبادات، شادی، ولادت،ختنہ اور نمازِ جنازہ کا نام نہیں۔ دینِ اسلام ایک ریاست کے نظام کو وضع کرتا ہے، معاشرتی قوانین کی رہنمائی کرتا ہے، اسی لیئے دین کو ایک ایسی ریاست میں جہاں کی اکثریت مسلمان ہو، سیاست سے کیسے دور رکھا جاسکتا ہے؟ یہ تو سراسر جمہوریت کی رُو کے برخلاف ہوگا۔

کسی کو غدارِ وطن یا ملک دشمن قرار دینا اور مذہب کی روشنی میں واجب القتل یا گستاخ قرار دینا نتائج کے اعتبار سے بہت مختلف ہے۔ اول الذکر الزام پر عوام کی طرف سے کسی کی جان کو خطرہ لاحق نہیں ہوتا اور یہ زیادہ تر سیاسی حد تک سمجھا جاتا ہے، جبکہ دوسرے الزام لگانے کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کی پبلک لائف ختم ہوجاتی ہے، کروڑوں عوام میں سے چلتے پھرتے کوئی بھی ممتاز قادری اٹھ کر "ملزم" کو قتل کرسکتا ہے۔۔

جہاں تک آپ کی اسلام کے جامع اور مکمل نظام کی خواہش کا اظہار ہے تو یہ محض طفلانہ دعویٰ ہے جس کی عملاً کوئی حیثیت نہیں ہے اور ایسے دعوے چونکہ مسلمانوں کو بچپن سے پیدا ہوتے ہی فیڈر کی طرح پلائے جاتے ہیں اس لئے وہ عمر بھر رٹے رٹائے اسباق دہراتے رہتے ہیں اور جب انہیں ذرا چھیلنے کی کوشش کرو تو تب انہیں اندازا ہوتا ہے کہ خود ان کے اندر کچھ نہیں ہے۔۔ خالی ڈھول ہیں۔۔ مثلاً ایسا ہی ایک روبوٹ نما مسلمان ہر وقت اسلامی معاشی نظام کی جگالی کرتا رہتا تھا، میں نے اس سے پوچھا بھئی ذرا مجھے قرآن و حدیث کی روشنی میں اسلامی معاشی نظام کے خدوخال تو سمجھاؤ، آج کی جدید ریاست، انٹرنیشنل ٹریڈ، قرضوں کے لین دین، بینکنگ سسٹم، سرمایہ دارانہ یا اشتراکانہ نظام کے مقابل یا متعلق اسلام کیا کہتا ہے یا کونسا نظام پیش کرتا ہے تو وہ موصوف خود پریشان ہوگئے کیونکہ انہیں سوائے سود والی آیت کے کچھ نہیں ملا۔۔۔ رٹے رٹائے دعووں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔۔۔
 

Zinda_Rood

Minister (2k+ posts)

آپ اکیلے نہیں
جتنے بھی لوگوں سے میں اختلاف رائے رکھتا ہوں سب میرے کمنٹس کو ہا ہا کرتے ہیں
اور یہ "ہا ہا " میری نقل میں کرتے ہیں آپ کی طرح
???


گویا آپ لافنگ سٹاک بن چکے ہیں ۔۔ ہاہاہا۔۔ ویسے آپ جب سنجیدہ بات کرتے ہیں یا اپنی طرف سے سنجیدہ دلائل دیتے ہیں تو زیادہ فنی لگتے ہیں۔???۔
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)

کسی کو غدارِ وطن یا ملک دشمن قرار دینا اور مذہب کی روشنی میں واجب القتل یا گستاخ قرار دینا نتائج کے اعتبار سے بہت مختلف ہے۔ اول الذکر الزام پر عوام کی طرف سے کسی کی جان کو خطرہ لاحق نہیں ہوتا اور یہ زیادہ تر سیاسی حد تک سمجھا جاتا ہے، جبکہ دوسرے الزام لگانے کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کی پبلک لائف ختم ہوجاتی ہے، کروڑوں عوام میں سے چلتے پھرتے کوئی بھی ممتاز قادری اٹھ کر "ملزم" کو قتل کرسکتا ہے۔۔
قتل چاہے سلمان تاثیر کا ہو، یا جان کینیڈی کا، اس کے پیچھے کارفرما جذبہ جنونیت کا ہی ہوتا ہے، چاہے اسے مذہب کے خول میں رہ کر استعمال کیا جائے یا پھر قومیت کے، نتائج کچھ مختلف نہیں۔

جہاں تک آپ کی اسلام کے جامع اور مکمل نظام کی خواہش کا اظہار ہے تو یہ محض طفلانہ دعویٰ ہے جس کی عملاً کوئی حیثیت نہیں ہے اور ایسے دعوے چونکہ مسلمانوں کو بچپن سے پیدا ہوتے ہی فیڈر کی طرح پلائے جاتے ہیں اس لئے وہ عمر بھر رٹے رٹائے اسباق دہراتے رہتے ہیں اور جب انہیں ذرا چھیلنے کی کوشش کرو تو تب انہیں اندازا ہوتا ہے کہ خود ان کے اندر کچھ نہیں ہے۔۔ خالی ڈھول ہیں۔۔ مثلاً ایسا ہی ایک روبوٹ نما مسلمان ہر وقت اسلامی معاشی نظام کی جگالی کرتا رہتا تھا، میں نے اس سے پوچھا بھئی ذرا مجھے قرآن و حدیث کی روشنی میں اسلامی معاشی نظام کے خدوخال تو سمجھاؤ، آج کی جدید ریاست، انٹرنیشنل ٹریڈ، قرضوں کے لین دین، بینکنگ سسٹم، سرمایہ دارانہ یا اشتراکانہ نظام کے مقابل یا متعلق اسلام کیا کہتا ہے یا کونسا نظام پیش کرتا ہے تو وہ موصوف خود پریشان ہوگئے کیونکہ انہیں سوائے سود والی آیت کے کچھ نہیں ملا۔۔۔ رٹے رٹائے دعووں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔۔۔
خیر یہ تو طفلانہ سے بڑھ کر جاہلانہ سوچ کا مظاہرہ ہوگا کہ ایک شخص تنقید کرنے کے لیئے پہلے خود اس مسئلے کا اپنے علم کے طور پر احاطہ نہ کرے، بلکہ کم تر علم والے لوگوں کو باتوں میں الجھائے۔

مجھے یقین ہے کہ آپ کو پہلے تو بیت المال کے اسلامی محکمے اور اس کے افعال کا پتہ ہوگا۔ پھر اسلام میں قرض لینے اور دینے کی شرائط و ضوابط کا بھی علم ہوگا، پھر ٹیکس سسٹم، یعنی زکوٰۃ، عشر اور جزیہ وغیرہ سے بھی واقف ہونگے۔ پھر بھی اگر آپکی اسلام میں وضع کردہ معاشی نظام کے بارے میں کوئی مخصوص سوالات ہیں، تو مجھے آگاہ کیجیئے، میرا علم بہت زیادہ تو نہیں، لیکن میں کوشش کروں گا کہ آپ کے سوالات کے جوابات دلائل کی روشنی میں پیش کر سکوں۔
 

Zinda_Rood

Minister (2k+ posts)
قتل چاہے سلمان تاثیر کا ہو، یا جان کینیڈی کا، اس کے پیچھے کارفرما جذبہ جنونیت کا ہی ہوتا ہے، چاہے اسے مذہب کے خول میں رہ کر استعمال کیا جائے یا پھر قومیت کے، نتائج کچھ مختلف نہیں۔

ذکر پاکستان اور پاکستانی سیاست کا ہورہا ہے تو ذرا پاکستان سے کوئی مثال دے دیجئے، غداروطن ڈکلیئر کئے جانے والے کتنے لوگ انفرادی طور پر لوگوں نے موت کے گھاٹ اتارے؟۔ دوسری طرف جن پر مذہبی الزامات لگے، توہین رسالت وغیرہ کے ان کی فہرست اٹھا کر دیکھ لیں۔




مجھے یقین ہے کہ آپ کو پہلے تو بیت المال کے اسلامی محکمے اور اس کے افعال کا پتہ ہوگا۔ پھر اسلام میں قرض لینے اور دینے کی شرائط و ضوابط کا بھی علم ہوگا، پھر ٹیکس سسٹم، یعنی زکوٰۃ، عشر اور جزیہ وغیرہ سے بھی واقف ہونگے۔ پھر بھی اگر آپکی اسلام میں وضع کردہ معاشی نظام کے بارے میں کوئی مخصوص سوالات ہیں، تو مجھے آگاہ کیجیئے، میرا علم بہت زیادہ تو نہیں، لیکن میں کوشش کروں گا کہ آپ کے سوالات کے جوابات دلائل کی روشنی میں پیش کر سکوں۔

بیت المال، لنگر خانے وغیرہ یہ ریاست کے فلاحی پہلو کے زمرے میں آتے ہیں فی الحال ہم بات کررہے ہیں معاشی ڈھانچے کی۔۔ آپ کو علم ہونا چاہئے کہ معاشی ڈھانچے / معاشی نظام سے کیا مراد ہے۔۔

ایک عرصہ تک سرمایہ دارانہ نظام دنیا پر حاوی رہا (اور اب بھی ہے) جس میں دولت کی مساوی تقسیم نہ تھی، بلکہ کوئی بھی کثیر سرمائے کا مالک بن سکتا تھا / ہے ۔ جس میں شے / کماڈٹی کی قیمت کا تعین طلب اور رسد (سپلائی اینڈ ڈیمانڈ) کے فارمولے سے ہوتا ہے۔ اس کے مقابل چونکہ کوئی دوسرا نظام نہ تھا، اس لئے یہ نظام ہر جگہ اپنے پنجے گاڑتا گیا۔۔ پھر کارل مارکس آیا اس نے داس کیپٹل لکھی اور سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں اشتراکی نظام دیا۔ اس نے کہا غربت اور غریبوں کے استحصال کی اصل وجہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سرمائے کا چند ہاتھوں میں ارتکاز ہے، جس کا حل اس نے دیا کہ ذرائع پیداوار انفرادی ملکیت نہیں ہوں گے، یہ ریاست کی ملکیت ہوں گے، زمین نجی ملکیت نہیں ہوگی یہ بھی ریاست کی ملکیت ہوگی، کسی بھی شے کی قیمت کا تعین طلب اور رسد کے پیمانے سے نہیں بلکہ اس پر کی گئی انسانی محنت سے ہوگا اور انسانی محنت کو ماپنے کا بھی اس نے فارمولا دیا (ضروری سماجی محنت والا) ۔ کارل مارکس کے مطابق اشتراکیت کے پہلے فیز (یعنی سوشلزم میں) ریاست کے شہریوں کو معاوضہ ان کی محنت کے مطابق ملے گا اور دوسرے اور آخری فیز (یعنی کمیونزم میں) ریاست رفتہ رفتہ بتدریج تحلیل ہوجائے گی اور چونکہ سرمائے کی فراوانی ہوگی اس لئے ریاست کے شہریوں کو معاوضہ ان کی محنت کی بجائے ضرورت کے مطابق ملے گا۔۔ یہ تو چند موٹی موٹی باتیں ہیں، مگر کارل مارکس نے کمیونزم کا جو معاشی فلسفہ دیا ہے اس کو اس نے موٹی موٹی کتابیں لکھ کر بے شمار مضامین لکھ کر نہایت ہی باریکی اور جزیات کے ساتھ تمام پہلوؤں کی تفصیل بیان کی ہے ۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کو ہم ایک معاشی نظام کہہ سکتے ہیں جس کے خدو خال نہایت تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں، یہ نظام کامیاب ہے یا نہیں یہ الگ بحث ہے اس کا ہمارے موضوع سے تعلق نہیں۔۔

اب معاملہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے حامیوں کے پاس آدم سمتھ کی ویلتھ آف نیشن ہے اور اس جیسے دیگر ماہرینِ معیشت کی لکھی ہوئی کتابیں ہیں جن میں جزیات کے ساتھ معاشی ڈھانچے کی تفاصیل بیان کی گئی ہیں جن پر جدید سرمایہ دارانہ معاشرے استوار ہیں۔ دوسری طرف کمیونسٹ حضرات کے پاس کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کی کتابیں ہیں جن میں اشتراکی معاشی فلسفے کی جزئیات بیان کی گئی ہیں۔۔ تیسری طرف آپ مسلمان لوگ ہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے پاس بھی ایک معاشی نظام ہے، مگر وہ کہیں نظر نہیں آتا، ذرا آپ مجھے قرآن و حدیث سے کھود کر وہ معاشی نظام نکال کر دکھادیں جس کا تقابل میں مذکورہ بالا دونوں نظاموں سے کرسکوں۔۔

جدید ریاست میں بغیر سود کے بینکاری نظام چلانے کیلئے اسلام کیا حل دیتا ہے۔ بینکوں جیسے مالیاتی ادارے خالص کاروباری اور منافع کی غرض سے قائم ہوتے ہیں اور چلتے ہیں، یہ بغیر سود کے قرض کیوں دیں گے اور اگر دیں گے تو ان کا وجود کیسے قائم رہے گا؟ مزید برآں عالمی مالیاتی اداروں (جو کے سود پر چلتے ہیں) کے ساتھ لین دین کا اسلام کیا حل دیتا ہے، دنیا آج سمٹ کر کمپیوٹر میں سما چکی ہے، آپ کریڈٹ کارڈ / ڈیبٹ کارڈ وغیرہ سے گھر بیٹھے دنیا کی کسی بھی کمپنی کو پے منٹ کرسکتے ہیں جب اسلام نے اپنا وکھرا ہی سود بائیکاٹ طریقہ اپنانا ہے تو بین الاقوامی ٹرانزیکشنز کیسے ممکن کی جائیں گی اور سود کا تعلق صرف قرض کے لین دین سے نہیں، بلکہ آج کی جدید ریاستوں میں انٹرسٹ ریٹ اوپر نیچے کرکے منی فلو کو کنٹرول کیا جاتا ہے، کرنسی کے ریٹ کو کنٹرول کیا جاتا ہے، انفلیشن اور ڈی فلیشن کو مینو پلیٹ کیا جاتا ہے۔۔ وغیرہ وغیرہ، اس سب کا اسلام کے پاس کیا متبادل طریقہ کار ہے۔۔

یہ تو صرف سود کی بات ہوگئی، اسلام کسی کماڈٹی کی قیمت کے تعین کا کیا طریقہ کار بتاتا ہے، اسلام کی ذرائع پیداوار کی ملکیت بارے کیا رائے ہے؟ کرنسی ریٹ مینوپلیشن کا اسلام کیا طریقہ بتاتا ہے، آج کل بڑی بڑی کاروباری سرگرمیاں بینکوں سے قرض لے کر کی جاتی ہیں، جس میں سود لازمی عنصر ہوتا ہے، اس کا اسلام کے پاس کیا متبادل ہے؟ اشیاء کی قیمت کے تعین کا اختیار اسلام کے مطابق کس کے پاس ہے، مارکیٹ فورسز کے پاس یا ریاست کے پاس، اسلام کنٹرولڈ اکانومی کا تصور دیتا ہے، مکسڈ اکانومی کا یا فری مارکیٹ کا؟ یا پھر کوئی نیا تصور دیتا ہے؟ اسلام گلوبلائزیشن کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟ اسلام کی پروٹیکشنزم کی پالیسی کیا ہے؟ جدید ریاستوں میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو پچیس تیس فیصد کے قریب جاتی ہے تب جاکر ریاست میں خوشحالی اور فلاح کا عنصر آتا ہے، اسلام محض اڑھائی فیصد زکوۃ اور جزیے وغیرہ سے ریاست کیسے چلاسکتا ہے، جس وقت اسلام نے اڑھائی فیصد زکوۃ والا تصور دیا اس وقت لوگوں نے صرف روٹی کھانی ہوتی تھی، نہ کوئی ادارے ہوتے تھے، نہ سڑکیں ہوتی تھیں، نہ ایئرپورٹ ہوتے تھے، نہ پل اور پبلک ٹرانسپورٹ ہوتی تھی، نہ بجلی ہوتی تھی نہ آج کی طرح فوج اور پولیس کا منظم ادارہ ہوتا تھا، نہ سرکاری سکول، کالجز اور یونیورسٹیز ہوتی تھیں وغیرہ وغیرہ۔۔ تو مجھے بتائیں کہ اسلام آج کی جدید ریاست کو چلانے کیلئے کونسا معاشی نظام دیتا ہے۔ برائے مہربانی اسلام کا تمام تر معاشی نظام ، اس کے خدوخال، جزیات قرآن اور احادیث سے نکال کر دیجئے گا کسی مولوی کی تشریحات یا تفسیروں سے نہیں۔۔۔
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
ذکر پاکستان اور پاکستانی سیاست کا ہورہا ہے تو ذرا پاکستان سے کوئی مثال دے دیجئے، غداروطن ڈکلیئر کئے جانے والے کتنے لوگ انفرادی طور پر لوگوں نے موت کے گھاٹ اتارے؟۔ دوسری طرف جن پر مذہبی الزامات لگے، توہین رسالت وغیرہ کے ان کی فہرست اٹھا کر دیکھ لیں۔
جب پاکستان میں سیکولرزم ہی نہیں تو اسکی مثال پاکستان کے تقابل میں کسی دوسرے ملک کی ہی دی جاسکتی ہے۔ مسئلہ انتہا پسندی کے گرد گھومتا ہے جو کہیں بھی کسی بھی طرح پھیلائی جاتی ہے۔
ویسے تو خیر بینظیر اور خان لیاقت علی خان بھی مثالیں ہیں، لیکن پھر بھی، اگر آپ یہ کہیں کہ اگر ریاست سیکولر ہو تو اسطرح کے مسائل جنم نہیں لیتے، تو اس کے ضمن میں پڑوسیوں کے گاندھیوں کی تاریخ دیکھ لی جائے تو سبق آموز ہے۔

بیت المال، لنگر خانے وغیرہ یہ ریاست کے فلاحی پہلو کے زمرے میں آتے ہیں فی الحال ہم بات کررہے ہیں معاشی ڈھانچے کی۔۔ آپ کو علم ہونا چاہئے کہ معاشی ڈھانچے / معاشی نظام سے کیا مراد ہے۔۔


جی مجھے تو اندازہ ہے کہ معاشی نظام کیا ہوتا ہے، لیکن مجھے یقین کی حد تک گمان ہے کہ آپکو نہیں اندازہ کہ اسلامی معاشی نظام میں بیت المال کا کیا کردار ہوتا ہے۔ مارکس اور ایڈم اسمتھ آپکو ازبر ہونگے، لیکن لگتا ہے کہ آپ نے کبھی خود اسلامی معاشی نظام کو پڑھا ہی نہیں اور بیٹھ گئے ہیں تنقید کرنے۔ کچھ اشارے میں یہاں دے رہا ہوں، کچھ کوشش خود بھی فرما لیں تو شائد کوئی کام کا تنقیدی نقطہ بھی سامنے آئے۔

Bayt al-Mal​

House of money. Historically, a financial institution responsible for the administration of taxes. Acted as royal treasury for caliphs and sultans, managing personal finances and government expenditures. Administered distribution of zakah (obligatory alms) revenues for public works. Modern Islamic economists deem the institutional framework appropriate for Islamic society.

Diwan​

Central administration of Islamic state or specific branch of government, typically headed by a vizier. States typically had chancellery, financial, and military diwans, with separate diwans for pious foundations, fiefs, taxes, alms, customs, and administration. In literary circles, the term refers to a collection of poetry or prose. In the bureaucratic world, it refers to an archival register.




ایک عرصہ تک سرمایہ دارانہ نظام دنیا پر حاوی رہا (اور اب بھی ہے) جس میں دولت کی مساوی تقسیم نہ تھی، بلکہ کوئی بھی کثیر سرمائے کا مالک بن سکتا تھا / ہے ۔ جس میں شے / کماڈٹی کی قیمت کا تعین طلب اور رسد (سپلائی اینڈ ڈیمانڈ) کے فارمولے سے ہوتا ہے۔ اس کے مقابل چونکہ کوئی دوسرا نظام نہ تھا، اس لئے یہ نظام ہر جگہ اپنے پنجے گاڑتا گیا۔
کیا کہیں قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ یہ معاشرتی تفریق لوگوں میں اسلیئے ہے کہ یہ ایک دوسرے سے کام لے سکیں؟
کیا عشر میں یہ درجہ بندی ہے کہ جو شخص صرف سرمایہ لگائے اور کوئی دوسرا کام نہ کرے تو اس کے لیئے عشر کا حصّہ مختلف ہے؟
کیا کہیں اسلام میں ذخیرہ اندوزی کو منع کر کے سپلائی اور ڈیمانڈ کے اصولوں کو وضع کیا گیا ہے؟


۔ پھر کارل مارکس آیا اس نے داس کیپٹل لکھی اور سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں اشتراکی نظام دیا۔ اس نے کہا غربت اور غریبوں کے استحصال کی اصل وجہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سرمائے کا چند ہاتھوں میں ارتکاز ہے، جس کا حل اس نے دیا کہ ذرائع پیداوار انفرادی ملکیت نہیں ہوں گے، یہ ریاست کی ملکیت ہوں گے، زمین نجی ملکیت نہیں ہوگی یہ بھی ریاست کی ملکیت ہوگی،

کیا حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے دور میں اجارۃ نام کی کوئی چیز ہوتی تھی؟ کیا آپکو کچھ علم ہے اس بارے میں؟
کسی بھی شے کی قیمت کا تعین طلب اور رسد کے پیمانے سے نہیں بلکہ اس پر کی گئی انسانی محنت سے ہوگا اور انسانی محنت کو ماپنے کا بھی اس نے فارمولا دیا (ضروری سماجی محنت والا) ۔ کارل مارکس کے مطابق اشتراکیت کے پہلے فیز (یعنی سوشلزم میں) ریاست کے شہریوں کو معاوضہ ان کی محنت کے مطابق ملے گا اور دوسرے اور آخری فیز (یعنی کمیونزم میں) ریاست رفتہ رفتہ بتدریج تحلیل ہوجائے گی اور چونکہ سرمائے کی فراوانی ہوگی اس لئے ریاست کے شہریوں کو معاوضہ ان کی محنت کی بجائے ضرورت کے مطابق ملے گا۔۔ یہ تو چند موٹی موٹی باتیں ہیں، مگر کارل مارکس نے کمیونزم کا جو معاشی فلسفہ دیا ہے اس کو اس نے موٹی موٹی کتابیں لکھ کر بے شمار مضامین لکھ کر نہایت ہی باریکی اور جزیات کے ساتھ تمام پہلوؤں کی تفصیل بیان کی ہے ۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کو ہم ایک معاشی نظام کہہ سکتے ہیں جس کے خدو خال نہایت تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں، یہ نظام کامیاب ہے یا نہیں یہ الگ بحث ہے اس کا ہمارے موضوع سے تعلق نہیں۔۔
اچھا تو آپکو گلہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے کارل مارکس کی طرح موٹی موٹی کتابیں لکھ کر اکنامکس کی جزویات پر بحث نہیں کی۔ بھئی اسلام صرف اصول وضع کرتا ہے۔ جزویات کے لیئے انسان کواپنی عقل سے نوازا گیا ہے۔
اب جیسے اصول وضع کردیا گیا کہ سود حرام ہے، تو اسکا مطلب یہی ہے کہ سرمایہ کاری منافع اور نقصان کی اشتراکیت کی صورت میں جائز ہے اور اسکا آپ کوئی بھی نظام بنا سکتے ہیں جو وقت، حالات اور جگہہ کے حساب سے قابلِ قبول ہو۔

پھر اسی طرح، چیزوں کی قیمت کا اندازے کا طریقہ کار بھی وضع ہے۔ کیا حضورؐ کے دور میں کرنسی نہیں ہوتی تھی؟ تو پھر زکوٰۃ اور فطرانہ کے لیئے سونا، چاندی، گیہوں اور دیگر اجناس سے موازنے کا اصول کیوں؟



اب معاملہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے حامیوں کے پاس آدم سمتھ کی ویلتھ آف نیشن ہے اور اس جیسے دیگر ماہرینِ معیشت کی لکھی ہوئی کتابیں ہیں جن میں جزیات کے ساتھ معاشی ڈھانچے کی تفاصیل بیان کی گئی ہیں جن پر جدید سرمایہ دارانہ معاشرے استوار ہیں۔ دوسری طرف کمیونسٹ حضرات کے پاس کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کی کتابیں ہیں جن میں اشتراکی معاشی فلسفے کی جزئیات بیان کی گئی ہیں۔
سب سے پہلی دنیا کی فلاحی ریاست کا عملی نمونہ اسلام کے پاس ہے۔

۔ تیسری طرف آپ مسلمان لوگ ہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے پاس بھی ایک معاشی نظام ہے، مگر وہ کہیں نظر نہیں آتا، ذرا آپ مجھے قرآن و حدیث سے کھود کر وہ معاشی نظام نکال کر دکھادیں جس کا تقابل میں مذکورہ بالا دونوں نظاموں سے کرسکوں۔۔
میرا خیال مجھے درست لگ رہا ہے کہ آپ نے کبھی اسلامی معاشی نظام کے بارے میں کچھ نہ پڑھا ہے اور نہ ہی کچھ پڑھنے کی زحمت گوارا کی ہے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک قوم نے دنیا کے ایک بڑے حصّے پر سینکڑوں سال حکومت کی ہو اور ان کے پاس کوئی معاشی نظام ہی ناپید ہو؟



جدید ریاست میں بغیر سود کے بینکاری نظام چلانے کیلئے اسلام کیا حل دیتا ہے۔ بینکوں جیسے مالیاتی ادارے خالص کاروباری اور منافع کی غرض سے قائم ہوتے ہیں اور چلتے ہیں، یہ بغیر سود کے قرض کیوں دیں گے اور اگر دیں گے تو ان کا وجود کیسے قائم رہے گا؟ مزید برآں عالمی مالیاتی اداروں (جو کے سود پر چلتے ہیں) کے ساتھ لین دین کا اسلام کیا حل دیتا ہے، دنیا آج سمٹ کر کمپیوٹر میں سما چکی ہے، آپ کریڈٹ کارڈ / ڈیبٹ کارڈ وغیرہ سے گھر بیٹھے دنیا کی کسی بھی کمپنی کو پے منٹ کرسکتے ہیں جب اسلام نے اپنا وکھرا ہی سود بائیکاٹ طریقہ اپنانا ہے تو بین الاقوامی ٹرانزیکشنز کیسے ممکن کی جائیں گی اور سود کا تعلق صرف قرض کے لین دین سے نہیں، بلکہ آج کی جدید ریاستوں میں انٹرسٹ ریٹ اوپر نیچے کرکے منی فلو کو کنٹرول کیا جاتا ہے، کرنسی کے ریٹ کو کنٹرول کیا جاتا ہے، انفلیشن اور ڈی فلیشن کو مینو پلیٹ کیا جاتا ہے۔۔ وغیرہ وغیرہ، اس سب کا اسلام کے پاس کیا متبادل طریقہ کار ہے۔۔
آپ تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے اسلامک بینکنگ نامی کسی شے کا نام ہی آپکی کان پر نہ رینگا ہو۔ یہ کم از کم ایک نظام تو ہے، اسمیں مزید بہتری لانے کی اشہد ضرورت ہے، لیکن ہر بڑا کام پہلے تو ایسے ہی شروع ہوتا ہے، بعد از اسمیں تبدیلیاں آتی ہیں اور یہ بہتر ہوتا جاتا ہے۔



یہ تو صرف سود کی بات ہوگئی، اسلام کسی کماڈٹی کی قیمت کے تعین کا کیا طریقہ کار بتاتا ہے، اسلام کی ذرائع پیداوار کی ملکیت بارے کیا رائے ہے؟
ڈیمانڈ اور سپلائی
ذرائع پیداوار کے لیئے جو قومی ذرائع ہیں وہ ریاست کے زیر ملکیت ہیں اور اجارۃ پر دیئے جاسکتے ہیں اور جو ذاتی ذرائع ہیں وہ ذاتی ملکیت میں ہیں۔


کرنسی ریٹ مینوپلیشن کا اسلام کیا طریقہ بتاتا ہے،
اسلام بارٹر سے لے کر کرنسی کو کسی ایک جنس سے سٹینڈرڈ لینے تک کی مثالیں دیتا ہے۔ جیسے میں پہلے بتا چکا ہوں کے زکوٰۃ وغیرہ کے لیئے سونے، چاندی یا دیگر اجناس کو اسٹینڈرڈ لیا گیا ہے۔اسکا ایک اور مطلب یہ بھی ہے کہ اسلام ٹائم ویلیو آف منی کا بھی احاطہ کرتا ہے۔

آج کل بڑی بڑی کاروباری سرگرمیاں بینکوں سے قرض لے کر کی جاتی ہیں، جس میں سود لازمی عنصر ہوتا ہے، اس کا اسلام کے پاس کیا متبادل ہے؟ اشیاء کی قیمت کے تعین کا اختیار اسلام کے مطابق کس کے پاس ہے، مارکیٹ فورسز کے پاس یا ریاست کے پاس، اسلام کنٹرولڈ اکانومی کا تصور دیتا ہے، مکسڈ اکانومی کا یا فری مارکیٹ کا؟ یا پھر کوئی نیا تصور دیتا ہے؟ اسلام گلوبلائزیشن کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟ اسلام کی پروٹیکشنزم کی پالیسی کیا ہے؟
یہ سب وہ جزویات ہیں جو وقت، چیز اور جگہہ کے حساب سے متعیّن کی جاتی ہیں۔

جدید ریاستوں میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو پچیس تیس فیصد کے قریب جاتی ہے تب جاکر ریاست میں خوشحالی اور فلاح کا عنصر آتا ہے، اسلام محض اڑھائی فیصد زکوۃ اور جزیے وغیرہ سے ریاست کیسے چلاسکتا ہے، جس وقت اسلام نے اڑھائی فیصد زکوۃ والا تصور دیا
عُشر کا نام سُنا ہے کبھی؟

اس وقت لوگوں نے صرف روٹی کھانی ہوتی تھی، نہ کوئی ادارے ہوتے تھے، نہ سڑکیں ہوتی تھیں، نہ ایئرپورٹ ہوتے تھے، نہ پل اور پبلک ٹرانسپورٹ ہوتی تھی، نہ بجلی ہوتی تھی نہ آج کی طرح فوج اور پولیس کا منظم ادارہ ہوتا تھا، نہ سرکاری سکول، کالجز اور یونیورسٹیز ہوتی تھیں وغیرہ وغیرہ۔۔ تو مجھے بتائیں کہ اسلام آج کی جدید ریاست کو چلانے کیلئے کونسا معاشی نظام دیتا ہے۔ برائے مہربانی اسلام کا تمام تر معاشی نظام ، اس کے خدوخال، جزیات قرآن اور احادیث سے نکال کر دیجئے گا کسی مولوی کی تشریحات یا تفسیروں سے نہیں۔۔۔
His theory of ʿasabiyyah has often been compared to modern Keynesian economics, with Ibn Khaldun's theory clearly containing the concept of the multiplier. A crucial difference, however, is that whereas for John Maynard Keynes it is the middle class's greater propensity to save that is to blame for economic depression, for Ibn Khaldun it is the governmental propensity to save at times when investment opportunities do not take up the slack which leads to aggregate demand.[15]

Another modern economic theory anticipated by Ibn Khaldun is supply-side economics.[16] He "argued that high taxes were often a factor in causing empires to collapse, with the result that lower revenue was collected from high rates." He wrote:[17]

It should be known that at the beginning of the dynasty, taxation yields a large revenue from small assessments. At the end of the dynasty, taxation yields a small revenue from large assessments.

Laffer curve[edit]​

Ibn Khaldun introduced the concept now popularly known as the Laffer curve, that increases in tax rates initially increase tax revenues, but eventually the increases in tax rates cause a decrease in tax revenues. This occurs as too high a tax rate discourages producers in the economy.

Ibn Khaldun used a dialectic approach to describe the sociological implications of tax choice (which now forms a part of economics theory):

In the early stages of the state, taxes are light in their incidence, but fetch in a large revenue ... As time passes and kings succeed each other, they lose their tribal habits in favor of more civilized ones. Their needs and exigencies grow ... owing to the luxury in which they have been brought up. Hence they impose fresh taxes on their subjects ...and sharply raise the rate of old taxes to increase their yield ... But the effects on business of this rise in taxation make themselves felt. For business men are soon discouraged by the comparison of their profits with the burden of their taxes ... Consequently production falls off, and with it the yield of taxation.
This analysis is very similar to the modern economic concept known as the Laffer curve. Laffer does not claim to have invented the concept himself, noting that the idea was present in the work of Ibn Khaldun and, more recently, John Maynard Keynes.[18]



The Libyan government controls more of its oil than any other nation on earth, and it is the type of oil that Europe finds easiest to refine. Libya also controls its own finances, leading American author Ellen Brown to point out an interesting fact about those seven countries named by Clark:

"What do these seven countries have in common? In the context of banking, one that sticks out is that none of them is listed among the 56 member banks of the Bank for International Settlements (BIS). That evidently puts them outside the long regulatory arm of the central bankers' central bank in Switzerland. The most renegade of the lot could be Libya and Iraq, the two that have actually been attacked. Kenneth Schortgen Jr, writing on Examiner.com, noted that 'ix months before the US moved into Iraq to take down Saddam Hussein, the oil nation had made the move to accept euros instead of dollars for oil, and this became a threat to the global dominance of the dollar as the reserve currency, and its dominion as the petrodollar.' According to a Russian article titled 'Bombing of Libya – Punishment for Gaddafi for His Attempt to Refuse US Dollar', Gaddafi made a similarly bold move: he initiated a movement to refuse the dollar and the euro, and called on Arab and African nations to use a new currency instead, the gold dinar. Gaddafi suggested establishing a united African continent, with its 200 million people using this single currency. During the past year, the idea was approved by many Arab countries and most African countries. The only opponents were the Republic of South Africa and the head of the League of Arab States. The initiative was viewed negatively by the US and the European Union, with French President Nicolas Sarkozy calling Libya a threat to the financial security of mankind; but Gaddafi was not swayed and continued his push for the creation of a united Africa. […] If the Gaddafi government goes down, it will be interesting to watch whether the new central bank [created by the rebels in March] joins the BIS, whether the nationalised oil industry gets sold off to investors, and whether education and healthcare continue to be free."



اور اسکے علاوہ یہ دو کتابیں بھی اگر پڑھ لیں تو شائد اگلی مرتبہ آپ کی تنقید کسی کام کے نقطے پر ہو


 
Last edited:

Zinda_Rood

Minister (2k+ posts)
جب پاکستان میں سیکولرزم ہی نہیں تو اسکی مثال پاکستان کے تقابل میں کسی دوسرے ملک کی ہی دی جاسکتی ہے۔ مسئلہ انتہا پسندی کے گرد گھومتا ہے جو کہیں بھی کسی بھی طرح پھیلائی جاتی ہے۔
ویسے تو خیر بینظیر اور خان لیاقت علی خان بھی مثالیں ہیں، لیکن پھر بھی، اگر آپ یہ کہیں کہ اگر ریاست سیکولر ہو تو اسطرح کے مسائل جنم نہیں لیتے، تو اس کے ضمن میں پڑوسیوں کے گاندھیوں کی تاریخ دیکھ لی جائے تو سبق آموز ہے۔



جی مجھے تو اندازہ ہے کہ معاشی نظام کیا ہوتا ہے، لیکن مجھے یقین کی حد تک گمان ہے کہ آپکو نہیں اندازہ کہ اسلامی معاشی نظام میں بیت المال کا کیا کردار ہوتا ہے۔ مارکس اور ایڈم اسمتھ آپکو ازبر ہونگے، لیکن لگتا ہے کہ آپ نے کبھی خود اسلامی معاشی نظام کو پڑھا ہی نہیں اور بیٹھ گئے ہیں تنقید کرنے۔ کچھ اشارے میں یہاں دے رہا ہوں، کچھ کوشش خود بھی فرما لیں تو شائد کوئی کام کا تنقیدی نقطہ بھی سامنے آئے۔

Bayt al-Mal​

House of money. Historically, a financial institution responsible for the administration of taxes. Acted as royal treasury for caliphs and sultans, managing personal finances and government expenditures. Administered distribution of zakah (obligatory alms) revenues for public works. Modern Islamic economists deem the institutional framework appropriate for Islamic society.

Diwan​

Central administration of Islamic state or specific branch of government, typically headed by a vizier. States typically had chancellery, financial, and military diwans, with separate diwans for pious foundations, fiefs, taxes, alms, customs, and administration. In literary circles, the term refers to a collection of poetry or prose. In the bureaucratic world, it refers to an archival register.




کیا کہیں قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ یہ معاشرتی تفریق لوگوں میں اسلیئے ہے کہ یہ ایک دوسرے سے کام لے سکیں؟
کیا عشر میں یہ درجہ بندی ہے کہ جو شخص صرف سرمایہ لگائے اور کوئی دوسرا کام نہ کرے تو اس کے لیئے عشر کا حصّہ مختلف ہے؟
کیا کہیں اسلام میں ذخیرہ اندوزی کو منع کر کے سپلائی اور ڈیمانڈ کے اصولوں کو وضع کیا گیا ہے؟





کیا حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے دور میں اجارۃ نام کی کوئی چیز ہوتی تھی؟ کیا آپکو کچھ علم ہے اس بارے میں؟

اچھا تو آپکو گلہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے کارل مارکس کی طرح موٹی موٹی کتابیں لکھ کر اکنامکس کی جزویات پر بحث نہیں کی۔ بھئی اسلام صرف اصول وضع کرتا ہے۔ جزویات کے لیئے انسان کواپنی عقل سے نوازا گیا ہے۔
اب جیسے اصول وضع کردیا گیا کہ سود حرام ہے، تو اسکا مطلب یہی ہے کہ سرمایہ کاری منافع اور نقصان کی اشتراکیت کی صورت میں جائز ہے اور اسکا آپ کوئی بھی نظام بنا سکتے ہیں جو وقت، حالات اور جگہہ کے حساب سے قابلِ قبول ہو۔

پھر اسی طرح، چیزوں کی قیمت کا اندازے کا طریقہ کار بھی وضع ہے۔ کیا حضورؐ کے دور میں کرنسی نہیں ہوتی تھی؟ تو پھر زکوٰۃ اور فطرانہ کے لیئے سونا، چاندی، گیہوں اور دیگر اجناس سے موازنے کا اصول کیوں؟


سب سے پہلی دنیا کی فلاحی ریاست کا عملی نمونہ اسلام کے پاس ہے۔


میرا خیال مجھے درست لگ رہا ہے کہ آپ نے کبھی اسلامی معاشی نظام کے بارے میں کچھ نہ پڑھا ہے اور نہ ہی کچھ پڑھنے کی زحمت گوارا کی ہے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک قوم نے دنیا کے ایک بڑے حصّے پر سینکڑوں سال حکومت کی ہو اور ان کے پاس کوئی معاشی نظام ہی ناپید ہو؟



آپ تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے اسلامک بینکنگ نامی کسی شے کا نام ہی آپکی کان پر نہ رینگا ہو۔ یہ کم از کم ایک نظام تو ہے، اسمیں مزید بہتری لانے کی اشہد ضرورت ہے، لیکن ہر بڑا کام پہلے تو ایسے ہی شروع ہوتا ہے، بعد از اسمیں تبدیلیاں آتی ہیں اور یہ بہتر ہوتا جاتا ہے۔



ڈیمانڈ اور سپلائی
ذرائع پیداوار کے لیئے جو قومی ذرائع ہیں وہ ریاست کے زیر ملکیت ہیں اور اجارۃ پر دیئے جاسکتے ہیں اور جو ذاتی ذرائع ہیں وہ ذاتی ملکیت میں ہیں۔




اسلام بارٹر سے لے کر کرنسی کو کسی ایک جنس سے سٹینڈرڈ لینے تک کی مثالیں دیتا ہے۔ جیسے میں پہلے بتا چکا ہوں کے زکوٰۃ وغیرہ کے لیئے سونے، چاندی یا دیگر اجناس کو اسٹینڈرڈ لیا گیا ہے۔اسکا ایک اور مطلب یہ بھی ہے کہ اسلام ٹائم ویلیو آف منی کا بھی احاطہ کرتا ہے۔


The Libyan government controls more of its oil than any other nation on earth, and it is the type of oil that Europe finds easiest to refine. Libya also controls its own finances, leading American author Ellen Brown to point out an interesting fact about those seven countries named by Clark:

"What do these seven countries have in common? In the context of banking, one that sticks out is that none of them is listed among the 56 member banks of the Bank for International Settlements (BIS). That evidently puts them outside the long regulatory arm of the central bankers' central bank in Switzerland. The most renegade of the lot could be Libya and Iraq, the two that have actually been attacked. Kenneth Schortgen Jr, writing on Examiner.com, noted that 'ix months before the US moved into Iraq to take down Saddam Hussein, the oil nation had made the move to accept euros instead of dollars for oil, and this became a threat to the global dominance of the dollar as the reserve currency, and its dominion as the petrodollar.' According to a Russian article titled 'Bombing of Libya – Punishment for Gaddafi for His Attempt to Refuse US Dollar', Gaddafi made a similarly bold move: he initiated a movement to refuse the dollar and the euro, and called on Arab and African nations to use a new currency instead, the gold dinar. Gaddafi suggested establishing a united African continent, with its 200 million people using this single currency. During the past year, the idea was approved by many Arab countries and most African countries. The only opponents were the Republic of South Africa and the head of the League of Arab States. The initiative was viewed negatively by the US and the European Union, with French President Nicolas Sarkozy calling Libya a threat to the financial security of mankind; but Gaddafi was not swayed and continued his push for the creation of a united Africa. […] If the Gaddafi government goes down, it will be interesting to watch whether the new central bank [created by the rebels in March] joins the BIS, whether the nationalised oil industry gets sold off to investors, and whether education and healthcare continue to be free."





حضور۔۔ میں نے تو ایک سادہ سا سوال پوچھا ہے، آپ اتنی مشقت میں کاہے پڑگئے۔ یہ ادھر ادھر سے لنک ڈھونڈنے، وکی پیڈیا، انسائیکلوپیڈیا سے میٹریل نکالنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔۔ آپ تو صرف میرے سامنے قرآنی آیات یا احادیث رکھیں جن میں اسلامی معاشی نظام کے بنیادی خدو خال بیان کئے گئے ہوں جو آج کی جدید ریاست کیلئے موزوں ہوں۔۔

اچھا تو آپکو گلہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے کارل مارکس کی طرح موٹی موٹی کتابیں لکھ کر اکنامکس کی جزویات پر بحث نہیں کی۔ بھئی اسلام صرف اصول وضع کرتا ہے۔ جزویات کے لیئے انسان کواپنی عقل سے نوازا گیا ہے۔
اب جیسے اصول وضع کردیا گیا کہ سود حرام ہے، تو اسکا مطلب یہی ہے کہ سرمایہ کاری منافع اور نقصان کی اشتراکیت کی صورت میں جائز ہے اور اسکا آپ کوئی بھی نظام بنا سکتے ہیں جو وقت، حالات اور جگہہ کے حساب سے قابلِ قبول ہو۔

پھر اسی طرح، چیزوں کی قیمت کا اندازے کا طریقہ کار بھی وضع ہے۔ کیا حضورؐ کے دور میں کرنسی نہیں ہوتی تھی؟ تو پھر زکوٰۃ اور فطرانہ کے لیئے سونا، چاندی، گیہوں اور دیگر اجناس سے موازنے کا اصول کیوں؟


سب سے پہلی دنیا کی فلاحی ریاست کا عملی نمونہ اسلام کے پاس ہے۔


میرا خیال مجھے درست لگ رہا ہے کہ آپ نے کبھی اسلامی معاشی نظام کے بارے میں کچھ نہ پڑھا ہے اور نہ ہی کچھ پڑھنے کی زحمت گوارا کی ہے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک قوم نے دنیا کے ایک بڑے حصّے پر سینکڑوں سال حکومت کی ہو اور ان کے پاس کوئی معاشی نظام ہی ناپید ہو؟

مجھے بھلا اللہ / خدا سے کیوں گلہ ہوگا، شاید آپ بھول گئے کہ آپ ایک اگناسٹک سے مخاطب ہیں۔ میرے نزدیک تو اسلام اور اسلام کی مذہبی کتب عرب کے ناخواندہ لوگوں کا لکھا ہوا قصے کہانیوں کا مجموعہ ہے، اور اس میں کام کی ایک بھی بات نہیں۔ یہ تو آپ کا دعویٰ ہے کہ اسلام، قرآن و احادیث وغیرہ خدا کی طرف سے آیا ہے ، اسی لئے تو میں آپ سے مطالبہ کررہا ہوں کہ اگر آپ کے نزدیک یہ الہامی کلام ہے اور آپ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ اس میں کوئی بڑا عالی شان قسم کا معاشی نظام درج ہے تو کہاں ہے وہ معاشی نظام۔؟؟؟۔۔ ذرا مجھے اس کی ایک جھلک تو دکھلادیں۔۔۔
 

Zinda_Rood

Minister (2k+ posts)
آپ تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے اسلامک بینکنگ نامی کسی شے کا نام ہی آپکی کان پر نہ رینگا ہو۔ یہ کم از کم ایک نظام تو ہے، اسمیں مزید بہتری لانے کی اشہد ضرورت ہے، لیکن ہر بڑا کام پہلے تو ایسے ہی شروع ہوتا ہے، بعد از اسمیں تبدیلیاں آتی ہیں اور یہ بہتر ہوتا جاتا ہے۔

اسلامی بینکنگ سسٹم کو آپ اسلامی سمجھتے ہیں۔؟۔ یا تو آپ تجاہلِ عارفانہ سے کام لے رہے ہیں یا آپ اسلامی بیکنگ سسٹم سے بالکل واقف نہیں ۔۔۔
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
حضور۔۔ میں نے تو ایک سادہ سا سوال پوچھا ہے، آپ اتنی مشقت میں کاہے پڑگئے۔ یہ ادھر ادھر سے لنک ڈھونڈنے، وکی پیڈیا، انسائیکلوپیڈیا سے میٹریل نکالنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔۔ آپ تو صرف میرے سامنے قرآنی آیات یا احادیث رکھیں جن میں اسلامی معاشی نظام کے بنیادی خدو خال بیان کئے گئے ہوں جو آج کی جدید ریاست کیلئے موزوں ہوں۔۔
حضرت ہم نے بھی آپکو مجمّل جواب اسی لیئے دیا تھا کہ آپ کہیں یہ نہ کہیں کہ علمی طور تشفّی نہیں ہوئی۔ باقی مندرجہ بالا جواب میں یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ اسلامی تعلیمات صرف اصول وضع کرتیں ہیں، کارل مارکس کی طرح موٹی موٹی کتابیں نہیں لکھتی۔
کیا آپکو سود کے متعلق اسلامی تعلیمات کا نہیں پتہ؟
کیا آپ کے خیال میں بیت المال کے محکمے کا غیر اسلامی ہونے کا ثبوت ہے؟
کیا آپکے خیال میں ذخیرہ اندوزی کو منع کرنا کسی طرح ماکیٹ اکانومی کا طریق وضع کرتا ہے؟
کیا زکٰوۃ وغیرہ کے لیئے سونا، چاندی وغیرہ کے اسٹینڈرڈ غیر اسلامی ہیں؟
کیا عشر کا ٹیکس پیداوار پر کسی غیر مسلم تعلیم کے ذریعے لگایا گیا؟
کیا خراج و جزیہ بھی غیر اسلامی ہیں؟
کیا اجارۃ کا قانون آپکو پیداواری املاک کی ملوکیت کے بارے میں کچھ نہیں بتاتا؟

یا آپ یہ سب اپنی آنکھوں کے آگے ہوتے ہوئی بھی سمجھنا نہیں چاہتے؟ آپکو بس کارل مارکس یا ایڈم اسمتھ کی کتابوں کی طرح کی کتاب ہی چاہیئ جس میں لمبی تھیوری اور پیچیدہ فارمولے ہوں، تب ہی آپ کو سمجھ آئے گی؟
اگر یہی سب مقصود ہو اور تو اسمیں اسلامی تعلیمات کا نہیں، سمجھنے والوں کا قصور ہوتا ہے۔

بحث علمی حوالہ جات کی روشنی میں ہوتی ہے اور میرے دیئے گئے کسی بھی حوالے کو آپ غیر اسلامی قرار نہیں دے سکتے یا اسکو آپ معیشت کے پیرائے سے باہر قرار دے سکتے ہیں۔

مجھے بھلا اللہ / خدا سے کیوں گلہ ہوگا، شاید آپ بھول گئے کہ آپ ایک اگناسٹک سے مخاطب ہیں۔ میرے نزدیک تو اسلام اور اسلام کی مذہبی کتب عرب کے ناخواندہ لوگوں کا لکھا ہوا قصے کہانیوں کا مجموعہ ہے، اور اس میں کام کی ایک بھی بات نہیں۔ یہ تو آپ کا دعویٰ ہے کہ اسلام، قرآن و احادیث وغیرہ خدا کی طرف سے آیا ہے ، اسی لئے تو میں آپ سے مطالبہ کررہا ہوں کہ اگر آپ کے نزدیک یہ الہامی کلام ہے اور آپ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ اس میں کوئی بڑا عالی شان قسم کا معاشی نظام درج ہے تو کہاں ہے وہ معاشی نظام۔؟؟؟۔۔ ذرا مجھے اس کی ایک جھلک تو دکھلادیں۔۔۔
مجھے یقین کی حد تک گمان تھا کہ میں کسی سے علمی بحث نہیں کر رہا ورنہ جواب دلیل کی صورت آتا، اپنے ذاتی تعارف کی صورت نہیں، کہ میں تو نہیں مانتا۔
آپ نہ مانیں، لیکن جواباً دلیل دیں ان سوالات کے متعلق جو اوپر اسلامی نظامِ معیشت کے بارے میں پوچھے گئے ہیں۔
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
اسلامی بینکنگ سسٹم کو آپ اسلامی سمجھتے ہیں۔؟۔ یا تو آپ تجاہلِ عارفانہ سے کام لے رہے ہیں یا آپ اسلامی بیکنگ سسٹم سے بالکل واقف نہیں ۔۔۔
دلیل یا حوالہ پیش کریں۔ ہو سکتا ہے میں آپکی سوچ سے زیادہ اسلامی بینکنگ سے واقف ہوں۔