سیاست اور حرفِ تنقید

زبانِ خلق

Politcal Worker (100+ posts)
سیاست کی گرم بازاری عروج پر ہے ۔ نواز شریف کی انتخابی موت تو واقع ہو چکی ہے مگر اب بھی وہ اپنی پرانی آزمودہ ترکیبیں پھر سے عوام ہر آزما رہا ہے۔ اس میں عمران خان کی کردار کشی عدلیہ اور فوج پر تنقید اور ساتھ بًساتھ پچھلے دروازے سے معافی تلافی کوششیں شامل ہیں۔ اس دوران مریم نواز کو کسی نو ن لیگ کی باگ تقریباً تھما دی گئی ہے۔

پی ٹی آئ کا ستارہ بلند ہے اور اقتدار میں آنے کے لئے پر تول رہی ہے۔ ایسے میں میڈیا پر مختلف باتیں اچھلتی رہتی ہیں۔ مختلف زاویوں سے عمران خان کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔

عمران خا ن اس حوالے سے کوئی زیادہ رد عمل نہیں دکھاتا مگر اسکے پارٹی ورکرز / سپورٹر شدید ردعمل دیتے ہیں اور کشتوں کے پشتے لگا دیتے ہیں۔ ان سب کی خدمت میں عرض ہے کہ تنقید ہمیشہ اچھی ہوتی ہے چاہے بے جا ہی کیوں نہ ہو۔

سیاستدان اور حکمران کو کبھی بھی تنقید کی زد سے باہر نہیں ہونا چاہئے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو نواز شریف آج بھی وزیراعظم ہوتا کہ تنقید کو تو اپنے سائے سے بھی دور رکھتا تھا۔ بلکہ ہر ایسے شخص کو اپنے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتا تھا جو اس کے فیصلے سے رتیّ بھر اختلاف کی جرات کر سکے۔

کوئی انسان عقل کل نہیں اور غلطیوں کا مجموعہ ہے۔ عمران خان آج جس مقام پر ہے وہ اپنی محنت اور غلطیوں سے سبق سیکھنے کی وجہ سے ہے، نہ کہ اس وجہ سے کہ صحافی اس پر تنقید نہیں کرتے تھے۔

کرنے دو کلاسرہ، عامر متین ارشد شریف کو تنقید ، اس تنقید سے عمران کو احتیاط کا سبق ملے گا۔

وہ کیا کہتے ہیں کہ “ کوے کے کوسنے سے ڈھول نہیں مرا کرتے”
 
Last edited by a moderator:

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
کلاسرا نے اپنے کیرئیر کی ابتدا اختلافی باتیں کر کے کیں . جب لوگوں کی توجہ مل گئی تو باتمیز بن بیٹھا . مجھے شروع سے ہی اس پر شک تھا
.
کلاسرا کے علاوہ حسن نثار نے بھی یہی طریقہ واردات اپنایا . لیکن حسن نثار ابھی دوسرے فیز میں ہے
 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
سیاست کی گرم بازاری عروج پر ہے ۔ نواز شریف کی انتخابی موت تو واقع ہو چکی ہے مگر اب بھی وہ اپنی پرانی آزمودہ ترکیبیں پھر سے عوام ہر آزما رہا ہے۔ اس میں عمران خان کی کردار کشی عدلیہ اور فوج پر تنقید اور ساتھ بًساتھ پچھلے دروازے سے معافی تلافی کوششیں شامل ہیں۔ اس دوران مریم نواز کو کسی نو ن لیگ کی باگ تقریباً تھما دی گئی ہے۔

پی ٹی آئ کا ستارہ بلند ہے اور اقتدار میں آنے کے لئے پر تول رہی ہے۔ ایسے میں میڈیا پر مختلف باتیں اچھلتی رہتی ہیں۔ مختلف زاویوں سے عمران خان کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔

عمران خا ن اس حوالے سے کوئی زیادہ رد عمل نہیں دکھاتا مگر اسکے پارٹی ورکرز / سپورٹر شدید ردعمل دیتے ہیں اور کشتوں کے پشتے لگا دیتے ہیں۔ ان سب کی خدمت میں عرض ہے کہ تنقید ہمیشہ اچھی ہوتی ہے چاہے بے جا ہی کیوں نہ ہو۔

سیاستدان اور حکمران کو کبھی بھی تنقید کی زد سے باہر نہیں ہونا چاہئے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو نواز شریف آج بھی وزیراعظم ہوتا کہ تنقید کو تو اپنے سائے سے بھی دور رکھتا تھا۔ بلکہ ہر ایسے شخص کو اپنے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتا تھا جو اس کے فیصلے سے رتیّ بھر اختلاف کی جرات کر سکے۔

کوئی انسان عقل کل نہیں اور غلطیوں کا مجموعہ ہے۔ عمران خان آج جس مقام پر ہے وہ اپنی محنت اور غلطیوں سے سبق سیکھنے کی وجہ سے ہے، نہ کہ اس وجہ سے کہ صحافی اس پر تنقید نہیں کرتے تھے۔

کرنے دو کلاسرہ، عامر متین ارشد شریف کو تنقید ، اس تنقید سے عمران کو احتیاط کا سبق ملے گا۔

وہ کیا کہتے ہیں کہ “ کوے کے کوسنے سے ڈھول نہیں مرا کرتے”

یہ سب اپنے پاؤں پر خود کلہاڑا چلانے والے لوگ ہیں ،آج نفرتیں پھیلا کر معاملات کو اتنا دور لے جایا گیا ہے کہ برداشت نام کی چیز نظر نہیں آتی ،عمران خان یا نواز شریف نے بذات خود اتنا کچھ نہ کہا ہوگا ،لیکن حمایتیوں نے پانی ڈالنے کی بجائے ہمیشہ آگ بھڑکانے کی کوشش کی
 

Pakistan2017

Chief Minister (5k+ posts)
جس کسی نے بھی اس محم کا آغاز کروایا ہے بیوقوفی کر بیٹھا ہے
جو پڑھے لکھے لوگ کبھی عمران خان کے ووٹرز نہیں بھی تھے ان کی سوچ بدلنے لگی ہے اور اس ساری پروپیگنڈا کو سمجھ گئے ہیں اور نورے اور زرداری کی چالیں سمجھ کر ان دونوں پر لعنتیں بھیج رہے ہیں
 

v r imran k

Chief Minister (5k+ posts)
loug 21 century mian reh rahay hian 18 ya 19 century main zinda nahi hy ab electronic media ka door nahi social media ka door hay arshad sharif our rauf kalasra nay blunder maara hay back fire ho gaya sub kuch muhammad malik b inhi ki saf main shamil ho gaya