سندہ کے لوگ کرپشن کے خلاف کھان جائیں؟
راقم الحروف۔ خلیل چانڈیو
پاکستان بننے کی تاریخ سے لے کر آج تک سندہ کے اقتدار اعلی کی مسند چن چن کے میر، پیر، وڈیرے، جاگیردار اور سرمایہ دار کے حوالے کی جاتی رھی ھے جن کو سندہ کے عوام سے کوئی رغبت نھیں، جنھوں نے آج تک اقتدار اعلی کو گھر کی غلامی تک محدود رکھا ھے، عام لوگوں کے پاس تعلیم نھیں، صحت نھیں، روزگار نھیں، عزت کی زندگی نھیں بلکہ اس کے برعکس ذلت کی غلاظتیں ان کا مقدر بنیں ھوئی ھیں، کوئی پوچھنے والا نھیں، جو پوچھتا ھے، جو سوال کرتا ھے اس کا منہ کسی نہ کسی طریقے سے بند کیا جاتا ھے، حتی کہ زندگی تک چھین لی جاتی ھے، سندہ کا عوام کھاں جائے، کس کو منت و سماجت کرے، کس کو ھاتھ جوڑے کہ ان کے نسلوں کو غلام ابن غلام بنایا جا رھا ھے، ان سے تعلیم چھینی جارھی ھے تاکہ کوئی اواز نہ اٹھ سکے کوئی نعرہ نہ بلند ھوسکے، کوئی الم نہ کھڑا کیا جاسکے، آخر کیوں، سندہ کے باسی اپنا دکھڑا کس کو سنائیں، کیوں ان کا کوئی پرساں حال نھیں ھے۔
کئی دھائیوں پہ محیط اس لوٹ مار کا میں خالی مثال دینے کے لئے آپ لوگوں کے سمجھنے کی خاطر چند چیزیں رکھتا ھوں۔
سندہ پبلک سروس کمیشن جو سندہ کا ایک اعلی اور قابلیت کے بنیادوں پہ لوگوں کو بھرتی کرنے کا ادارہ ھے جھاں پہ عام لوگوں کے آگے آنے اور ان کی نسل در نسل بھوک اور بدحالی مٹانے کا ادارہ ھے اس کی حالت ملاحظہ فرمائین گے تو آپ حیران رہ جائین گے کہ اس طرح میرٹ کا برا حال آپ کو شاذ و نادر ھی کھیں دیکھنے کو ملے، فاروق نور پٹھان، سندہ پبلک سروس کمیشن میں سپرنٹنڈنٹ اور مسٹر نہال توگانی مینگھواڑ کنٹرولر کے نجی سکریٹری ہیں، یہ دونوں ایس پی ایس سی کے خفیہ سیکشن میں تعینات ہیں۔ یہ افراد بااثر امیدواروں کی کاپیاں بدلنے اور تبدیل کرنے میں ماہر ہیں۔ انہوں نے کروڑوں روپے کے اثاثے بھی بنالئے ہیں۔ وہ تحریری امتحانات شروع ہونے سے پہلے اپنے صارفین اور رشتہ داروں کو سوالیہ پیپرز کی پہلے سے تیار جوابات دے دیتے ہیں۔ بدعنوان عناصر کنٹرولر اور چیئرمین ایس-پی-اس-سی- کے ساتھ اپنی ناجائز وفاداری کی وجہ سے خفیہ سیکشن میں کام کر رہے ہیں۔دونوں وہی افراد ہیں جو پی سی ایس 2003 کے متنازعہ امتحان میں جعل سازی اور کاپیوں میں جوڑ توڑ میں سابق کنٹرولر محمد عمر زنئور کے ساتھی تھے۔ اسی سلسلے میں اینٹی کرپشن کے ذریعے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی، مسٹر نہال توگوانی نے اپنے نااہل بیٹے کو سوشل ویلفیئر آفیسر کے کاغذات سوالیہ پیپر اور پہلی سے ہی جوابی پیپر دیکر آخر کار انہیں اسی عہدے کے لئے منتخب کروایا۔ اس کے علاوہ، اس نے اپنے دوسرے بیٹے کو میرپورخاص ڈویژن میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر کے عہدے کے لئے بھی پاس کروا لیا ۔
جبکہ حال ہی میں مسٹر فاروق پٹھان نے اپنے ذہنی طور پر بیمار بیٹے کو کلرک کے عہدے کے لئے ایس پی ایس سی میں شامل کیا تھا اور اسی شخص کو محکمہ کھیل اور نوجوانوں کے امور میں اسسٹنٹ کے تحریری امتحان میں پاس قرار دیا گیا ہے۔ امتحان کے دوران فاروق نور کا بیٹا اپنی جوابی کاپی پر سوالات کے پہلے سے ہی تیار جوابات سے جواب اتار کر ایک گھنٹہ کا پیپر 20 منٹوں میں ہل کر کے چلا گیا۔ مزید برآں ، مسٹر فاروق نے اپنے بہت سے رشتہ داروں کو بھی شامل کیا ہے جن میں بھائیوں اور بہنوں نے بھی ایس پی ایس سی کے ذریعہ مختلف عہدوں کے لئے سفارش کی تھی۔ وہ کمیشن کے سارے سوالیہ پیپرز ٹائپ کرتا ہے اور خصوصی معاملات میں سوالیہ پیپرز کے ساتھ ساتھ اپنے بیٹوں، بیٹیوں اور قریبی رشتہ داروں میں بھی پہلے سے ہی تیار شدہ جوابات بانٹتا ہے۔ پی-ایس-سی- کے دونوں کرپٹ عناصر کے پاس سندہ کی اعلی حکام کے تاریک راز دفن ہیں۔ جب بھی ان کی منتقلی کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ ان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہیں۔
حال ہی میں ھٹائے گئےسیوھن ڈویلپمینٹ اتھارٹی کے ڈی جی، منیر سومرو نے ایس ڈی اے کو موروثی ملکیت سمجھ کر تباھ کیا۔
حبیب بئنک سے فراڈ کیس میں نیب سے پلی بارگین کرکے نوکری سے برطرف سزا یافتہ رضا گھمرو کو غیر قانونی طور پر اتھارویں گریڈ میں بھرتی کرلیا۔ منیر سومرو نے خود 19 گریڈ میں جعلسازی کے ذریعے بیٹھے رہنے کا فائدہ تو اٹھایا لیکن یہ پہلی بار دیکھنے کو ملا کہ 19 گریڈ کے ملازم نے ایک ہی وقت چیف سیکریٹری، وزیر اعلی اور سندھ پبلک سروس کمیشن کا اختیار استعمال کرکے کس طرح اٹھارویں گریڈ کے ملزم کو بھرتی کرلیا۔ ان کے ساتھ عمر رسیدہ بزرگ رحمت لاشاری کو بھی نوکری سے نوازا گیا۔ اندھے، گونگے، بہروں کی سرکار پورے معاملے پر تماشائی بنی رہی اور اب یہ گھمرو صاحب آج کل سالڈ ویسٹ مئنیجمینٹ میں بڑے عہدے پر براجمان ہیں لیکن سندھ کو یہ تحفہ منہ سے موسی جناب منیر سومرو نے عطا کیا ھے۔
ایک اور محکمہ فنانس سندھ کا اھم کردار عامرضیاء اسران ویسے ہیں تو ڈپٹی سیکریٹری فنانس لیکن سندھ کے خزانے کی کنجی ان کے ھاتھ میں ھے۔ اسران صاحب کیونکہ صاحب کے خاص کے خاص الخاص ہیں اس لیے ان پر اعتماد بھی ذرا زیادہ ھی ھے، اب اتنے بڑے خزانے کا بوجھ اٹھانے اور ایماندار رہنے کے لیے سندھ کے تین اضلاع کی ٹریزرز ان کو ھر مہینے خرچہ پانی کی مد میں کچھ اس طرح کا دان دیتے ہیں۔
ضلع دادو سے 53 لاکھ ماہانہ۔
ضلع حیدرآباد سے 40 لاکھ ماہانہ۔
اور ضلع ٹھٹہ سے 30 لاکھ روپے ماہانہ ملتے ہیں اس کے علاوہ فی ای ڈی او کا تبادلہ ستر لاکھ روپے، ضلع کے چھوٹے ملازمین کے تبادلے 10 سے بیس لاکھ میں نمٹادیے جاتے ہیں اور یہ کام ھر مہینے ھوتا ھے یقین نہ آئے تو محکمہ فنانس میں صرف جنوری اور فروری میں ھونے والے تبادلوں کا حساب دیکھ لیں۔ عامر ضیاء اور ان کے گینگ نے 2011 میں 336 لوگوں کی جعلی بھرتیاں کیں جو سب کرپشن سے جڑے خاندانوں کے چشم و چراغ تھے۔ یہ کیس تو آج بھی سپریم کورٹ میں بند پڑا ھے اور سندھ کا پیسا سندھو کے پانی کی طرح سندھ دشمنوں کے محلوں اور ان کی شاھ خرچیوں پر آج بھی لگ رہا ھے۔
یہ کرپشن کی تین سادہ مثالیں اس لئے پیش کی گئی ھیں کہ لوگ جان سکیں کہ سندہ کے عام مزدور اور کساں اور ان کے اولادوں کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جارھا ھے تاکہ اس ملک کا کوئی غیرتمند انسان اٹھے اور ان سے سارا حساب چکتا کرلے ۔
راقم الحروف۔ خلیل چانڈیو
پاکستان بننے کی تاریخ سے لے کر آج تک سندہ کے اقتدار اعلی کی مسند چن چن کے میر، پیر، وڈیرے، جاگیردار اور سرمایہ دار کے حوالے کی جاتی رھی ھے جن کو سندہ کے عوام سے کوئی رغبت نھیں، جنھوں نے آج تک اقتدار اعلی کو گھر کی غلامی تک محدود رکھا ھے، عام لوگوں کے پاس تعلیم نھیں، صحت نھیں، روزگار نھیں، عزت کی زندگی نھیں بلکہ اس کے برعکس ذلت کی غلاظتیں ان کا مقدر بنیں ھوئی ھیں، کوئی پوچھنے والا نھیں، جو پوچھتا ھے، جو سوال کرتا ھے اس کا منہ کسی نہ کسی طریقے سے بند کیا جاتا ھے، حتی کہ زندگی تک چھین لی جاتی ھے، سندہ کا عوام کھاں جائے، کس کو منت و سماجت کرے، کس کو ھاتھ جوڑے کہ ان کے نسلوں کو غلام ابن غلام بنایا جا رھا ھے، ان سے تعلیم چھینی جارھی ھے تاکہ کوئی اواز نہ اٹھ سکے کوئی نعرہ نہ بلند ھوسکے، کوئی الم نہ کھڑا کیا جاسکے، آخر کیوں، سندہ کے باسی اپنا دکھڑا کس کو سنائیں، کیوں ان کا کوئی پرساں حال نھیں ھے۔
کئی دھائیوں پہ محیط اس لوٹ مار کا میں خالی مثال دینے کے لئے آپ لوگوں کے سمجھنے کی خاطر چند چیزیں رکھتا ھوں۔
سندہ پبلک سروس کمیشن جو سندہ کا ایک اعلی اور قابلیت کے بنیادوں پہ لوگوں کو بھرتی کرنے کا ادارہ ھے جھاں پہ عام لوگوں کے آگے آنے اور ان کی نسل در نسل بھوک اور بدحالی مٹانے کا ادارہ ھے اس کی حالت ملاحظہ فرمائین گے تو آپ حیران رہ جائین گے کہ اس طرح میرٹ کا برا حال آپ کو شاذ و نادر ھی کھیں دیکھنے کو ملے، فاروق نور پٹھان، سندہ پبلک سروس کمیشن میں سپرنٹنڈنٹ اور مسٹر نہال توگانی مینگھواڑ کنٹرولر کے نجی سکریٹری ہیں، یہ دونوں ایس پی ایس سی کے خفیہ سیکشن میں تعینات ہیں۔ یہ افراد بااثر امیدواروں کی کاپیاں بدلنے اور تبدیل کرنے میں ماہر ہیں۔ انہوں نے کروڑوں روپے کے اثاثے بھی بنالئے ہیں۔ وہ تحریری امتحانات شروع ہونے سے پہلے اپنے صارفین اور رشتہ داروں کو سوالیہ پیپرز کی پہلے سے تیار جوابات دے دیتے ہیں۔ بدعنوان عناصر کنٹرولر اور چیئرمین ایس-پی-اس-سی- کے ساتھ اپنی ناجائز وفاداری کی وجہ سے خفیہ سیکشن میں کام کر رہے ہیں۔دونوں وہی افراد ہیں جو پی سی ایس 2003 کے متنازعہ امتحان میں جعل سازی اور کاپیوں میں جوڑ توڑ میں سابق کنٹرولر محمد عمر زنئور کے ساتھی تھے۔ اسی سلسلے میں اینٹی کرپشن کے ذریعے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی، مسٹر نہال توگوانی نے اپنے نااہل بیٹے کو سوشل ویلفیئر آفیسر کے کاغذات سوالیہ پیپر اور پہلی سے ہی جوابی پیپر دیکر آخر کار انہیں اسی عہدے کے لئے منتخب کروایا۔ اس کے علاوہ، اس نے اپنے دوسرے بیٹے کو میرپورخاص ڈویژن میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر کے عہدے کے لئے بھی پاس کروا لیا ۔
جبکہ حال ہی میں مسٹر فاروق پٹھان نے اپنے ذہنی طور پر بیمار بیٹے کو کلرک کے عہدے کے لئے ایس پی ایس سی میں شامل کیا تھا اور اسی شخص کو محکمہ کھیل اور نوجوانوں کے امور میں اسسٹنٹ کے تحریری امتحان میں پاس قرار دیا گیا ہے۔ امتحان کے دوران فاروق نور کا بیٹا اپنی جوابی کاپی پر سوالات کے پہلے سے ہی تیار جوابات سے جواب اتار کر ایک گھنٹہ کا پیپر 20 منٹوں میں ہل کر کے چلا گیا۔ مزید برآں ، مسٹر فاروق نے اپنے بہت سے رشتہ داروں کو بھی شامل کیا ہے جن میں بھائیوں اور بہنوں نے بھی ایس پی ایس سی کے ذریعہ مختلف عہدوں کے لئے سفارش کی تھی۔ وہ کمیشن کے سارے سوالیہ پیپرز ٹائپ کرتا ہے اور خصوصی معاملات میں سوالیہ پیپرز کے ساتھ ساتھ اپنے بیٹوں، بیٹیوں اور قریبی رشتہ داروں میں بھی پہلے سے ہی تیار شدہ جوابات بانٹتا ہے۔ پی-ایس-سی- کے دونوں کرپٹ عناصر کے پاس سندہ کی اعلی حکام کے تاریک راز دفن ہیں۔ جب بھی ان کی منتقلی کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ ان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہیں۔
حال ہی میں ھٹائے گئےسیوھن ڈویلپمینٹ اتھارٹی کے ڈی جی، منیر سومرو نے ایس ڈی اے کو موروثی ملکیت سمجھ کر تباھ کیا۔
حبیب بئنک سے فراڈ کیس میں نیب سے پلی بارگین کرکے نوکری سے برطرف سزا یافتہ رضا گھمرو کو غیر قانونی طور پر اتھارویں گریڈ میں بھرتی کرلیا۔ منیر سومرو نے خود 19 گریڈ میں جعلسازی کے ذریعے بیٹھے رہنے کا فائدہ تو اٹھایا لیکن یہ پہلی بار دیکھنے کو ملا کہ 19 گریڈ کے ملازم نے ایک ہی وقت چیف سیکریٹری، وزیر اعلی اور سندھ پبلک سروس کمیشن کا اختیار استعمال کرکے کس طرح اٹھارویں گریڈ کے ملزم کو بھرتی کرلیا۔ ان کے ساتھ عمر رسیدہ بزرگ رحمت لاشاری کو بھی نوکری سے نوازا گیا۔ اندھے، گونگے، بہروں کی سرکار پورے معاملے پر تماشائی بنی رہی اور اب یہ گھمرو صاحب آج کل سالڈ ویسٹ مئنیجمینٹ میں بڑے عہدے پر براجمان ہیں لیکن سندھ کو یہ تحفہ منہ سے موسی جناب منیر سومرو نے عطا کیا ھے۔
ایک اور محکمہ فنانس سندھ کا اھم کردار عامرضیاء اسران ویسے ہیں تو ڈپٹی سیکریٹری فنانس لیکن سندھ کے خزانے کی کنجی ان کے ھاتھ میں ھے۔ اسران صاحب کیونکہ صاحب کے خاص کے خاص الخاص ہیں اس لیے ان پر اعتماد بھی ذرا زیادہ ھی ھے، اب اتنے بڑے خزانے کا بوجھ اٹھانے اور ایماندار رہنے کے لیے سندھ کے تین اضلاع کی ٹریزرز ان کو ھر مہینے خرچہ پانی کی مد میں کچھ اس طرح کا دان دیتے ہیں۔
ضلع دادو سے 53 لاکھ ماہانہ۔
ضلع حیدرآباد سے 40 لاکھ ماہانہ۔
اور ضلع ٹھٹہ سے 30 لاکھ روپے ماہانہ ملتے ہیں اس کے علاوہ فی ای ڈی او کا تبادلہ ستر لاکھ روپے، ضلع کے چھوٹے ملازمین کے تبادلے 10 سے بیس لاکھ میں نمٹادیے جاتے ہیں اور یہ کام ھر مہینے ھوتا ھے یقین نہ آئے تو محکمہ فنانس میں صرف جنوری اور فروری میں ھونے والے تبادلوں کا حساب دیکھ لیں۔ عامر ضیاء اور ان کے گینگ نے 2011 میں 336 لوگوں کی جعلی بھرتیاں کیں جو سب کرپشن سے جڑے خاندانوں کے چشم و چراغ تھے۔ یہ کیس تو آج بھی سپریم کورٹ میں بند پڑا ھے اور سندھ کا پیسا سندھو کے پانی کی طرح سندھ دشمنوں کے محلوں اور ان کی شاھ خرچیوں پر آج بھی لگ رہا ھے۔
یہ کرپشن کی تین سادہ مثالیں اس لئے پیش کی گئی ھیں کہ لوگ جان سکیں کہ سندہ کے عام مزدور اور کساں اور ان کے اولادوں کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جارھا ھے تاکہ اس ملک کا کوئی غیرتمند انسان اٹھے اور ان سے سارا حساب چکتا کرلے ۔