ایران کے وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے امریکہ کے سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو کے اس الزام کو ’صریحاً دھوکے بازی’ قرار دیا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ سعودی عرب میں سنیچر کو ہونے والے ڈرون حملوں میں ایران ملوث ہے۔
امریکی سیکریٹری خارجہ نے اتوار کو ایک بیان میں کہا تھا کہ سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر ہونے والے ڈرون حملوں کے بعد اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ یہ حملے یمن سے کیے گئے۔
انھوں نے یمنی حوثی باغیوں کے اس دعوے کو بھی رد کیا تھا جس میں انھوں نے بقیق اور خریص میں سعودی تیل کمپنی ’آرامکو‘ پر حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔تاہم ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف کہتے ہیں کہ ’ایران پر الزام لگانے سے یمن کا سانحہ ختم نہیں ہو گا۔‘
امریکی سیکریٹری خارجہ نے اتوار کو ایک بیان میں کہا تھا کہ سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر ہونے والے ڈرون حملوں کے بعد اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ یہ حملے یمن سے کیے گئے۔
انھوں نے یمنی حوثی باغیوں کے اس دعوے کو بھی رد کیا تھا جس میں انھوں نے بقیق اور خریص میں سعودی تیل کمپنی ’آرامکو‘ پر حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔تاہم ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف کہتے ہیں کہ ’ایران پر الزام لگانے سے یمن کا سانحہ ختم نہیں ہو گا۔‘
امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’ایران نے دنیا کے توانائی کے ذخائر پر ایسا حملہ کیا ہے جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔‘
ماہرین کے مطابق اس واقعے سے عالمی تیل کی قیمتوں میں بڑا اضافہ ہو سکتا ہے۔
سعودی عرب کے وزیر توانائی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ تیل تنصیبات پر حملوں سے خام تیل کی پیداوار میں 57 لاکھ بیرل فی دن کمی واقع ہوئی ہے، جو ملک میں تیل کی نصف پیداوار ہے۔
جواد ظریف نے اتوار کے روز ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’ایران پر ’بھرپور دباؤ‘ ڈالنے میں ناکامی کے بعد سیکریٹری پومپیو اب ’صریحً دھوکے بازی‘ پر تلے ہوئے ہیں۔‘
یہاں بھرپور دباؤ سے ان کی مراد امریکہ کی طرف سے ایران پر مختلف پابندیاں عائد کرنے والی مہم تھی جسے ’بھرپور دباؤ کی مہم‘ کہا گیا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’امریکا اور اس کے اتحادی یمن میں اس لیے موجود ہیں کیونکہ انھیں یہ گمان ہے کہ بہتر اسلحہ فوجی کامیابی کی ضمانت ہے۔‘
ٹی وی پر نشر ہونے والی ویڈیو میں بقیق میں ڈرون حملے کے بعد آرامکو کے تیل کے سب سے بڑے پراسیسنگ پلانٹ پر لگی آگ کو دیکھا جا سکتا ہے جبکہ خریص میں دوسرے حملے سے بھی کافی نقصان ہوا ہے۔
سعودی عرب اور مغربی ممالک کا فوجی اتحاد یمنی حکومت کی حمایت کرتا ہے جبکہ یمن میں حوثی باغیوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔
اگر ان حملوں کے پیچھے حوثی باغی تھے تو ان کے ڈرونز نے یمن سے سعودی عرب تک کئی میل کا سفر طے کیا ہو گا۔
امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل کی رپورٹ کے مطابق ماہرین اس بات کا جائزہ بھی لے رہے ہیں کہ ان حملوں کے پیچھے ایران یا عراق میں موجود ان کے حمایتی ہو سکتے ہیں جنھوں نے ڈرونز کی جگہ کروز میزائل استعمال کیے۔
امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی اس وقت بڑھنا شروع ہوئی جب گذشتہ سال واشنگٹن نے یکطرفہ طور پر سنہ 2015 کے جوہری معاہدے سے خود کو علیحدہ کر لیا۔ اس کے بعد سے امریکہ نے ایران کے تیل کے شعبے پر از سر نو پابندیاں عائد کر دیں ہیں۔
مائیک پومپیو نے کیا کہا؟
اپنی ٹویٹ میں امریکہ کے سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ ڈرون یمن سے آئے۔انھوں نے اس واقعہ کو ’دنیا کی توانائی کی فراہمی پر ایک غیر معمولی حملہ‘ قرار دیا ہے۔
مائیک پومپیو نے کہا ’ہم تمام ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ایران کی جانب سے کیے گئے اس حملے کی عوامی سطح پر مذمت کریں۔‘
انھوں نے زور دیا کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ اشتراک سے کوشش کرے گا کہ توانائی کی منڈیوں میں تیل کی فراہمی بغیر رکے جاری رہے۔
سعودی عرب کیا کہتا ہے؟
سرکاری خبر رساں ادارے سعودی پریس ایجنسی کا کہنا تھا: ’چار بجے (مقامی وقت کے مطابق) آرامکو کی انڈسٹریل سکیورٹی ٹیموں نے بقیق اور خریص میں اپنی دو تنصیبات میں ڈرونز کی وجہ سے لگنے والی آگ سے نمٹنا شروع کیا۔‘
بعد میں انھوں نے اعلان کیا ’آگ پر قابو پا لیا گیا ہے۔‘
مگر سعودی سرکاری میڈیا نے اپنی خبروں میں یہ نہیں بتایا کہ ان تازہ حملوں کے پیچھے کون ہو سکتا ہے۔سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے فون پر امریکی صدر ٹرمپ کو بتایا ہے کہ ’شدت پسند جارحیت کا مقابلہ کیا جائے گا۔‘
حوثی باغی کیا کہتے ہیں؟
یمن میں حوثی باغیوں نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے مشرقی سعودی عرب میں دنیا کی سب سے بڑی تیل ریفائنری پر حملے کرنے کے لیے ڈرونز کا استعمال کیا جس کے بعد اس میں آگ بھڑک اٹھی۔
حوثی باغیوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے بقیق پلانٹ اور خریص آئل فیلڈ پر حملے کے لیے 10 ڈرون بھیجے تھے۔ اس کے علاوہ حوثی باغیوں نے سعودی عرب کے خلاف حملوں کا دائرہ وسیع کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ حملوں کا الزام بھی یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی جنگجوؤں پر عائد کیا گیا تھا۔بقیق سعودی عرب کے مشرقی صوبے میں ظہران شہر سے 60 کلومیٹر جنوب مغرب میں ہے جبکہ 200 کلومیٹر مزید جنوب مغرب میں قائم خریص میں ملک کی دوسری سب سے بڑی آئل فیلڈ ہے۔سعودی سکیورٹی فورسز نے 2006 میں القاعدہ کی جانب سے بقیق کی تیل تنصیبات پر حملے کی کوشش کو ناکام بنایا تھا۔
حملوں کے پیچھے کون ہو سکتا ہے؟
گذشتہ ماہ شیبہ میں قدرتی گیس کو مائع بنانے والی تنصیبات پر اور مئی میں دیگر تیل تنصیبات پر ڈرون حملوں کے لیے حوثی جنگجوؤں کو سعودی عرب کی جانب سے موردِ الزام ٹھہرایا گیا تھا۔
ایران کی حمایت یافتہ باغی تحریک یمنی حکومت اور سعودی اتحاد کے خلاف برسرِ پیکار ہے۔
یمن 2015 سے جنگ کا شکار ہے جب صدر عبدالربہ منصور ہادی کو حوثیوں نے دارالحکومت صنعا سے بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔ سعودی عرب صدر ہادی کی حمایت کرتا ہے اور اس نے باغیوں کے خلاف علاقائی ممالک کے ایک اتحاد کی قیادت کی ہے۔
اتحاد کی جانب سے تقریباً روزانہ فضائی حملے کیے جاتے ہیں جبکہ حوثی اکثر سعودی عرب میں میزائل فائر کرتے ہیں۔
مگر خطے میں تناؤ کے دیگر ذرائع بھی ہیں اور اکثر ان کی بنیاد سعودی عرب اور ایران کے درمیان دشمنی کی وجہ سے ہوتی ہے۔
سعودی عرب اور امریکہ دونوں ہی نے ایران پر جون اور جولائی میں خلیج میں ہونے والے دو آئل ٹینکروں پر حملوں کا الزام عائد کیا۔
تہران کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی گئی ہے۔
مئی میں دو سعودی پرچم بردار ٹینکروں سمیت چار ٹینکر خلیجِ عمان میں متحدہ عرب امارات کی بحری حدود میں دھماکوں سے نقصان کے شکار ہوئے تھے۔
سعودی عرب اور اس وقت امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جون بولٹن نے ایران پر الزام عائد کیا تھا۔ تاہم تہران کی جانب سے ان الزامات کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیا۔
اہم ترین بحری راستوں میں تناؤ میں جون میں اس وقت اضافہ ہوگیا جب ایران نے آبنائے ہرمز کے اوپر ایک امریکی جاسوس ڈرون کو مار گرایا۔
اس کے ایک ماہ بعد امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے اعلان کیا کہ وہ سعودی عرب میں فوجی تعینات کرے گا۔
ایرانی اور امریکہ کی روایتی نورا کشتی حسب معمول جاری ہے
اگر امریکی موقف درست ہے، اور یہ حملہ ایران نے کیا ہے، تو سوال یہ ہے کہ اب تک امریکا نے اس کے جواب میں کیا عملی جوابی کاروائی کی ہے، (بیان بازی اور بے اثر پابندیوں کے راگ الاپنے کے علاوہ)
اور اگر امریکی وزیر خارجہ جھوٹ بول رہا ہے، تب بھی یہی سوال بنتا ہے کہ جب کوئی عملہ کاروائی کرنی ہی نہیں تو پھر آخر اس جھوٹ بولنے کا فائدہ کیا ۔
ایک طرف حوثی باغی خود یہ کہہ رہے ہیں کہ اس دہشت گردانہ حملے کے پیھچے ان کا ہاتھ ہے، اور دوسری طرف امریکا انہیں کلین چیٹ دے رہا ہے۔
غالبا اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر امریکا یہ مان لے کہ یہ حملہ حوثی باغیوں کا ہے، تو پھر لوگ یہ سوال کریں گے کہ پھر امریکہ ان دہشت گردوں کے خلاف کوئی عملی اقدامات کیوں نہیں کرتا۔ کیوں کہ امریکی موقف اس حوالے سے یہ ہے کہ وہ دنیا بھر میں دہشت گردی کو ختم کرنا چاہتا ہے اور حملہ ہونے سے پہلے ہی اسے روکے گا۔ اب یہاں پر امریکہ کے "اتحادی" پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں تو امریکابیان بازی کے علاوہ کوئی عملی اقدامات کیوں نہیں کرتا۔
یاد رہے امریکہ یمن میں سینکڑوں ڈرون حملے کر چکا ہے، جس میں سے ایک بھی حوثی دہشت گردوں کے خلاف نہیں کیا گیا۔ غالبا امریکا کو یہ معلوم ہے کہ اگر اس نے کوئی کاروئی کی تو یہ مسئلہ ختم ہو جائے گا، پھر وہ سعودی حکمرانوں کو کس چیز سے ڈرا کر اپنے قابو میں رکھ سے گا، یا اربوں ڈالرکے اپنے ہتھیار بیچ سکے گا۔(یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ڈرون خود امریکہ نے ہی حوثیوں کو فراہم کئے ہوں ، تاکہ اس حملے کے بعد اپنے مزید ہتھار بیچ سکے)۔
ایران نے امریکی الزام ’دھوکے بازی‘ قرار دے دیا
ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے امریکہ کے سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو کے اس بیان کو مسترد کیا ہے جس میں انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ سنیچر کو ہونے والے ڈرون حملوں میں ایران ملوث ہے۔
www.bbc.com