سانحہ بلدیہ

Muhammad Arif Ansari

Voter (50+ posts)

دروازے اندر سے کرکے بند جسم جنکے زندہ جلا دیے تو نے
ایک بیچاری فیکٹری میں ٢٦٤ بیگناہ لوگ جلا دیے تو نے

ان معصوموں کی چیخیں تو ضرور سنی ہونگی تو نے
کیا قیامت ہوگی کے جھلستی ہوئی لاشیں بھی دیکھی ہونگی تو نے

مدد کے لئے ان مجبوروں نے اہ و بکا تو کی ہوگی
کیسی کرب کی ہوگی وہ رات بستر پے جو گزاری ہوگی تو نے

دو پیسے کمایا کرتے تھے تو جلتا تھا چولہا جنکے گھر کا
کس بے رحمی سے لوٹی ہے مظلوموں کے خون پسینے کی کمائی تو نے

اپنے شہر کی فیکٹری میں بیگناہ اتنے جلا دیے تونے
ستم دیکھ کے دو پے ہے الزام تو چار معصوم بھی ٹھیرا لئے تونے

خوف زدہ ہیں آنکھیں تو زباں بھی ہے تیرے ڈر سے بند
کے اپنے شہر کے بیچوں بیچ کتنے زندہ جلا دیے تونے

زباں کھولنے کی صورت میں ایک اور جاں جانے کا ہے خوف
آج کا فرعون ہے تو ڈر اور خوف مظلوموں پےاپنا خوب بیٹھایا تونے

پوچھتی ہیں ڈری،سہمی آنکھیں کیا تم دو ہی تھے اس سانحہ کے ذمدار
اپنی فرعوںیت کے پیچھے نا جانے کتنے کردار چھپا دے تونے

کیسے اندھے تھے وہ ہاتھ جن معصوموں پر کیمیکل ڈالا تونے
دو پیسے جو کما نے نکلے تھے جسم انکے راکھ کر دیے تو نے

آیا ہے جو فیصلہ عدالت سے آٹھ برسوں کے بعد
معلوم ہے مجھے عدالت سے کرنی ہیں ابھی بہت اپپلیں تونے

جا جاکے مانگ لے معافی ان بچ جانے والوں سے
جلادیے پیارے جنکے دروازے بند کرکے تونے

از قلم
محمد عارف انصاری