سازشی تھیوری

Nadeem57

MPA (400+ posts)
سازشی تھیوری

ہمارے ملک میں مقتدرہ کی کوشش ہوتی ہے کے سول حکومت کو اسمبلی میں بمشکل آکثریت حاصل ہو اور وہ عوام میں مقبول نہ ہو ، کیونکہ اپنے بناے ہوے لیڈر بھی پر اعتماد ہوتے ہی پر پرزے نکالنے شروع کردیتے ہیں ، بھٹو ، نواز شریف ، الطاف اسکی واضح مثالیں ہیں ۔ عمران بھی ایک ٹیسٹ ٹیوب بے بی ہی ہیں ، جنکا کام ملک میں موجود سول لیڈر شپ کو فوج کے مقابلے ذلیل کرنا رہا ہے ،

دماغی طور پر وہ آمرانہ طور طریقوں کو ہی پسند کرتے ہیں ۔ لاھور کے تاریخی جلسے سے پی ٹی آی کی عوامی حمایت ثاب...ت ہونے سے عمران تو پر اعتماد ہوے لیکن مقتدرہ میں ایک حد تک پریشانی پیدا ہوی، چناچہ اپنے کیثث ایجنٹ پی ٹی آی میں داخل کر دیے گیے ۔ ۲۰۱۳کے الیکشن میں عمران نے مقتدرہ کو دھوکہ دے کر ٹکٹ اپنی پسند کے لوگوں کو دیے ، فوج کے بھونپوو ہارون رشید اور حسن نثار عمران پر پل پڑے ۔ مقتدرہ نے ہاتھ کھیچ لیا ، عمران کے خواب ادھورے رہے گیے ۔ مقتدرہ نے نواز شریف کو مان تو لیا لیکن اس نیت کے ساتھ کے علاقای امن کے ذریعے معاشی ترقی حاصل کی جا نے کی نواز کی پالیسی پر عمل نہیں ہونے دینا ہے ۔

اختیارات میں نواز کو زرداری کی پوزیشن تک پہونچانا ہے ۔ عمران اپنی چالاکی کی تلافی کیلیے اس ایجنڈے پر عمل پیرا رہے ، اس امید میں کے ذرا ٹیڑھے طریقے سے ہی سہی لیکن وزیر اعظم بن ہی جاونگا ۔ وہ نہیں جانتے کے مقتدرہ اب ان پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ اب انکا استعمال سول حکومت کو کام نہِیں کرنے دینا ہے اور الیکشن سے ذرا پہلے یا بعد میں انہیں جسمانی یا سیاسی طور پر پی ٹی آی کی قیادت سے علیحدہ کرنا ہوگا ۔ ریحام سے شادی کرکے دراصل انہیں ایک سیاسی وارث مل گیا تھا جو مقتدرہ کو ہرگز منظور نہیں تھا ۔ اسکے لیے تو انہوں نے اسد عمر کو تیار کیا ہے ۔ ریحام سے علیحدگی کرکے عمران نے اپنی ذاتی انشورنس ختم کردی ہے


 
Last edited by a moderator:

farooq22

Minister (2k+ posts)
Pasha London Plan is open conspiracy with Jews/Indian Funding is open secret now, Pappu Niazi went popular/billionaire in few months, whereas 3 months before October jalsa at Lahore was weeping that due to lack of funds could not do big Jalsa.

No to Jews/Indian funded Inklab, No to Pasha Party/Pappu Niazi
 

tamaashy

Councller (250+ posts)
@ nadeem 57

محسوس ایسا ہوتا ہے کہ جسے آپ مقتدرہ کہہ رہے ہیں انکو پپلز پارٹی اور ن لیگ کی باری باری حکومتوں پر کوئی اعتراض نہیں،
انکے تحفظات اگر کچھ ہوئے بھی توان جماعتوں کے سربراہوں کے ذاتی اطوار پر ہو سکتے ہیں ورنہ کچھ نہیں

جناب زرداری کی ذاتی پسند سے سب واقف ہیں انکو اپنی راہ پر اور خاص طور پر اپنی ہمت کے دائرے میں گردش کرنے سے
کسی مقتدرہ اور غیر مقتدرہ کیلئے کوئی پریشانی کھڑی ہوتی نظر نہیں آتی۔سرجھکا کر درخت کی جڑ پر بیٹھنے اور تھوڑا بہت اسے کریدنے
سے کسی کا کچھ نہیں بگڑتا شائد اسی لئے انکے خلاف ڈھیلے ڈھالے ایکشن ہوتے ہیں ،اور معاملہ تعطل کے گھات اتر جاتا ہے

مگر نواز شریف صاحب کے لئے افواہ ہے کہ وہ کلی اختیارات اپنی مٹھی میں دیکھنے کے آرزو مند ہیں
اگر ایسا ہے تو یہ ضرور کچھ عناصر کیلئے فکر کی بات ہوسکتی ہے جس کے لئے ضروری اقدامات کا کیا جانا بھی ان عناصر کی طرف سے لازمی ہے

جناب عمران خان انہی ضروری اقدامات میں سے ایک اقدام ہیں،انکی سیاست میں جناب نواز شریف اور جناب زرداری سے
کچھ ہی کم حیثیت بنا کر میدان میں رکھنا دراصل ان دونوں بڑی پارٹیوں کو قابو میں رکھنے والی بات ہے انہیں یہ سمجھانے والی بات ہے کہ
اگر یہ دو اپنے دائرے سے باہر جانے کی کوشش کرینگے تو متبادل لیڈر موجود ہے،سیدھے چلیں،اور سب دیکھ رہے ہیں کہ عمران خان
کے میدان میں ہونے کی وجہ سےیہ ایک حد تک سیدھے چل رہے ہیں

دوسری طرف لگتا ہے کہ بھٹو صاحب،نواز شریف صاحب،الطاف حسین صاحب کے تجربہ کو نگاہ میں رکھتے ہوئے جناب عمران خان کو
تحریک انصاف میں آزادانہ عمل کی اجازت نہیں دی گئی ہےجاوید ہاشمی،شاہ محمود،ترین،،اور خاص طور پر چودہری سرور کا پارٹی میں داخلہ
اور انتظامی امور پر قبضہ اس شبہ کو تقویت دینے کیلئے کافی ہے

اسد عمر صاحب کا آدھ کڑور ماہانہ کی تنخواہ چھوڑ کرتحریک انصاف میں داخلہ ،مدبرانہ انداز گفتگو،شائستہ انداز اور انتہائی تعلیم یافتہ ہونے کی پبلسٹی سے
سوچا جارہا تھا کہ شائد انہیں عمران خان کی جگہ آگے لایا جائیگا،،اور پارٹی کو تقویت دی جائیگی، مگر ایسا نہ ہوسکا شائد اسکی وجہ میاں صاحب کا غیر مشروط تعاون
اور ہدایت پر چلنے کی جگہ ہدایات پر پوری طرح پابند رہنےکے وعدے اور عمل نے اس باب کو بند کر دیا ہے

خان صاحب کی سیاق و سباق سے ہٹ کر تقریروں،پارٹی کارندوں پر مناسب گرفت نہ کرپانےاور سب سے بڑھ کر ذاتی مشاغل نے بطور لیڈر انکی قابلیت کو مشکوک
کردیا ہےاس صورت میں تحریک انصاف کا وفاقی کردار کمزور ہوتا نظر آرہا ہے اور کے پی کے میں بھی جہاں اسکی حکومت ہےاگلے الیکشن میں فضل الرحمٰن اور اسفندیار ولی
اپنے مذہبی اور صوبائیت کے کارڈ لئے ،سخت مقابلہ کرتے نظرآتے ہیں

اس صورت میں اگر تحریک انصاف کو زندہ رہنا ہے تو اسے اپنے انتظامی ڈھانچہ کو میرٹ پر ٹھیک کرنا ہوگا،نچلی سطح پر اپنے کارکنوں کی دلجوئی کے ساتھ ٹریننگ اور انکے عوام میں گھس کر کام کرنے کے سہل بنایا جانا ہوگااور اپنے محنتی اور مخلص کارکنوں کو انکی محنت ،لگن اور خلوص کے بدلہ پارٹی کے انتہائی اونچے عہدے تک پہونچے کا قانون بنانا پڑے گا