راجہ داہر جیسے متنازعہ کردار کو ہیرو قرار دینے سے شروعات ہوئیں- غیرمنطقی تاریخی مذہبی جواز گھڑے گۓ- بات بنی اور نہ یہی رکی --- تاریخی کردار پرمبنی ارطغرل ڈرامہ کو ترکی ثقافت کی یلغار سے تشبہیہ دی گئی، قوم کو کم مائیگی اور احساسِ کمتری کا طعنہ دیا گیا- لے دے کر اب ہمارے اسلامی نام رہ گۓ ہیں، بعید نہیں مقامی لبرل قوم پرست کل ہمارے ناموں پر معترض ہونے لگیں!
یہ رویہ انجان ہے اور نہ ہی بیگانہ- ہٹلر کے نازی دور تا باجپا سرکار --- ہر دور میں مثال موجود ہے جب قوم اور نسل پرستی کا لبادہ اوڑھ کر حکمرانوں (خود ساختہ قوم پرستوں) نے مقامی روایات میں رچی بسی تہذیبی اقدار کی حوصلہ شکنی کی- الگ مذہب ونظریات رکھنے والوں سے نفرت اور حقارت پر ابھارا، حتیٰ کہ تاریخ کا دھارا معکوس سمت موڑنے کی کوشش بھی کی- نتیجتاً ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا
سن 1937 میں جرمنی میں نازی ازم عروج پر تھا جرمن قوم میں نسل پرستی اور احساس تفاخر کے پھیریرے لہراۓ جا رہے تھے- ان جذبات کو مزید حرارت دینے کے لیے ہٹلرنے جرمن قوم کی دو ہزار سالہ تاریخ وثقافت کی تقریبات منعقد کرنے کا اعلان کیا- جرمن آرٹ سے منسوب اس نمائش سے تقریر کرتے ہوۓ ہٹلر نے کہا "ہمارا منشور نسلِ نو کا احیا ہے، ہمارے دور (نازی حکومت) میں مرد اور عورت زیادہ صحتمند، قوی، اور خوشحال ہیں- (دوسرے) کمتر اور اخلاق باختہ معاشروں کے کریڈٹ پر کیا ہے؟ جاہل رینگتے بے وقوف! عورتیں جو غیر شائستگی کا نمونہ ہیں، مرد جن پر جنگلی درندے ہونے کا گمان ہوتا ہے، اور ان سے جننے والے بچے، جو قدرت کی لعنت وعذاب کی شکل لیے ہوتے ہیں-"ۓ
نمائش میں بالخصوص اس بات کا اہتمام کیا گیا کہ نہایت معمولی جرمن مصوروں کے فن کو سراہا جاۓ جبکہ فن مصوری کے عظیم ناموں پکاسو، متّاسے، وان گوگ کے شہکاروں کو دیواروں سے یوں لٹکایا گیا کہ زائرین وتماش بین تحقیر کی نگاہ ڈالتے اور گزرتے جاتے- قوم پرستی اور نسل پرستی کے مظاہر سے دانستہ کوشش کی گئی کہ جرمن قوم کی زہنی ونفسیاتی تطہیر کی جاۓ، دیگر اقوام کی تاریخ اور فن وادب سے نفرت وبےزاری پیدا کی جاۓ-
یہی مودی کے ہندوستان میں ہو رہا ہے- آج مغل حکمرانوں سے منسوب شہروں وشاہراؤں کے نام تبدیل کیے جا رہے ہیں- ہندوتوا کی ریاستی پالیسی کے تحت مسلمانوں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ مغل حکمران اورنگزیب کو نہیں، پرتھوی راج چوہان کو دھرتی سپوت قرار دیں- کیوں؟ اس لیے کہ وہ
" son of soil "
تھا، مقامی تھا
راجہ داہر کو ہیرو قرار دینا ہو یا ارطغرل ڈرامہ سے بےجا تعصب، جہاں یہ قوم پرستانہ سوچ کا مظہر ہے وہیں اپنی مذہبی تاریخ وروایات سے بےزاری کا اظہار بھی- دراصل یہ اغیار کی بالادستی تسلیم کرنے کے مترادف ہے
یہ رویہ انجان ہے اور نہ ہی بیگانہ- ہٹلر کے نازی دور تا باجپا سرکار --- ہر دور میں مثال موجود ہے جب قوم اور نسل پرستی کا لبادہ اوڑھ کر حکمرانوں (خود ساختہ قوم پرستوں) نے مقامی روایات میں رچی بسی تہذیبی اقدار کی حوصلہ شکنی کی- الگ مذہب ونظریات رکھنے والوں سے نفرت اور حقارت پر ابھارا، حتیٰ کہ تاریخ کا دھارا معکوس سمت موڑنے کی کوشش بھی کی- نتیجتاً ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا
سن 1937 میں جرمنی میں نازی ازم عروج پر تھا جرمن قوم میں نسل پرستی اور احساس تفاخر کے پھیریرے لہراۓ جا رہے تھے- ان جذبات کو مزید حرارت دینے کے لیے ہٹلرنے جرمن قوم کی دو ہزار سالہ تاریخ وثقافت کی تقریبات منعقد کرنے کا اعلان کیا- جرمن آرٹ سے منسوب اس نمائش سے تقریر کرتے ہوۓ ہٹلر نے کہا "ہمارا منشور نسلِ نو کا احیا ہے، ہمارے دور (نازی حکومت) میں مرد اور عورت زیادہ صحتمند، قوی، اور خوشحال ہیں- (دوسرے) کمتر اور اخلاق باختہ معاشروں کے کریڈٹ پر کیا ہے؟ جاہل رینگتے بے وقوف! عورتیں جو غیر شائستگی کا نمونہ ہیں، مرد جن پر جنگلی درندے ہونے کا گمان ہوتا ہے، اور ان سے جننے والے بچے، جو قدرت کی لعنت وعذاب کی شکل لیے ہوتے ہیں-"ۓ
نمائش میں بالخصوص اس بات کا اہتمام کیا گیا کہ نہایت معمولی جرمن مصوروں کے فن کو سراہا جاۓ جبکہ فن مصوری کے عظیم ناموں پکاسو، متّاسے، وان گوگ کے شہکاروں کو دیواروں سے یوں لٹکایا گیا کہ زائرین وتماش بین تحقیر کی نگاہ ڈالتے اور گزرتے جاتے- قوم پرستی اور نسل پرستی کے مظاہر سے دانستہ کوشش کی گئی کہ جرمن قوم کی زہنی ونفسیاتی تطہیر کی جاۓ، دیگر اقوام کی تاریخ اور فن وادب سے نفرت وبےزاری پیدا کی جاۓ-
یہی مودی کے ہندوستان میں ہو رہا ہے- آج مغل حکمرانوں سے منسوب شہروں وشاہراؤں کے نام تبدیل کیے جا رہے ہیں- ہندوتوا کی ریاستی پالیسی کے تحت مسلمانوں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ مغل حکمران اورنگزیب کو نہیں، پرتھوی راج چوہان کو دھرتی سپوت قرار دیں- کیوں؟ اس لیے کہ وہ
" son of soil "
تھا، مقامی تھا
راجہ داہر کو ہیرو قرار دینا ہو یا ارطغرل ڈرامہ سے بےجا تعصب، جہاں یہ قوم پرستانہ سوچ کا مظہر ہے وہیں اپنی مذہبی تاریخ وروایات سے بےزاری کا اظہار بھی- دراصل یہ اغیار کی بالادستی تسلیم کرنے کے مترادف ہے