رؤف کلاسرہ وہ بندہ ہے جو انسانی وقار نامی تصور سے نوری سال کے فاصلے پر ہے اسکے نزدیک جس بندے پر نیب انگلی اٹھا دے وہ بندہ اپنے تمام حقوق کھو دیتا ہے اور جھوٹا مقدمہ صرف اور صرف ڈاکٹر ظفر الطاف پر درج ہوتے تھے باقی ہر بندے پر ہر مقدمہ درست ہے اور اسے الٹا لٹکا دینا چاہیے
کوئی مہذب ملک ہوتا تو وہاں کلاسرہ جیسے بندے یا تو صحافت سے بےدخل ہو چکےہوتے یا پھر منہ کنٹرول میں رکھتے یہ بندہ نیب کی ہر پریس ریلیز کو اٹھا کر رات کو چینل پر بیٹھ کر لوگوں کا ٹرائل کرتا ہے نیب کی ادارہ جاتی استعداد کیا ہے وہ نواز شریف کے متعلق پریس ریلیز سے ہی سامنے آگئی تھی۔ ڈاکٹر ظفر الطاف پر کرپشن کے مقدمے درج ہوئے تھے اور جیل میں بھی گئے تو کلاسرا نے کالم لکھے تھے اسکے حق میں کسی اور پر مقدمہ درج ہو یا الزام لگے تو یہ تھانیدار بن کر آجاتا ہے اور اس بندے کے دفاع میں کی گئی ہر بات کا مذاق بناتا ہے انتہائی نرگسیت کا مارا انسان ہے یہ
زلفی بخاری کے والد کی طرح ایف آئی آر اور مقدمے کی کاپیاں ڈاکٹر ظفر الطاف کی بھی ہیں جنہیں وہ اپنا گورو مانتے ہیں۔ اگر زلفی بخاری کے والد پر فراڈ کا مقدمہ ہے تو ڈاکٹرظفرالطاف پر بھی کرپشن کے سنگین الزامات تھے۔ معاملہ زلفی بخاری کا تھا لیکن رؤف کلاسرا نے والد کو بھی زبردستی گھسیٹ لیا۔ رؤف کلاسرا کا بس چلے تو زلفی بخاری کی بہنوں، والدہ کو بھی گھسیٹ لے کیونکہ اپنے آپکو سچا ثابت کرنے کیلئے کیچڑ اچھالنا رؤف کلاسرا جیسے لوگوں کا وطیرہ ہے۔ رؤف کلاسرا کا کہنا ہے کہ زلفی بخاری کا والد پبلک آفس ہولڈر تھا اور وزیر رہ چکا ہے۔ زلفی بخاری کا والد وزیر صرف 60 دنوں کیلئے بنا تھا 2008 کی نگران حکومت میں اور وہ بھی وزیر ماحولیات۔۔ رؤف کلاسرا کے مطابق زلفی بخاری کے والد نے 60 دنوں میں پورا ملک ہی لوٹ لیا اور آفشور کمپنیاں بنادیں۔ رؤف کلاسرا ایک شخص کا موازنہ تین بار وزیراعظم اور دو بار وزیراعلیٰ بننے والے شخص سے کررہا ہے۔
اس بندے پر مبشر زیدی نے پلاٹ لینے کا الزام لگایا تھا تو ایف آئی اے میں چلا گیا تھا اسکے خلاف دو صحافیوں کا آپس معاملہ تھا اس لیے صحافی برادری بیچ میں نہیں کودی یہی کوئی سیاستدان اسے اسکے الزامات پر ایف آئی اے لے جائے تو اس نے اسمان سر پر اٹھا لینا ہے۔ رؤف کلاسرا سب کی بات کرے گا اپنے صحافی پیٹی بند بھائیوں کی بات نہیں کرے گا۔ رؤف کلاسرا کبھی نہیں بتائے گا کہ محمد مالک کو ایم ڈی پی ٹی وی کے عہدے سے کیوں فارغ کیا گیا؟ اور اس پر جو کرپشن کی انکوائریز چل رہی تھیں ان کا کیا ہوا؟ایم ڈی پی ٹی وی سے ہٹنے کے بعد وہ شہبازشریف کا میڈیا ایڈوائزر کیسے بن گیا؟
حیرت مجھے انصافی برادری پر ہے جو اس جیسوں کو ہیرو مان لیتی ہے جو اول فول ہر قسم کے الزام کو سچ بنا کر پیش کرتے ہیں ان ذہنی مریضوں نے تب بھی یہیں ہونا ہے جب ہماری حکومت آئی نواز شریف کو بھی اتنا ہی رگڑو جتنا وہ مجرم ہے اسکے خلاف بھی لگنے والا ہر الزام سچ نہیں ہوتا۔ رؤف کلاسرا جیسے لوگوں نے ہر ایک کی پگڑی اچھالنا، بے عزت کرنا اپنا شعار بنالیا ہے۔ مجیب الرحمان شامی نے کل رؤف کلاسرا اور عامرمتین جیسے لوگوں کے بارے میں ہی کہا تھا کہ " پتا نہیں ہم کس قسم کی جرنلزم میں آ گئے ہیں ہم ہر وقت شعلے اگلتے رہتے ہیں ہر ایک کی بے عزتی کرنا ہم نے اپنا شعار بنا لیا ہے زلفی بخاری نہ پاکستان میں پیدا ہوئے نہ بزنس کرتے ہیں نہ کوئی عوامی عہدہ رکھا لیکن پھر بھی اسے ذلیل کرتے جارہے ہیں"۔
رؤف کلاسرا کا المیہ یہ ہے کہ کوئی اپنی صفائی پیش کرے یا انہیں جواب دے تو اس سے برداشت نہیں ہوا۔ کل زلفی بخاری نے انکا نام لئے بغیر ٹویٹ کیا تو رؤف کلاسرا نے بجائے اسکی وضاحت قبول کرنے کے مزید دو درجن سے زائد ٹویٹ کردئیے اور عامرمتین، ارشد شریف اور عدیل راجہ بھی پیچھے نہ رہے۔ کلاسرا نے ٹویٹس بھی کرلئے اور زلفی بخاری کے خلاف پورا پروگرام بھی کردیا لیکن اپنے پروگرام میں زلفی بخاری کی وضاحت لینا گوارا نہ کی۔ یہ ہے ان کی غیرجانبدار صحافت۔۔ اللہ بچائے انکی صحافت سے
کوئی مہذب ملک ہوتا تو وہاں کلاسرہ جیسے بندے یا تو صحافت سے بےدخل ہو چکےہوتے یا پھر منہ کنٹرول میں رکھتے یہ بندہ نیب کی ہر پریس ریلیز کو اٹھا کر رات کو چینل پر بیٹھ کر لوگوں کا ٹرائل کرتا ہے نیب کی ادارہ جاتی استعداد کیا ہے وہ نواز شریف کے متعلق پریس ریلیز سے ہی سامنے آگئی تھی۔ ڈاکٹر ظفر الطاف پر کرپشن کے مقدمے درج ہوئے تھے اور جیل میں بھی گئے تو کلاسرا نے کالم لکھے تھے اسکے حق میں کسی اور پر مقدمہ درج ہو یا الزام لگے تو یہ تھانیدار بن کر آجاتا ہے اور اس بندے کے دفاع میں کی گئی ہر بات کا مذاق بناتا ہے انتہائی نرگسیت کا مارا انسان ہے یہ
زلفی بخاری کے والد کی طرح ایف آئی آر اور مقدمے کی کاپیاں ڈاکٹر ظفر الطاف کی بھی ہیں جنہیں وہ اپنا گورو مانتے ہیں۔ اگر زلفی بخاری کے والد پر فراڈ کا مقدمہ ہے تو ڈاکٹرظفرالطاف پر بھی کرپشن کے سنگین الزامات تھے۔ معاملہ زلفی بخاری کا تھا لیکن رؤف کلاسرا نے والد کو بھی زبردستی گھسیٹ لیا۔ رؤف کلاسرا کا بس چلے تو زلفی بخاری کی بہنوں، والدہ کو بھی گھسیٹ لے کیونکہ اپنے آپکو سچا ثابت کرنے کیلئے کیچڑ اچھالنا رؤف کلاسرا جیسے لوگوں کا وطیرہ ہے۔ رؤف کلاسرا کا کہنا ہے کہ زلفی بخاری کا والد پبلک آفس ہولڈر تھا اور وزیر رہ چکا ہے۔ زلفی بخاری کا والد وزیر صرف 60 دنوں کیلئے بنا تھا 2008 کی نگران حکومت میں اور وہ بھی وزیر ماحولیات۔۔ رؤف کلاسرا کے مطابق زلفی بخاری کے والد نے 60 دنوں میں پورا ملک ہی لوٹ لیا اور آفشور کمپنیاں بنادیں۔ رؤف کلاسرا ایک شخص کا موازنہ تین بار وزیراعظم اور دو بار وزیراعلیٰ بننے والے شخص سے کررہا ہے۔
اس بندے پر مبشر زیدی نے پلاٹ لینے کا الزام لگایا تھا تو ایف آئی اے میں چلا گیا تھا اسکے خلاف دو صحافیوں کا آپس معاملہ تھا اس لیے صحافی برادری بیچ میں نہیں کودی یہی کوئی سیاستدان اسے اسکے الزامات پر ایف آئی اے لے جائے تو اس نے اسمان سر پر اٹھا لینا ہے۔ رؤف کلاسرا سب کی بات کرے گا اپنے صحافی پیٹی بند بھائیوں کی بات نہیں کرے گا۔ رؤف کلاسرا کبھی نہیں بتائے گا کہ محمد مالک کو ایم ڈی پی ٹی وی کے عہدے سے کیوں فارغ کیا گیا؟ اور اس پر جو کرپشن کی انکوائریز چل رہی تھیں ان کا کیا ہوا؟ایم ڈی پی ٹی وی سے ہٹنے کے بعد وہ شہبازشریف کا میڈیا ایڈوائزر کیسے بن گیا؟
حیرت مجھے انصافی برادری پر ہے جو اس جیسوں کو ہیرو مان لیتی ہے جو اول فول ہر قسم کے الزام کو سچ بنا کر پیش کرتے ہیں ان ذہنی مریضوں نے تب بھی یہیں ہونا ہے جب ہماری حکومت آئی نواز شریف کو بھی اتنا ہی رگڑو جتنا وہ مجرم ہے اسکے خلاف بھی لگنے والا ہر الزام سچ نہیں ہوتا۔ رؤف کلاسرا جیسے لوگوں نے ہر ایک کی پگڑی اچھالنا، بے عزت کرنا اپنا شعار بنالیا ہے۔ مجیب الرحمان شامی نے کل رؤف کلاسرا اور عامرمتین جیسے لوگوں کے بارے میں ہی کہا تھا کہ " پتا نہیں ہم کس قسم کی جرنلزم میں آ گئے ہیں ہم ہر وقت شعلے اگلتے رہتے ہیں ہر ایک کی بے عزتی کرنا ہم نے اپنا شعار بنا لیا ہے زلفی بخاری نہ پاکستان میں پیدا ہوئے نہ بزنس کرتے ہیں نہ کوئی عوامی عہدہ رکھا لیکن پھر بھی اسے ذلیل کرتے جارہے ہیں"۔
رؤف کلاسرا کا المیہ یہ ہے کہ کوئی اپنی صفائی پیش کرے یا انہیں جواب دے تو اس سے برداشت نہیں ہوا۔ کل زلفی بخاری نے انکا نام لئے بغیر ٹویٹ کیا تو رؤف کلاسرا نے بجائے اسکی وضاحت قبول کرنے کے مزید دو درجن سے زائد ٹویٹ کردئیے اور عامرمتین، ارشد شریف اور عدیل راجہ بھی پیچھے نہ رہے۔ کلاسرا نے ٹویٹس بھی کرلئے اور زلفی بخاری کے خلاف پورا پروگرام بھی کردیا لیکن اپنے پروگرام میں زلفی بخاری کی وضاحت لینا گوارا نہ کی۔ یہ ہے ان کی غیرجانبدار صحافت۔۔ اللہ بچائے انکی صحافت سے
Some Content Taken From @Karwaladu