حکومت گرانا کیوں ضروری ہے؟ حبیب اکرم

BeingPakistani

Minister (2k+ posts)

پاکستان پیپلزپارٹی کا تیسرا دورحکومت تھا، یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے اور ایم کیو ایم وفاقی حکومت سے الگ ہوچکی تھی۔ مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ ن‘ دونوں پہلے سے اپوزیشن میں بیٹھی تھیں۔ ایم کیو ایم کے حکومت چھوڑنے کے بعد وزیراعظم قومی اسمبلی میں اکثریت کھو چکے تھے لیکن مسلم لیگ ن یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود کچھ نہیں کررہی تھی۔ پارلیمنٹ میں کسی نے چوں تک نہ کی حالانکہ اس وقت وزیراعظم اپنی اکثریت ثابت نہیں کرسکتے تھے۔ انہی دنوں مسلم لیگ ن کی طرف سے یہ پیغام صدر آصف علی زرداری کو بھیجا گیا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نہیں گرائی جائے گی۔ اس کے باوجود میڈیا پر ہم جیسے کچھ لوگ ہلکے سروں میں اسمبلی میں اراکین کی تعداد گننے لگے تو آصف علی زرداری نے چودھری پرویز الٰہی کو ڈپٹی وزیراعظم بنا کر ان کے اراکین کی حمایت حاصل کرلی اور ان کے ساتھیوں کو وزارتوں سے بھی نواز دیا گیا۔ پیپلزپارٹی اور ق لیگ کے اس اتحاد سے چند روز پہلے مسلم لیگ ن کے ایک جیّد رکن اسمبلی نے کچھ صحافیوں کو لاہور میں اپنے گھر پر ناشتے پر مدعو کیا۔ وہاں ایک زیادہ جیّد سینیٹر بھی موجود تھے‘ جنہیں میاں نواز شریف کا نفس ناطقہ بھی کہا جاتا تھا۔ میں نے ان سے پیپلزپارٹی کی حکومتی کارکردگی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے وہی کچھ فرمایا جو آج کل عمران خان کی حکومت کے بارے میں فرماتے ہیں، ملکی معیشت کا رونا رویا، خارجہ پالیسی کی دہائی دی، وزرا کی بدعنوانی کی داستان سنائی۔ وہ خاموش ہوئے تو میں نے پوچھ لیا کہ آپ آسانی سے اس حکومت کو گھر بھیج کر اپنی حکومت بنا سکتے ہیں تو ایسا کیوں نہیں کرتے؟ کہنے لگے‘ ''پیپلزپارٹی کی حکومت ایک پریس کانفرنس کی مار ہے، لیکن اس کے بعد حکومت کون بنا پائے گا، کیا ہم پاکستان کو انارکی میں دھکیل دیں؟‘‘۔ پھر نہایت دلسوزی سے انہوں نے بتایا کہ اگر حکومت پانچ سال پورے نہ کر پائی تو ملکی حالات کتنے خراب ہو جائیں گے۔ جو بات انہوں نے بتائی نہیں وہ یہ تھی کہ انہی دنوں پیپلزپارٹی سے اٹھارہویں ترمیم پر بات چیت چل رہی تھی جس کا بنیادی نکتہ دستور میں تیسری بار وزیراعظم بننے پر پابندی کا تھا۔ اس لیے پیپلزپارٹی کی حمایت ضروری تھی۔ جب اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے یہ پابندی ختم ہوگئی تو پھر پیپلزپارٹی کے ساتھ مسلم لیگ ن کا راستہ الگ ہوگیا۔ 2013 میں نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ عباس شریف کی وفات پر صدر آصف علی زرداری نے رائے ونڈ آکر نواز شریف سے تعزیت کرنا چاہی تو انہیں روک دیا گیا۔
2013 کا الیکشن ہوا، مسلم لیگ ن جیت گئی اور پنجاب میں پیپلزپارٹی بری طرح ہار گئی۔ الیکشن کے چند روز بعد صدر آصف علی زرداری نے لاہور کے بلاول ہاؤس میں چند صحافیوں کے سامنے الیکشن پر تبصرہ کیا، ''یہ ریٹرننگ افسروں کا الیکشن تھا‘‘۔ اس فقرے میں نکتہ یہ تھا کہ الیکشن عدلیہ کی زیرنگرانی ہوا تھا، چیف جسٹس افتخار محمد چودھری تھے اور اکثر ریٹرننگ افسر بھی جج تھے۔ زرداری صاحب کا خیال تھا کہ نواز شریف نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو بحال کرایا تھا اس لیے انہوں نے مسلم لیگ ن کو انعام کے طور پر الیکشن جتوایا ہے۔ پھر سابق وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ تو کئی بار کہہ چکے ہیں کہ افتخار محمد چودھری جب چیف جسٹس کے طور پر بحال ہوئے تو انہوں نے قصداً پیپلزپارٹی کی حکومت کے بارے میں ایسے ریمارکس دیے جو عوامی تاثر کو خراب کرتے تھے۔ اس زمانے میں خواجہ آصف کی سپریم کورٹ میں پٹیشنز کس کو یاد نہیں کہ ادھر دائر ہوتی اور ساتھ ہی وزیر‘ مشیر قطار اندر قطار بلا لیے جاتے۔ خیر 2013 کا الیکشن پیپلزپارٹی نے تو قبول کرلیا مگر تحریک انصاف یا اس طرح کہیے کہ عمران خان نے اسے نہیں مانا۔ وہ اپنا دھرنا لے کر اسلام آباد آگئے تو وہی آصف علی زرداری جو اسمبلی کو ریٹرننگ افسروں کی اسمبلی کہتے تھے، دوبارہ نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ عمران خان کے مقابلے میں یہ دونوں جماعتیں جم کر کھڑی ہوگئیں اور اس طرح کھڑی ہوئیں کہ عمران خان کچھ کر پائے نہ انہیں کنٹینر پر چڑھانے والے۔ تحریک انصاف اپنی توانائی کا آخری ذرہ تک لگا بیٹھی لیکن نواز شریف سے استعفا نہ لے سکی۔
عمران خان کی وقتی ناکامی کی وجہ سے یوں محسوس ہونے لگا کہ اب ملکی سیاست مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے ہاتھ میں ہی رہے گی۔ کراچی میں دہشتگردی کے خلاف آپریشن شروع ہوا تو پیپلزپارٹی بھی اس کی زد میں آگئی۔ وزارت داخلہ میں بیٹھے چودھری نثار علی خان پیپلزپارٹی کے لیے مسلسل دردِ سر بن گئے۔ سندھ میں رینجرز کے آپریشن پر زرداری صاحب کو اتنی تکلیف ہوئی کہ وہ اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکیاں دینے لگے۔ عین اسی وقت نواز شریف نے ان سے منہ موڑ لیا اور زرداری صاحب کو ملک سے باہر جانا پڑا۔ پھر پاناما سکینڈل کھل گیا۔ عمران خان دوبارہ سیاست میں آگئے۔ پیپلزپارٹی ان سے الگ بساط بچھا کر بیٹھ گئی۔ ادھر نواز شریف پاناما کے بوجھ تلے دب گئے تو بلوچستان میں پیپلزپارٹی نے مولانا فضل الرحمن کی پارٹی کو ساتھ ملا کر مسلم لیگ ن کی حکومت ختم کر ڈالی۔ یہ پیپلزپارٹی ہی تھی جس نے سینیٹ میں صادق سنجرانی کو چیئرمین بنوایا اور مسلم لیگ ن کے امیدوار کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پیپلزپارٹی اس امید میں تھی کہ 2018 کے انتخابات میں کراچی اس کے ہاتھ میں آجائے گا کیونکہ ایم کیو ایم تتر بتر ہوچکی تھی اور کراچی والے پیپلزپارٹی کے دامن میں پناہ لے سکتے تھے۔ پیپلزپارٹی کو یہ توقع اس لیے بھی تھی کہ انہی دنوں سعید غنی ایک ضمنی انتخاب میں صوبائی اسمبلی کی نشست جیت چکے تھے۔ ان ساری امیدوں پر پانی پھر گیا جب 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف نے کراچی میں اپنی کامیابی کا جھنڈا گاڑ دیا۔ اب عمران خان ایک بار پھر مشترکہ دشمن کے طور پر سامنے آگئے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی جو ایک دوسرے کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کو بیتاب رہا کرتی تھیں، قریب آنے لگیں۔ ان دونوں جماعتوں کو یقین ہوگیا کہ عمران خان کی حکومت اگر اپنا وقت پورا کرگئی تو بہت کچھ ہمیشہ کے لیے بدل جائے گا۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ حکمران پارٹی بھی نااہلوں اور نکموں کا ایسا ہجوم ثابت ہوئی جس کی مثال چشم فلک نے کبھی نہ دیکھی تھی۔ معیشت تباہ، گورننس برباد، مہنگائی اور اس پر مسلسل یاوہ گوئی نے باقاعدہ طور پر عوام کو اس حکومت سے نالاں کرڈالا، یعنی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو حکومت کے خلاف بنا بنایا ماحول بھی مل گیا۔
مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی‘ دونوں بڑی اور تجربہ کار سیاسی جماعتیں ہیں۔ انہی جماعتوں نے میثاق جمہوریت میں یہ طے کیا تھا کہ منتخب حکومت کو پانچ سال پورے کرنے دیے جائیں۔ جب عمران خان نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا تو مولانا فضل الرحمن بھی اسی نکتے کی تبلیغ کیا کرتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف اپنے دعووں کے مقابلے میں نہایت بری کارکردگی دکھا رہی ہے لیکن یہ اس سے کچھ کم بری ہے جتنی پیپلزپارٹی نے دوہزار آٹھ سے تیرہ تک دکھائی تھی۔ اگر مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمن پیپلزپارٹی کی کارکردگی خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے ہیں تو تحریک انصاف کو یہ رعایت کیوں نہیں دے رہے؟ اگر آج پیپلزپارٹی 2018 کے الیکشن کی دھاندلی پر معترض ہے تو 2013 کے الیکشن کو آر اوز کا الیکشن کہنے کے باوجود کیوں مانتی رہی؟ پھر اسی اسمبلی میں بیٹھ کر مقتدرہ کے لیے ضروری قانون سازی بھی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی پورے خشوع و خضوع سے کرتی رہی ہیں تو اب ایسا کیا ہوگیا کہ حکومت گرائے بغیر انہیں کسی کروٹ سکون نہیں ملتا؟ ان سوالوں کا جواب دراصل یہ خوف ہے کہ بے مثال نالائقی کے باوجود اگلے ڈھائی سالوں میں تحریک انصاف نے کچھ بھی اچھا کرلیا تو 'بچوں‘ کو حکومت کرنے کے لیے ایک ملک نہیں مل پائے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ عمران خان کی حکومت ابھی ختم کی جائے۔ اگر ابھی ایسا نہ ہوسکا تو 'بچوں‘ کا مستقبل تاریک ہوجائے گا، ہوسکتا ہے اگلی بار بھی انہیں اپوزیشن میں بیٹھنا پڑے۔ اس کے لیے 'بچے‘ تیار ہیں نہ بڑے


 

AbbuJee

Chief Minister (5k+ posts)
Point is no one wants to see their ugly faces in the government, what they have done in last 40 years is a historical evidence what corruption they are capable off. If IK stays for 5 years, they have pretty much ZERO chance to come back.
 

ChulBul

Senator (1k+ posts)

پاکستان پیپلزپارٹی کا تیسرا دورحکومت تھا، یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے اور ایم کیو ایم وفاقی حکومت سے الگ ہوچکی تھی۔ مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ ن‘ دونوں پہلے سے اپوزیشن میں بیٹھی تھیں۔ ایم کیو ایم کے حکومت چھوڑنے کے بعد وزیراعظم قومی اسمبلی میں اکثریت کھو چکے تھے لیکن مسلم لیگ ن یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود کچھ نہیں کررہی تھی۔ پارلیمنٹ میں کسی نے چوں تک نہ کی حالانکہ اس وقت وزیراعظم اپنی اکثریت ثابت نہیں کرسکتے تھے۔ انہی دنوں مسلم لیگ ن کی طرف سے یہ پیغام صدر آصف علی زرداری کو بھیجا گیا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نہیں گرائی جائے گی۔ اس کے باوجود میڈیا پر ہم جیسے کچھ لوگ ہلکے سروں میں اسمبلی میں اراکین کی تعداد گننے لگے تو آصف علی زرداری نے چودھری پرویز الٰہی کو ڈپٹی وزیراعظم بنا کر ان کے اراکین کی حمایت حاصل کرلی اور ان کے ساتھیوں کو وزارتوں سے بھی نواز دیا گیا۔ پیپلزپارٹی اور ق لیگ کے اس اتحاد سے چند روز پہلے مسلم لیگ ن کے ایک جیّد رکن اسمبلی نے کچھ صحافیوں کو لاہور میں اپنے گھر پر ناشتے پر مدعو کیا۔ وہاں ایک زیادہ جیّد سینیٹر بھی موجود تھے‘ جنہیں میاں نواز شریف کا نفس ناطقہ بھی کہا جاتا تھا۔ میں نے ان سے پیپلزپارٹی کی حکومتی کارکردگی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے وہی کچھ فرمایا جو آج کل عمران خان کی حکومت کے بارے میں فرماتے ہیں، ملکی معیشت کا رونا رویا، خارجہ پالیسی کی دہائی دی، وزرا کی بدعنوانی کی داستان سنائی۔ وہ خاموش ہوئے تو میں نے پوچھ لیا کہ آپ آسانی سے اس حکومت کو گھر بھیج کر اپنی حکومت بنا سکتے ہیں تو ایسا کیوں نہیں کرتے؟ کہنے لگے‘ ''پیپلزپارٹی کی حکومت ایک پریس کانفرنس کی مار ہے، لیکن اس کے بعد حکومت کون بنا پائے گا، کیا ہم پاکستان کو انارکی میں دھکیل دیں؟‘‘۔ پھر نہایت دلسوزی سے انہوں نے بتایا کہ اگر حکومت پانچ سال پورے نہ کر پائی تو ملکی حالات کتنے خراب ہو جائیں گے۔ جو بات انہوں نے بتائی نہیں وہ یہ تھی کہ انہی دنوں پیپلزپارٹی سے اٹھارہویں ترمیم پر بات چیت چل رہی تھی جس کا بنیادی نکتہ دستور میں تیسری بار وزیراعظم بننے پر پابندی کا تھا۔ اس لیے پیپلزپارٹی کی حمایت ضروری تھی۔ جب اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے یہ پابندی ختم ہوگئی تو پھر پیپلزپارٹی کے ساتھ مسلم لیگ ن کا راستہ الگ ہوگیا۔ 2013 میں نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ عباس شریف کی وفات پر صدر آصف علی زرداری نے رائے ونڈ آکر نواز شریف سے تعزیت کرنا چاہی تو انہیں روک دیا گیا۔
2013 کا الیکشن ہوا، مسلم لیگ ن جیت گئی اور پنجاب میں پیپلزپارٹی بری طرح ہار گئی۔ الیکشن کے چند روز بعد صدر آصف علی زرداری نے لاہور کے بلاول ہاؤس میں چند صحافیوں کے سامنے الیکشن پر تبصرہ کیا، ''یہ ریٹرننگ افسروں کا الیکشن تھا‘‘۔ اس فقرے میں نکتہ یہ تھا کہ الیکشن عدلیہ کی زیرنگرانی ہوا تھا، چیف جسٹس افتخار محمد چودھری تھے اور اکثر ریٹرننگ افسر بھی جج تھے۔ زرداری صاحب کا خیال تھا کہ نواز شریف نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو بحال کرایا تھا اس لیے انہوں نے مسلم لیگ ن کو انعام کے طور پر الیکشن جتوایا ہے۔ پھر سابق وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ تو کئی بار کہہ چکے ہیں کہ افتخار محمد چودھری جب چیف جسٹس کے طور پر بحال ہوئے تو انہوں نے قصداً پیپلزپارٹی کی حکومت کے بارے میں ایسے ریمارکس دیے جو عوامی تاثر کو خراب کرتے تھے۔ اس زمانے میں خواجہ آصف کی سپریم کورٹ میں پٹیشنز کس کو یاد نہیں کہ ادھر دائر ہوتی اور ساتھ ہی وزیر‘ مشیر قطار اندر قطار بلا لیے جاتے۔ خیر 2013 کا الیکشن پیپلزپارٹی نے تو قبول کرلیا مگر تحریک انصاف یا اس طرح کہیے کہ عمران خان نے اسے نہیں مانا۔ وہ اپنا دھرنا لے کر اسلام آباد آگئے تو وہی آصف علی زرداری جو اسمبلی کو ریٹرننگ افسروں کی اسمبلی کہتے تھے، دوبارہ نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ عمران خان کے مقابلے میں یہ دونوں جماعتیں جم کر کھڑی ہوگئیں اور اس طرح کھڑی ہوئیں کہ عمران خان کچھ کر پائے نہ انہیں کنٹینر پر چڑھانے والے۔ تحریک انصاف اپنی توانائی کا آخری ذرہ تک لگا بیٹھی لیکن نواز شریف سے استعفا نہ لے سکی۔
عمران خان کی وقتی ناکامی کی وجہ سے یوں محسوس ہونے لگا کہ اب ملکی سیاست مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے ہاتھ میں ہی رہے گی۔ کراچی میں دہشتگردی کے خلاف آپریشن شروع ہوا تو پیپلزپارٹی بھی اس کی زد میں آگئی۔ وزارت داخلہ میں بیٹھے چودھری نثار علی خان پیپلزپارٹی کے لیے مسلسل دردِ سر بن گئے۔ سندھ میں رینجرز کے آپریشن پر زرداری صاحب کو اتنی تکلیف ہوئی کہ وہ اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکیاں دینے لگے۔ عین اسی وقت نواز شریف نے ان سے منہ موڑ لیا اور زرداری صاحب کو ملک سے باہر جانا پڑا۔ پھر پاناما سکینڈل کھل گیا۔ عمران خان دوبارہ سیاست میں آگئے۔ پیپلزپارٹی ان سے الگ بساط بچھا کر بیٹھ گئی۔ ادھر نواز شریف پاناما کے بوجھ تلے دب گئے تو بلوچستان میں پیپلزپارٹی نے مولانا فضل الرحمن کی پارٹی کو ساتھ ملا کر مسلم لیگ ن کی حکومت ختم کر ڈالی۔ یہ پیپلزپارٹی ہی تھی جس نے سینیٹ میں صادق سنجرانی کو چیئرمین بنوایا اور مسلم لیگ ن کے امیدوار کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پیپلزپارٹی اس امید میں تھی کہ 2018 کے انتخابات میں کراچی اس کے ہاتھ میں آجائے گا کیونکہ ایم کیو ایم تتر بتر ہوچکی تھی اور کراچی والے پیپلزپارٹی کے دامن میں پناہ لے سکتے تھے۔ پیپلزپارٹی کو یہ توقع اس لیے بھی تھی کہ انہی دنوں سعید غنی ایک ضمنی انتخاب میں صوبائی اسمبلی کی نشست جیت چکے تھے۔ ان ساری امیدوں پر پانی پھر گیا جب 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف نے کراچی میں اپنی کامیابی کا جھنڈا گاڑ دیا۔ اب عمران خان ایک بار پھر مشترکہ دشمن کے طور پر سامنے آگئے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی جو ایک دوسرے کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کو بیتاب رہا کرتی تھیں، قریب آنے لگیں۔ ان دونوں جماعتوں کو یقین ہوگیا کہ عمران خان کی حکومت اگر اپنا وقت پورا کرگئی تو بہت کچھ ہمیشہ کے لیے بدل جائے گا۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ حکمران پارٹی بھی نااہلوں اور نکموں کا ایسا ہجوم ثابت ہوئی جس کی مثال چشم فلک نے کبھی نہ دیکھی تھی۔ معیشت تباہ، گورننس برباد، مہنگائی اور اس پر مسلسل یاوہ گوئی نے باقاعدہ طور پر عوام کو اس حکومت سے نالاں کرڈالا، یعنی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو حکومت کے خلاف بنا بنایا ماحول بھی مل گیا۔
مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی‘ دونوں بڑی اور تجربہ کار سیاسی جماعتیں ہیں۔ انہی جماعتوں نے میثاق جمہوریت میں یہ طے کیا تھا کہ منتخب حکومت کو پانچ سال پورے کرنے دیے جائیں۔ جب عمران خان نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا تو مولانا فضل الرحمن بھی اسی نکتے کی تبلیغ کیا کرتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف اپنے دعووں کے مقابلے میں نہایت بری کارکردگی دکھا رہی ہے لیکن یہ اس سے کچھ کم بری ہے جتنی پیپلزپارٹی نے دوہزار آٹھ سے تیرہ تک دکھائی تھی۔ اگر مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمن پیپلزپارٹی کی کارکردگی خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے ہیں تو تحریک انصاف کو یہ رعایت کیوں نہیں دے رہے؟ اگر آج پیپلزپارٹی 2018 کے الیکشن کی دھاندلی پر معترض ہے تو 2013 کے الیکشن کو آر اوز کا الیکشن کہنے کے باوجود کیوں مانتی رہی؟ پھر اسی اسمبلی میں بیٹھ کر مقتدرہ کے لیے ضروری قانون سازی بھی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی پورے خشوع و خضوع سے کرتی رہی ہیں تو اب ایسا کیا ہوگیا کہ حکومت گرائے بغیر انہیں کسی کروٹ سکون نہیں ملتا؟ ان سوالوں کا جواب دراصل یہ خوف ہے کہ بے مثال نالائقی کے باوجود اگلے ڈھائی سالوں میں تحریک انصاف نے کچھ بھی اچھا کرلیا تو 'بچوں‘ کو حکومت کرنے کے لیے ایک ملک نہیں مل پائے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ عمران خان کی حکومت ابھی ختم کی جائے۔ اگر ابھی ایسا نہ ہوسکا تو 'بچوں‘ کا مستقبل تاریک ہوجائے گا، ہوسکتا ہے اگلی بار بھی انہیں اپوزیشن میں بیٹھنا پڑے۔ اس کے لیے 'بچے‘ تیار ہیں نہ بڑے



After long time, seen a nice piece of article.
 

Awan S

Chief Minister (5k+ posts)
خیال ہے ایک اہم نقطہ صاحب مضمون نظر انداز کر گئے - نہ پیپلز پارٹی اور نہ نون لیگ پر یہ الزام تھا کہ انہیں فوج لے کر آئی ہے - نون لیگ کی سب سے بڑی مخالف تحریک انصاف بھی دھاندلی کا الزام تو لگاتی رہی مگر نون لیگ کو فوج لے کر آئی یہ الزام کبھی نہ لگایا - اسی طرح پیپلز پارٹی کی حکومت میں نون لیگ اور تحریک انصاف میں سے کسی نے ان پر فوجی پٹھو کا الزام نہیں لگایا مگر یہاں مہاملہ اور ہے - ساری دنیا جانتی ہے خان کو لانے کے لئے فوج نے کیا کیا کیا دہرانے کی ضرورت نہیں ہے - ووٹ کو عزت دو کا بنیادی نقطہ کارکردگی نہیں یہ ہے کہ کسی کو حکومت میں لانے کے لئے صرف عوام کا ووٹ اہم ہونا چاہئے اداروں کی مدد نہیں -
 

HIDDEN

Minister (2k+ posts)
خیال ہے ایک اہم نقطہ صاحب مضمون نظر انداز کر گئے - نہ پیپلز پارٹی اور نہ نون لیگ پر یہ الزام تھا کہ انہیں فوج لے کر آئی ہے - نون لیگ کی سب سے بڑی مخالف تحریک انصاف بھی دھاندلی کا الزام تو لگاتی رہی مگر نون لیگ کو فوج لے کر آئی یہ الزام کبھی نہ لگایا - اسی طرح پیپلز پارٹی کی حکومت میں نون لیگ اور تحریک انصاف میں سے کسی نے ان پر فوجی پٹھو کا الزام نہیں لگایا مگر یہاں مہاملہ اور ہے - ساری دنیا جانتی ہے خان کو لانے کے لئے فوج نے کیا کیا کیا دہرانے کی ضرورت نہیں ہے - ووٹ کو عزت دو کا بنیادی نقطہ کارکردگی نہیں یہ ہے کہ کسی کو حکومت میں لانے کے لئے صرف عوام کا ووٹ اہم ہونا چاہئے اداروں کی مدد نہیں -
What????

Who was General Jilani?
 

Awan S

Chief Minister (5k+ posts)
What????

Who was General Jilani?
بھائی میرے اگر اس وقت آج سے چالیس سال پہلے غلط ہوا تو کیا اب یہ غلطی دھرانی ضروری ہے ؟ کیا ہم ہمیشہ دائروں میں سفر کرتے رہیں گے ؟ نواز کا دائرہ ختم اور خان کا شروع ؟ کہیں نہ کہیں کبھی تو اس گندے کھیل کو رکنا چاہئے - بھٹو اور نواز کو فوج لے کر آئی مگر ان باتوں کو چالیس سال سے زیادہ گزر چکے اور دنیا کہاں کی کہاں پوھنچ چکی - اگر ہم نے ترقی کرنی ہے تو باقی ترقی یافتہ ملکوں کی طرح ایک مظبوط جمہوریت لانی ہو گی ورنہ ہم آگے بھی دائروں میں سفر کرتے رہیں گے -
 

Curious_Mind

Senator (1k+ posts)
The Bottomline of This article is following:

ان سوالوں کا جواب دراصل یہ خوف ہے کہ بے مثال نالائقی کے باوجود اگلے ڈھائی سالوں میں تحریک انصاف نے کچھ بھی اچھا کرلیا تو 'بچوں‘ کو حکومت کرنے کے لیے ایک ملک نہیں مل پائے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ عمران خان کی حکومت ابھی ختم کی جائے۔

Is he saying that nothing Good has happened in 2.5 years ?
How blind a person has to be in order to make this statement?
 

Aliimran1

Chief Minister (5k+ posts)
امریکہ روس اور ساری بڑی طاقتوں کو بھی بلواسطہ یا بلا واسطہ ملٹری اسٹبلشمنٹ ہی چلاتی
ہے --- بھارت کو نام نہاد جمہوری لوگ چلا رہے ہیں وہاں کا حشر ساری دنیا دیکھ رہی ہے
کشمیری اور بھارتی مسلمان اور اقلیتوں کا جو حال وہاں ہو رہا ایسا تو شائد ہٹلر نے بھی یہودیوں
کے ساتھ نہیں کیا تھا
اگر ملٹری کا ڈر نہ ہوتا تو نواز شریف الطاف حسین ولی خان پارٹی-- بی ایل اے -- پی ٹی ایم اور
پاکستانی طالبان ( را کے ایجنٹ ) پاکستان کا سودا کر چکے ہوتے
یہ جمہوریت جمہوریت کا سیاپا کرنا چھوڑو اور ملک کا کچھ سوچو --- اور عمران کو کام کرنے دو
 

back to the future

Chief Minister (5k+ posts)
بھائی میرے اگر اس وقت آج سے چالیس سال پہلے غلط ہوا تو کیا اب یہ غلطی دھرانی ضروری ہے ؟ کیا ہم ہمیشہ دائروں میں سفر کرتے رہیں گے ؟ نواز کا دائرہ ختم اور خان کا شروع ؟ کہیں نہ کہیں کبھی تو اس گندے کھیل کو رکنا چاہئے - بھٹو اور نواز کو فوج لے کر آئی مگر ان باتوں کو چالیس سال سے زیادہ گزر چکے اور دنیا کہاں کی کہاں پوھنچ چکی - اگر ہم نے ترقی کرنی ہے تو باقی ترقی یافتہ ملکوں کی طرح ایک مظبوط جمہوریت لانی ہو گی ورنہ ہم آگے بھی دائروں میں سفر کرتے رہیں گے -
And what about kayani?
 

thinking

Prime Minister (20k+ posts)
بھائی میرے اگر اس وقت آج سے چالیس سال پہلے غلط ہوا تو کیا اب یہ غلطی دھرانی ضروری ہے ؟ کیا ہم ہمیشہ دائروں میں سفر کرتے رہیں گے ؟ نواز کا دائرہ ختم اور خان کا شروع ؟ کہیں نہ کہیں کبھی تو اس گندے کھیل کو رکنا چاہئے - بھٹو اور نواز کو فوج لے کر آئی مگر ان باتوں کو چالیس سال سے زیادہ گزر چکے اور دنیا کہاں کی کہاں پوھنچ چکی - اگر ہم نے ترقی کرنی ہے تو باقی ترقی یافتہ ملکوں کی طرح ایک مظبوط جمہوریت لانی ہو گی ورنہ ہم آگے بھی دائروں میں سفر کرتے رہیں گے -

Siasat mein g.and khtam karnay k lia Imran Ka do dafa PM rehna zarori ha.is ke baad siasat m Mafias Ka roll hamaisha k lia the end ho jaya ga..
 

Geek

Chief Minister (5k+ posts)
خیال ہے ایک اہم نقطہ صاحب مضمون نظر انداز کر گئے - نہ پیپلز پارٹی اور نہ نون لیگ پر یہ الزام تھا کہ انہیں فوج لے کر آئی ہے - نون لیگ کی سب سے بڑی مخالف تحریک انصاف بھی دھاندلی کا الزام تو لگاتی رہی مگر نون لیگ کو فوج لے کر آئی یہ الزام کبھی نہ لگایا - اسی طرح پیپلز پارٹی کی حکومت میں نون لیگ اور تحریک انصاف میں سے کسی نے ان پر فوجی پٹھو کا الزام نہیں لگایا مگر یہاں مہاملہ اور ہے - ساری دنیا جانتی ہے خان کو لانے کے لئے فوج نے کیا کیا کیا دہرانے کی ضرورت نہیں ہے - ووٹ کو عزت دو کا بنیادی نقطہ کارکردگی نہیں یہ ہے کہ کسی کو حکومت میں لانے کے لئے صرف عوام کا ووٹ اہم ہونا چاہئے اداروں کی مدد نہیں -

الزام نہیں لگا یا لگایا یا جان کر لگایا نہیں گیا ورنہ شہباز شریف اور چوہدری نثار کی ارمی ہاؤس میں رات کے اندھیرے میں ملاقاتوں کے بار میں کون نہیں جانتا۔ زرداری ن لیگ کی حکومت کو آر اوز کا الیکشن کہتا رہا یعنی وہ فوج پر مدعا ڈالنے کی بجائے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری پر الزام لگاتا رہا۔ اسی طرح پی پی کو حکومت میں لانے کے لیے تو باقاعدہ مشرف، امریکا اور بے نظیر میں ڈیل ہوئی تھی جس کو عرف عام ۔میں این آر او کہا جاتا ہے ۔
 

Geek

Chief Minister (5k+ posts)
بھائی میرے اگر اس وقت آج سے چالیس سال پہلے غلط ہوا تو کیا اب یہ غلطی دھرانی ضروری ہے ؟ کیا ہم ہمیشہ دائروں میں سفر کرتے رہیں گے ؟ نواز کا دائرہ ختم اور خان کا شروع ؟ کہیں نہ کہیں کبھی تو اس گندے کھیل کو رکنا چاہئے - بھٹو اور نواز کو فوج لے کر آئی مگر ان باتوں کو چالیس سال سے زیادہ گزر چکے اور دنیا کہاں کی کہاں پوھنچ چکی - اگر ہم نے ترقی کرنی ہے تو باقی ترقی یافتہ ملکوں کی طرح ایک مظبوط جمہوریت لانی ہو گی ورنہ ہم آگے بھی دائروں میں سفر کرتے رہیں گے -

چالیس سال نہیں آج سے سات سال پہلے بھی فوج کی مکمل اشیرباد سے ہی نواز وزیر اعظم بنا، نہ صرف وزیر اعظم بنا بلکہ تابعداری سے نوکری بھی کرتا رہا۔، اس کے علاوہ اج سے چند ماہ قبل بھی مکمل تابعداری سے اپنی رہائی کے لیے ایک فوجی سربراہ کو ایکسٹینش دینے کے عمل میں شامل بھی ہوا۔ یہ تابعداری مزید بھی چل سکتی تھی اگر اس کی بیٹی کو پاکستان سے باہر بھیج دیا جاتا۔

جہاں تک فوج کے سیاست میں مداخلت کا سوال ہے، پاکستانمیں جب تک زرداری اور نواز جیسے چور اور لٹیرے بیٹھے ہیں تب تک سیاست دانوں پر کسی ایسے ادارے کا چاہے وہ فوج ہو یا عدلیہ ایک چیک انتہاتی ضروری ہے ورنہ یہ لوگ اب تک پاکستان کو دشمنوں کے اگے بیچ کھاتے۔
 

Islamabadiya

Chief Minister (5k+ posts)
Hypocrisies of our politics nicely put together in this article. Our die hard youth brothers fail to acknowledge this point mentioned that PTI’s pathetic team is only helping the tainted opposition.
 

CANSUK

Chief Minister (5k+ posts)
چلو مان لو جنرل جيلانی کی بات پُرانی ہو گئی ، تو پھر آئی ايس آئی سے پيسے ليکر پيپلز ہارتی کو ہرايا پھر مُشرف نے ڈنڈا ديا تو ميثاق جمہوريت ہو گيا حرام خور نواز کا، بہت بڑا حرامی ہے يہ نواز ۔يہ نواز پيسے کے لئے قطريوں کو بھی ڈبل
ڈبل داماد بنا ليتا ہے۔​
 
Last edited: