پچھلے دنوں مجھے لاہور جانے کا اتفاق ہوا۔وہاں ہمارے میزبانوں کی ایک بچی کو وزیر اعلیٰ کی جانب سے ایک لیپ ٹاپ ملا تھا،جس پر لکھا تھاشہباز شریف پراجکٹ۔ وہاں ہم نے اس بات پر کافی دیر تک بات چیت کی کہ یہ پراجکٹ شہباز شریف کا ہے یا حکومت پنجاب کا ہے۔اس کے بعد بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے حوالے سے بات ہوئی کہ یہاں جو پیسے تقسیم ہو رہے ہیں وہ پاکستان کے ہیں یا بے نظیر کی ذاتی جاگیر سے دئے جا رہے ہیں
بے نظیر کی شہادت کے بعد جس طریقے سے اس کے نام پر مختلف نام رکھے جا رہے ہیں،وہ قابل غور ہیں۔بے نظیر انٹر نیشنل ائیر پورٹ، بے نظیر روڈ،بے نظیر ہسپتال، وغیرہ،لگتا ہے کچھ عرصے بعد سارا پاکستان بے نظیر آباد ہو جائے گا اور اگر کسی کو کوئی پتا وغیرہ سمجھانا ہو تو اس طرح بتانا پڑے گا
” آپ بے نظیر روڈ پر جائیں کچھ فاصلے پر آپ کو بے نظیر ماکیٹ نظر آئی گی،وہاں سے بے نظیر چوک پر داہنے مڑ جائیں سامنے بے نظیر ہسپتال نظر آئے گا۔۔۔۔۔۔۔“
ایک زمانے میں بادشاہ خان کا بیٹا ، ولی خان کا بھائی اور اسفندیار کا چچا عبد العلی خان پشاور یونیورسٹی کا وائس چانسلر تھا اور پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن یونین کے الیکشن جیت چکے تھے۔ ایک بار فیڈریشن کے نمائندے علی خان (وائس چانسر) کے پاس آئے اور پشاور یونیورسٹی کا نام بادشاہ خان یو نیورسٹی رکھنے کا مطالبہ کیا۔علی خان نے جواب میں کہا، وہ آپ کا لیڈر ہے لیکن میرا باپ ہے اور قدرتی طور پر مجھے آپ سے زیادہ ان سے محبت اور عقیدت ہے۔میرا بھی دل چاہتا ہے کہ اپنے باپ کے لیے کچھ کروں ،لیکن کیا کبھی بادشاہ خان نے اس یو نیورسٹی کا دورہ کیا ہے، کبھی اس کے لیے ایک روپیا چندہ دیا ہے،کیا اس کی تعمیر میں کوئی حصہ لیا ہے۔اگر نہیں تو کس وجہ سے اس کا نام بادشاہ خان یو نیورسٹی رکھا جائے۔اور یوں طلبہ ناکام و نامراد واپس چلے گئے۔
لیکن اب یہان بھی ایسی ہی ایک بندر نانٹ چل رہی ہے۔بادشاہ خان یونیورسٹی، ولی خان یو نیورسٹی، بادشاہ خان چوک ،ولی خان چوک، بادشاہ خان ایئر پورٹ، اور اب خیر سے اسفندیار ولی کی والدہ محترمہ کے نام سے تاجو بی بی گرلز کالج بھی بن چکا ہے ۔ لیکن یہ سب پراجکٹس حکومت اور عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے ہو رہا ہے۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ قانون میں ایسی شق رکھی جائے کہ کوئی بھی سیاست دان اور حکمران ایسی حرکت نہ کر سکے؟
بے نظیر کی شہادت کے بعد جس طریقے سے اس کے نام پر مختلف نام رکھے جا رہے ہیں،وہ قابل غور ہیں۔بے نظیر انٹر نیشنل ائیر پورٹ، بے نظیر روڈ،بے نظیر ہسپتال، وغیرہ،لگتا ہے کچھ عرصے بعد سارا پاکستان بے نظیر آباد ہو جائے گا اور اگر کسی کو کوئی پتا وغیرہ سمجھانا ہو تو اس طرح بتانا پڑے گا
” آپ بے نظیر روڈ پر جائیں کچھ فاصلے پر آپ کو بے نظیر ماکیٹ نظر آئی گی،وہاں سے بے نظیر چوک پر داہنے مڑ جائیں سامنے بے نظیر ہسپتال نظر آئے گا۔۔۔۔۔۔۔“
ایک زمانے میں بادشاہ خان کا بیٹا ، ولی خان کا بھائی اور اسفندیار کا چچا عبد العلی خان پشاور یونیورسٹی کا وائس چانسلر تھا اور پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن یونین کے الیکشن جیت چکے تھے۔ ایک بار فیڈریشن کے نمائندے علی خان (وائس چانسر) کے پاس آئے اور پشاور یونیورسٹی کا نام بادشاہ خان یو نیورسٹی رکھنے کا مطالبہ کیا۔علی خان نے جواب میں کہا، وہ آپ کا لیڈر ہے لیکن میرا باپ ہے اور قدرتی طور پر مجھے آپ سے زیادہ ان سے محبت اور عقیدت ہے۔میرا بھی دل چاہتا ہے کہ اپنے باپ کے لیے کچھ کروں ،لیکن کیا کبھی بادشاہ خان نے اس یو نیورسٹی کا دورہ کیا ہے، کبھی اس کے لیے ایک روپیا چندہ دیا ہے،کیا اس کی تعمیر میں کوئی حصہ لیا ہے۔اگر نہیں تو کس وجہ سے اس کا نام بادشاہ خان یو نیورسٹی رکھا جائے۔اور یوں طلبہ ناکام و نامراد واپس چلے گئے۔
لیکن اب یہان بھی ایسی ہی ایک بندر نانٹ چل رہی ہے۔بادشاہ خان یونیورسٹی، ولی خان یو نیورسٹی، بادشاہ خان چوک ،ولی خان چوک، بادشاہ خان ایئر پورٹ، اور اب خیر سے اسفندیار ولی کی والدہ محترمہ کے نام سے تاجو بی بی گرلز کالج بھی بن چکا ہے ۔ لیکن یہ سب پراجکٹس حکومت اور عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے ہو رہا ہے۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ قانون میں ایسی شق رکھی جائے کہ کوئی بھی سیاست دان اور حکمران ایسی حرکت نہ کر سکے؟